پاکستان (عوامی تحریک) منہاج
القران کے سربراہ نے جس طرح اچانک سے پاکستان میں وارد ہو کر یہاں کے سیاسی
حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی اور آنے سے پہلے اپنے مریدوں اور اپنے چاہنے
والوں سے یہ حلف بھی لیا تھا کہ جب وہ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھیں گے
تو لاکھوں کے مجمعے نا صرف ان کا استقبال کریں گے بلکہ ان کے لئے ہر جائز و
ناجائز قربانی بھی دیں گے جائز ایسے کہ ان کے جلسوں میں شرکت کر کے اور
اپنا سب کچھ آپ پر نچھاور کر کے اور نا جائز ایسے کہ ان کی طرف سے ایک ایسے
دھرنے میں شرکت کر کے ،کہ جس کی وجہ سے پاکستان میں خدانخواسطہ جمہوریت اور
جمہوری نظام کو لپیٹا جا سکتا تھا ان کے مریدوں نے لاہور میں لاکھوں کا
مجمع تو اکٹھا کر لیا لیکن جب دھرنے کا وقت آیا تو ان مریدوں کا حوصلہ جواب
دے گیا اور جو لوگ چالیس لاکھ کے مجمعے کی باتیں کر رہے تھے اچانک سے ایک
لاکھ پر آ گئے پھر عوام نے بھی دیکھا اور محسوس کیا کہ کس طرح شیخ الاسلام
ان کو واسطے دے دے کر اپنے ساتھ رکنے کا کہہ رہے تھے اور آخر کار کچھ
سینئیر سیاستدانون نے ان کے ڈرامے کا ڈراپ سین کروایا (جس کی ایک علیحدہ
کہانی ہے )اور قادری صاحب کو بے آبرو ہونے سے بچا لیا عوام نے یہ بھی دیکھا
کہ حسینیت کا سبق دینے والوں نے کیسے وقت کے حکمرانوں سے نا صرف مذاکرات
کیے بلکہ ان کے ہاتھ پر بیعت بھی کر لی لیکن جناب شیخ الاسلام سے معزرت کے
ساتھ کہ جناب حسینؓ نے تو یزید سے مذاکرات نہیں کیے تھے بلکہ انھوں نے
مذکرات کی بجائے شہادت کو ترجیح دی تھی مگر آپ نے جس طرح سے لوگوں کے جذبات
سے کھیلا اور انھیں مذہب کے نام پر اسلام آباد میں لا کر بیٹھا دیا اور خود
آرام دہ کنٹینر میں بیٹھ گئے بلکہ مزے کرتے رہے اور پاکستانی عوام یہ
دیکھتے رہے کہ اسلام آباد کی یخ بستہ سردی میں بوڑھے بچے اور عورتیں کس طرح
کانپ کانپ کر وقت گزارتے رہے اگر آپ اپنے مریدوں کے خلیفہ ہیں تویہ بات بھی
ذہن میں رکھیں کہ خلیفہ تو خود بھوکھا رہتا ہے اور اپنے مریدوں ،پیروکاروں
کو بھوکا نہیں رہنے دیتا اور اگر کوئی آزمائش آ بھی جائے تو وہ خود سب سے
پہلے آگے ہوتا ہے مگر آپ تو بلٹ پروف بلکہ بم پروف کنٹینر میں آرام کرتے
رہے یہ کیسی پیری کیسی مریدی ہے پھر جب پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے
یہ فیصلہ آیا کہ رینٹل پاور منصوبوں میں ہونے والی کرپشن کہ ذمہ داروں کو
گرفتار کیا جائے تو آپ نے ہی نعرہ لگایا کہ آدھا کام ہو گیا اور یوں
پاکستان کے غیر جانبدار عدلیہ پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئی کہ شاید شیخ
الاسلام صاحب کو عدلیہ کہ ہمایت حاصل ہے لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ آج
اگر عدلیہ آزاد ہے تو یہ کریڈت ایک ہی شخص کو جاتا ہے اور وہ شخص کھبی بھی
عدلیہ کے وقار پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا شیخ الاسلام صاحبنے اپنی تقریروں
میں عوام کو یہ اشارہ بھی دیا کہ آپ کو پاکستان کے اعلیٰ اداروں جیسے فوج ،عدلیہ
اور اسٹیبلشمنٹ کی خاموش ہمایت حاصل ہے پھر شیخ الاسلام صاحبنے ایک بے تکی
سے رٹ پٹیشن الیکشن کمیشن کمے خلاف دائر کر دی جس کے بارے میں اتنا ہی کہوں
گا کہ جناب : ویلے دی نماز،تے کویلے دیاں ٹکراں :مطلب کے نماز وہ ہوتی ہے
جو وقت پر ادا ہو تی ہے اور بے وقت نماز نہیں ہوتی بلکہ ٹکریں ہوتی ہیں، اس
لئے شیخ الاسلام صاحبنے بے وقت رٹ دائر کی اور جب شیخ الاسلام صاحبکی رٹ
خارج ہو گئی تو ذاتیات پر اتر آئے اور اسی شخص کے خلاف جس کے فیصلے پر شیخ
الاسلام صاحبنے اس کو خراج تحسین پیش کیا تھا اسے ہی کسی اور کی وفاداری کے
طعنے دینے لگے لیکن خدا سلامت رکھے اس شخص کو جس کی وجہ سے آزاد عدلیہ کا
قیام ممکن ہو سکا اس کے تدبر ،معاملہ فہمی اور صبر پرپاکستان کے عوام فخر
محسوس کرتے ہیں اور جس کے پیچھے پاکستان کے عوام کی طاقت ہے جو اگر چاہتے
تو آپ کی باتوں پر آپ کے خلاف بڑی کاروائی کی جا سکتی تھی لیکن انھوں نے
حالات کی نذاکت کو سمجھتے ہوئے جانے دیا جو کہ لائق تحسین ہے کیونکہ وہ
جانتے تھے کہ شیخ الاسلام صاحب جان بوجھ کر بات کو لمباکرنا چاہتے ہیں تاکہ
معاملہ بڑھے اور وہ: شہید: کہلوا سکیں پاکستان کی عوام کی اکثریت بڑی سماجی
،سیاسی اور قانونی ،آئینی شخصیات یہ سمجھتی ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ
آئین پاکستان کی روح سے ایک تاریخی فیصلہ ہے کیونکہ ایک غیر ملکی کو کوئی
حق نہیں کہ وہ پاکستان کے اندورنی معاملات اور اس کے آئینی اداروں پر
اعتراض کرے اگر آپ کی بات مان لی جاتی تو کل کلاں کو ہر تیسرا آدمی جو کسی
بھی غیر ملک کی شہریت رکھتا ہو گا پاکستان کے اندرونی معاملات میں بے جا
مداخلت کرتا پھرے گا پھر تو پاکستان کا اﷲ ہی حافظ ہو گااب جبکہ شیخ
الاسلام صاحب کا دوسرا وار بھی خطا ء چلا گیا اور شیخ الاسلام صاحب کو یہ
بات بھی کچھ کچھ سمجھ آ گئی ہے کہ اب یہ وہ والا پاکستان نہیں ہے جو وہ سات
آٹھ سال پہلے چھوڑ کر گئے تھے اب اﷲ کے فضل سے پاکستان کی تعمیر کا کام
شروع ہو چکا ہے اور انشاء اﷲ بہت جلد پاکستان میں شخصیات نہیں بلکہ ریاست
اور ریاستی ادارے مضبوط ہوں گے شیخ الاسلام صاحب کا دل اب یہاں سے یقینا
بھر چکا ہو گا کیونکہ جو، جو ایجنڈے ان کی فہرست میں شامل تھے وہ ایک ایک
کر کے ناکام ہو رہے ہیں اور یقیناشیخ الاسلام صاحب اب اپنے حقیقی مسکن یعنی
کے کینیڈا کا رحت سفر باندھ رہے ہوں گے کیونکہ سپریم کورٹ کے گزشتہ فیصلوں
کے مطابق کوئی بھی پاکستانی جو دوہری شہریت رکھتا ہو گا وہ انتخابات میں
حصہ لینے کا مجاز نہ ہے اس لئے شیخ الاسلام صاحب جاتے جاتے اپنے ان خفیہ
ہاتھوں کو جو ان کی پشت پناہی کر رہے تھے اور جنھوں نے ان کو یہاں پر آکر
اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کا اشارہ دیا تھا ان سے کہہ رہے ہوں کہ : بڑے بے
آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے: شیخ الاسلام صاحب آپ کو سیاست میں کودنے
کی کیا ضرورت تھی وہ بھی غلط وقت پر یہ کینیڈا نہیں پاکستان ہے ور آپ تو
جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام مذہبی شخصیات کو کتنا پسند کرتی ہے جس کا
مشاہدہ آپ کو لاہور میں مذہبی اجتماع منعقد کر کے ہواتھا پھر کیا ضرورت تھی
ملی ہوئی عزت کو خاک میں ملانے کی۔ |