اسلامی ادباء و شعراء پر سیمینار کا مطالبہ

ایک روزنامہ کے سنڈے ایڈیشن کے گفتگو میں پاکستان کے شاہنواز فاروقی کا ایک مضمون ’’اردو کی خوبیاں اسلام اور اسلامی تہذیب کی ترجمان کے عنوان سے نظر نواز ہوا ۔جس کو پڑھ کر محسوس ہوا کہ واقعی آج ہم نے اسلامی ادباء اور شعراء کی خدمات کو نظر انداز کر دیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اکبرآبادی ،علامہ اقبال اور سید موابو الاعلی ٰ مودودی اردو کی کائنات کے ستارے ہیں مگر انہوں نے مغرب کو جس طرح سمجھا انگریزی دان طبقے سے اس کی معمولی مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی ۔‘‘

’’جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی تہذیب کو سمجھتا ہے وہی دوسروں کی تہذیب کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے ۔گزشتہ دیڑھ سو سال میں سب سے بہتر انسانی مواد اسی طبقہ سے فراہم ہوا ہے ۔اقبال اور مولانا مودودی اس طبقے کی نمونہ شخصیت ہیں ۔بدقسمتی سے لوگ اردو کو صرف ایک زبان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں ۔وہ یہ نہیں دیکھتے کی اردو ہمارے مذہب کی زبان بن گئی ہے ۔اردو ہماری تہذیبی زبان ہے ،اردو ہماری تاریخی شخصیت کے اظہار کی زبان ہے ۔اردو کے مزاج میں اسلام کی آفاقیت جذب ہو گئی ہے ،اردو زبان انگریزی کی طر ح بین الاقوامیت ہے ۔‘‘

اردو زبان کی خوبی قسمت کہ اسے سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسا قلم کار ملا ،جس کے گرد ہم خیالوں کی سلطنت اور محبت جتنی جتنی وسیع ہوتی گئی ،اردو کے جھنڈے بھی اسی قدر دور دور تک گڑتے چلے گئے ۔مولانا مودودی نے بنیادی طور پر دہلی کی زبان کے فریم میں توحید سے لے کر نظریہ ارتقاء تک ،احیائے دین کی تاریخ سے لیکر ہیکل ،مارکس کے فلسفے تک ،خلافت راشدہ کے تذکرے سے لے کر D.N.Aبنیادی حیاتی عناصر کی بحثوں تک اور الجہاد فی الاسلام سے لے کر ضبط والادت تک طرح طرح کے موضوعات پر جدید ترین ا سالیب میں جو علمی و تحقیقی نگارشات قوم کو دی ہیں وہ ہماری کتاب علم و فکر کے مستقل ابواب بن گئی ہیں ،یہ نگارشات اپنے اندر اصطلاحات ،تشبیہات کا نیا سرمایہ لئے ہوئے ہیں ۔

اردو کا خزانہ جمع کرنے میں تو اسلامی ذہنوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہے ۔گزشتہ ساری تاریخ کو اگر ہم دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ دینی تحریکی مذہبی اکابر اور روحانی شخصیتوں نے اس کے فروغ میں اتنا حصہ لیا ہے کہ جس سے اردو کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا ۔لیکن افسوس کہ ترقی پسند اور مابعد جدیدیت نے اردو کے فروغ کا سہرہ اپنے اوپر لیا اور حد تو یہ ہو گئی کہ اردو کے مایا ناز علماء اور ادباء اسلامی فکر کے حامل شخصیتوں کو یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔ان کے کارناموں کا نہ کہیں ذکر ہوتا ہے اور نہ ان کے اوپر کوئی سیمینار یا سمپوزیم منعقد کیا جاتا ہے ۔یہاں تک کہ ادبی محفلوں میں ان کا ذکر تک نہیں کیا جاتا ہے ،ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے پر یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی فکر کے حامل شعراء اور ادباء کے ساتھ تعصب کا رویہ اختیار کیا جاتا رہا ہے ۔مثلاً الجمیعۃ کے ایڈیٹر اور تحریک اسلامی کے بانی سید ابوالاعلی ٰ مودودی ،مائل خیرآبادی جنہوں نے بچوں کی اصلاح کیلئے خالص دینی مزاج کے حامل چھوٹے چھوٹے سینکڑوں کہانیوں کی کتابیں تصنیف کیں ہیں ،مولانا عامر عثمانی جیسا شاعر جو 1975میں پونہ کے ایک مشاعرہ میں معاشرے کا درد ایک طویل نظم کو سناتے ہوئے اسی محفل مشاعرہ میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے ،ماہر القادری جیسا انقلابی اور اسلامی شاعر جنہوں نے قرآن کی فریاد لکھ کر کلام اﷲ کی اہمیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا ،عزیز بگھروی جیسا شاعر جس نے ہم دین کے سپاہی نظم لکھ کر مسلم نوجوانوں کو بیدار کیا ۔حفیظ میرٹھی جیسا اسلامی شاعر جس نے اپنا اخلاص یوں بیان کیا کہ میں آسماں پہ سہی پھر بھی راہ گزر میں ہوں لکھ کراخلاص و محبت کو عام کرنے کی کوشش کی ۔ان جیسے بہت سے اسلامی شعراء اور ادباء ہیں جنہوں نے اردو کو مالا مال کیا ہے لیکن افسوس کہ آج ان کے اوپر کوئی سمینار یا سمپوزیم نہیں ہوتا ہے جس سے کہ نئی نسل فیضیاب ہو سکے ۔ہندوستان کے تمام اردو اکادمیاں خصوصاً دہلی اردو اکادمی اور قومی کونسل نے بھی اب تک ان اسلامی شعراء اور ادباء کے ساتھ تعصب کا رویہ اختیار کئے ہوئے تھے ۔لیکن اﷲ کی مشیت یہ ہوئی کہ موجودہ دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین کا تقرر ایک ایسے استاد محترم کے طور پر ہوا ہے جو نا صرف بحیثیت ایک پروفیسر ہیں بلکہ اسلامی افکار و خیالات و نظریات کے حامل بھی ہیں انکی شخیصت سے کون واقف نہیں ہے ۔پروفیسر اخترالواسع نا صرف اسلامک اسکالر ہیں بلکہ انہوں نے باطل طاقتوں کو اسلامی نقطہ نظر سے دلائل و براہین پیش کر کے اسلام کی حقانیت کو ہر لمحہ پیش پیش کرتے رہے ہیں ۔انہوں نے اسلامی روایات اور افکار و خیالات سے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا ہے جہاں بھی گئے انہوں نے ہر مسائل اور چیز کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا اور بیان کیا ہے ۔الغرض ہندوستان کا ایک بہت بڑا طبقہ اس بات کا منتظر ہے کہ اسلامی ذہن و افکار و خیالات رکھنے والے ادباء شعراء صحافی کا تعارف سمپوزیم سیمینار اکیسویں صدی میں کیا جائے ۔مسلمانوں میں ایک امید کی کرن دیکھائی دے رہی ہے انشاء اﷲ تعالی ٰ ایکسویں صدی اسلام کی صدی ہوگی ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 102190 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.