بادشاہ اچانک کسی نے قتل کردیا
اورقاتل مفرور ہوگیا۔ ولی عہد نے باپ کی بد اعمالیوں،عیاشیوں اوررعایا دشمن
چالاکیوں اورچالبازیوں کا گہرا اثرلیا اوربادشاہ بننے سے انکار کردیا۔فوجی
جرنیلوں، وزیروں، مشیروں، قاضیوں اور دانشوروں کا اجلاس ہوااورطے پایا کہ
اگلا بادشاہ ویسا ہی ہونا چاہیے جیسے پہلاتھا۔وجہ یہ بتائی گئی کہ کرپٹ
اورظالم بادشاہ کی حکمرانی میں اشرافیہ،انتظامیہ اورنوکرشاہی کی
بدعنوانیوں،کرپشن ،لوٹ مار اورعوام دشمن کارروائیوں پرپردہ پڑا رہتا ہے
اورعوام کی نظریں صرف بادشاہ کے مظالم پرمرکوز رہتی ہیں۔اجلاس کے سبھی
شرکاء نے باری باری اظہار خیال کیا اوراپنی اپنی کرپٹ کاروائیوں کاذکر کرتے
ہوئے کہا کہ گزرجانے والے بادشاہ سے پہلے ہم محض سرکاری ملاز م تھے
اورتنخواؤں پرگزارہ کرتے تھے۔بادشاہ نے خود لٹ مچائی توہمیں بھی اپنی
صلاحیتوں کو اجاگرکرنے کا موقع ملا۔ایک وزیر نے کہا کہ بادشاہ نے خودتو
خزانہ خالی نہیں کیا، عوام کو مفلسی کے دلدل میں نہیں دھکیلا بلکہ یہ سب
ہمارے ذریعے ہی ہوا ہے اورجوکچھ ہم نے عوام کی جیبوں اورخزانے کی تجوریوں
سے نکالا ہے ان کا کچھ حصہ ہی بادشاہ کو پیش کیا ہے۔ہم اس لوٹ مار میں
برابر کے حصہ دار تھے مگر ساری لعنت بادشاہ کے گلے پڑی ہے۔ اچھا ہو ا کہ
شہزادہ اپنی پارسائی اورعوام دوستی کی وجہ سے تخت و تاج سے علیحدہ ہوگیا
ورنہ اسے قتل کرنا لازم ہوجاتا۔
سپہ سالار نے کہا کہ دیکھو بھائیو!ہم سب ایک ہیں اور ایک ہی رہینگے اسی میں
ہماری بھلائی اوربہتری ہے۔میں عام دیہاتی کسان کا بیٹا ہوں اورجسطرح اس
عہدے تک پہنچاہوں اس میں محض قابلیت کا دخل نہیں ،بلکہ بادشاہ سلامت کی
مہربانیاں بھی شامل ہیں علاوہ اسکے میرے قبیلے اورعلاقے کے اعلیٰ افسران نے
بھی میری بہت سی خامیوں پرپردہ ڈالے رکھا اورمیری ترقی میں کوئی روڑہ اٹکنے
نہ دیا۔میں نے بھی زندگی بھر یہی کیااوراپنے علاقے، قبیلے اوردوستوں یاروں
کی خامیوں پر پردہ ڈالتارہا اوراُن کی ترقی کیلئے راہیں ہموار کرتا رہا۔آج
میں اس عہدے پرہوں کل میرا ہم زبان ،ہم مسلک،ہم خیال یا پھرمیرا قریبی
اورہم راز ماتحت اس کرسی پربیٹھے گا۔وہ نہ صرف میری خامیوں پر پردہ ڈالے گا
بلکہ میری دولت کا بھی محافظ ہوگا۔
داروغہ شہر کی باری آئی تو اس نے سب سے پہلے مقتول بادشاہ کو خراج تحسین
پیش کیا اورپھر بولا! مجھ سے بڑھ کر بادشاہ سلامت کو کون جانتا تھا؟ میں نے
شہریوں کی کم اور بادشاہ کی زیادہ حفاظت کی۔ صرف میں ہی جانتا ہوں کہ ملکہ
عالیہ جو کہ عوام کے دکھ درد کو سمجھتی تھیں اور ان کی بہتری کیلیے کوشاں
تھیں کو بادشاہ سلامت نے ہی ایک حادثاتی موت کی بینٹھ چڑھایااور اپنا راستہ
صاف کر دیا۔ ملکہ کے حادثاتی قتل میں جو جو شریک جرم تھے، بادشاہ سلامت نے
سب کو نوازا اورمالامال کردیا۔میری زندگی کودیکھئے ، چند برس پہلے میں
معمولی پوزیشن پرتھا اورآج بادشاہ کی مہربانیوں سے اعلیٰ ترین عہدے پرفائز
ہوں۔میرے بچے دنیا کی بہترین درسگاہوں میں زیرتعلیم ہیں اوردنیا کے امیر
ترین ممالک میں اُن کے لئے عالیشان بنگلے اورباغ تیا ر ہو چکے ہیں۔ان ممالک
کے بینکوں میں، میں نے اتنی دولت جمع کررکھی ہے کہ آنے والی سات پشتوں کے
لئے کافی ہے۔ دوستومیں بادشاہ کا ہمراز تھا اورآپ کا بھی غمگسار ہوں۔ میں
بادشاہ کیلئے عیش وعشرت کے سبھی لوازمات مہیا کرتا تھا اوراُس کی سبھی
بداعمالیوں کوجانتاہوں۔مجھے آپ کے چھپے خزانوں،جائیدادوں اوربداعمالیوں کا
بھی پتہ ہے۔ میرے ذمے بادشاہ نے جوکام لگا رکھے تھے اُس میں ایک آپ لوگوں
پرنظررکھنا اورآپ لوگوں کی لوٹ مارکی کمائی کا سراغ لگانا بھی تھا۔بادشاہ
سے صرف ایک غلطی ہوگئی کہ اس نے اپنی اورآپ سب کی بداعمالیوں کے ثبوت اپنے
ایک ہمراز دوست کو دے دئیے۔آپ سب اسے جانتے ہیں کہ وہ کون ہے اور کس حیثیت
سے موجودہ حیثیت تک پہنچا ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر اس ملک میں کوئی کام نہیں
ہوتا۔وہ جسے چاہے ادنیٰ سے اعلیٰ عہدے پرلے جائے اورجسے چاہے ذلت ورسوائی
کے دلدل میں دھکیل دیے۔بھائیو!اب بادشاہ تونہیں رہا مگر بادشاہ گرتوموجود
ہے۔کیوں نہ ہم اسی کی مرضی ومنشا جان لیں اورجس شخص کے سرپراُسکا ہاتھ
ہواُسی کابادشاہ بنالیں۔
داروغہ کی تقریر ختم ہوئی تووزیر باتدبیر نے اپنا خطاب شروع کیا۔فرمانے لگے
کہ بادشاہ کا قاتل کوئی اورنہیں بلکہ اسکا ہمراز دوست ہے۔آج تک جتنے امیروں
،وزیروں،سرکاری اہلکاروں اعلیٰ عہدیداروں کے قتل ہوئے اُس کی منصوبہ بندی
اسی ہمراز کے گھرہوئی ۔قاتلوں کورقم اورہتھیار فراہم کئے گئے اورپھر انھیں
باحفاظت دوسرے ملکوں میں بھجوادیا گیا۔یہ شخص جرائم کا بادشاہ ہے جسکے
سامنے ملک کے بادشاہ کی کوئی حیثیت نہیں۔وہ ہم سب کے راز جانتاہے اورہمیں
بے عزت وبدنام کرنے کے طریقوں سے بھی واقف ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہم میں سے
کوئی بھی اُسکے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔جج،جرنیل،وزیر،مشیر،اعلیٰ سے لیکر
ادنیٰ حکومتی اہلکار،علمائے دین،مفکرین اورمنتظمین سبھی پر اس کے احسانات
ہیں۔ کچھ اس کی سخاوت کے قائل ہیں اور باقی اس کی دولت اور شہرت کے خوف میں
مبتلا ہیں۔ وہ حج و عمرے بھی کرواتا ہے، مسجدیں اور مدرسے بھی بنواتا ہے،
غریبوں کیلیے لنگر خانے بھی کھلواتا ہے اور ان کی جیبوں اور جائیدادوں پر
بھی ہاتھ صاف کرتا ہے۔ بادشاہ کا ہمراز بادشاہ کا قاتل بھی ہے اور محسن بھی۔
جو شخص بادشاہ بناتا اور بادشاہی گراتا ہے اسکے سامنے ہماری کیا حثیت ہے؟
کہ مشیر خاص نے دیگر مشیروں کیساتھ کھسر پھسر کی اوراُن کی طرف سے اشارہ
پاکر اُٹھا اورحاضرین مجلس کے سامنے بولا: میں صرف یہ کہنا چاہتاہوں کہ
بادشاہ کے ہمراز سے فوراََ مشورہ کرلیاجائے اور جس شخص کی طرف میاں ہمراز
اشارہ کریں اُسے گدی پربٹھا دیا جائے۔سپہ سالار نے مشیرخاص سے اتفاق کیا
اوراُٹھ کرمیاں ہمراز کے کمرے میں چلاگیا۔میاں ہمراز کے کمرے میں دوست ملک
کاسفیراوردوست ملک کے بادشاہ کا مشیر بیٹھے تھے۔ میاں ہمراز نے سپہ سالار
سے کہا کہ دوستوں کا مشورہ ہے کہ مسٹرکالے،پیلے،ہرے اورجامنی میں سے ایک
کوبادشاہ بنادیا جائے۔سپہ سالار نے جواب دیا کہ یہ چاروں عوام کو قبول نہیں
ہونگے اور ہوسکتا ہے کہ ملک میں ہنگامہ ہوجائے۔میاں ہمراز نے مسکراکر جواب
دیا کہ عوام غرض مند اور محتاج ہوتی ہے۔غرض مند اورمحتاج محکوم ہوتے ہیں
حاکم نہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ ان چاروں میں سے کون ہمارے دوستوں اورساتھیوں کی
خدمت کرنے اوراُن کی مرضی کے مطابق حکمرانی کا اہل ہے۔ کالاچھٹا ہوا
ڈاکو،سمگلر،نوسرباز،قاتلوں کاسرغنہ اورمافیا کاسرپرست ہے۔عوام پراُسکا پہلے
سے خوف اوردبدبہ ہے اسلئیے کوئی اسکے خلاف آواز نہیں اُٹھائے گا۔پیلا
جاگیردار،عیاش اوررسیہ گیرہے۔ملک بھر کے جاگیرداروں،رسیہ گیروں اورقبضہ
گروپوں سے اُس کے تعلقات ہیں۔ملک کی سب بڑی برادری اُسکی رعایا ہے اوروہ
کسی بھی دوسری برادری اورطبقے پرغلبہ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔فوجی
جرنیلوں،ججوں،قلمکاروں اورمذہبی حلقوں میں بھی اُس کی عزت ہے اسلیئے وہ بھی
موزوں امیدوار ہے۔ہرادین کالبادہ اوڑھے ہوئے ہے مگر اندر سے کالے اورپیلے
جیسا ہی ہے۔داڑھی اوردستار کی وجہ سے دوستوں کوقابل قبول نہیں اسلیئے
کامیاب نہیں رہیگا۔جامنی جرائم کا بادشاہ ہے اورکالے،پیلے اورہرے والی تمام
خصوصیات کامرتبان ہے مگر وہ میری طرح بادشاہ گر بننا چاہتا ہے بادشاہ نہیں۔
سپہ سالار نے دوست ملک کے مشیر اورسفیر کی طرف دیکھا اور کچھ کہنا چاہا مگر
میاں ہمراز نے اشارے سے چپ رہنے کا کہا۔پھر بولا:دیکھئے میدان میں صرف ایک
ہی آدمی ہے اور وہ ہے کالا۔ کالے میں شیر اورلومڑی کی سبھی خصوصیات ہیں۔ وہ
بد عہدی پر کبی شرمندہ نہیں ہوتااور بد عہدی کو کامیابی کا ہتھیار کہتا ہے۔
اسلئے اس سے موزوں شخص اس ملک میں نہیں جو حکمرانی کا حق رکھتا ہو۔ میاں
ہمراز نے اپنا فقرہ مکمل کیا تو دوست ملک کے مشیر اور سفیر نے سپہ سالار کو
مبارکباد دی اور اپنے ملک اور بادشاہ کی جانب سے نئے بادشاہ کیلئے نیک
داعاؤں کا پیغام دیکر ہر طرح کی مدد کا یقین بھی دلایا۔
کالے کی تاج پوشی کا اعلان ہوتے ہی ملک میں جشن منایا جانے لگا۔سرکاری
عمارتوں پرچراغاں ہوا۔جگہ جگہ پھولوں کے دروازے سجنے لگے۔سکولوں،کالجوں
اوریونیورسٹیوں کے طلباء نے کالے کے حق میں جلوس اورریلیاں
نکالیں۔تاجروں،صنعت کاروں اورکارخانہ داروں نے اجلاس منعقد کئے۔پریس
کانفرنس کیں اورکالے کوملک کی ترقی اوراستحکام کی علامت قرار دیا۔شہروں
دیہاتوں اوردیگراہم مقامات پرکالے کی قدآورتصاویرلگادی گئیں اورشاہی محل کی
نئے سرے سے تزئین وآرائیش ہونے لگی۔علماء ومشائیخ نے خصوصی دعائیہ تقریبات
کا انعقاد کیا اورکالے کی طویل العمری اورکامیاب حکمرانی کیلئے دعائیں
مانگی گئیں۔گدی نشین پیروں ،متولیوں اورمخدوموں نے نیک تمناؤں کے پیغامات
بھیجے اورمریدوں کو حاکم وقت کے ہاتھ مضبوط کرنے کا حکم جاری کیا۔اہل قلم
نے کالے کی شان میں طویل مضمون لکھے اورکچھ دانشوروں نے تاریخی حوالوں سے
ثابت کردیا کہ کالے کا شجرہ ایران کے بادشاہ دارا سے ملتا ہے۔سکندر نے جب
دارا کوشکست دیکراُسکا دارالحکومت بتاہ کردیا توشہزادہ سیاہ پوش جو اپنے
کالے لباس اورسنہری ٹوپی کی وجہ سے سیاہ پوش کہلاتا تھا جان بچا کرہندوستان
پہنچا اورپھرگمنامی کی حالت میں مرگیا۔اسی شہزادہ سیاہ پوش جسکا اصل نام
کہکاؤس تھا کے بیٹے کہقباد سے دارا کی نسل چلی اوراس خاندان کوہزاروں سال
بعد کالے کی صدارت میں ایک بار پھرحکمرانی نصیب ہوئی جو ملکی اورقومی عظمت
کا نشان ہے۔سب لوگ جانتے تھے کہ کالا مڑھ بلوچاں کا مسلی تھا جسے مقامی
زمینداروں نے مخالفین کاقتل کرنے کیلئے استعمال کیا۔کئی سال جیل میں
رہامگرزمینداروں نے کسی طرح سزا سے بچا کررہا کروالیا۔بعدمیں کالے نے اپنا
گینگ بنا لیا اورپولیس کی مدد سے بڑی بڑی وارداتیں کرنے لگا۔سب دانشوروں ،
قلم کاروں اوردیگر طبقات کو پتہ تھا کہ کالے کانام کالاہی ہے مگر میاں
ہمراز کے کہنے پراُسکا نام کالے کے بجائے کیمروس لکھنا شروع کردیا ۔ جس پر
شاہی فرمان بھی جاری ہوگیا کہ آئندہ بادشاہ سلامت کوشاہ کیمروس کے نام سے
لکھا اورپکارا جائے چونکہ بادشاہ سلامت کااصل نام کیمروس ہی تھا ۔تخت نشینی
اورتاج پوشی کے فوراََبعد میاں ہمراز نے مڑھ بلوچوں کے پٹواری کوبمعہ
ریکارڈ طلب کیا اوربندوبست مال اورمثل حقیقت میں ایک پرت کااضافہ کرنیکا
حکم دیا جس کے تحت شاہ کیمروس کے نام ہزار بیگہ زمین لگوائی گئی جو مغل
بادشاہ اکبر نے شاہ کیمروس کے پڑدادا دُلا بھٹی (عبداﷲ بھٹی) کے خلاف شاہی
فوج کی مدد کے عوض دی تھی۔ اسی طرح موت اور پیدائش کا رجسٹر بھی بدل دیا
گیااور مڑھ بلوچاں کے مسلیوں کی جگہ میلان خانوادے کا اندراج ہوا جن کے
بزرگ ایرانی نسل کے تھے۔ یہ سب ہو چکا تو سپہ سالار نے میاں ہمراز سے کہا
کہ تم بڑی توپ چیز ہو ۔ تم نے کالے ،مُسلی کو میلان بنا دیا ۔ تمھاری زہنیت
اور عقلیت کو داددیتا ہوں۔ تم واقعی بادشاہ گر ہو۔ تمہاری چالاکی اورپیرکا
ری نے عوام وخواص پرجادو کردیا اورہرطبقہ فکر نے کالے کو شاہ کیمروس تسلیم
کرلیاہے۔ نہ کوئی ا حتجاج ہوا ہے نہ ہڑتال اورہنگامہ ۔ تم نے ٹھیک کہا تھا
کہ عوام سادہ مزاج اور اہل غرض ہوتے ہیں اوراہل غرض فرمانبردار اوراحمق
ہوتے ہیں۔اس حالت میں مکار اپنے شکار سے محروم نہیں رہ سکتا۔عوام کے متعلق
میکاولی کا یہ قول بھی درست ہے کہ وہ اچھی چیز کوناپسند کرتے ہیں چونکہ
مختلف المزاج ہوتے ہیں،خطروں سے ڈرتے ہیں ،اسلیئے ہرجابر کے آگے سرجھکا
دیتے ہیں۔سپہ سالار نے رخصت لی،میاں ہمراز کوسلیوٹ کیا اورکہا۔تم میکاولی
کے سچے پیروکار ہو۔جب تک تم ہو یہ ملک ترقی نہیں کرسکتا اور نہ ہی عوام کی
حالت بد ل سکتی ہے۔ |