انسداد منشیات میں عالمی اداروں کی ناکامی

گذشتہ دنوں ، کراچی ایئر پورٹ پر امریکہ کی جانب سے منشیات کی روک تھام ونگرانی کےلئے بیس کیمپ قائم کرنے کی خبر منظر عام پر آئی ، جیسے میڈیا میں خبر آنے کے بعد پاک وزارت دفاع کیجانب سے تردید کی گئی کہ امریکہ کو حساس مقام پر کسی بھی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں دی گئی ۔حیران کن بات یہ تھی کہ کراچی میں حساس جاسوسی آلات کے ساتھ امریکہ کو بیس کیمپ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی تھی ، یا پھر ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں تھی؟ ، لیکن نجی چینل کی جانب سے امریکی ٹینڈر جاری ہونے کے شواہد پیش کئے گئے ، جس کے بعد پاکستانی وزرات دفاع مجبور ہوئی کہ وہ اس معاملے کی تردید کرے کہ پاکستان نے حساس ، جاسوسی آلات کے ساتھ امریکہ کو جگہ کے فراہمی کےساتھ بیس کیمپ بنانے کی اجازت دی ہے ۔یہ بات طے شدہ ہے کہ بین الاقوامی قوتیں اپنے مفادات کےلئے ہر ناجائز حربہ استعمال کرنے میں بھی قطعی تامل کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان منشیات کی سب سے بڑی منڈی کے طور پر دنیا بھر میں معروف ہے وہاں امریکہ سمیت نیٹو کا انسداد منشیات کے سلسلے میں کردار کیا ہے کہ افغانستان کے بجائے کراچی میں امریکہ کو منشیات کی روک تھام کے لئے جاسوسی آلات کے ساتھ بیٹھنےءکی ضرورت پیش آرہی ہے ۔ جبکہ اہم بات یہ ہے کہ منشیات کے خلاف روس کے وفاقی ادارے کے ڈائریکٹر "وکٹر ایوانوو"نے افغانستان میں نیٹو کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حالیہ افغانستان،پاکستان،روس اور تاجکستان کے منشیات کے خلاف سرگرم اداروں کے اجلاس سے خطاب میں اپنے تحفظات کا اظہارکرچکے ہیں۔افغانستان میں ہر سال کھربوں ڈالر کی سرمایہ کی جاتی ہے اور اس تجارت کے بہت بڑے نیٹ ورک سے حاصل ہونے والی آمدنی سے تقریبا ایک کھرب ڈالر کی رقم صرف بین الاقوامی جرائم میں استعمال ہوتی ہے ۔ افغانستان میں امریکہ کی آمد سے قبل پوست کی کاشت پر طالبان کیجانب سے سخت پابندی عائد کردی گئی تھی جبکہ اس سے قبل جب روس کے خلاف افغان مزاحمت کارمصروف تھے توپاکستان میں جہاں کلاشنکوف کلچر آیا تو اُس کے ساتھ ہیروئن کی تباہ کاری بھی منشیات کے دیگر جز کےساتھ مملکت کے طول و عرض میں پھیل گئی ۔افغانستان میں امریکی مداخلت کے گیارہ سالوں میں منشیات کی پیداوار میں دس گنا سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔اس وقت افغانستان میں کسی جگہ گندم کاشت نہیں کی جاتی بلکہ تمام تر توجہ پوست کی کاشت پر مبذول ہے جو سب کچھ نیٹو ممالک کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور امریکہ اس کاشت کاری کو اس روکنے میں مکمل ناکام نظر آتا ہے۔ افیون کی کھیپ سے سب سے زیادہ ، افغانستان، ایران، روس اور چین کے مشرقی صوبوں اور مغربی ممالک پہنچتی ہے اس وجہ سے افغانستان میں اسلحے کی جنگ کے ساتھ منشیات بھی مخالفین ممالک کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں ۔امریکہ میں کو کین کا استعمال زیادہ ہے لیکن اس کی منڈی افغانستان کے بجائے کولمبیا ہے ۔ افغانی پوست منڈی سے امریکہ زیادہ متاثر نہیں ہو رہا، شائد اسی لئے افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی یقینی نہیں بنائی جاتی کیونکہ اس سے امریکہ کو یہ خدشات لاحق ہیں کہ اگر ان زرخیز میدانوں میں کسان کو کاشت کرنے کی اجازت دے دی گئی تو کسان کے بھیس میں طالبان آجائیں گے اور جہاں وہ پہلے "بلیو آن گرین" کی گوریلا جنگ کے نقصانات سے نہیں نکل سکا اگر کاشتکاروں کی صورت میں پوست کے بجائے دیگر اجناس کی اجازت دے دی گئی تو ان کے لئے مشکلات کا پہاڑ کھڑا ہوسکتا ہے۔ان حقائق کے برعکس امریکہ اور ان کے اتحادی ممالک دنیا کو یہ تاثر دینے میں ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ پوست کی کاشت کا براہ راست فائدہ صرف طالبان کو پہنچ رہا ہے ۔ اگر ان کی اس بے تکی بات پر یقین کر لیا جائے تو پھر ثابت ہوجاتا ہے کہ امریکہ کا افغانستان میں اتنا کنٹرول بھی نہیں کہ انھیں طالبان تو کیا ، پوست کی لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں کھڑی نظر نہیں آتی جنھیں وہ تباہ کر سکیں۔اگر نیٹو ممالک اس جانب اپنی توجہ مبذول کرلیں کہ پوست کی کاشت کا سب سے زیادہ فائدہ صرف امریکہ کو ہو رہا ہے تو غالب امکان یہی ہے کہ کسان پوست کی کاشت کے بجائے نیٹو ممالک کی جانب سے مہیا متبادل ذرائع استعمال کرسکتے تھے۔منشیات کے خلاف ممالک کو اس سلسلے میں اپنی عوام کے تحفظ کے لئے سماجی ، سیاسی اور مالی مشکلات کے حل کے لئے خطیر رقم مختص کرنے کے علاوہ بے تحاشا مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔چین کے سوشلسٹ انقلاب کے بعد اب چین ماضی کی طرح افیون زدہ قوم نہیں رہی بلکہ محنتی ، جفا کش اور ترقی ممالک کی فہرست اولیں میں امریکہ جیسے ممالک کے لئے پریشانی کا باعث بن چکا ہے۔ عالمی تجزیہ نگار اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ اب بھی اصل حقائق کو پس پشت رکھ کر غالبا یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے ساتھ مقابلہ کرنے والوں ممالک کے ساتھ جنگ کے مقابلے میں ہیروئن کا فروغ اس کےلئے زیادہ سود مند ہے ۔ اس لئے معاشی میدان میں ترقی پانے والے مغربی ممالک اپنی معاشی ، سماجی ترقی اور سلامتی کرنے کے لئے اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ منشیات کے سدباب پر خرچ کریں گے تو دوسری جانب امریکہ کے لاحاصل اتحادی بن کر دنیا میں مہم جوئیوں میں بھی عوام کے مالی بوجھ میں اضافے کا سبب بنیں گے جس کا براہ راست اثر خود مغربی ممالک میں ہو رہا ہے اور ان کی عوام عراق اور افغانستان جنگ کو مالی وسائل کا ضائع ہونا اور اپنے پیاروں کی بلا وجہ اموات پر اپنی حکومتوں پر کھلی تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔منشیات کے خلاف روس کے وفاقی ادارے کے ڈائریکٹر "وکٹر ایوانوو"نے منشیات کے خلاف افغانستان،پاکستان،روس اور تاجکستان کے اداروں کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ کو افغانستان میں منشیات کی سمگلنگ کے حوالے سے امریکہ اور نیٹو ممالک کی ناکامی کے اسباب پر اجلاس طلب کرکے اقوا م متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اٹھایا جانا زیادہ سود مند ہوگا۔روس کے وفد کی جانب سے یہ تجویز جہاں افغانستان میں امریکہ ،برطانیہ کی جانب سے ڈرگ مافیاﺅں کے پس پردہ سرپرستی کے مقاصد کو آشکارہ کرنے میں معاون ثابت ہوگا تو دوسری جانب افغانستان میں امریکہ کی جانب سے افغانستان میں 2014ءکے بعد افغانستان میں متحارب گروپوں کے درمیان خانہ جنگی اور طالبان کے حوالے سے افغانستان کا دوبارہ زیر اثر آجانے کے حوالے سے ٹھوس پالیسی بھی منظر عام پر آسکے گی ۔ کیونکہ امریکہ کی جانب سے اس بات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ 2014ءکے بعد بھی امریکہ کی فوج کا کچھ حصہ افغانستان میں موجود رہے گا جو اس بات کا اظہار ہے کہ امریکہ کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد افغانستان کی سرزمین افغانیوں کو با آسانی حوالے نہیں کرےگا اور منشیات کے حوالے سے امریکہ کو ملنے والے فوائد سے محرومی اس ڈر میں تبدیل ہوجائے گی کہ کہیں کولمبیا کی طرح افغانستان کی جانب سے امریکی ریاستیں ہیروئن کی سب سے بڑی مارکیٹ نہ بن جائے اور جس ترکش سے تیر وہ اپنے مخالفوں پر برساتا رہا ہے اس سے وہ خود شکار نہ ہوجائے۔ اس معمے کو سلامتی کونسل کو زیر بحث لانا ہوگا کہ کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں، کہیں امریکہ افغانستان کی سرزمین کو ہیروئن کی شکل میں انہی کے خلاف تو استعمال نہیں کر رہا ؟۔افغانستان میں پوست کاشت کے خلاف اقدامات عالمی امن پر دور رس نتائج مرتب کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔امریکہ کی جانب سے کراچی کے اہم حساس علاقے میں خفیہ جاسوسی آلات کے ساتھ بیٹھنے کی پیچھے دراصل کوئی اور مقاصد ہیں، جن پر پاکستانی حساس اداروں کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے ، اہم مقامات پر غیر ملکی ممالک کو اجازت دینا ، بڑا اہم معاملہ ہے ،خاص کر پاکستان ایرفورس اور دفاعی لحاظ سے ایم ترین علاقے میں امریکیوں کو جاسوسی آلات کے ساتھ جگہ دینے سے ، ملکی سلامتی غیر محفوظ ہو جائے گی ۔گو کہ وزرات دفاع نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے لیکن ، بد قسمتی سے یہ حکومت کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ بظاہر انکار تو کرتی ہے ، لیکن بعدازاں قوم اُس وقت آگاہ ہوتی ہے جب سب کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔حکومت کو حساس معاملات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 264075 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.