محبتوں کے صوبے سندھ کی فضاﺅں
میں نغموں کی سرمدی گونج تھی۔ صوفیوں سنتوں، درویشوں، مصوروں، سنگ تراشوں
اور شاعروں نے یہاں انسان دوستی، امن و آشتی کے چراغ کو روشن کیا۔ وحدت
آدمیت کا نور بکھیرا۔ یہاں کے باسی ہم قدم و ہم آواز رہے۔ لیکن آج ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ یہ آپسی پیار کہیں گم ہوگیا ہے، رفاقتیں گونگی ہوگئیں ہیں،
سر شام چوراہوں پر آتش گیر دھماکے ہونے لگے ہیں، زخمیوں کی کراہوں سے راستے
بھر گئے ہیں، چشم زون میں بچے، بوڑے، جوان موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ دل
سکھ نگر دلگیر نگر میں تبدیل ہوگیا ہے، سندھ کبھی چاہتوں کا گہوارہ تھا اب
دوسرے صوبے اور دیگر مقامات کے لوگ سندھ کو امن و اماں اور بھائی چارہ کا
پیام دے رہے ہیں۔ یہ عبرت کا تازیانہ ہے۔ ہمیں ایک شاعر کی محنت و محبت کے
اس غیر فانی تصور کو سینے سے لگانا ہوگا تاکہ دوبارہ یہاں امن و آشتی اور
پیار و محبت پروان چڑھ سکے۔
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
ہمارا دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس کی تمام ہدایات و تعلیمات حکمت
و آگہی پر مبنی اور ہر زمان و مکان کے لئے موزوں اور مناسب ہے، اس کی
خصوصیت اور امتیاز یہ ہے کہ پہلے ایسے تمام اسباب و وسائل کا مکمل سدباب
کرتا ہے، جہاں سے شر اور برائی پنپ سکتی ہوتاکہ ایک صالح معاشرہ کی تشکیل و
تعمیر ہو سکے، مگر ہم اور ہمارے دیگر ملکی عوام بشمول اربابِ اختیار اسلام
سے دور ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ایسے حالات ہم سب پر مسلط ہو گئے ہیں۔
ان حالات کی وجہ سے پوری انسانیت شرمسار اور ماتم کناں ہے، اس کے خلاف
مظاہرے، احتجاج اور جلوس نکالے جاتے ہیں اور حکومتِ وقت سے یہ مطالبہ کیا
جاتا رہا ہے کہ ان درندہ صفت انسانوں کو ایسی سزائیں دی جائیں کہ دوسروں کے
لئے تازیانہ عبرت ہو۔ مگر حکومت نے ابھی تک لوگوں کے جذبات و خیالات کا
خیال نہیں کیااور معاملہ سنگین رُخ اختیار کرتا جا رہا ہے! جبکہ اسلام یہ
تصور پیش کرتا ہے کہ جو اس کے فکر کا حامل اور عامل ہو جاﺅ تو اس سے ایسی
گھناﺅنی سازشوں سے بچا جا سکتا ہے۔ مگر یہ سازشیں کسی کو نظر نہیں آرہی ہیں
ایسامحسوس ہوتا ہے کہ واقعی ہمارے لوگوں کے عقل و دماغ پر پردہ پڑا ہوا ہے۔
سندھ کو باغوں کا شہر بھی کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہاں کھجوروں کے باغ زیادہ
ہیں اور سندھ کے دل کراچی میں چھوٹے بڑے پارکوں کا نبار ہے ، دوسری جو اس
صوبے اور شہر اور اس کے تمدن کی رہی ہے اس کے مطابق یہاں مختلف قوم اور
مذہب کے لوگ آباد ہیں اس لئے یہاں کے مہذب لوگ ہمیشہ ملنساری، دوستی کے بل
بوتے پر خندہ پیشانی کے ساتھ رہتے آئے ہیں ، قدم قدم پر انکساری لوگوں کی
گھٹی میں شامل رہی ہے ۔ لوگوں میں رواداری اس درجہ ہوا کرتی تھی کہ کہیں سے
نکلنا ہو یا کہیں داخل ہونا ہو تو وہ خود آگے بڑھنے کے بجائے پہلے آپ کی
نیّا پار لگاتے تھے۔ یوں سندھ اور کراچی پہلے تہذیب کا شہر ہوا کرتا تھا
لیکن اب یہ ساری خصوصیات قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ہر شخص پہلے خود آگے نکلنا
چاہتا ہے۔ دوسرے کی تکلیف اور زحمت کو کوئی ملحوظ نہیں رکھتا نہ رکھنا
چاہتا ہے۔ رواداری اور وسیع النظری بھولی بسری چیزیں بن گئی ہیں۔ تاجروں
اور دکانداروں کا حال آپ کے سامنے ہے۔ فٹ پاتھ نظر نہیں آتے یہی وجہ ہے کہ
سڑک پر ٹریفک جام ہونا روز مرہ کا معمول بن گیا ہے اور جام میں بھی ہر شخص
کسی طرح بس آگے نکلنے کے لئے بے چین نظر آتا ہے۔اس لئے سچائی یہ ہے کہ یہاں
کے لوگوں میں اس سماجی شعور کا فقدان ملتا ہے جس سے رواداری اور وسیع
النظری پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقائد و مسلک کے معاملے میں بھی لوگوں
کا کچھ حصہ اب انتہا پسندبنتا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے
تیار نہیں ہیں۔ جبھی تو خونِ ناحق سڑکوں پر بہہ رہا ہے ۔
موجودہ دور میں اگر گہرائی سے انسانی حقائق کا مطالعہ کیا جائے تو چہار
جانب مایوسی کے بادل منڈلاتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ دنیا سے انسانیت مفقود
ہوتی جا رہی ہے، دنیا جتنی ترقی کرتی جا رہی ہے، انسانی مسائل کے رفتار بھی
مزید تیز ہوتے جا رہے ہیں۔ انسان کے چہرے سے خوشی کی لہر و مسکان غائب ہو
گئی ہے، انسان دنیا کی پوری دولت حاصل کرلے اور اسے امن و چین حاصل نہ ہو
تو وہ دولت راکھ سے بھی بدتر ہوا کرتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں
امن و چین کیسے قائم ہو، ہمارا ملک جو کبھی امن کا گہورا کہلاتا تھا ، جہاں
ہر فرد بشر نہایت پُر سکون زندگی بسر کرتا تھا، امن و چین کہاں مفقود ہوگئی،
ایسا تو نہیں کہ وہ ناانصافیوں کی بھینٹ چڑھ گئی اور اس کی بے قراری انسانی
زندگی کو کھوکھلی کرتی جا رہی ہے۔ سیاسی مفاد کی خاطر غلط پالیسیوں پر عمل
کرتے ہوئے امن کے چہرے کو داغدار کرنا پڑ رہا ہو۔ اور سیاسی حرص کی خاطر
صرف اور صرف اپنا مفاد عزیز ہو۔ یہ مسئلہ نہایت ہی سنگین ہے اس لئے ارباب
اختیار کو چاہیئے کہ امن و چین حاصل کرنے کے لئے کچھ عملی اقدامات ضرور
کریں۔
اربابِ اقتدار کے مطابق اس وقت پورا ملک بظاہر خوشحالی و ترقی کی راہ پر
گامزن ہے ، مگر اس ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہی ہیں ۔ ویسے تو ہر
شہر و قصبہ میں قیمتی گاڑیوں کی لمبی قطاریں، عالی شان عمارتیں اور
کارخانوں کے چھنیوں کا بند دھواں پستی کی داستان سنا رہا ہے اور یہ تمام
حکایت اخبارات، رسائل، ٹی وی چینلز اور مبصرین اپنی اپنی رائے اپنے اپنے
انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ معیشت کو لے کر ملک بھر کے سیاسی، مذہبی، سماجی،
اور اقتصادی تنظیمیں اور ان کے سربراہان معاشرہ میں پھیلی ہوئی خامیوں کو
لے کر فکر مند ضرور ہیں مگر یکجا ہوکر کوئی عملی اقدامات نہیں کر رہے۔ یہی
ہماری پستی کی اصل وجہ ہے ، مہنگائی پر کنٹرول اور روزگار کی عدم فراہمی ہی
بے سکونی کی اصل جڑ ہے جس پر کام ہونا ضروری ہے اور ملک بھر میں امن و امان
بھی قائم ہو جائے تاکہ عوام اور ملک ترقی کی طرف گامزن ہو ۔
2013ءکے عام انتخابات جیسے جیسے نزدیک آ رہے ہیں ، ہر چھوٹی بڑی پارٹی کے
لیڈر ان وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ خواب دیکھئے ،
ضرور دیکھئے کیونکہ خواب دیکھنا ہر ایک کا حق ہے۔ مگر ایسے خواب بھی دیکھئے
کہ وزیراعظم بن کر ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کیا جائے گا، وزیراعظم بن کر
روزگار اور امن و امان فراہم کیا جائے گا، وزیراعظم بن کر کرپشن اور بد
امنی ختم کی جائے گی، عوام کو ان کا جائز حق انہیں ملے گا، اور اسی طرح کے
بے شمار عوامی مسائل ہیں جس نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے ۔درخواست یہ ہے کہ
صرف بیان بازی کرکے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ناممکن ہے اس لئے لازمی ہے
کہ عوام کی خدمت کرکے ان کا اعتماد حاصل کرنا چاہیئے۔ عوام نے انہیں منتخب
کیا ہے، صدقِ دل سے عوام کی خدمت کرکے عوام کا اعتماد بحال کریں، تاکہ لوگ
نہ صرف اسلام آباد سرکار کی تعریف کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔لوگ منتظر ہیں کہ
رہزنی، قتل، مارپیٹ، لوٹ مار، لوڈ شیڈنگ، فرقہ واریت جیسے تمام حل طلب
مسائل کو حل کیا جائے ۔ مہنگائی کے جن پر قابو پایا جائے ، امن و امان کی
بحالی وقت کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے ۔ جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے تو
بجائے اس پر قابو پانے کے جاتے جاتے بھی پیٹرول میں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔
اللہ ہدایت دے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں کو۔ آمین |