بسم اللہ الرحمٰٰن الرحیم
اللہ نے ہر انسان کوبے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ،ہر ایک قدرت کی عطا کا
مظہر ہے،ذرا سی محنت ،حوصلہ افزائی اور پالش سے اس کی صلاحیتیں چمک اٹھتی
ہیں اور وہ سینکڑوں کا راہنما،ہزاروں کا پیشوا اور لاکھوں کا محبوب بن جاتا
ہے لیکن مناسب وقت ،موقع اورطریقہ ان صلاحیتوں کو نمایاں کرنے کے لیے از حد
ضروری ہے۔مربّیان امّت نے ہمیشہ اسی چیز کو مد نظر رکھا اور افراد سازی اور
امت کی اصلاح میں اپنی صلاحیتوں کو لگا تے رہے،مثبت و تعمیری سوچ ، ،عالی
افکار،جذبہ خدمت انسانیت اور پیارآدمیت کی تعلیمات کو عام کرتے رہے ۔ان کے
مد نظر یہ اصول رہاہے کہ ذرا نم ہو ساقی تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے۔
کسی بھی قوم کی ترقی اور تنزلی کا دارومداران کے معماروں پر منحصر ہے،جس
قوم کا نوجوان باکردار، باصلاحیت،ہنر مند،تہذیب یافتہ ،نظریاتی اورسنجیدہ
ہوتو وہ قوم ،اقوام عالم میں اپنا سکہ منوا لیا کرتی ہے ۔تاریخ کے اوراق
ایسے کرداروں سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے قوم کے مقدر کو سنوار ا،نکھارا اور
تاریخ میں امر ہو گئے۔قوموں کی آزادی ،خود مختاری ،ترقی اور عروج میںسب سے
بڑا عنصر سوچ کی تبدیلی ہے،جو لوگ اپنے ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی
برموقع منصوبہ بندی کرلیتے ہیں اور افراد سازی کے ذریعے رجال کار پیدا کرتے
ہیں تو وہ بہت کم وقت میں صف اوّل کی قوموں میں کھڑے نظر آتے ہیں چاہے وہ
عرب ہوں یا یورپین ،جاپانی ہوں یا چائینز۔ اگر مسائل و وسائل کاادراک ہو
لیکن بروقت منصوبہ بندی نہ ہو تو پھربھی قومیں بحرانوں اور تنزلی کا شکار
ہو جایا کرتی ہیں۔
اہلیان پاکستان کو اللہ نے بے شمار نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے،قیادت
و سےادت،فہم و فراست ،عقل و ذہانت اور مذہب سے لگاؤ نیز شجاعت و بہادری میں
پاکستانی قوم مثالی ہے،مگر تربیت کا فقدان ،ماحول کی عدم دستیابی اور
اجتماعی و مثبت سوچ کی کمی کی وجہ سے یہ تمام صلاحیتیں نکھر کر سامنے نہیں
آسکیں ۔کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی اس سلطنت میں رہنے والے نوجواں کا
تخیل بانیان پاکستان کے نظریات سے مختلف اور مخالف سمت محسوس ہوتا ہے۔مشرقی
تہذیب وروایات سے عملا بے زاری ، مغربی تہذیب اور فیشن کی دلدادہ میرے ملک
کی جوان ہونےوالی نئی نسل دو قومی نظریہ سے لا شعوری طور پر بغاوت کرتی نظر
آتی ہے۔منصوبہ بندی کے تحت ہمارے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والا
طالب علم ایک عجیب ذہنی کشمکش میں مبتلا کر دیا جاتا ہے، وہ
توقومی،لسانی،مذہبی اور گروہی تفرقہ بندیوں میں ہی الجھ کے رہ جاتا ہے ،قوم
کی خدمت کیا کرے۔سٹیٹس اور پروٹوکول کلچر نے طبقاتی تفریق کو جنم دیا اور
سفارش اور رشوت مافیا نے نوجوانوں کے رستے زخموں پر نمک پاشی کی،اس کا
فائدہ ملک دشمن قوتوںنے اٹھایاہے ،اس منظر نامے میں ہمارے نوجوان کی
صلاحیتیں منفی اور تخریبی افعال میں لگتی نظر آتی ہیں۔
ان حالات میں سب سے بڑی ذمہ داری نوجوان قیادت اور باشعور اہل اقتدار پر
عائد ہوتی ہے کہ ایک طرف ہم اپنے ماضی کے روشن ابواب سے آنے والی نسل کو
متعارف کروائیں ،دین کی تعلیم اور مشرقی روایات کو اہتمام کے ساتھ معاشرے
میں رواج دیں۔ اس کے لیے نوجوانوں میں ایک پلیٹ فارم کی ضرورت کو شدت سے
محسوس کیا جا رہا تھا جو سیاسی وگروہی تفریق سے آزاد اپنا وجودر کھتا
ہو،ملک وملت کے لیے تمام منتشر نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پے جمع کرکے
طاغوتی منصوبوں کو ناکام بنا دے۔گفتار سے زیادہ کردار کے خوگر ہوں،خود
احتسابی اور اصول پرستی ان کا شیوہ ہو۔وہ اقبال کے شاہیں ،کردار کے
غازی،سچے پاکستانی اور پکے مسلماں ہوں ۔تلاش بسیار کے بعد مسلم سٹوڈنٹس
اورگنائزیشن پاکستان کے نام سے دینی و عصری تعلیمی اداروں کے طلبہ کا منظم
سیٹ اپ منظرنامے پے پایا ، ملاں و مسٹر ایک پلیٹ فارم پے ملک وملت کی خدمت
اورترقی کے لیے کوشاں نظر آئے،علامہ اقبال ؒکا شاہیں ، شیخ الھند محمود حسنؒ
کی آرزو اور سر سید احمد خان کے منصوبو ں کی تعبیر ان با ہمت وبا صلاحیت،
پر عزم ،چمکتے چہروں والے،عالی افکار کے حامل نوجوانوں کی صورت میں حاصل
ہوئی۔ غلبہ اسلام واستحکام پاکستان کا نصب العین کی حامل یہ سٹوڈنٹس خود
مختار تنظیم ، طلبہ میں مثبت اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھا رہی ہے ،یہ
معاشرے میں پھیلی بے راہ روی ،دھشت،اخلاقی وسماجی برائیوں کا مقابلہ کرنے
کے لیے طلبہ کو سوچ دے رہے ہیں،تعلیم اور طلبہ کے احترام کو عام کر رہے
ہیں،اساتذہ اور طلبہ کے حقوق کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اپنی زیست سے آج تک
کے مختصرسے سفر میں ہر ایک طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے نہ صرف ان
نوجوانوں پر اعتماد کیا بلکہ ان کے قدم بقدم چلنا کا بھی ارادہ کیا ۔اس
ساری صورت حال سے ایک چیز مترشح ہوتی ہے کہ اگر قوم کو حقیقت کی طرف رخ دیا
جائے اورانداز تحریک بھی معقول ہو تو قوم ضرور ساتھ دیتی ہے ،اسی طرح ہم
اپنے روشن ماضی کو دوبارہ پا سکتے ہیں۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنے کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی |