وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتخابات
کے ساز کی لَے تیز ہوتی جارہی ہے۔ انکشافات اور الزامات کے ڈھول بجائے
جارہے ہیں اور اُن کی تھاپ پر رقص کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔
عوام کے منتخب کئے ہوئے ادارے میعاد پوری کرنے والے ہیں۔ ایسی حالت میں
اقتدار کے انتقال کا مرحلہ آتا ہے۔ مگر یہ کیا؟ اقتدار کو ہر حال میں زندہ
رکھنے یعنی انتقال سے بچنے اور بچانے کی کوششوں میں بھی تیزی آتی جارہی ہے!
یاروں نے اقتدار کے انتقال کو اپنے مفاد کی موت سے تعبیر کر رکھا ہے! منتخب
اداروں کے لیے طے شدہ وقت کا پیمانہ بھرگیا مگر نیت شاید نہیں بھری۔ جاتے
جاتے بھی بے سَر و پا اقدامات سے قومی وسائل پر شب خون مارا جارہا ہے۔
فضا بے یقینی اور خوف سے مامور ہے۔ اہل وطن تشویش میں مبتلا ہیں کہ
دیکھیے اِس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا!
باضابطہ انتخابی مہم ابھی شروع بھی نہیں ہوئی اور حالت یہ ہے کہ ایک دوسرے
کے گلے پر چُھری پھیرنے کے مواقع تلاش کئے جارہے ہیں۔ جب باضابطہ انتخابی
نقطہ عروج پر پہنچے گی تب کیا ہوگا یہ سوچتے ہی جُھرجُھری سی آجاتی ہے!
حکومت کا مینڈیٹ ختم ہو رہا ہے۔ نئی حکومت کی پیدائش کا وقت نزدیک آ رہا ہے۔
پورا ملک سیاسی زَچّہ خانہ بنا ہوا ہے۔ ایک طرف سیاست دانوں کے پیٹ میں
مفادات کے مروڑ اُٹھ رہے ہیں اور دوسری طرف جمہوریت کے پیٹ میں دردِ زہ
اُٹھا ہے۔ اِس ملک میں کوئی کام نارمل طریقے سے ہو، اِس کی تو جیسے اب
گنجائش رہی نہیں۔ حکومت کی تبدیلی بھی بظاہر سیزرین سے ہوتی دِکھائی دے رہی
ہے!
رابطے بڑھ گئے ہیں، انتخابی اتحاد کی کوششوں کا دائرہ وسعت اختیار کر رہا
ہے، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ ملک بھر میں سیاسی حوالے سے
آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے نام پر اپنے اپنے
مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ دینے کا عمل پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔
اقتدار کے انتقال کا موسم کچھ اِس انداز سے وارد ہوا ہے کہ بہتوں کو انتقال
کی منزل تک پہنچا گیا ہے۔ جب کوئی جنگ ختم ہونے لگتی ہے تو باضابطہ سیز
فائر سے کچھ دن قبل قبضے کی جنگ تیز ہو جاتی ہے تاکہ مذاکرات کی میز پر
اپنا کیس زیادہ مستحکم انداز سے اور بہتر دلائل کے ساتھ پیش کیا اور لڑا
جاسکے۔ اِس وقت پاکستانی سیاست میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جمہوریت کے
دعویدار انتخابی شیڈول کے باضابطہ اعلان سے قبل قبضہ مافیا کا روپ دھار گئے
ہیں۔
حکومت نے تمام رُکے ہوئے کام مکمل کرنے اور اچھے خاصے چلتے کام روکنے پر
کمر باندھ لی ہے۔ مخالفین کو نیچا دِکھانے کے لیے گڑے مُردے اکھاڑے جا رہے
ہیں۔ تمام فرسودہ اِشو کباڑ خانے سے نکال کر، جھاڑ پونچھ کر منظر عام پر
لائے جارہے ہیں تاکہ بے یقینی کی آنچ تھوڑی اور بڑھائی جاسکے! اِس مشق کا
بنیادی مقصد کِسی سے محبت کا اظہار نہیں بلکہ مخالفین کو زیادہ سے زیادہ
کنفیوز کرنا ہے۔ یہ معاملہ دو دھاری تلوار جیسا ہے۔ یعنی ایک طرف تو
معاملات کو چھانٹ چھانٹ کر نکالا اور بظاہر نمٹایا جارہا ہے اور دوسری طرف
اچھے خاصے چلتے ہوئے معاملات کو اٹکایا اور لٹکایا جارہا ہے۔
انتخابی اتحادوں کی تشکیل کا عمل جس بھونڈے انداز سے جاری ہے اُسے دیکھ کر
خوف آتا ہے۔ ایک دوسرے کو facilitate کرنے کے نام پر عوام کے منہ سے آخری
نوالہ تک چھیننے کی تیاری ہو رہی ہے! عوام یہ سب تماشا دیکھ کر پریشان ہیں۔
جن سے حساب طلب کرنا چاہیے اُن سے دوستی بڑھاکر اتحاد کی راہ ہموار کی
جارہی ہے۔ مگر کسی بات پر حیرت کیوں ہو؟ پانچ برسوں میں جمہوریت کے نام پر
اپنے اپنے مفادات کو تحفظ بخشنے کے سوا سیاسی جماعتوں نے کیا ہی کیا ہے؟ ہر
اقدام کی پُشت پر یہ سوچ کار فرما رہی ہے کہ پہلے اپنا پیٹ بھرا جائے، کچھ
بچ رہا تو عوام کا نصیب!
بات بات پر وردی والوں کا رونا رونے والے اپنی طالع آزمائی پر بھی تو غور
فرمائیں۔ اسمبلیوں کی میعاد ختم ہونے کو آئی ہے۔ ایسے میں جو ضمنی انتخابات
ہوئے ہیں اُن میں فتح کے حصول کے لیے کیسے کیسے جتن کئے گئے! ایک ڈیڑھ ماہ
کے لیے اسمبلی کا رکن بننے کی اِتنی ہوس!
جمہوریت میں تو منتخب اداروں کی میعاد ختم ہوتی ہی ہے۔ پھر عوام کے سامنے
جانا پڑتا ہے۔ مینڈیٹ کے مطابق کام نہ کرنے کی صورت میں حکمرانوں کا احتساب
ہوتا ہے۔ مگر ایسا کہاں ہوتا ہے کہ اسمبلیوں کی میعاد ختم ہونے کو آئے تو
اقتدار بچانے کے لیے سبھی کچھ، حتّیٰ کہ ملک و قوم کو بھی داؤ پر لگا دیا
جائے؟
مفاہمت کی سیاست متعارف کرائی گئی تو اہل وطن نے سوچا شاید کچھ بھلا ہوجائے،
مفادِ عامہ کے رُکے ہوئے منصوبے تکمیل سے ہمکنار ہوں۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ
ہوا۔ مفاہمت کے فلسفے نے عجیب ہی گل کِھلائے ہیں۔ اُصول، اقدار اور نظریات
.... ہر چیز پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ معاملہ یہ ہے کہ سب چاہتے ہیں رند کے
رند رہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جائے! عشروں پہلے آں جہانی کشور کمار نے
ایک فلم میں آدھے مرد اور آدھی عورت کا کردار ادا کیا تھا۔ بعد میں یہ
کردار عمر شریف نے اپنے مشہور اسٹیج ڈرامے ”بکرا قسطوں پہ“ میں پیش کیا۔
مفاہمت کی سیاست نے بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کیا۔ یکسر مخالف نظریات رکھنے
والے بھی اقتدار اور مفاد کے پلیٹ فارم پر آگئے۔ یہ ایسی سیاست ہے جس نے
نظریاتی کشمکش اور سرد جنگ ختم کر ڈالی! یہ بھی خوب رہی، یعنی نظریاتی
شناخت بھی برقرار رہے، کوئی مفاد داؤ پر نہ لگے، کوئی الزام بھی نہ آئے،
بات بھی رہ جائے اور کام بھی ہو جائے! کیسی دوستی اور کیسی دشمنی؟ مشترکہ
مفادات کے گھاٹ پر مختلف النسل سیاسی جانور برسوں ساتھ ساتھ پانی پیتے رہے
اور ”نظریاتی جنگ“ بھی ختم نہ ہوئی! لہو گرم رکھنے کے لیے کبھی کبھی ایک
دوسرے کو گالیاں بھی دی جاتی رہیں، رُوٹھنے کا ناٹک رچایا جاتا رہا اور پھر
منانے کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ خود کو حسینی قرار دے کر مخالفین کو یزیدی
ٹھہرانے والے آخر میں نام نہاد یزیدیوں سے گلے بھی ملتے رہے تاکہ سارے گِلے
شِکوے جاتے رہیں!
پانچ برسوں میں قوم نے کچھ خاص سیکھا ہی نہیں۔ عوام اور کچھ نہیں تو اتحاد
و یگانگت تو سیکھ ہی سکتے تھے۔ اپنے مفادات کے لیے سیاست دان جس طور ایک
ہوگئے اُسی طور اگر عوام بھی اپنے عمومی مفادات کے لیے متحد ہوکر زندگی بسر
کریں تو کیا ہرج ہے! اہل وطن کو یہ بات اب تو سمجھ لینی چاہیے کہ اُن کے
مفادات کے خلاف سبھی ایک ہو جاتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے اور
وہیں مستقل قیام کی خواہش رکھنے والوں نے طے کرلیا ہے کہ جب مقصد ایک ہے تو
مفادِ عامہ کے لیے فسادِ عامہ کیوں؟
اُمیدوں اور اُمنگوں کی شکست و ریخت سے عبارت مزید پانچ سال پورے ہونے کو
آئے۔ جمہوری طالع آزماو ¿ں کے عزائم نصف النہار پر چکمتے دمکتے سورج کے
مانند سب پر عیاں ہیں۔ کیا اب بھی کچھ ایسا رہ گیا ہے جو کسی کی سمجھ میں
نہ آئے؟ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ جس نے جو کیا ہے اُس کا صِلہ اُسے ملنا
ہی چاہیے۔ آنے والے انتخابات میں ووٹ کو حق کے بجائے فیصلے کی تلوار کی
حیثیت سے استعمال کرنا عوام پر فرض ہوچکا ہے۔ ہمارے تمام سیاست دان زمینی
حقائق کو بخوبی سمجھ چکے ہیں۔ سمجھنے کی باری اب عوام کی ہے۔ ع
اُٹّھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
جو لوگ اب بھی اُصولوں، اقتدار اور نظریات کا راگ الاپ رہے ہیں، غالب کا یہ
شعر اُن کی نذر ہے
وہ بادہ شبانہ کی سَر مستیاں کہاں؟
اُٹھیے بس اب کہ لَذّتِ خواب سَحر گئی! |