پتہ دیتی ہے مگر ہر صبح تازہ

پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ تیسرا ٹیسٹ بھی ہار گئی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی نامور ٹیمیں جو کام پندرہ دن میں نہیں کر سکتیں ، ہماری ٹیم نے فقط دس دن کی قلیل مدت میں انجام دے لیا ہے ۔ شاید یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ ہار کی ہیٹرک ہم نے فقط دس دن میں مکمل کر لی ہے۔ کچھ پرانے قسم کے لوگ کہہ رہے تھے کہ اس شرمناک شکست پر چیئرمین اور کپتان سمیت کرکٹ بورڈ کے بہت سے لوگوں کو استعفی دے دینا چاہیے۔ مگر یہ پرانے وقتوں کے لوگ ہیں ان کی باتوں پر توجہ نہیں دینا چاہیے۔ غیرت اور حمیت اب کہاں۔ خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی کے دورمیں ایسی بات۔ اس پارٹی کے کلچر میں ایسی چیزوں کی گنجائش ہی نہیں ورنہ پچھلے پانچ سالہ جمہوری دور میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اُس پر بہت سے ارباب اختیار خود کشی کر چکے ہوتے۔ بے حیائی کو دعا دیجئے کہ بہت سے لوگوں کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہے اور تمام خامیوں کے باوجود لوگ بہت ڈھٹائی سے حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ رہا اس قوم بہت سا سرمایہ جو کھلاڑیوں اور کرکٹ بورڈ کے اللوں تللوں پر خرچ ہو رہا ہے تو اس کا کیا ہے۔ جب ساری قوم لوٹ مار پر لگی ہے تو کھلاڑی بھی تو قومی ہیں۔ اس قوم کے سپوت ہیں۔ اُن کا بھی اس لوٹ مار پر مکمل حق ہے۔

پاکستانی ٹیم حقیقت میں کوئی ٹیم نہیں کیونکہ اگر یہ ٹیم ہوتی تو ہار جیت اپنی جگہ مقابلہ کرتی تو نظر آتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ عملاً یہ دوستوں کا ایک گروپ ہے۔ سفارش ، اقربا پروری، رشتہ داریوں اور لوٹ کھسوٹ پر مشتمل ایک گروپ ، کھلاڑی چاہے جتنا بھی اچھا کھیلتا ہو اگر اُس کی پشت پر کوئی طاقتور شخص یا مافیا نہیں۔ تو وہ اس گروپ میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔ شاہد آفریدی پتہ نہیں ٹیسٹ کرکٹ میں کیوں نظر انداز ہوگئے ہیں یا شاید انہوں نے خود شامل ہونا پسند نہیں کیا۔ وہ خود بہت طاقتور اور زور آور ہیں۔ عوام بھی اُن کی پشت پر ہے کیونکہ عوام کو آس اور امید ہے کہ شاید کسی وقت شاہد آفریدی کا بیٹ رنز اگلنا شروع کر دے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں جس شخص کو عوامی پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ وہ جتنا مرضی نا اہل اور ناکارہ ہو۔ اُسے چوہدری بننے کا حق رہتا ہے۔ اس لیے کرکٹ بورڈ کے ارباب اختیار میں اتنی جرات کہاں کہ آفریدی کے سامنے مزاحم ہو سکیں۔ بے بس تووہ ہوتا ہے جو باصلاحیت ہونے کے باوجود نہ تو عوامی ہوتا ہے اور نہ ہی کسی گروپ کسی کسی مافیے اور کسی بڑے شخص کا سفارشی ہوتا ہے وہ اول تو اس گروپ میں شامل ہی نہیں ہو سکتا اور ہو بھی جائے تو فقط بارہواں کھلاڑی کے طو رپر ہی جگہ پا سکتا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹر عبدالرزاق اس کی زندہ مثال ہے۔ ایسے بہت سے باصلاحیت کھلاڑی ماضی میں کرکٹر بورڈ کے ارباب اختیار کی اندرونی سیاست کا شکار ہو چکے ہیں۔

کرکٹ تو اپنے تازہ سانحے کے سبب مورد الزام آگئی۔ مگر کرکٹ ہی نہیں پچھلے 65سالوں میں ہماری پوری دھرتی ۔ پورا علاقہ اور ہمارے پورے افراد ایک ٹیم اور ایک قوم کی شکل نہیں اختیار کر سکے۔ پاکستان کی اساس دو قومی نظریہ تھا۔ مسلمان اور ہندو دو مختلف قومیں تھیں۔ مسلمانوں کو پاکستان ملا اور ہندوؤں کے حصے بھارت کی سر زمین آئی۔ 1947ءمیں تقسیم کے وقت پاکستان کا ایک نظریہ تھا کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے۔ ہزاروں قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والا ملک جہاں کے مکین فقط مسلمان تھے۔ آج ہم پھر قربانیاں دے رہے ہیں اور کثیر قومی نظریے کو فروغ دے رہے ہیں۔ اب یہاں مسلمان کم نظر آتے ہیں۔ اب یہاں شعیہ ہیں، سنی ہیں، اہل حدیث ہیں،۔ وہابی ہیں۔ دیوبندی ہیں۔ بریلوی ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا ہیں ؟ 1947ء سے پہلے ہندو مسلم فساد ہوتے تھے۔ اب فرقہ پرستی کے نام پر مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے۔ شیعہ سنی کو مار رہا ہے۔ سنی شیعوں کا قتل عام کرتا ہے۔ دیو بندی بریلوی کو براداشت نہیں کرتا ۔ بریلوی دیو بندی کو نہیں دوسرے مسلکوں کے درمیان جھگڑے روزمرہ کا معمول ہیں۔

1947ءمیں ایک نئی قوم پاکستانی وجود میں آئی تھی جو اب تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتی۔ بنگلہ دیش کی شکل میں آدھی تو 1971ءہی میں غائب ہو گئی تھی۔ بقیہ آدھی کی صورتحال بھی انتہائی خراب ہے۔ اس آدھی قوم میں پاکستانی ہیں۔ پنجابی ہیں، پٹھان ہیں، بلوچی ہیں، سندھی ہیں اور مزید یہ کہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ پنجاب میں پنجابیت بھی ختم ہو رہی ہے۔ یہاں سرائیکی ہیں، پوٹھوہاری ہیں وسطی ہیں۔ بلوچستان ہیں بلوچی اور پٹھان مورچے کھودے آمنے سامنے ہیں۔ سندھ میں مقامی اور مہاجر کی تفریق بہت سے مسائل جنم دے رہی ہے۔ خیبر پختونخواہ ہزارہ بڑا اور دیگر علاقوں میں نفرتوں کا سمندر موجزن ہے۔

بات اور بھی بگڑتی جا رہی ہے۔ سرائیکی والے بہاولپور اور ملتان میں بٹ رہے ہیں۔ یہی صورتحال ہر صوبے کے ہر حصے میں ہے۔ تفریق در تفریق کی ایک رسم چل پڑی ہے۔ لگتا ہے یہ نفرت اور تعصب اگر اسی طرح بڑھتا گیا تو بہت جلد ایک محلے کے مکین دوسرے محلے کے مکینوں اور ایک گلی کے رہنے والے دوسری گلی کے رہنے والوں سے نبردآزما ہوں گے۔

اس بد تر صورتحال میں قومی یکجہتی کی شدید ضرورت ہے اور وہ کوئی ایسا لیڈر ہی فراہم کر سکتا ہے جو حرص و ہوس سے بے نیاز ہو کر قوم کو صحیح رہنمائی فراہم کرے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) تو آزمائی ہوئی پارٹیاں ہیں مگر آج بھی خواب اقتدار کے دیکھتی ہیں۔ اگر یہی لوگ دوبارہ آگئے تو اگلے پانچ سال بھی قوم اندھیروں میں گزارے گی۔ قوم کا بڑھتا ہوا شعور مگر یہ اُمید دلا رہا ہے۔ کہ تبدیلی آئے گی اور بہت جلد آئے گی۔
پتہ دیتی ہے مگر ہر صبح تازہ
خدا اب تک نہیں مایوس ہم سے
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500837 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More