افغانستان پر روسی قبضہ اور شکست ۔۔۔۔ اب امریکہ کی باری

روس کی کمیونسٹ پارٹی نے کمال اتاترک کی طرز پر غیر اسلامی نظریات کی ترویج کی مثلاََ پردہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔

یہ تبدیلیاں افغانی معاشرے خاص طور پر اسلامی معاشرے سے مطابقت ہر گز نہیں رکھتی تھیں۔ افغانستان میں حالات جب بہت خراب ہوگئے تھے تو افغانی کمیونسٹ حکومت کی دعوت پر روس نے اپنی فوجی افغانستان پر اتار دی۔25دسمبر 1979ء کو روسی فوج کابل میں داخل ہوگئی۔ افغانستان میں مجاہدین نے ان کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ امریکہ نے ان مجاہدین کو خوب مدد فراہم کی مگر درحقیقت امریکہ کا مقصد اسلام کی خدمت نہیں بلکہ وقت کے سپر پاور روس کے خلاف ایک گروپ یا قوت کو مضبو کرنا تھا۔ امریکہ کو پاکستان کو اپنے ساتھ ملانا پڑا۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو بھی امریکہ نے روس کے خلاف استعمال کیا ۔ افغان مجاہدین اسلام سے مخلص تھے مگر امریکہ انھیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا رہا مگر جب امریکہ کو ان کی ضرورت نہیں رہی تو وہی مجاہدین امریکی اور پاکستانی زبان میں دہشت گرد کہلانے لگے۔ امریکی سی آئی اے، پاکستان ، امریکہ ،سعودر عرب نے اس دوران اپنا اپنا کردا ادا کیا ۔ جن میں ان ممالک کے کچھ مفادات مشترکہ تھے اور کچھ زاتی مفادات بھی تھے ۔ اس جہاد کا نتیجہ یہ نکلا کے روس کو 1989ءمیں مکمل طور پر افغانستان سے نکلنا پڑا ۔ بلکہ بعض دانشوروں کے خیال میں روس کو ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ بھی تھی۔ اس سلسلے میں روس ، افغانستان اور پاکستان میں کے درمیان 1988ءمیں جینوا معاہدہ بھی ہوا تھا۔

روس نے افغانستان سے فوجی نکالنے کے بعد بھی اس وقت کی نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری رکھی مگر 18اپریل 1992 ءکو مجاہدین کے ایک گروپ نے جنرل عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعو د کی قیادت میں کابل پر قبضہ کر لیا اور افغانستان کواسلامی جمہوریہ بنانے کا اعلان کر دیا ۔ مگر امریکہ اسلحہ کی مدد سے مجاہدین کے مختلف گروپوں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی شروع ہوگئی۔

اُس وقت ایک جہادی کونسل بنائی گئی جس کی قیادت پہلے صبغت اللہ مجددی اور بعد میں برہان الدین ربانی نے کی مگر مجاہدین کی آپس کی لڑائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بیرونی طاقتوں نے پشتون اور فارسی بولنے والوں کی تنازعات کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اس وقت کے حکومت میں پشتونوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی جس سے ان میں شدید احساس محرومی پیدا ہوا۔

پاکستان اور افگانستان کے کچھ علما ءنے مدرسوں کے طلبا کو منظم کرنا شروع کیا جن کو بعد میں طالبان کہا جانے لگا۔ پاکستانی فوج کت جنرل نصیر اللہ بابر طلبا کو استعمال کرنے کے خیال کے بانی تھے ۔1996ءمیں طالبان کے ملا محمد عمر نے کابل پر قبضہ کر لیا ۔ انھوں نے افغانستان کو اسلامی امارات قرار دیا اور طالبان نے انھیں امیر المومنین تسلیم کر لیا ۔ طالبان نے 2000 تک افغانستان کے پچانوے فیصد علاقے پر قبضہ کر کے ایک اسلامی حکومت قائم کی۔ اس زمانے میں افغانستان میں نسبتاََ امن قائم رہا اور پوست کی کاشت بھی نہ ہوئی ۔ افغانستان میں تمام غیر قانونی ٹیکس اور چونگیاں بھی بند کر دیے گئے ۔ انصاف کا دور آگیا اور پورے کنٹرول خطہ میں امن و امان قائم ہو گیا ۔

لوگ نماز ادا کرنے اور غریب طبقہ میں زکواة ادا کرنے کے بھی کافی پابند ہو گئے ۔
تمام غیر اسلامی رسومات کا زوال آ گیا ۔

طالبان کو بجز پاکستان اور سعودی عرب کے کسی نے تسلیم نہیں کیا اور مغربی دنیا نے شمالی اتحاد کی مدد جاری رکھی جو افغانستان کے شمال میں کچھ اختیا ر رکھتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک خالص اسلامی حکومت مغربی دنیا اور بھارت کو ہر گز قبول نہیں تھی۔

یاد رہے کہ طالبان سے پہلے بھارت کو افغانستان میں خاصا عمل دخل تھا ۔ طالبان کے دور میں پاکستان کا اثر افغانستان میں بڑگیا اور پچاس سال میں پہلی دفعہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ایک طرح سے دوستانہ امن قائم رہا ۔

مگر پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکہ کی مدد کر کے نہ صرف طالبان کا اعتماد کھویا بلکہ ایک پاکستان دشمن اور بھارت دوست حکومت افغانستان میں امریکہ حملے اور قبضے کے بعد قائم ہوگئی ۔

امریکہ نے افغانستان پر قبضے کی تمنا رکھی ہے جو ایک دہائی سے افغانستان میں نیٹو فوج کی شکل میں افغانستان میں طالبان کے ساتھ لڑ رہا ہے ایک دہائی گزرنے کے باوجود بھی امریکہ اپنے اتحادیوں اور نیٹو فوج کے زریعے اپنی ہد ف میں کامیابی حاصل کرنے سے قاصر رہ گیا ہے۔لیکن آج کل دانشوروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اسکے تمام اتحادی افغانستان میں طالبان کے ساتھ جنگ ہار چکے ہیں ان کی معیشت کو بھی کافی اثر پڑا ہے اور اتحادی امریکہ سے بھی کافی وقت سے اندرونی طور پر ناراض ہیں۔

امریکہ نے بیک وقت معتد اسلامی ممالک کے ساتھ لڑائی شروع کر رکھی ہے ۔

عراق اور افغانستان میں قبضہ کر رکھا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کو حراساں کر نے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے ۔ پاکستان کے ساتھ اندرونی لڑائی کروارہا ہے ۔ پاکستان دشمن اندرونی طاقتوں کا امداد کرتا پھرتا ہے ۔ سی آئی اے پاکستان میں معتد واقعا ت میں ملوث پایا گیا ہے جس کے کافی شواہد بھی پاکستانی پولیس کو ملے ہیں ۔ ریمنڈ ڈیوس اور ڈاکٹر شکیل آفرید جیسے لوگ پاکستان میں بے نقاب ہو چکے ہیں ۔ پاکستان کی ارمی پر کئی بار حملہ کر چکا ہے ۔ امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کر رہا ہے۔

بھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے حل نہ کرنے کی اندرونی حامی بھر چکا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ساتھ لڑنے والے مجاہدین فارغ نہ ہوں جس سے امریکہ کو شدید نقصاب بھی لاحق ہونے کا امکانات امریکہ اور اتحادیوں نظر آتے ہیں ۔ اور پاکستان کو اپنی ریاستی جنگ میں پریشان کر کے اپنے مقاصد کو پورا کرنے کی بھر پور کوشیش کر رہا ہے ۔

بحرحال ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ جو دوسروں کے لیے کھداکھودتے ہیں وہ اسی میں خود گرتے ہیں اب امریکہ نے طالبان کو سرگرم تو روس و سوویت یونین کے لیے کیا تھا جو مقصد پورا تو گیا ہے مگر امریکہ نے دیکھا میں خود بھی اس کے زمرے میں آسکتا ہوں تو طالبان کی روک تھا م کے لیے اسلامی ممالک میں اس کی بڑتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے نیٹو کا سہارا لیکر پاکستان کو سبز باغ دکھاکر افغانستان عراق پر قبضہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا مگر آج امریکہ اور اتحادی نیٹو پریشان ہو کر دل میں ہار مان چکے ہیں
دانشور کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکہ بھاگنے کی کوشیش کر رہا ہے مگر واضع راستہ ہموار اور نظر نہیں آتا ہے -

امریکہ کے ساتھ بھی وہی ہونے والا ہے جو روس کے ساتھ ہوا تھا ۔امریکہ بھی اپنی خیر منائے کیونکہ آنے والے دور میں طالبان امریکہ پر بھاری ہو سکتے ہیں۔
Asif Yaseen
About the Author: Asif Yaseen Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.