گستاخی معاف

ٓٓآج کل جو شخصیت خبروں میں ان رہتی ہے اسے علامہ ڈاکتر طاہر القادری کہتے ہیں۔ جبکہ ہمارے کچھ گستاخ دوست انہیں ملا کینیڈی اور سازشوں کے ماہرالپادری بھی کہتے ہیں۔ توبہ توبہ بڑے گستاخ ہیں ہم تو ایسے گستاخانہ الفاظ ایسی عجیب معاف کیجیے گا عظیم شخصیت کے لیے لکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔یہ زمانہ قدیم میں پاکستان میں پائے جاتے تھے پھر اچانک یہاں سے غائب ہو گئے اور کینیڈا میں دیکھے گئے اب آج کل لاہور اور اسلام آ باد میں پائے جاتے ہیں۔ قادری صاحب کا ایک خاص انداز ہے کہ وہ لوگوں کو چونکا نے کے بہت ماہر ہیں جیسے تیس برس کی عمر میں خواب دیکھ کر منہاج القران نامی ادارہ بنا لیا میاں شریف صاحب دیکھتے ہی رہ گئے کہ ‘ آئیں یہ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔ شیطان ۔

لوگ مختلف سواریاں پسند کرتے ہیں جیسے کار گھوڑا اونٹ وغیرہ موصوف نے اس معاملہ میں بھی ندرت دکھائی اس زمانے میں ان کی پسندیدہ سواری وزیر اعلٰی ہوا کرتی تھی سنا ہے یہ نواز شریف پر سوار ہو کر غار حرا تک گئے تھے۔ ایسا کیسے ہوا اللہ کو پتہ کیونکہ اس پہاڑ پر اکیلے آدمی کا چڑھنا بھی مشکل ہے چہ جائیکہ جھوٹ کا پلندہ اوہ سوری علامہ صاحب کا بوجھ اٹھا کرچڑھنا۔ اس زمانہ میں شریف بہت شریف تھے اچھے تھے آخر موصوف ان کے ساتھ تھے اتحاد مسجدمیں واعظ تھے سیمنٹ کے ڈیلر تھے جس کی ایجنسی میاں شریف اور نواز شریف کی مرہون منت تھی اب اگر شریفوں نے مذکورہ ایجنسی کو چلانے کے لئیے چند لاکھ رپے دے دیے تو کون سا بڑا کام کیا آخر کو ایجنسی چلانی بھی تو تھی۔ شریفوں نے اگر رہنے کے لیے پلاٹ دیا یا ادارہ بنانے کے لیے ان کو پلاٹ دے کر خودکشی کی تو کیا فرق پڑتا ہے اگر موصوف اور مسز موصوف کا علاج کروایا تو یہ تو ان کا فرض تھاکوئی احسان نہیں کیا واقعی شریف بڑے بدمعاش ہیں کسی پر احسان ہی نہیں کرتے۔

ادارہ بنا کر اور خواب دیکھ دیکھ کر قادری صاحب بہت بلند درجہ پر فائز ہو گئے اب لوگ ان کے ہاتھ پیروں کو بوسہ دیتے ہیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے آگے سجدہ ریز بھی ہو جاتے ہیں دنیا بھرمیں سکول و کالج میں نقل کرنے اور کروانے والے کے ساتھ کیا ہوتا ہے امید ہے سب قارئین اس سے واقف ہونگے مگر اپنے علامہ صاحب تو کئی قدم آگے بڑھ کر قبر میں دفن ہونے والے مرد ے کو بڑے دھڑلے سے نقل کرواتے ہیں پہلے لوگوں کو دور جانے کاکہتے ہیں تاکہ فرشتے دھوکا کھا جائیں اورسمجھیں سب چلے گئے مگر اس وقت بھی علامہ صاحب ایک بندے کے ساتھ وہاں موجود ہو تے ہیں اور مردے کو نقل کرواتے ہیں کہ بیٹا یہ کہو بیٹا یہ پڑھو واقعی ہم تو یہ مناظر دیکھ کر ششدر و مبہوت رہ گئے اور بے اختیار کہہ اٹھے علامہ جی تسی گرگٹ اوہ پھر قلم بہک گیاگریٹ ہو ایک نمبر دے ۔

دسمبر کے مہینے میں اعلان کیا میں تئیس دسمبر کو آ رہا ہوں لوگوں نے استقبال کی تیاریاں کیں تو پتہ چلا موصوف دو دن قبل ہی ٹپک پڑے۔تئیس دسمبر کو جلسے کی کامیابی دیکھ کر آنجناب آپے سے باہر ہو گئے اور خواب میں اپنے آپ کو تاج دار پاکستان دیکھنے لگے ویسے بھی موصوف کی زندگی میں خوابوں کی بڑی اہمیت ہے اسی لئے بعض گستاخ انہیں خوابوں کا شہزادہ بھی کہتے ہیں۔یہ ہر کام خواب میں کرتے ہیں یہاں تک کہ امام ابو حنیفہ اور جلال الدین سیوطی سے (جن کو گزرے صدیاں بیت گئیں) بلا واسطہ علم حاصل کیا بطریق منام (خواب) اور سیوطی نے توانہیںبیٹا بنایا ہوا تھا ہاں خواب کا معاملہ ہے تو حساب نہیں رکھ پائے کہیں فرماتے ہیں پندرہ سے بیس سال کہیں فرماتے ہیں نوسال امام ابو حنیفہ کی شاگردی کی۔ جلسہ کے بعد جناب نے لانگ مارچ کیا اور بقولان کے چالیس لاکھ سے پچاس لاکھ لوگ اکٹھے ہو گئے (دروغ بر گردن لعنتی راوی ۔ وہ خود کہتے رہے ہیں کہ جھوٹ بولنے والے پر خدا کی لعنت) اور پانچ دن تک سردی و بارش میں کھلے آسمان تلے پڑے رہے کیونکہ ابتدائی جوش میں قران پر قسمیں کھا بیٹھے تھے کہ کوئی واپس نہیں جائے گا۔ موصوف نے یہ پانچ دن اپنے بلٹ و بم پروف گرم کنتینر میں گزارے اور وقتا فوقتا اپنے دیدار سے حاضرین کو محظوظ کیا ہمارا مطلب ہے شرف بخشتے رہے اور چار چار پانچ پانچ گھنٹوں تک تقریریں کر کے ان کا دل بہلاتے رہے۔ یہاں ان کا ایک نیا وصف کھل کرسامنے آیا کہ یہ الٹی میٹم دینے کے بھی ماہر ہیں جیسے پانچ منٹ میں اسٹیج وہاں لگادو دس منٹ میں مائک آن کردو وغیرہ وغیرہ۔ آخرمیں ان کے الٹی میٹم کی تاب نہ لاتے ہوئے حکومتی وفد حاضر خدمت ہو گیا تمام سابق ممبران اسمبلی اور وزیر ان کی قدم بوسی کرتے ہی بحال ہو گئے اور غریب عوام مبارکباد وصول کر کے واپس ہوئے تو ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے یہ کیا ہوا وہ انقلاب جیسے لانے ہم نکلے تھے کہاں رہ گیا کیا ہمارے مسئلے حل ہو گئے؟۔ یہ کہنا پڑے گا کہ انہوں نے اپنی ایک بات پوری کی کہ اب جو بات ہو گی عوام کے سامنے ہو گی اور کنٹینر میں چلنے والی گھنٹوں پر محیط کارروائی سب نے لائیو دیکھی بھئی انہوں نے جو کہا وہ کر کے دکھایا اب انہوں نے یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ عوام سارا مک مکا ہمارا مطلب ہے ساری بات سنیں گے بھی۔

اس سارے ایکٹ میں اور کچھ ہوا یا نہیں مگر بہت سے غریب لوگ اپنے جمع جتھے محروم ہو کر پرسکون ہو گئے خوا ہ مخواہ زیورات پر زکوة دینی پڑتی تھی ان کی حفاظت کا ٹینشن رہتا تھا پیسے سنبھالنے پڑتے تھے تو اب وہ ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کر چکے ہیں ویسے شنید ہے کہ کچھ جوشیلوں نے اپنا گھر بھی بیچ کر پیسے قادری صاحب کو دیدئے اب ان کو قادری صاحب بحریہ ٹاؤن میں عالیشان بنگلے دلوائیں گے۔بس ایک بار ان کے سر پر تاج حکومت سج جائے ویسے ایک خواب کے مطابق اب ان کی زندگی صرف ایک سال کی رہ گئی اس لئے ان کی خواہش پوری کر کے ان کو وزارت عظمی دی جا سکتی ہے مگر ڈر یہ ہے کہ کہیں پھر نیا خواب نہ دیکھ لیں کہ اب تمہاری عمر بڑھا دی گئی ہے اور تمہیں پاکستان کا تا حیات وزیر اعظم مقرر کیا جاتا ہے تو تو کیا ہو گا؟

ان سب حرکات کے بعد جناب نے سپریم کورٹ کا رخ کیا اپنی پچھلی کامیابیوں پر غبارے کی طرح پھولے ہوئے قادری صاحب نے سوچا تھا کہ سپریم کورٹ بھی میری شعلہ بیانی سے متاثر ہو جائے گی مگر وہاں ان کو جس جرح کا سامنا کرناپڑا وہ اس کے لئے تیار ہو کر نہیں گئے تھے شاید انہوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ وہاں ایسی بھد اڑے گی۔ جب فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف آیا تو وہی سپریم کورٹ جو کل تک زندہ باد تھی یکدم ہی قادری توپوں کی زد میں آ گئی ۔ کل تک موصوف کا کہنا تھا کورٹ میں انصاف ہوتا ہے نیز جو فیصلہ ہو گا ہم اسے قبول کر کے نئی مثال قائم کریں گے یعنی ان کے نزدیک انصاف تبھی ہو سکتا ہے جب کورٹ ان کی مرضی کا فیصلہ دے ورنہ؟؟؟؟؟؟؟

اب وہاں سے ناکام و نامراد ہو کر انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے جذبات سے کھیلنے کی مضموم کوشش شروع کر دی ہے اس سلسلے میں بہت کام کیا جا رہا ہے تواتر سے بیانات داغے جا رہے ہیں سوشل میڈیا فیس بک وغیرہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

مگر بیرون ملک مقیم پاکستانی چاہے دہری شہریت کے حامل ہوں یا نہ ہوں ان میں اور قادری صاحب میں بڑا فرق ہے وہ لوگ کماکر زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں قادری صاحب کب ایسا کرتے ہیں وہ تو پاکستان سے پیسا باہرلے جانے والوں میں سے ہیں۔ دوسرے بیرون ملک مقیم پاکستانی ان کی طرح کسی سازش کا مہرہ بن کر پاکستان نہیں آتے۔ چیف جسٹس صاحب نے جو کہا وہ ان جیسے سازشی عناصر کے لیے کہا اسے سب پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ محترم چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان نے اصل سازش کو بھانپ کر اس کا سد باب کیا جس کے لئے قوم کو ان کا شکرگزار ہونا چاہئے نہ کہ قادری صاحب کی چالبازیوں کا شکار ہو کر معزز عدلیہ کو لعن طعن کریں۔

ہمارے کچھ دوست قادری صاحب کو زرداری شطرنج کا مہرہ بھی سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ موصوف الیکشن ڈیلے کروانے کا منصوبہ لائے ہیں اور ان کے ایجنڈہ میں سرفہرست یہ ہے کہ ن لیگ نہ جیتے۔ اسی لیئے اب یہ حکومت کے خلاف اتنانہیں بولتے جتنا تخت لاہور پر بمباری کرتے ہیں ۔ مگر نہیں ہم اپنے دوستوں کی بات پر یقین نہیں کرتے کیونکہ ہم تو قادری صاحب کی بڑی عزت کرتے ہیں۔

قدم بڑھاؤ پا اوہ قادری قوم تمہارے پیچھے ہے ۔ اور جیوے جیوے طاہر جیوے چاہے ایک سال ہی سہی۔
گستاخی معاف
Tughral Farghan
About the Author: Tughral Farghan Read More Articles by Tughral Farghan: 13 Articles with 11740 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.