اختلاف رائے ہر انسان کا بنیادی حق ہے یہی
وجہ ہے کہ اختلاف رائے کو شناخت یا پہچان کے اظہار کا زریعہ بھی سمجھا جاتا
ہے شناخت کا یہ عمل انفرادی یا پھر کسی گروہ ، قوم، نظریے یا ایک عقیدے کے
ماننے والوں کا بھی ہوسکتا ہے بعض حالات میں اختلاف رائے جدوجہد کی صورت
اختیار کرلیتا ہے ایسے اختلافات جب حاکموں اور عوام کے مابین جنم لیتے ہیں
تو حکام کے جبر واستبدادسے بچنے کے لئے بہت سے رہنما ملک سے راہِ فرار
اختیار کر لیتے ہیں اور جلا وطنی کی زندگی بسر کرتے ہیں اپنے اس عمل کو وہ
ایک ایسی حکمت عملی قرار دیتے ہیں جو دراصل ان کی جدوجہد کی بقاء کے لئے
ضروری ہوتی ہے ایسے ہی کچھ جلا وطن رہنمااور ان کی تشکیل کردہ جلا وطن
حکومتوں کا احوال درج زیل ہے ۔
۱۔مرکزی انتظامی حکومت برائے تبت
(Central Tibetan Administration)
دنیا کی چھت کا اعزاز رکھنے والا علاقہ تبت عرصہ دراز سے سیاسی افراتفری کا
شکار ہے تبت عوامی جمہوریہ چین کے زیرِ انتظام علاقے کی حیثیت رکھتا ہے چین
کے اس تسلط کو بدھوں کے چودھویں دلائی لامہ ’’ تن زن گیاتسو‘‘(Tenzin
Gyatso) تبت پر چین کا غاصبانہ قبضہ قرار دیتے ہیں اور اس اختلاف کے باعث
انہوں نے تبت کے باہر اپنی جلا وطن حکومت قائم کی ہے جس کے وہ سربراہ ہیں
اس جلاوطن حکومت کو ’’مرکزی انتظامی حکومت برائے تبت ‘‘(Central Tibetan
Administration)کہا جاتا ہے اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ چین کے زیرِ
انتظام تبتی علاقہ دَرحقیقت ایک تاریخی مقام اور بدھ مت کا مذہبی اور
تاریخی ورثہ ہے جس پر چین نے1959سے قبضہ کیا ہوا ہے یہ علاقہ صوبہ چنگ چی (Qinghai)،گان
سو(Gansu)،سی چوآن (Sichuan)اور ین نان(Yunnan)صوبوں پر مشتمل ہے ان تمام
صوبوں کی سرحدیں باہم ملی ہوئی ہیں ۔رقبے کے لحاظ سے یہ چاروں صوبے چین کے
دس بڑے صوبوں میں شمار کئے جاتے ہیں جن کامجموعی رقبہ965,000مربع میل بنتا
ہے چین کی حکومت کی جانب سے علاقے میں اسکولوں اور صحت عامہ کے اداروں کے
ساتھ ساتھ سیاحوں کو ترغیب دینے کے لئے مختلف پرکشش سیاحتی اور ثقافتی
مراکز بھی قائم کئے گئے ہیں اگرچہ ان ترقیاتی منصوبوں سے علاقے میں ترقی کے
اثرات نمایاں نظر آتے ہیں تاہم پچھترسالہ دلائی لامہ کا کہنا ہے کہ تبت کا
علاقہ بدھ مت کے لئے عبادت گاہ کا درجہ رکھتا ہے جب کہ چینی حکومت صرف
معاشی فوائد کی خاطر اس وسیع و عریض تاریخی اور مذہبی ورثے کو تباہ کرنے پر
تلی ہوئی ہے جدیدیت اور سیاحت کے نام پرتشکیل دئے گئے ان منصوبوں نے تبت کی
روا ئتی اور مذہبی زندگی کو بھی مسخ کردیا ہے تاہم چینی حکام دلائی لامہ کے
موقف کے جواب میں کہتے ہیں کہ پچاس سال قبل چین نے دراصل تبت میں مذہبی
لبادے میں چھپے جاگیرداروں اور جاگیر داری نظام کے خلاف کارروائی کر کے ایک
جمہوری ماحول پید ا کیا تھاجس میں وقت کے ساتھ بہتری آتی جارہی ہے واضح رہے
چین کی جانب سے فوجی کارروائی کے بعد بدھ مت کے روحانی پیشوا ’’ تن زن
گیاتسو‘‘ اور ان کے پیروکاروں نے انڈیا منتقل ہوکر جلاوطن حکومت قائم کرلی
تھی جس کا ہیڈکوارٹر شمالی انڈیا کی ریاست ہما چل پردیش کے قدیم شہر’’ دھرم
شالا ‘‘میں ہے برف پوش پہاڑوں اور بلند و بالا صنوبرا ور دیودار کے درختوں
سے گھرا قدرتی حسن سے مالا مال یہ علاقہ جلا وطن حکومت کا دارالخلافہ بھی
ہے دلائی لامہ ’’تن زن گیاتسو‘‘ دھرم شالہ میں ا س وقت سے مقیم ہیں جب
28اپریل 1959 کو تبت پر چین کے فوجی قبضے کے خلاف دلائی لامہ اور ان کے
تبتی پیروکاروں کی بغاوت ناکام ہوگئی تھی اور وہ جلاوطن ہونے پر مجبور
ہوگئے تھے تبتی جلاوطن حکومت (CTA) کے مقاصد میں سرفہرست تبت کو چین کے
مسموم تسلط سے آزادی دلانا اور اپنا مذہبی تشخص بحال کرانا ہے واضح رہے
جلاوطن حکومت CTAنے 2001میں تبت کی تاریخ کے اولین انتخابات بھی کرائے تھے
جس میں جلا وطن تبتی باشندوں نے پروفیسرSamdhong Lobsang Tenzinکو وزیر
اعظم منتخب کیا تھااس کے علاوہ چھے وزارتیں بھی عمل میں لائی گئیں تھیں
اگرچہ تبت کی جلا وطن حکومت کو دنیا کے کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے
البتہ انڈیا کی جانب سے تبتی جلا وطن حکومت کو کافی سہولیات حاصل ہیں ان
سہولیات پر چین کی جانب سے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا جاتا ہے اور دونوں
ممالک میں کشیدگی بھی رہتی ہے تاہم دلائی لامہ اور ان کے پیروکاروں کو یقین
ہے کہ وہ عنقریب جلا وطن حکومت کی کوششوں سے تبت کو چین سے آزادی دلانے میں
کامیاب ہوجائیں گے ۔
۲۔ شہنشاہیتِ ایران
(Monarchy of Iran)
1979میں اِسلامی اِنقلاب کے بعد ایران سے شہنشاہیت کا بسترگول کردیا گیا
تھااور اُس وقت کے بادشاہ محمدرضا شاہ پہلوی ملک سے فرار ہوکر قاہرہ میں
پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے تاہم رضا شاہ پہلوی مرتے دَم تک خود کو ایران
کا شہنشاہ ہی کہلواتے تھے ان کے انتقال کے بعد سے شاہی تاج ان کے سب سے بڑے
بیٹے ’’محمد رضا پہلوی‘‘ نے اپنے سر پر سجا رکھا ہے اور وہ بھی خود کو
شہنشاہ کہلواتے ہیں اپنی اِس حیثیت سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے انہوں نے
ایران سے باہر میری لینڈ میں ’’پہلوی شہنشاہیت ‘‘کی جلاوطن حکومت قائم کی
ہے اور اِسی تناظر میں وہ اپنی خط وکتابت میں سابقہ شہنشاہیت کے زمانے کا
ایران کا سرکاری نشان اور پرچم استعمال کرتے ہیں اس کے علاوہ انہوں نے اپنی
اِس حیثیت کو اِستعمال کرتے ہوئے کوشش کی ہے کہ وہ ایران کے سیاسی معاملات
پر اثر انداز ہو ں اکثر مواقعوں پر انہوں نے ایرانی عوام سے سوِل نافرمانی
کی درخواست کی ہے جب کہ گذشتہ سال ہونے والے انتخابی عمل سے بھی دور رہنے
کا حکم دیا تھا اِسی طرح پچاس سالہ جلا وطن بادشاہ محمد رضا پہلوی اور ان
کی جلا وطن حکومت کی جانب سے ایران میں اِنسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی
تشویش کا اِظہار کیا جاتا ہے، پولی ٹیکل سائنس میں اعلی تعلیم کے حامل
محمدرضا پہلوی کا یہ بھی خیال ہے کہ ایران کی آبادی کا دو تہائی حصہ جو تیس
سال کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے ان کا زبردست حامی ہے کیوں کہ انقلابِ
ایران کے بعد جوان ہو نے والی نسل میں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے
کا جذبہ موجود ہے اور اِ ن نوجوانوں کے ترقی اور جدیدیت کے خواب صرف اِن کی
حکومت میں ہی شرمندہ تعبیر ہو سکتے ہیں ۔
ایرانی ثقافت کو اپنی شناخت قرار دینے والے محمد رضا پہلوی نے دوران تعلیم
جیٹ فائٹر پائلٹ کی ٹریننگ بھی حاصل کی تھی یہی وجہ تھی کہ جلا وطن ہونے کے
باوجود انہوں نے 1980میں عراق کی جانب سے ایران پر حملے کے وقت جنگ میں
شریک ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جسے انقلابی حکومت نے رد کردیا تھا اس قسم
کے روئیے کے باوجود محمد رضا پہلوی کی جلا وطن حکومت ایران کی موجودہ
اسلامی حکومت کے خلاف کسی بھی غیر ملکی فوجی ایکشن کی ہمیشہ مخالفت کرتی
رہی ہے محمد رضا پہلوی جواس وقت امریکہ کی ریاست میری لینڈ کے شہر
Potomacمیں اپنی بیوی اور تین بیٹیوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں انہوں نے
13اپریل 2010کوجارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ایک لیکچردیتے ہوئے ایران کے
حالیہ انتخابات پر کڑی تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ دنیا عنقریب ایران میں
حقیقی جمہوریت کا دوبارہ عروج دیکھی گی ایک ایسا عروج جس میں مذہب کا
ریاستی معاملات میں کلیتاً دخل نہیں ہوگا اور یہ تبدیلی ایران کے اندر سے
ہی نمودار ہوگی اور یہی ان کی جلا وطن حکومت کا منشور بھی ہے جسے پارلیمانی
ملوکیت کااحیاء کہا جاسکتا ہے تاہم تین کتابوں کے مصنف جلا وطن بادشاہ محمد
رضا پہلوی کی شہنشاہیت کا دائرہ کار فی الحال انٹرنیٹ ، یو ٹیوب، بلاگ اور
فیس بُک تک محدود ہے۔
۳۔جمہوریہ چیچن اشکیریہ
(Chechen Republic of Ichkeria)
سوویت یونین اور چیچن عوام کے درمیان تنازعات کی طویل تاریخ ہے چیچنیا کو
اگرچہ روسی فیڈریشن کی جانب سے داخلی خودمختاری حاصل تھی لیکن1991میں جب
وسط ایشیائی ریاستیں آ زاد ہوئیں تو اِس دوران چیچنیا نے روسی فیڈریشن سے
مکمل آزادی حاصل کرنے کی جدو جہدشروع کردی اور ’’جمہوریہ چیچن اشکیریہ‘‘
قائم کرنے کا اعلان کردیا جو چیچن ریاست کی غیر تسلیم شدہ حکومت قرار پائی
اس حکومت کا اعلان حریت پسند رہنما ’’جوہر دودائیف‘‘ (Dzokhar Dudayev)نے
کیا تھا یاد رہے جوہر دودائیف نے سوویت یونین کی فضائیہ کی جانب سے جنگِ
اَفغانستان میں بھی حصہ لیا تھا تاہم انہوں نے 1990میں میجر جنرل کے عہدے
پر پہنچ کر روسی فضائیہ سے استعفیٰ دے دیا تھاا س کے بعد انہوں نے یونین سو
ویت سوشلسٹ ری پبلک (USSR) کے بالکل آخری ایام یعنی1991میں چیچنیا کے
انتخابات میں فتح حاصل کی تھی جس کے بعد انہوں نے سوویت یونین سے ازخود
علیحدگی اختیار کرلی اور جمہوریہ چیچن اشکیریہ کے قیام کا اعلان کیا اور اس
کے اولین صدر بن گئے اس عہدے پر وہ اپنے انتقال 21اپریل 1996تک فائز رہے
مجوزہ جمہوریہ چیچن اشکیریہ کا رقبہ ساڑھے پندرہ ہزار مربع کلو میٹر ہے اور
اس کا محل وقوع روسی فیڈریشن کے جنوب مشرق میں قفقاز (کوہ قاف)کے پہاڑی
علاقے میں ہے جب کہ اس کے اِطراف میں جارجیا، داغستان ، شمالی او سیتیااور
انگوشتیا کی ریاستیں واقع ہیں ۔
مسلم ریاست کی جانب سے اعلانِ آذادی پر روسی فیڈریشن نے سخت ردِعمل کا
اظہار کیا اور موقع ملتے ہی حالات کی درستگی کی آڑ میں چیچنیا میں فوجی
دستے اتار دئے اور ہنگامی حالت کا اعلان کردیا روسی فیڈریشن کے اِن اَقدام
کو چیچن حریت پسندوں نے رد کردیا اور مکمل خودمختاری کی تحریک شروع کردی تا
دم تحریر اس تحریک کے دوران دوطویل اور خوں ریز جنگیں 1994 اور 2000میں لڑی
جا چکی ہیں تاہم جب سال 2000 میں تیل اور دیگر معدنیات کی دولت سے مالا مال
اس علاقے کے اہم ترین شہر ’’گروزنی ‘‘پر روسی فیڈریشن نے جارحیت کرتے ہوئے
قبضہ کرلیا تو چیچنیا کی غیر تسلیم شدہ جمہوریہ اشکیریہ کی حکومت نے
جلاوطنی اختیار کرلی اورکئی اہم رہنما عرب ممالک، امریکہ، روس اور پولینڈ
میں روپوش ہوگئے تاہم اس دوران روسی فیڈریشن کے خلاف تحریک مزاحمت بھی جاری
رہی مزاحمتی تحریک کے دوران بل ترتیب ز یلم خان یاندریف،ا رسلان مسخادوف
اورشیخ عبدا لحلیم ’’ جمہوریہ چیچن اشکیریہ‘‘ کے صدور کی حیثیت سے خدمات
انجام دے چکے ہیں یاد رہے تیسرے صدر ارسلان مسخادوف(1997-2005)کے دورِ
صدارت میں سال 2000میں جلا وطن حکومت قائم کی گئی تھی جس کا ابتدائی
ہیڈکوارٹر کابل میں طالبان کے زیر اثر علاقے میں تھا۔
جنگ سے تباہ حال جمہوریہ اشکیریہ کی سیاست میں31اکتوبر2007کو اس وقت
بھونچال آیا جب ریاست کے پانچویں صدر’’دوکا عمروف‘‘ (Dokka Umarov)نے
’’عظیم قفقاز(کوہ قاف) اَمارات‘‘(Greater Caucasus Emirate) کے قیام کا
اعلان کیااس اَمارات کا مقصد شمالی قفقاز کے تمام علاقوں کو ایک اسلامی
ریاست میں تبدیل کرنا ہے چناں چہ دوکا عمروف نے جمہوریہ اشکیریہ کو مجوزہ
’’عظیم قفقاز اَمارات‘‘(Greater Caucasus Emirate)کی ایک
ولایت(Province)قرار دے دیا اور خود اس مجوزہ اَمارات کے اولین امیر بن گئے
اور اِس کے ساتھ ہی’’ خودمختارجمہوریہ چیچن اشکیریہ‘‘ کی تحریک مزاحمت سے
بھی دست بردار ہوگئے مگر جمہوریہ چیچن اشکیریہ کی جلا وطن حکومت کے
جانبازوں اور دیگر اہم رہنماؤں نے اس تحویز کو ماننے سے انکار کردیا اور’’
خودمختار جمہوریہ چیچن اشکیریہ‘‘ کے لئے جدوجہد جاری ر کھنے کا اعلان کیا
اس کے علاوہ انہوں نے دوکا عمروف کی جگہ جلا وطن حکومت کی باگ دوڑ لندن میں
مقیم زبردست صلاح کار’’ احمد زکایوف‘‘(Akhmed Zakayev) کے ہاتھوں میں دے دی
جو پیشے کے لحاظ سے اداکار ہیں اورماضی میں سابق صدر دوکا عمروف کی کابینہ
میں وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے خدمات اَنجام د یتے رہے ہیں تاہم عالمی اَمور
پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار جمہوریہ چیچن اشکیریہ کی جلاوطن حکومت پر
وزیر اعظم احمد زکایوف کی گرفت اور اثر و رسوخ کو قابل رشک قرار نہیں دیتے
اور شاید یہی وجہ ہے کہ سابق صدر ’’دوکا عمروف‘‘ کے حامی انہیں محض ’’ ٹیلی
فون گورنمنٹ کا سربراہ ‘‘ قرار دیتے ہیں تاہم وسط ایشیائی ریاستوں میں یہ
واحد جلا وطن حکومت ہے جو اسلامی تشخص کے ساتھ اپنی خود مختاری کی
جدوجہدجاری رکھے ہوئے ہے ۔
۴۔سرَبین جمہوریہ کراجینا
(Republic of Serbian Krajina)
خطہ بلقان سیاسی شورشوں اور جنگوں کی طویل تاریخ رکھتا ہے اِ نہی واقعات کا
تسلسل 1990کی دہائی میں بھی پیش آیا تھا جب مشرقی یورپ کا ملک یوگوسلاویہ
ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر مختلف ریاستوں میں تقسیم ہوگیا تھا ان ریاستوں میں
سے ایک ’’جمہوریہ کروشیا ‘‘کی ریاست بھی تھی جو8اکتوبر1991کو یوگوسلایہ سے
آزاد ہوئی قدرتی وسائل سے مالا مال جمہوریہ کروشیامیں غالب اکثریت کروشین
نسل(Croats) کے لوگوں کی ہے جو مذہباً کیتھولک عیسائی فرقے سے تعلق رکھتے
ہیں اور رومن چرچ سے وابستہ ہیں تاہم کروشیا کے سرحدی علاقوں میں آزادی کے
وقت آرتھوڈکس عیسائی فرقے سے تعلق رکھنے والے سرَب نسل کے لوگ بھی آباد تھے
جو یونانی چرچ سے وابستہ تھے ان سرَبوں نے خانہ جنگی کے دوران1991میں’’
سرَبین جمہوریہ کراجینا’’ کے نام سے ایک نیم خود مختار ریاست قائم کی تھی
جو 1995تک قائم رہی اس دوران سرَب باشندوں کی جانب سے سرَبین جمہوریہ
کراجینا کے لئے چار مرتبہ سربراہانِ ریاست بھی منتخب کئے گئے تاہم سابق
یوگوسلاویہ کی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی جمہوریہ کروشیا کے حکام اپنی
سرحدوں میں قائم سرَبین جمہوریہ کراجینا کو علیحدگی پسند باغیوں کا گڑھ
قرار دیتے تھے حالاں کہ جون 1993میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں 93فی صد
سرَبین باشندوں نے آزاد سرَبین جمہوریہ کرا جینا کے قیام کے حق میں ووٹ دئے
تھے اس واضح تائید کے باوجود جمہوریہ کروشیا کی اَفواج نے مجوزہ سرَ بین
جمہوریہ کراجینا پر حملہ کردیا اور 4سے 8اگست1995میں لڑی جانے والی جنگ کے
عرصے میں سرَبین جمہوریہ کراجینا کے علاقوں پر قبضہ کرلیا اس جنگ کو ’’
آپریشن اسٹارم‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
واضح رہے آپریشن اسٹارم سے قبل کر و شین حکام مختلف حیلے بہانوں اور
معاہدوں کی آڑ میں سرَبین جمہوریہ کر اجینا کی حکومت سے اسلحہ لے کر انہیں
نہتا کرچکے تھے بل کے اِس ضمن میں دونوں فریقو ں کے مابین یہ معاہدہ بھی طے
پایا تھا کہ جب علاقہ اسلحے سے پاک ہوجائے گا تو سرَبین جمہوریہ کراجیناکے
سرحدی علاقے کو اقوامِ متحدہ کی حفاظتی تحویل میں دے کر اس کے مستقبل کا
فیصلہ کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اس کے علاوہ دونوں متحارب گروپوں
میں اَمن کے لئے ایک منصوبہ بھی پیش کیا گیا تھا جسے کروشیا کے دارالحکومت
زغرب (Zagreb) کی مناسبت سے Z-4 Planکہا جاتا ہے اس منصوبے کے ضامن امریکہ،
روس، اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین تھے تاہم منصوبے پر عمل درآمد سے پہلے
ہی اِسے کروشین حکومت نے مسترد کردیا تھا اور اس کے فوراً بعد آپریشن
اسٹارم شروع کر کے جمہوریہ سرَ بین کراجینا کو ختم کردیا آپریشن اسٹارم کی
تباہ کاریوں کے بعد کروشیا میں واقع سرَبین عوام کی تحریکِ خود ارادیت
زمانے کے سرد وگرم کا شکار ہو کر محدود ہوگئی اور اِس کے سرگرم ر ہنما زیرِ
زمین چلے گئے تاہم دس سال بعد جمہوریہ سرَبین کراجینا کے رہنماؤں نے26فروری
2005میں’’آزاد جمہوریہ سرَبیا‘‘ کے دارالحکومت بلغراد میں’’ جمہوریہ سرَبین
کراجینا‘‘کی جلا وطن حکومت قائم کرنے کا اعلان کیاجس کے اولین صدرکا
منصبRajko Lezajicنے سنبھالا جب کہ وزیر اعظم کے لئے مشرقی کروشیا کے قضبے’’
بیلی ماناسٹر‘‘ (Beli Manastir)سے تعلق رکھنے والےMilorad Buhaکومنتخب کیا
گیااس دوران چھے رکنی کابینہ بھی تشکیل دی گئی اِس موقع پر سابقہ جمہوریہ
سرَبین کراجینا کے کم و بیش 40سابقہ اراکینِ پارلیمنٹ بھی موجود تھے دلچسپ
بات یہ ہے کہ کروشیا نے 8اکتوبر 1991میںیوگوسلاویہ سے آزادی کا اعلان
کیاتھا جب کہ اس سے قبل یکم اپریل1991کو’’جمہوریہ سرَبین کراجینا‘‘نے
جمہوریہ کروشیا سے آزادی کا اعلان کردیا تھا جس پر عمل نہ ہوسکا،قدیم
کروشیائی اور سرَبیائی زبان میں Krajinaکے معنی ’’ سرحد ‘‘ کے ہیں اِس
مناسبت سے کروشیا کی سرحدوں پر بسنے والے سرَب باشند وں نے اپنی جمہوریہ کا
نام ’’سرَبین جمہوریہ کراجینا‘‘ منتخب کیا ہے جس کا رقبہ 17,028مربع کلو
میٹر ہے۔
’’جمہوریہ سرَبین کراجینا‘‘ کی جلا وطن حکومت کے قیام پرخود سرَبوں اور
دیگر اَقوام کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے اور اِسے خطے میں امن کے قیام
کو ثبو تاژ کرنے کی سازش قرار دیا گیا ہے کروشین حکام کی جانب سے دس سال
بعد جلا وطن حکومت کے قیام کو بے وقت کی راگنی قرار دیا گیا ہے واضح رہے
سرَبوں اور کروشییوں کے درمیان وجہ تنازع قومیت، علاقائیت اورنسل پرستی ہے
اس کے علاوہ چوں کہ دنوں قوموں کا تعلق عیسائیت کے دو مختلف فرقوں ہے جو
تاریخی لحاظ سے ایک دوسرے کے مخالف ہیں لہذا اِس جنگ میں مذہبی عناد بھی
شامل ہے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سرَبین جمہوریہ کراجیناکی جلاوطن حکومت
آپریشن اسٹارم کے دوران ہونے والے مالی نقصان کے اَزالے کے لئے کروشیا سے
جھگڑ رہی ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ نقصان کی مَدمیں اُ سے 30بلین یورو ادا
کئے جائیں لیکن وہ شاید مطالبہ کرتے وقت یہ بھول گئے ہیں کہ ان کا تعلق
اُسی سرَبین نسل کے اَفراد سے ہے جنہوں نے متعصب اہلِ یورپ کی مدد سے مسلم
ریاست’’ بو سینیا ہرزگوو ینیا ‘‘میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا ان کی
زاتی اِملاک اور مساجد کو ملیامیٹ کردیا تھا اور سابق یوگو سلاویہ کی سب سے
خوش حال ریاست کو اجاڑ کر رکھ دیا تھااس تلخ حقیقت کے باوجو د جمہوریہ
سرَبین کراجینا کی جلا وطن حکومت کی سرگرمیاں جاری ہیں۔
۵۔نیشنل کولیشن گورنمنٹ یونین آف برما
(NCGUB)
سابقہ برما جس کا نیا نام ’’یونین آف میانمار‘‘ ہے4جنوری 1948میں برَطانیہ
سے تو آزاد ہوگیا لیکن محض بارہ سال بعد اپنے ہی محافظوں کی قید میں چلا
گیابرمی عوام تقریباً نصف صدی سے آمروں کے بوٹوں تلے کچلے جارہے ہیں1962میں
جنرل Ne Win اور اِس کے فوجی ٹولے نے منتخب صدرSao Shwe Thaik اور
وزیرِاعظم ’’ اونو‘‘(U Nu )کی جمہوری حکومت پر شب خون مارکر ملک کو سوشل
ازم کا گہوارہ بنانے کااعلان کیا تاہم ہوس اقتدار نے تمام وعدوں کو دھندلا
دیا جنرل اور اِس کے ساتھیوں نے دنیا کے سامنے اپنا جمہوری تشخص ثابت کرنے
کے لئے فوجی عہدوں سے استعفے د ے کر سویلین عہد ے حاصل کئے جس کے کچھ عرصے
بعد 1974میں ’’ برما سوشلسٹ پروگرام پارٹی‘‘(BSPP) کے قیام کا اعلان کیا
اور پھر فوراً نام نہاد الیکشن بھی کرائے گئے جس میں فوجی آمروں کی چھتری
تلے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت صرفBSPPکے نمائندوں کو تھی انتخابات کے
فوراً بعد ملک کا نام تبدیل کرکے’’ سوشلسٹ ری پبلک آف دی یونین آف برما
(SRUB)‘‘کردیا گیا اور نیا آئین بھی نافذ کردیا گیا آئین میں سال2008میں
مزید تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔
برما کے سیاسی ماحول میں زہرگھولتا یہ جمود اس وقت ٹوٹا جب برمی عوام اور
طالب علموں نے 8اگست1988 کو فوجی ٹولے کے خلاف مظاہرے شروع کئے( ان مظاہروں
کوتاریخ کی مناسبت سے 8888کے مظاہرے بھی کہا جاتا ہے) تاہم مظاہروں کا آہنگ
و رنگ اس وقت دوبالا ہوگیاجب1988میں ہی عظیم جمہوریت پسند خاتون رہنما
’’آنگ سوچی‘‘ لندن سے برما آئیں لندن میں وہ اپنی ڈاکٹریٹ کی تکمیل کے لئے
گئی ہوئیں تھیں برما پہنچتے ہی انہو ں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے
جدوجہدشروع کردی اِس مقصد کے لئے انہوں نے27ستمبر 1988میں’’نیشنل لیگ فار
ڈیموکر یسی ‘‘(NLFD)کے نام سے ایک پارٹی تشکیل دی جو مستقبل میں عوام کی
امنگوں کی آئینہ دار ثا بت ہوئی، عوام کے برانگیختہ ہوتے ہوئے جذبات سے ڈر
کر جنرل اور اس کے ساتھیوں نے اپنی ہی صفوں سے نئی کمک طلب کی اور راتوں
رات ’’جنرل سا میوانگ‘‘ اور’’ جنرل تھان شیوی‘‘ نے نام نہاد جمہوری حکومت
کو تہ تیغ کر کے مارشل لاء لگادیا اور اگلے تین ماہ میں انتخابا ت کے
اِنعقاد کے بعد جمہوری حکومت کے قیام کا وعدہ کیا آمروں کے اِس سیاسی حربے
سے عوامی مظاہروں میں ٹہراؤ آگیا لیکن عوام شاید یہ بھول گئے تھے کہ فوجی
بوٹوں کی چمک نئی ضرورتھی مگر ان سے پیدا ہونے والی دھمک کی گونج 26سال سے
قابض فوجی ٹولے جیسے ہی تھی۔
فوجیوں کی نام نہاد جمہوری حکومت پر فوجیوں ہی کے اِس بزدلانہ قبضے کے
فوراً بعد جنرلوں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے مارشل لاء لگادیا اور اس کالے
قانون کے تحت 20جولائی1989کو NLFDپارٹی کی جنرل سیکرٹری آنگ سو چی اور چیئر
مینU Tin Oo کو حق گوئی کی پاداش میں نظر بند کردیا البتہ عالمی دباؤ پر
فوجی ڈ کٹیٹر اور اس کے حواری1990میں ا نتخابات کرانے پر مجبور ہوگئے
انتخابات میںNLFD نے 494میں سے 392نشستوں میں کامیابی حاصل کر کے نہ صرف
عوام میں اپنی مقبولیت ثابت کی بل کہ فوجی طالع آزماؤں کی نیندیں بھی
اڑادیں اس متوقع کامیابی کے بعدNLFD نے آنگ سو چی کو وزارتِ عظمی کے لئے
نامزد کردیا لیکن نظر بند ہونے کے باعث ان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کردئے
گئے چناں چہ18دسمبر 1990کوNLFDنے حزبِ اِختلاف کی دیگرجماعتوں کے ساتھ مل
کر’ ’ نیشنل کولیشن گورنمنٹ یونین آف برما‘‘(NCGUB)کے نام سے پارٹی قائم کی
اِس اتحاد نے متفقہ طور پر آنگ سو چی کے فرسٹ کزنDr. Sein Winکو وزیر اعظم
کی نشست کے لئے نامزد کردیا(آنگ سو چی کے والد اوران کے کزنDr. Sein Winکے
والد کو فوجی آمروں نے آزادی کے فوراً بعد قتل کردیا تھا حالاں کے دونو ں
کا برما کی برطانیہ سے آزادی میں کلیدی کردار تھا) لیکن ڈکٹیٹروں نے حسبِ
روایات جمہوری قوتوں کو اِقتدار حوالے نہیں کیا اور نتائج سے گھبرا کر
سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی جس کے بعد جمہوریت پسند عوام اور فوجی ٹولے
کے درمیان پانچ سا ل تک جھڑپیں جاری رہیں ۔
1995میں آمروں کے جبر و استبداد کے خلاف جاری جدوجہد کے بعد نظر بند رہنما
آنگ سو چی کی ہدایت پرNLFD کے جلا وطن رہنماؤں نے سوئیڈن کے شہر’’
بومرسوک‘‘ میں ایک نمائندہ اجلاس منعقد کیا 16سے 23جولائی تک جاری رہنے
والے اس اجلاس میں پارٹی ہی کے نام سے جلا وطن حکومت ’’ نیشنل کولیشن
گورنمنٹ یونین آف برما (NCGUB)‘‘کے قیام کا اعلان کیا گیا اس اعلامیے کو ’’
بومرسوک ڈیکلئیریشن‘‘ کہا جاتا ہے جلا وطن حکومت کا منتہائے نظر برما کی
عالمی سطح پر شناخت اور واحد نظر بند نوبیل انعام یافتہ64سالہ خاتون رہنما
آنگ سو چی کو جبری نظر بندی سے رہائی دلانا ہے جس کا وہ شکارکم و بیش
گذشتہ15سال سے ہیں اس کے علاوہ برما میں ایک کثیر جماعتی جمہوری نظامِ
حکومت قائم کرنا ہے جلا وطن حکومت کی اِس جدوجہد کو عالمی سطح پر پذیرائی
اور حمایت حاصل ہے واضح رہے برما میں گذشتہ 18سال سے فوجی ڈکٹیٹر ’’جنرل
تھان شیوی‘‘ کی غیر آئینی حکومت ہے جو پچھلے جنرل Ne Winکی26سالہ آمرانہ
حکومت کا تسلسل ہے مہذب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے جنرل تھان
شیوی نے کابینہ بھی تشکیل دے رکھی ہے جس میں اِس کے منظورِ نظر اَفراد کی
اکثریت ہے اگرچہِ اس کابینہ میں جلا وطن حکومت کے بہت سے حامی رہنما بھی
موجود ہیں لیکن فوجی ٹولے کی جانب سے انہیں کوئی منصب نہیں دیا گیا ہے
دوسری جانب1990میں ہونے والے الیکشن میںNLFD کے 34 منتخب اراکین اسمبلی
امریکہ، انڈیا، آسٹریلیا، ناروے، تھائی لینڈ اور ہالینڈ میں جلا وطنی کی
زندگی گذار رہے ہیں برمی عوام کے لئے جمہوری جدوجہد میں کوشاں کثیر
الجماعتی جلا وطن حکومت کا موجودہ صدر دفتر امریکی ریاست میری لینڈ کی
’’راک ویلی‘‘ میں ہے جہاں وہ برما میں جمہوریت کی بحالی کے سرگرم عمل ہے
واضح رہے جلاوطن حکومت کو برما کے مسلم اکثریتی علاقے’’ اراکان‘‘ کے
’’روہینگا‘‘ نسل کے مظلوم مسلم عوام کی حمایت بھی حاصل ہے جو فوجی حکمرانوں
کے جورو ستم کے باعث کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔
۶۔لاؤ شہنشاہیت
(Monarchy of Lao)
جنوب مشرقی ایشیاء کے چاروں جانب خشکی سے گھرے ملک لاؤس میں مختلف خاندانوں
کی شہنشاہیت 1353سے 1975تک رائج رہی ہے تاہم موجودہ حدود اربع پر مشتمل ملک
لاؤس پر 1945سے 1975تک دو بادشاہوں نے حکومت کی جس کے مطابق بادشاہ
Sisavang Vongنے23 اپریل 1946سے 29اکتوبر 1959تک اورپھر ان کے بیٹے Savang
Vatthanaنے 30 اکتوبر 1959 سے2دسمبر1975تک لا ؤس پر حکمرانی کی تاہم
1975میں خانہ جنگی کے بعد کمیونسٹوں کی تحریک Pathet Laoنے بادشاہت کا یہ
سلسلہ ختم کردیا اور حکمران شاہی خاندان کومعزول کر کے جلا وطن کرد یا واضح
رہے تحریک کے دوران کمیونسٹوں کی پشت بانی سوویت یونین کررہا تھا تحریک کے
کامیاب ہوتے ہی کمیونسٹوں نے اپنی سیاسی پارٹی ’’ People's Revolutionary
Partyکے قیام کا اعلان کردیا جو اِس وقت بھی لاؤس کی واحد سیاسی جماعت ہے
اِس کے علاوہ انہوں نے ملک کا تاریخی نام لاؤس جس کے معنی ’’ہزاروں ہاتھیوں
کی سرزمین ‘‘کے ہیں تبدیل کرکے Lao People's Democratic Republic رکھ دیا ۔
معزول شدہ جلا وطن شاہی خاندان کا دعوی ہے کہ وہ عنقریب لاؤس میں دوبارہ
شہنشاہیت قائم کریں گے اور انتخابات کا اِنعقاد کر کے آئینی بادشاہت قائم
کریں گے جس کہ پہلو بہ پہلو اَصل اور پراَمن جمہوریت کا دور دورہ ہوگا اور
ہر فرد آزادی رائے سے لطف اندوز ہوسکے گااِس وقت لاؤس کے معزول شاہی خاندان
کے سربراہ شہزادہ Sauryavong Savangہیں جو 1984میں جلا وطنی کے دوران
انتقال کر جانے والے معزول بادشاہ Savang Vatthanaکے فرزند ہیں جب کہ ولی
عہد شہزادہ Soulivong Savangہیں جو ان کے کزن ہیں واضح رہے معزول شاہی
خاندان کی سربراہی میں لاؤس کی جلا وطن حکومت Royal Lao Government in
Exile امریکہ میں متحرک ہے جس کے وزیر اعظم اور چیئر مین مشہور وکیل رہنما
Khamphoui Sisavatdyہیں۔
۷۔پروگریسو پارٹی اِستوائی گنی
(Progress Party of Equatorial Guinea)
براعظم افریقہ کے وسط مغرب میں واقع ملک گنی اگرچہ ’’ اِستوائی گنی‘‘
کہلاتا ہے لیکن جغرافیائی لحاظ سے ملک کا کوئی بھی حصہ خطِ اِستواء کو نہیں
چھوتا محض خط اِستوا سے قربت کے باعث یہ نام پڑ گیا ہے رقبے اور آبادی کے
لحاظ سے براعظم کے مختصر ترین ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے اور دولت کی غیر
مساویانہ تقسیم کے باعث امیر و غریب میں فرق نمایاں ہے ہسپانوی نو آبادی کی
حیثیت سے 1968میں آزادی حاصل کرنے والایہ ملک براعظم افریقہ کے ان چند
ممالک میں سے ایک ہے جس کی سرکاری زبان ہسپانوی ہے گذشتہ برسوں میں تیل کے
وسیع زخائر کی دریافت نے عالمی سطح پرملک کی اہمیت دوچند کردی ہے تاہم
آزادی کے بعد سے ہی اِستوائی گنی سیاسی افراتفری کا شکار رہاہے بل خصوص
اولین صدرFrancisco Mac237as Nguemaکے ملک کو ایک جماعتی ریاست بنانے کے
فیصلے نے سخت نقصان پہنچایا جس کے بعد 3اگست 1979 میں صدر’’فرانسسکو
ماکیاس‘‘ ہی کے منتخب کردہ بریگیڈئیر جنرلTeodoro Obiangنے ان کی حکومت پر
شب خون مارا اور وہ خود ملک کے صدر بن گئے بعد ازاں نومنتخب آمر ’’ تیوڈور
واوبیا آنگ‘‘ نے معزول صدر’’فرانسسکو ماکیاس‘‘ پر نسل کشی کے الزامات لگا
کر انہیں فائرنگ اسکواڈ کے زریعے موت کے گھاٹ اتار دیا اس واقعے کے تین سال
بعد1982میں آمر’’ تیوڈورو اوبیا آنگ‘‘ نے صدارتی الیکشن منعقد کروا کر خود
پر سے ڈکٹیٹر کی چھاپ ختم کرنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے ہیں کیوں کہ
وہ 1982سے اب تک چھے نام نہاد انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے ملک کے
مسلسل صدر بنے ہوئے ہیں اور ہوس اقتدار میں مبتلا ہوکر بدترین ڈکٹیٹر کا
روپ دھار چکے ہیں ان کا دورِ حکومت مالی بے ضابطگیوں اورآمرانہ روش کا
آئینہ دار ہے جس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی بعض
تقاریر میں خود کو ’’خدا ‘‘ کے درجے پر فائزکیا ہے۔
صدرتیوڈورو اوبیا آنگ کے1982میں منتخب ہوتے ہی ان کے اہم ساتھی اور
مشہورسیاسی رہنما Severo Moto Nsaسے سیاسی اِختلافات شروع ہوگئے ’’ سیورو
موٹونسا ‘‘ پچھلے صدر’’ فرانسسکو میکاس‘‘کے دورِ حکومت میں بھی مختلف سیاسی
عہدوں پر فائز رہے چکے تھے صدرتیوڈور اوبیاآنگ سے سیاسی اختلافات کے باعث
انہوں نے اپنی سیاسی جماعت’’ پروگریسو پارٹی آف ایکیٹوریل گنی‘‘(PPEG) کے
قیام کا اعلان کیا جو بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئی لیکن یہ مقبولیت پارٹی
کے قائد’’ سیورو موٹونسا‘‘ کے لئے پریشانی کا آغازثابت ہوئی اور وہ جلد ہی
آمر ’’اوبیانگ ‘‘کے زیر عتاب آگئے چناں چہ انہوں نے 1986میں اسپین میں
سیاسی پناہ حاصل کرنے کے بعد اپنی پارٹی ہی کے نام سے اِستوائی گنی کی جلا
وطن حکومت قائم کرلی جس کے وہ اولین صدر بھی ہیں تاہم بعض وجوہات کے باعث
ہسپانوی حکومت نے جنوری 2006میں ان کی سیاسی پناہ ختم کردی جس پر انہوں نے
اپیل دائر کردی مارچ 2008میں اسپین کی سپریم کورٹ نے ان کی سیاسی پناہ بحال
کردی فیصلے کے کچھ ہی دنوں بعد ’’ سیورو موٹو نسا‘‘ کو ہسپانوی حکومت نے
اسلحے کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کرلیا جس کی تحقیقات جاری ہیں تاہم
’’سیوروموٹونسا‘‘ کی زیر قیادت میڈرڈ اسپین میں اِستوائی گنی کی جلاوطن
حکومت بہت فعال ہے ان کی جماعت کے بہت سے اراکین سخت پابندیوں کے باو جود
اِستوائی گنی کی سیاست میں سرگرم ہیں اور جمہوریت کے بحالی کے لئے یکسو
ہیں۔
۸۔کراؤن کونسل آف ایتھوپیا
(The Crown Council of Ethiopia)
براعظم افریقہ کا ملک ایتھوپیاقدیم ترین آباد علاقوں میں سے ایک ہے تاریخی
روایات کے مطابق یہاں ایک ہزار قبل مسیح سے 1974تک شہنشاہیت رہی ہے مختلف
اَدوار میں حکومت کرنے والے تمام بادشاہ خود کو حضرت سلیمانؑ اور ملکہ سبا
(بلقیس)کی اولاد قرار دیتے ہیں ایتھوپیا میں اب تک کی آخری شہنشاہیت’’ ھیلا
سلاسی‘‘) (Haile Selassie سلسلے کی تھی جو ’’ ھیلا سیلاسی اول‘‘ نے 1930میں
ملکہ Zewditu I سے حاصل کی تھی اگرچہ بادشاہت کا یہ سلسلہ اٹلی کے ایتھوپیا
پر قبضے کے دوران 1936 سے 1941تک موقوف رہا تاہم محض پانچ سال بعد جلا وطن
بادشاہ ’’ ھیلا سلاسی اول‘‘نے برطانیہ کی مدد سے ایتھوپیا کا تخت سنبھال کر
آئینی بادشاہت کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیاھیلا سلاسی اول جن کااصل نام’’Lij
Ras Tafari Makonnen‘‘ تھا وہ اِس منصب پر 12ستمبر1974تک فائز رہے اِن کے
نام سے ایک عیسائی مذہبی تحریک’’ راستا فارین‘‘(Rastafarian) بھی موجود ہے
جس کے زیادہ تر ماننے والے بحیرہ کیریبین میں واقع جزیرے جمیکا میں آباد
ہیں۔
واقعات کے مطابق جب1974میں کمیونزم سے متاثر ہ فوجی اَفسران کی
تحریک’’Derg‘‘نے زور پکڑاتو’’ ھیلا سلاسی‘‘ شہنشاہیت کی بساط بھی لپیٹ دی
گئی اور آئینی طور پرشہنشاہیت کا سلسلہ ختم کرکے شہنشاہ اوردوسابق وزراء
اعظم کو پابند سلاسل کردیا گیاجب کہ شاہی حکومت سے متعلق زیادہ تر افراد کو
ہلاک کردیا گیا، اختیارات حاصل ہوتے ہی نظامِ مملکت لینن اور مار کس نظریے
کے تابع کرنے کااعلان کردیا گیا اِس دوران شہنشاہ ھیلا سلاسی اول اگست
1975میں ہی دورانِ قید وفات پاگئے جب کہ شاہی خاندان کے دیگر افراد جلا وطن
کردئے گئے۔
1987میں تیرہ برس بعد Dergتحریک کی قائم کردہ حکومت بھی کمیونزم کے زوال کے
ساتھ ختم ہوگئی اور اب ایتھوپیا میں’’عوامی انقلابی جمہوری ایتھوپین
محاذ‘‘(EPRDF) کی حکومت ہے اور ملک کا نام’’ وفاقی جمہوری جمہوریہ
ایتھوپیا‘‘(FDRE) رکھ دیا گیا ہے موجودہ صد ر Girma Wolde-Giyorgis
Luchaہیں اس دوران8 اپریل1988کو جلا وطن ولی عہدAmha Selassieنے لندن میں
جلا وطن حکومت بنانے کا اعلان کردیا جس کے ساتھ ہی انہوں نے شاہی کونسل بنا
کر اِس کا نام The Crown Council of Ethiopiaرکھا دیا اِس کے علاوہ انہوں
نے جلا وطنی ہی میں اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا ایک سال بعد وہ واشنگٹن
منتقل ہوگئے17جنوری 1997کو ان کا جلا وطنی میں انتقال ہوگیاجس کے بعد اِن
کے بیٹے اور ولی عہد Zere Yacob Amha Selassieکو شاہی خاندان کا سربراہ بنا
دیا گیا چوں کہ وہ ایتھوپیا کے دارلحکومت’’ عدیس ابابا‘‘ میں رہائش پذیر
ہیں لہذا ملکی قوانین کے تحت بادشاہت کا اعلان کرنے سے قاصر ہیں اس لئے
انہیں ابھی ولی عہدہی پکاراجاتا ہے تاہم جلا و طن حکومت کے پہلے بادشاہ’’
اماہ سیلاسی‘‘نے اپنی موت سے قبل1993میں ہی اپنے بھتیجے اور شہزادے’ ’
ارمیازصالح سیلاسی‘‘) (Ermias Sahle-Selassieکو جلاوطن شاہی کونسل کا صدر
منتخب کردیاتھا اس کونسل کا بنیادی کام شاہی سلسلے کی حفاظت ہے اس کونسل کا
یہ بھی دعوی ہے کہ وہ ایتھوپیا کی اصل بادشاہت کے امین ہیں اور ملک میں
آئینی بادشاہت بحال کرانے میں مصروف عمل ہیں15مارچ2005کو ولی عہدZere Yacob
Amha Selassie نے شہزادے ’ ’ ارمیاز صالح سیلاسی‘‘کی بطور چیئر مین اور
بطورصدر شاہی کونسل توثیق کی ہے جن کی سربراہی میں واشنگٹن میں قائم’’
جلاوطن شاہی کونسل برائے ایتھوپیا‘‘ آئینی بادشاہت کی بحالی کے لئے رائے
عامہ ہموار کر نے میں مصروف ہے اس مقصد کے حصول کے لئے ان کا سب سے اہم
ہتھیار فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے جو وہ ایتھوپیا
کے اندر اور بیرون ملک رہائش پذیر ایتھوپین عوام کے لئے کررہے ہیں ۔
۹۔ری پبلک آف کابندا
(Republic of Cabinda)
’’جمہوریہ کابندا‘‘ جو سیاسی لحاظ سے جمہوریہ انگولا کا شمالی صوبہ کہلاتا
ہے برا عظم افریقہ کے وسط مغربی حصے میں واقع ہے جس کی جنوبی اورمشرقی
سرحد’’ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو ‘‘(DRC)سابقہ زائر سے اور شمالی سرحد ’’
ری پبلک آف دی کانگو‘‘سے ملتی ہے جب کے مغربی سمت پر بحیرہ اوقیانوس کا
کنارہ ہے اس لحاظ سے ’’ کابندا ‘‘ ایک ایسا علاقہ ہے جس کی سرحدیں اپنے ملک
کے بجائے دوسرے ممالک سے ملتی ہیں )ایسے علاقے کو جس کی سرحدیں اپنے ہی ملک
کی سرحدوں سے نہیں ملتیEnclave Territoryکہا جاتا ہے بالکل اس طرح جیسے
سابقہ مشرقی پاکستان کی سرحدیں مغربی پاکستان سے جغرافیائی لحاظ سے نہیں
ملتی تھیں(اس جغرافیائی تقسیم اور ماضی کے سیاسی واقعات کی بنیاد پر ’’کا
بندا ‘‘کے عوام جمہوریہ انگولا سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں اس حوالے سے ان کا
دعوی ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے ’’کا بندا ‘‘کبھی بھی جمہوریہ انگولا کاحصہ
نہیں رہا کیوں کہ ’’کابندا ‘‘اور جمہوریہ انگولا کے درمیان میں DRکانگوکا
سا ٹھ کلو میٹر وسیع علاقہ اور دریائے کانگو بہتا ہے وسری جانب ’’کا بندا
‘‘کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ سیاسی لحاظ سے ’’کا بندا ‘‘کا علاقہ1883سے
پرتگال کی علیحدہ تشخص کی حامل نوآبادی تھا اور کابندا کی عوام نے
بھی1960کی دہائی میں انگولاکے شانہ بشانہ پرتگا لیوں سے آزادی کی تحریک
شروع کی تھی لیکن جب 1975میں انگولا نے پرتگال سے آزادی حاصل کی توجمہوریہ
انگولا نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’کا بندا ‘‘کو علیحدہ آزادتشخص دینے
کے بجائے اس پر غا صبانہ طریقے سے قبضہ کرلیا یہ قبضہ نومبر 1975میں انگولا
نے سوویت یونین، کیوبا اور پرتگالی کمیونسٹوں کی مدد سے کیا تھا تاہم
پرتگال سے آزاد ہوتے ہی’’کا بندا ‘‘کی عوام نے جمہوریہ انگولاسے آزادی کا
اعلان کردیا لیکن ان کی یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی چناچہ ’’ کابندا‘‘ کے
علیحدگی پسند وں کے ایک گوریلا گروپ نے جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے پڑوسی
ملک DRکانگو میں’’ جمہوریہ کابندا‘‘(Republic of Cabinda)کی جلا وطن حکومت
قائم کرلی یہ عسکری گروپ’’ فرنٹ آف لبریشن آف دی انکلیو آف
کابندا(FLEC)‘‘کے نام سے شناخت رکھتا ہے اور جمہوریہ انگولا میں عسکری
کارروائیوں اور اغوا کی وارداتوں میں بھی ملوث ہے ایسے ہی ایک واقعے میں
8جنوری2010کو ’’ٹونگو ‘‘کی فٹبال ٹیم جو ’’افریقین کپ آف نیشن ‘‘میں شرکت
کے لئے انگولا آئی ہوئی تھی اس کی بس پر FLECکے گوریلوں نے حملہ کر کے
اسسٹنٹ کوچ ، ٹیم آفیشل اور بس ڈرائیور کو ہلاک کردیا تھا۔
’’جمہوریہ کابندا‘‘کی جلا وطن حکومت کو’’ ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو‘‘ (DR
Congo)کی حمایت حاصل ہے جس کے دارلحکومت’’کنشاسا‘‘ میں جلا وطن حکومت کا
ہیڈکوارٹر قائم ہے تاہم’’ کابندا‘‘ کی جلا وطن حکومت کے صدرNzita Henriques
Tiago پیرس میں رہائش پذیر ہیں Loyoقبیلے سے تعلق رکھنے والے جلا وطن صدر
کی جانب سے ’’ کابندا‘‘کا علامتی پاسپورٹ ، ڈاک ٹکٹ ، شناختی کارڈ اور
کرنسی (Ibinda) کا اجراء کیا گیا ہے ’’ڈی آر کانگو‘‘ کی جانب سے ’’
کابندا‘‘کی جلا وطن حکومت کی حمایت پر جمہوریہ انگولا اور DR کانگو کے
درمیان آئے دن جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں جمہوریہ انگولا کی جانب سے ’’
کابندا‘‘پر قبضے کی بنیادی وجہ علاقے کا ہیروں اور پیٹرول کی دولت سے مالا
مال ہوناہے واضح رہے ’’کابندا ‘‘کے ساحلی علاقوں میں پورے انگولا کا5 6فیصد
تیل پایاجاتا ہے جو نولاکھ بیرل روزانہ کے لگ بھگ بنتا ہے پیٹرول کی یہ
مقدار پورے براعظم میں دوسرے نمبر پر شمار کی جاتی ہے اور اِسی بناء
پر’’کابندا ‘‘کو ’’ افریقہ کا کویت‘‘ بھی کہا جاتا ہے لیکن بد عنوانیوں اور
حکومت کی تعصب پر مبنی پالیسوں کے باعث ’’کابندا ‘‘کا شمار جمہوریہ انگولا
کے غریب ترین علاقوں میں ہوتا ہے یہ احساس محرومی بھی ’’جمہوریہ کابندا
‘‘کی جلا وطن حکومت کے قیام کی ایک اہم وجہ ہے۔
۱۰۔بیلا رسین نیشنل ری بپلک
(Belarusian National Republic)
مشرقی یورپ میں واقع’’ بیلا رسین نیشنل ری پبلک ‘‘کی جلا وطن حکومت1918سے
قائم ہے اس لحاظ سے یہ دنیا کی قدیم ترین جلا وطن حکومت کا اعزاز بھی رکھتی
ہے پہلی جنگ عظیم کے بعد جب روس کا وسیع رقبہ جرمنی کے حوالے کردیا گیاتو
بیلا روس بھی اس میں شامل تھا لیکن جب اس علاقے سے جرمنی کا انخلا ہوا تو
بیلا روس کے عوام نے’’ بیلا رسین ڈیموکریٹک ری پبلک‘‘ کے نام سے علیحد ہ
مملکت کی داغ بیل ڈال دی جس کے پہلے صدر مشہور مصنف Jan Sieradaکو بنایا
گیاتاہم1919میں سوویت یونین کی ریڈ آرمی نے علاقے پر قبضہ کرلیا اور علاقے
کا نام’’ سوویت سوشلسٹ ری پبلک آف بیلاروس‘‘ (SSRB)رکھ دیا گیا جسے مقامی
حکومت نے اپنی خودمختاری میں مداخلت قرار دیا تاہم ردِعمل میں ریڈ آرمی نے
پکڑ دھکڑ شروع کی تو مقامی انتظامیہ نے پڑوسی ملک لتھونیا کے دارلحکومت
Vilnius منتقل ہو کر ’’جلا وطن حکومت بیلا رسین نیشنل ری پبلک‘‘کے قیام کا
اعلان کردیاجس کے بعد جلا وطن حکومت چیک ری پبلک سابقہ چیکو سلاواکیہ کے
دارالحکومت’’ پراگ‘‘ میں منتقل ہوگئی اس وقت جلا وطن حکومت کی سرگرمیاں
کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں جاری ہیں اور حکومت کی باگ دوڑ موجودہ چیئر پرسن
خاتون رہنماIvonka Survilla کے ہاتھو ں میں ہے جو 1997سے اس عہدے پر فائز
ہیں اور جلاوطن حکومت کی 1918کے بعد سے چھٹی سربراہ ہیں74سالہ خاتون رہنما
کی سربراہی میں جلاوطن حکومت کے معاملا ت چلانے کے لئے ایک 14رکنی کونسل
بھی ہے جسے Radaکہا جاتا ہے جب کے جلا وطن حکومت کا دارالحکومت ’’پراگ‘‘
میں ہے ’’ بیلا رسین نیشنل ری پبلک ‘‘کی جلا وطن حکومت کو عالمی سطح پر
خاصی پذیرائی حاصل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*جلا وطن حکومتیں اوران کی اقسام
بنیادی طور پر تین قسم کی جلا وطن حکومتیں پائی جاتی ہیں جن میں ایک وہ
حکومت ہوتی ہے جس کے دعوے دار دَرحقیقت اس ملک کے سابقہ حکمران ہوتے ہیں
لیکن نئے حکمرانوں کی جانب سے معزول (Deposed Government)کر کے بیرونِ ملک
منتقل کردئے جاتے ہیں تاہم وہ اپنی معزولیت کو نہ مانتے ہوئے خود کو
حکمرانی کا قانونی وارث قرار دیتے ہیں اور دوبارہ عروج حاصل کرنے کی تگ و
دومیں لگے رہتے ہیں دوسری جلا وطن حکومتیں وہ ہوتی ہیں جن کو عوام یا سیاسی
رہنماؤ ں کا وہ گروہ تشکیل دیتا ہے جو سیاسی یا نظریاتی بنیاد پر اپنی
حکومت سے ناراض ہوکر جلاوطن ہو جانے کے بعد ملک سے علیحدگی(Separatist
Government) کی تحریک شروع کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے جلاوطن
حکومت تشکیل دیتے ہیں جلا وطن حکومت کا تیسرا گروہ وہ ہوتا ہے جو عموما
حزبِ اِختلاف سے تعلق رکھتے ہیں اورحکمرانوں کے روئیوں سے دلبرد اشتہ ہوکر
ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تاہم اِن کے حامی سیاستدان اسمبلیوں میں
موجود ہوتے ہیں اور اس دوران وہ اپنی جلاوطن قیادت کی رہنمائی میں ایک
متوازی حکومت (Alternative Governments)بنا کر جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔
*ماضی کی کامیاب جلا وطن حکومتیں۔
پہلی جنگ عظیم سے قبل اور دوسری جنگ عظیم کے دوران اور پھر اس کے بعد جنگوں
کے باعث جب یورپ کا نقشہ تبدیل ہوا تو اس دوران بیلجئیم،چیکوسلاوک،فری
فرانس،یونان، لکسمبرگ،نیدرلینڈ، ناروے،پولینڈ،یوگوسلاویہ، دولت مشترکہ
فلپائن اور کئی ممالک کی جانب سے مختلف ممالک میں جلا وطن حکومتیں قائم کی
گئی ان جلا وطن حکومتوں میں سے بیشتر کا تعلق شاہی خاندانوں کے حکمرانوں سے
تھاجو دوبارہ حکم رانی کا خواب دیکھ رہے تھے ان میں چند کامیاب جلا وطن
حکومتوں کا احوال درج ذیل ہے۔
انگلینڈ،اسکاٹ لینڈاورآئرلینڈکے بیک وقت بادشاہ چارلس دوئم کوخاندانی
چپقلشوں کے باعث 1649سے 1660تک فرانس میں جلا وطن ہونا پڑا جہاں اس نے’’
خفیہ جلاوطن شاہی حکومت ‘‘ (Privy Council of England) قائم کر کے تخت کے
لئے کامیاب جدوجہد جاری رکھی بعد ازاں 1960سے 1685تک تینوں ریاستوں کا بلا
شرکت غیرے مالک رہا اسی طرح ولندیزیوں کی جلا وطن حکومت1795سے1814تک لندن
میں ’’جلا وطن حکومت برائے جمہوریہ ڈچ ‘‘کے نام سے تھی جسے فرانس کے قبضے
کے بعد شہزادے ولیم پنجم نے تشکیل دی تھی جو معاہدہ ویانا کے بعد ’’ کنگڈم
آف نیدر لینڈ‘‘ بننے کے ساتھ ختم ہوگئی،1904میں جاپان کے جزیرہ نما کوریا
پر قبضے کے بعد’’ عارضی حکومت برائے جمہوریہ کوریا‘‘کے نام سے ایک جلاوطن
حکومت 1919 سے 1948تک چین میں مصروف عمل رہی بعد ازاں دوسری جنگ عظیم میں
جاپان کی شکست کے بعد ’’پہلی حکومت برائے جمہوریہ جنوبی کوریا‘‘ کے نام سے
نئے سفر کی جانب گامزن ہوگئی، الجزائر کی فرانس سے جنگ آزادی جو
1954سے1962تک جاری رہی اس کے دوران 1958 میں’’عارضی حکومت برائے جمہوریہ
الجزائر‘‘کے نام سے مصر میں جلا وطن حکومت قائم رہی کامیابی سے ہم کنار
ہونے والی اِس حکومت کی سربراہی حریت پسند رہنما فرحت عباس کے ہاتھوں میں
تھی جوبعد اَزاں صدر کے رتبے پر بھی فائز ہوئے ، دوسری جنگ عظیم کے
بعدسوویت یونین سے آزادی کے لئے شمالی یورپ کے ملک’’ جمہوریہ اسٹونیا ‘‘کی
جلا وطن حکومت سوئیڈن میں قائم کی گئی 1953 میں قائم کی جانے والی اِس
حکومت کی جدوجہد 1992 میں آزادی تک جاری رہی، اسپین کے آمر’’
فرانسسکوفرانکو‘‘کے غاصبانہ قبضے کے خلاف 1939سے اس کی موت 1977تک’’ جلا
وطن حکومت برائے جمہوریہ ہسپانیہ‘‘ قائم کی گئی جو ’’ جمہوریہ ہسپانیہ
دوئم‘‘ کا تسلسل تھی جس کی سرگرمیوں کا مرکز پہلے فرانس پھر میکسیکو سٹی
تھا تاہم اِس دوران آئینی بادشاہت موجود تھی1978میں جمہوریت کی بحالی کے
بعد اسپین کے بادشاہ ’’ جو آن کارلوس اول‘‘نے جلا وطن حکومت کی خدمات کے
اعتراف میں اس کے اکابرین کا وطن واپسی پر شاندار اِستقبال کیاتھا، پہلی
جنگ عظیم کے بعد یوکرائن کے علاقے پر کئی ممالک کا دعوی تھاتاہم روس نے
جب1920میںیہاں پر اختیارات حاصل کئے تو یوکرائن کی عوام نے Ukrainian
National Republicکے نام سے جلا وطن حکومت ابتدائی طور پر’’ وارسا‘‘ اور’’
پراگ‘‘ بعد ازاں پیرس میں قائم کی جو زوالِ سوویت یونین کے بعد 1992میں
عوامی جمہوریہ یوکرائن میں تبدیل ہوگئی اِس کے آخری صدر Mykola Plaviukتھے
انڈونیشیا کے مسلم اکثریتی صوبے’’ آچے‘‘ میں تقریبا تیس سال تک مختلف
وجوہات کی بناء پر انڈونیشیا سے علیحدگی کی تحریک چلتی رہی ہے تاہم جب
2005میں عالمی قوتوں نے متحارب قوتوں کے درمیان امن معاہدے کرایا تو اس کے
ساتھ ہی 1976سے سوئیڈن میں قائم’’آچے سماٹرا نیشنل لیبریشن فرنٹ‘‘)
(ASNLFکی جلاوطن حکومت کا بھی خاتمہ ہوگیا اور ان کے مرکزی رہنما84سالہ
’’محمد حسن دی تائیرو‘‘نے تیس سال بعد اپنی سرزمین پر قدم رکھا اس کے ساتھ
ہی آچے کو انڈونیشیا کا نیم خود مختار علاقہ قرار دے دیا گیا،2اگست1990کو
جب عراق نے کویت پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا تو کویت کے امیر’’ شیخ الاحمدآل
جابرآل صباح ‘‘اور ان کے رفقاء سعودی عرب منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے دہران
میں کویت کی جلا وطن حکومت قائم کرلی ان کی جانب سے تشکیل دی گئی اس جلا
وطن حکومت نے یورپی ممالک کو عراق کے خلاف متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا
جس کے نتیجے میں وہ مارچ1991کو دوبارہ تخت نشین ہوگئے۔
*جارجیا ۔ سبق نہیں سیکھا
پہلی جنگ عظیم کے بعد1918میں روس کی جنوبی سرحد کے ساتھ واقع ’’کاکیشین‘‘
خطے کے ملک جارجیا کی عوام نے’’ ڈیموکریٹک ری پبلک آف جارحیا‘‘ کے قیام کا
اعلان کیا تاہم جب سوویت یونین نے 1921میں جارجیا پر قبضہ کرلیا تو جارجین
قوم پرستوں نے فرانس منتقل ہو کر جلا وطن حکومت قائم کرلی جو 1954تک قائم
رہی اگرچہ جارجیا جو خود ماضی میں سوویت یونین کی جارحیت کا شکار رہے چکا
تھا اس نے زوالِ سوویت یونین کے بعد یہی عمل اپنے دو صوبوں ’’جنوبی اوسیٹیا
‘‘اور’’ ابخازیا ‘‘ کے ساتھ روا رکھا اور ان کی جانب سے 1991-92میں علیحدگی
کی تحریک کو بزورِ قوت کچلنے کی کوشش کی اور جب بہ امر مجبوری انہیں
خودمختاری دینی پڑی توخودمختاری کو رَد کرتے ہوئے چندافراد کے زریعہ دونوں
صوبوں کی جلا وطن حکومت قائم کردیں جن میں 1993 میں’’ خود مختار حکومت
برائے جمہوریہ ابخازیا‘‘ اور 2008میں’’عارضی انتظامی حکومت برائے جنوبی
اوسیٹیا‘‘ شامل ہیں ان جلا وطن حکومتوں کے مرکزی دفاتر جارجیا کے دارلحکومت
تبیلیسی (Tbilisi) میں ہیں۔
*ہوائی ۔جب سپر پاور نے گھٹنے ٹیکے۔
بحرالکاہل میں واقع مختلف جزائر پر مشتمل علاقے ہوائی کو امریکہ نے 1900میں
توسیع پسندانہ عزائم کے تحت اپنی ملکی حدود میں شامل کیا تھاجس کے بعد
1959میں اسے اپنی پچاسویں ریاست کا درجہ بھی دے دیا 1900 سے قبل کے تاریخی
واقعات کے مطابق1893میں’’ جزیرہ ہوائی‘‘ پر ملکہLiliuokalani کی شاہی
حکومت(Kingdom of Hawaii) تھی جو ہوائی کی قدیم رنگارنگ ثقافت کی آئینہ دار
تھی اِس پراَمن شاہی حکومت کو جب غیر مقامی یورپی، امریکی اور ان کے زیر
اثر مشنریوں اور مفاد پرست کاروباری ٹولے نے بزورِ قوت ختم کرکے ’’جمہوریہ
ہوائی‘‘بنانے کا اعلان کیا اور ملکہ کو نظر بند کردیا تو ملکہ کے حامیوں
نے’’کنگڈم آف ہوائی‘‘ کے نام سے واشنگٹن میں جلا وطن حکومت قائم کرلی جو
1895تک موثر رہی اگرچہ اِس دوران امریکہ کے صدر Grover Clevelandنے کنگڈم
آف ہوائی کو بحال کردیا لیکن وہ اس پر عمل کروانے میں ناکام رہے تاہم اِس
دوران جزائر ہوائی کے اصل باشندے اِس حکم پر عمل درأمد کرانے کے لئے مختلف
محاذوں پر کو ششیں کرتے رہے بالاآخر اِن کی کوششیں اس وقت رنگ لائیں جب
امریکہ کی جانب سے’’ کنگڈم آف ہوائی‘‘ کو معزول کئے جانے کے ٹھیک سوسال بعد
1993میں بحال کردیا گیا اور تخت کے وارث Akahi Nui کی روائتی طریقے سے تاج
پوشی کی گئی سابق صدر ’’بل کلنٹن‘‘ کے دستخطوں سے منظور کردہ اس قرارداد
میں ہوائی کے عوام سے غاصبانہ قبضے پر نادم ہو کرمعافی مانگی گئی ہے یہ
معافی نامہ تاریخ کے صفحوں میں Apology Resolution کے نام سے محفوظ ہوچکا
ہے اگرچہ یہ محض رسمی بحالی ہے لیکن امریکہ کی تاریخ کی واحد مثال ہے جب
امریکی انتظامیہ نے کسی سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد اس عمل پرتحریری طور پر
معافی مانگی ہے ۔
*عارضی حکومت آزاد ہند
(Provisional Government of Free India)
غیر منقسم ہندوستان میں برطانیہ کے تسلط سے آزادی کے لئے ہندوستانی قوم
پرستوں نے ’’عارضی حکومت آزاد ہند‘‘(Provisional Government of Free
India)کے نام سے منسوب جلا وطن حکومت 21اکتوبر 1943میں سنگاپور میں قائم کی
تھی جس کی باگ دوڑ اِنقلابی رہنما ’’سبھاش چندرابوس‘‘ کے ہاتھوں میں تھی
جلاوطن حکومت کو جاپان کی شاہی اَفواج کی حمایت بھی حاصل تھی جس کے سپاہیوں
نے اِن کے شانہ بشانہ برطانوی ہند اَفواج کے خلاف برما میں جنگ میں بھر پور
حصہ لیا تھا جلا وطن حکومت کی اَفواج میں خواتین کی بھی ایک رجمنٹ تھی جس
کا نام ’’جھانسی کی رانی ر جمنٹ ‘‘ تھا اس رجمنٹ کی کمانڈخاتون ڈاکٹر
Lakshmi Sehgal کے پاس تھی جو اِس زمہ داری سے قبل سنگاپور کی صفِ اول کی
ماہر امراضِ نسواں کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتی تھیں اِس عارضی جلا وطن
حکومت کی تیرہ رکنی کابینہ بھی تھی اور اپنی کرنسی، عدلیہ اور ترانہ بھی
تھا،تاہم جلا وطن حکومت کا مرکز سبھاش چندرا بوس کی زات تھی چناں چہ جب
18اگست1945میں ان کی تائیوان سے روس جاتے ہوئے جہاز کے حادثے میں موت کی
خبر آئی تو اس کے ساتھ ہی جلا وطن حکومت بھی عملاً ختم ہوگئی حالاں کہ
سبھاش چندرا بوس کی موت کی ابھی تک تصدیق نہیں ہوسکی ہے تاہم سبھاش چندرا
بوس کی سرکردگی میں قائم اِس عارضی جلا وطن حکومت اور شاہی جاپانی اَفواج
نے باہم مل کر قابض برطانوی حکام کو جزائر انڈیمان، نکوبار، ناگا لینڈ اور
منی پور کے علاقوں میں ناکو ں چنے چبوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور
ان کے جذبہ حریت نے ہندوستان سے برطانیہ کے انخلا میں اہم کردار ادا کیا
تھا۔
’’عارضی حکومت آزاد ہند‘‘ کے علاوہ پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی آزاد ہندوستان
کے لئے ایک جلا وطن حکومت(Provisional Government of India) بنائی گئی تھی
جس کا مرکز کابل تھا یکم دسمبر1915کوتشکیل دی گئی اس حکومت میں’’ انقلابی
سوچ کے حامل راجہ مہندرا پرتاب( صدر)، مولانا برکت اللہ بھوپالی(وزیر اعظم)
اور مولانا عبید اللہ سندھی( وزیر داخلہ) جیسے صاحبِ عزم لوگ تھے اگرچہ
امیر افغانستان کی عدم توجہی کے باعث یہ جلا وطن حکومت کامیابی سے ہمکنار
نہ ہوسکی تاہم قابض برطانیہ سے متحدہ ہندوستان کے لئے آزادی کی جوت جگانے
میں اس جلا وطن حکومت کا اہم کردار ہے اور یہ غالبا دنیا کی واحد جلا وطن
حکومت تھی جس کے رہنماؤں نے نامساعد حالات کے باوجود اپنے مشن کی تکمیل کے
لئے دوردراز کے سفر کئے اور اس وقت کے سرکردہ عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں
کیں جن میں جرمنی کے شہنشاہ قیصر ولہیم دوئم، امیر افغانستان حبیب اللہ
خان،خلافت عثمانیہ کے کمانڈر انور پاشا، مصر اور سوڈان کے رہنماعباس حلیمی
پاشا،لینن اورایڈولف ہٹلر جیسے رہنما شامل تھے۔
*عارضی حکومت عوامی جمہوریہ بنگلا دیش
(Provisional Government People's Republic of Bangladesh)
1971میں جب پاکستان تقسیم ہوا تواس سے قبل مشرقی پاکستان کے شمال مغربی
قضبے’’مجیب نگر ‘‘میں بنگالی قوم پرستوں کی جانب سے ایک ’’عارضی حکومت
عوامی جمہوریہ بنگلادیش‘‘کا قیام 10اپریل 1971کوعمل میں لایا گیا جسے’’
مجیب نگر گورنمنٹ‘‘ بھی کہا جاتا تھا بعد ازاں بنگلادیش کی آزادی کے تحریک
کے دوران یہ عارضی حکومت انڈیا کے شہر کول کتہ میں منتقل ہوگئی جہاں اِس کا
نام’’ عارضی جلاوطن حکومت برائے عوامی جمہوریہ بنگلادیش ‘‘(Provisional
Government People's Republic of Bangladesh)رکھ دیا گیا یہ جلا وطن حکومت
بنگلا دیش بننے تک سرگرم عمل رہی اس جلا وطن حکومت کی کابینہ میں سات وزراء
بھی تھے اور ریڈیو ا سٹیشن بھی تھا بنگلادیش کے قیام کے ساتھ ہی جلا وطن
حکومت کے رہنماؤں کو قومی ہیروؤں کا درجہ دے دیا گیاتھا۔ |