مجبوری ہے

جب آپ کالم پڑھتے ہیں تو ، یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے آپ کی پسند کے مطابق لکھا جائے گا ، جب کوئی کالم نویس کالم لکھتا ہے اور وہ اگر غیر جانبدار ہے تو اس سے اس بات کی توقع کرنا عبث ہے کہ وہ خوائشات کے تابع ہوکر کچھ لکھے گا ، غیر جانبدار کالم نویس کےلئے پہلا اور آخری اصول یہی ہوتا ہے کہ وہ جو محسوس کرتا ہے ایسے تحریر میں لیکرآئے ۔ میں اپنے کالموں میں ان ہی باتوں کو فوقیت دیتا ہوں کہ کسی فرد واحد کی تعریف و توصیف کے بجائے ، اپنے ضمیر کے مطابق اُن الفاظوں کو تحریر کا جامہ پہناﺅں جو میرے دل و دماغ میں ، معاشرتی کرداروں کے رویوں کو دیکھ کر پیدا ہوتے ہوں ،ہم جیسے کالم نویس کسی اخبار کے ملازم نہیں ہوتے ، اور نہ ہی اخبار کی جانب سے کسی قسم کا کوئی مشاہرہ یا اعزازیہ ملتا ہے ، بلکہ یہ ایک ایسا شوق ہوتا ہے جس کے تحت ، مجھ جیسے ان گنت کالم نویس ، صبح شام ، کمپیوٹر کے کی بورڈ پر اپنی انگلیوں کو تھرکتے دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں ، میرا مقصد کسی بھی سیاسی جماعت سے عناد اور ان کے خالف ، ذاتی مخالفت نہیں ہوتی ، بلکہ من الحیث القوم میں جو سمجھتا ہوں ، جو سوچتا ہوں اور اپنے تئیں جیسے اپنی قوم کے لئے بہتر سمجھتا ہوں ، ایسے صفحے پر اُتار کر توقع کرتا ہوں کہ ، اس تحریر سے میری قوم میں شعور کی رمق پیدا ہو اور اس میں اپنی سیاسی جماعت یا حکومت سے سوال کا کرنے کا جذبہ پیدا ہو ، خاموشی سب سے بڑا گناہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نا اہل افراد ہم پر حکومت کر رہے ہیں۔اور ہم سیاسی مصلحتوں کے تحت سب کچھ خاموشی سے برداشت کر رہے ہوتے ہیں۔اس تمام صورتحال میں ، اگر کوئی یہ سمجھے کہ میں پنی مطلب کی تحریر ، کو مناسب سمجھوں اور مخالفت کو ، اٹھا کر کچرے کے ڈبے میں پھینک دوں ، تو اس کیفیت کا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا ، کیونکہ اس کچرے کے ڈبے کو ہٹانا ، میرے بس کی بات نہیں ہے ، یہ ضرور ہے کہ کچرے کے ڈبے کے لئے اتنا کچھ لکھا جائے کہ وہ ڈبہ بھر جائے اور پھر اس میں کوئی تحریر ڈالنے کی جگہ نہ بچے اور قلمکار کے جذبات مجروح نہ ہوسکیں ، مجھ جیسے قلمکار کےلئے یہی بہت بڑی تکلیف کا سبب ہوتا ہے کہ ، جب تک آپ لکھتے رہو ، اور وہ اس قدر بہتر لگے کہ شائع ہوتا رہے ، لیکن جہاں میڈیا اسٹیپلشمنٹ کولگے کہ یہ تحریر مناسب نہیں ، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے سینے میں کسی نے خنجر گھونپ دیا ہو ، لکھنے کا ایک ایسا جنون ہے کہ مایوسی کی حد تک ، پہنچ جاتا ہوں کہ ، آخر کیا فائدہ کہ ، بازار کی ریڑھی میں پڑی چیز کی طرح ، منتخب کیا جاﺅں ، اور اچھی طرح ٹھوک کر چیک بھی کرلیا جاﺅں ، لیکن ، مرجھانے سے قبل ہی اٹھا کر جانوروں کے آگے پھینک دیا جاﺅں کہ ، یہ ہمارے لئے نہیں ہے۔یہ درست ہے کہ اخباری اداروں کی اپنی پالسیاں ہوتی ہیں ، لیکن پھر ان اخبار والوں کو یہ بھی لکھ دینا چاہیے کہ ایسے فلاں پارٹی والے ، پڑھیں ، کیونکہ اس میں آپ کی حمایت میں کچھ نہیں ہے ۔پاکستانی اخبارات میں پنجاب سے لکھنے والوں کا کافی اثر ہے، ہر بڑا اخبار کوشش کرتا ہے کہ پنجاب سے لکھنے والے کو ترجیح دے ، آپ کوئی بھی کیثر اشاعت اخبار اٹھا کر دیکھ لیں ، سو کالم نویس میں ننانوے ہی پنجابی کالم نویس ملیںگے ، کیونکہ میں پختون ہوں ، اس لئے میں جب اپنے اطراف میں نظر دوڑاتا ہوں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ، طبقاتی تفریق صرف سیاسی جماعتوں میں نہیں بلکہ ، اخباری اداروں میں بھی سب سے زیادہ موجود ہے ۔اخبار کا نام لئے بغیر ، ہر قاری پاکستان کے ہربڑے اخبار کو اٹھا کر دیکھنا شروع کرے تو ایسے آٹے میں نمک کے برابر بھی ، پختون صحافی ، کالم نویس نظر نہیں آئے گا، ہاں مقامی اخبارات میں ضرور نظر آئے گا ، لیکن یہاں بھی ایسے اخباری مالکان کے ہاتھوں ، اپنی مرضی کے خلاف لکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے ، ملکی اخبارات میں پختون کالم نویس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ ملکی قومی اخبارات میں ان کو موقع ہی فراہم نہیں کیا جاتا ، شائد ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اردو ،پر صرف اردو بولنے والے کا تسلط ہے ، یا پھر پنجابیوں کا ، ۔۔کچھ یہی صورتحال ، قومی سیاسی جماعتوں کی بھی ہے کہ اگر کوئی پختون ان کے درمیان آجاتا ہے تو پھر اس کے ساتھ ایسا سلوک اختیار کیا جاتا ہے جیسے ، کوئی خلائی مخلوق آگئی ہو ۔یہ رویہ ، کم اشاعت والے اخبارات میں بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ بھی اپں پنجابی کالم نویسوں کی تحریروں کو نقل کرکے اپنے ادارتی صفحات میں لگاتے ہیں ، جن میں کوئی سر پیر نہیں ہوتا ، بلکہ مال نہیں ، صرف نام بکتا ہے ۔اخباری مالکان کے لئے صحافت کوئی مقدس پیشہ نہیں ہے ، بلکہ صرف اور صرف کاروبار ہے ، جس میں دیکھنا صرف یہی ہے کہ روز کتنی سرکولیشن میں اضافہ ہوا ۔ایسے اس بات سے غرض نہیں ہے کہ کیا لکھا گیا ؟ اوراس سے معاشرے میں سدھار آئے گا یا نہیں ؟´۔ بلکہ ایسے اس بات سے غرض ہے کہ کہیں کیسی کے لکھنے سے ، ایسے تو پریشانی نہیں ہوگی ، اس کے کاروبار کو نقصان تو نہیں پہنچے گا ۔یہی وہ تصور ہے کہ جس نے زرد صحافت کو جنم دیا ، آپ چاہیے کتنے ہی قابل کیوں نہ ہوں ،آپ کی تحر یر میں چاہیے کتنی ہی معیاری ، کیوں نہ ہو ۔ اس کا میزان صرف اور صرف نام ہے ۔۔ یہاں کام نہیں ، بلکہ نام بکتا ہے ۔میں نے اخبارات کے کالموں میں پختون کالم نویس کی کمی کا ذکر اسی لئے کیا کیونکہ ، جس قومیت کا فرد اپنے معاشرے کی درست عکاسی کرسکتا ہے وہ دوسری قوم کا فرد قطعی نہیں کرسکتا ۔کسی بھی فرد کا نام ، بڑا بن جانا کوئی اہم بات نہیں ہے ، بوبی الماس کا نام بھی بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ لیا جاتا ہے تو کیا اس کا رتبہ ، کسی نامور سیاست دان کے برابر ہوگیا ؟۔ یا پھر ایسے بڑے بڑے کالم نویس جنھیں ، کوٹہ سسٹم کے تحت جگہ ملتی ہے ، تو کیا وہ معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی کرسکتا ہے ؟۔یقینی طور پر مجھے اس بات کا بھی دکھ ہے کہ ہم بڑے طمطراق کے ساتھ ، معاشرے کی ناہمواریوں کا ذکر تو کرتے ہیں ، لیکن اس کے ذمے داری اپنے کردار کو تسلیم نہیں کرتے ۔میری تحریریں ، کچرے کے ڈبے میں بھی خوبصورت لگتی ہیں کیونکہ جو لکھتا ہوں ، سچ لکھتا ہوں ۔اور لکھنا میری مجبوری ہے اور مجبور انسان اپنی مجبوری میں اس سے بھی بڑھ کر لکھ سکتا ہے۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 264113 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.