خواب دیکھئے مگر ایسے بھی نہیں

ایک شخص نے خواب دیکھا کہ کوئی اُسے قتل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ صبح اُٹھا اور جا کر اپنا بینک اکاﺅنٹ ختم کر دیا، کیونکہ بینک کا نعرہ تھا کہ ہم آپ کے خوابوں کو حقیقت میں بدل دینگے۔ کہتے ہیں کہ خواب دیکھنے پر پابندی نہیں ہے، کوئی جتنی مرضی چاہے خواب دیکھ سکتا ہے۔ بیدار آنکھوں کے خواب زیادہ معنی خیز ہوتے ہیں، جبکہ نیند میں تو صرف خواب ہی دیکھے جا سکتے ہیں البتہ ان میں سے بعض خواب حقیقت کا روپ ضرور دھار لیتے ہیں۔ پاکستانی قوم کو ”خوابوں کی دنیا“ سے نکالنے کیلئے کینیڈا سے تشریف فرما علامہ طاہر القادری واپس اپنے وطن چلے گئے ہیں۔ موجودہ کرپٹ سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے پروفیسر صاحب کی بیدار آنکھوں نے جو خواب دیکھا تھا وہ تو پورا نہ ہو سکا البتہ ماضی میں بیان کردہ اُن کے کچھ خواب ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے اُن پر مختلف مذہبی اور غیر مذہبی حلقوں کی طرف سے نقد ہوتی رہتی ہے۔ یہ خواب آڈیوز اور ویڈیوز میں موجود ہیں اور ان میں سے بعض خواب انٹرنیٹ پر ”یوٹیوب“ نامی ویب سائیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔

ایک خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پروفیسر صاحب کی عمر 63سال مقرر کی جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھا کر 66سال کر دی لیکن پروفیسر صاحب نے قبول نہ کی، کیونکہ اس طرح عمر کے سلسلہ میں سنت نبوی کی خلاف ورزی کا ارتکاب تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پروفیسر صاحب کی بات مان کر اُن کی عمر دوبارہ 63سال کر دی ہے۔ اسی طرح ان کے خوابوں میں نبی کریم کا آنا اور ان سے بس کا کرایہ طلب کرنا بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ پروفیسر صاحب کے بارے میں اس وقت دو انتہائیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ایک تو ان کے مداحین ہیں جو انہیں شیخ الاسلام، مجتہد مطلق اور قبلہ حضور سے کم درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں اور دوسرے ان کے شدید ناقدین ہیں جو انہیں کئی ناپسندیدہ القابات سے نواز چکے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے جب سے موجودہ نظام کیخلا ف آواز اٹھائی ہے تب سے وہ مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی زد میں بھی ہیں، یہاں تک کہ اُن کے متنازعہ خواب بھی دوبارہ موضوع بحث بن چکے ہیں۔

ناقدین کے مطابق طاہر القادری صاحب کا یہ جرم نہایت سنگین ہے کہ انہوں نے محض سستی شہرت، دولت اور سیاسی اقتدار کی خاطر ایسے خوابوں کا سہارالیا کہ جن میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صریحاً توہین پائی جاتی ہے۔ خود پروفیسر صاحب اور اُن کے مداحین ان متنازعہ خوابوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں، جبکہ ناقدین سمجھتے ہیں کہ قادری صاحب نے جھوٹے خواب بیان کرکے شہرت پائی اور ان خوابوں سے متعلق پوچھے گئے سوالوں کا جواب بھی وہ انتہائی چالاکی سے گھما پھرا کر دیتے ہیں اور اصل بات گول کر جاتے ہیں۔ ناقدین کی یہ رائے بھی کافی وزن رکھتی ہے کہ جب قادری صاحب کو ترسٹھ سال کی عمر تک زندگی کی گارنٹی مل گئی ہے تو پھر وہ درجنوں گارڈز ساتھ کیوں رکھتے ہیں، یہاں تک کہ لانگ مارچ کے دوران بھی وہ بلٹ پروف کنٹینر میں بیٹھ کر فرماتے ہیں کہ میں یہاں اپنی لاش لینے آیا ہوں لہٰذا گولی مجھے مارنا میرے بچوں کو نہ مارنا۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتماد باقی نہ رہا ورنہ وہ ہر وقت اپنے ساتھ حفاظتی عملہ کیوں رکھتے۔

خواب تو خواب ہوتے ہیں اور ان کے دیکھنے میں ارادہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اگر میرے ارادہ اور بس میں ہوتا تو میں بھی ایسے ہی خواب روزانہ دیکھتا پھر صرف طاہر القادری صاحب کے خواب ہی کیوں ہدف تنقید ہیں؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک عوامی شخصیت ہیں اور عوامی شخصیات کی ذات پر اعتراضات اسی طرح ہوتے ہیں جیسے ان پر ہو رہے ہیں۔ یقین نہ آئے تو نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، الطاف حسین، اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن سمیت تقریباً تمام عوامی شخصیات پر اخبارات و جرائد اور ٹیلی ویژن چینلوں پر ہونے والے اعتراضات اور تنقید کو دیکھ لیں۔ جب دیگر سیاست دان بلٹ پروف سکیورٹی رکھ سکتے ہیں اور سندھ کے صوبائی وزیر داخلہ منظور وسان خواب دیکھ سکتے ہیں تو پھر قادری صاحب کا خواب دیکھنا اور اپنی حفاظت کیلئے سکیورٹی رکھنا بھی اُن کا حق ہے۔ ویسے بلٹ پروف اور دیگر سکیورٹی صرف جان بچانے کیلئے نہیں بلکہ جسم کی حفاظت کیلئے بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو کتنی چوٹیں آتی ہیں، اگر کوئی گولی مار دے اور بندہ نہ مرے لیکن اُسے چوٹ تو آئے گی نا۔ پروفیسر صاحب نے چوٹ سے بچنے کا تو کوئی خواب بھی نہیں دیکھا کہ ترسٹھ سال تک چوٹ بھی آئے گی یا نہیں بلکہ خواب صرف یہ دیکھا ہے کہ ترسٹھ سال تک انہوں نے زندہ رہنا ہے۔ اس حالت کی سکیورٹی کیلئے یہ بلٹ پروف سکیورٹی سسٹم باعث اعتراض نظر نہیں آتا۔

علامہ طاہر القادری نے مذہبی تبلیغ کا آغاز میاں محمد شریف (مرحوم) کی اتفاق مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے سے کیا۔ بعد میں چندہ اکٹھا کرنے کے فن میں مہارت دکھاتے ہوئے اپنے مدرسوں کی بنیاد ڈالی۔ سیاست میں قدم رکھا مگر 2007ءمیں ترک وطنی کرکے کینیڈا کی شہریت حاصل کرلی۔ 23دسمبر 2012ءکو ”سیاست نہیں ریاست بچاﺅ“ کا نعرہ لے کر قوم کو اصل جمہوریت کی ٹوپی پہنانے آئے مگر اس کے برخلاف یہاں اُن کی اپنی ٹوپی اُتر گئی۔ 19فروری 2013ءکو علامہ طاہر القادری باسٹھ برس کے ہو چکے ہیں۔ اگر پروفیسر صاحب کے خواب سچے تھے جو انہوں نے مریدین کو سنائے تو یقینا یہ سال اُن کی زندگی کا آخری سال ہوگا۔ ایسے میں پروفیسر صاحب کے پاس موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کیلئے وقت انتہائی کم ہے۔ اس لیے قادری صاحب کو چاہئے کہ مقررہ وقت میں ہی متعلقہ اصحاب اور اداروں کو آئینی راستہ دکھائیں ورنہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والی اس قوم کو ایک اور خواب کا انتظار کرنا ہوگا کہ جس میں پروفیسر صاحب کی طرف سے یہ بشارت دی گئی ہو کہ خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آ کر میری عمر بڑھا دی ہے ۔ ”لوگو تم گواہ رہنا“
Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 192679 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.