یہ احساس ملکیت ہے یا مردانگی
جسے ہم لوگ اپنے گھروں میں بازاروں میں آنیوالی دفاتر میں کام کرنے والی
خواتین پر سب سے زیادہ ہی جتاتے ہیں اور اس کی آڑ میں ہم اپنے مائوں بہنوں
اور بیٹیوں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیتے ہیں ہم مرد اپنے آپ کو عقل کل
سمجھتے ہیں شائد یہی وجہ ہے کہ ہم اپنا زور کا رخ اپنی خواتین پر ہی کرتے
ہیں- یہ سوچ راقم کی افغانستان کی عائشہ محمد زئی کی کہانی پڑھنے کے بعد
پیدا ہوئی جو برطانوی اخبار دی میل نے شائع کی ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے
کہ عائشہ محمد زئی جس کی عمر اس وقت انیس سال ہے کو دو سال قبل اس وقت بین
الاقوامی شہرت ملی جب اس کی تصویر امریکی میگزین ٹائم میں چھپی تھی اگست
2010 ء کے شمارے کے سرورق میں دکھایا گیا تھا کہ عائشہ محمد زئی کی ناک اس
کے شوہر نے کاٹ دی تھی اور اس کی سرورق پر لگی تصویر نے پوری دنیا کو چونکا
دیا بین الاقوامی تنظیموں نے ٹائم میگزین کو ہدف تنقید بھی بنا دیا کہ اس
طرح کی خوفناک تصویر لگا کر نہ صرف عام لوگوں کو ذہنی تنائو کا شکار کردیا
گیا بلکہ اس خاتون کی عزت نفس بھی مجروح کی گئی لیکن اس میگزین کی وجہ سے
مختلف اداروں نے اس کے علاج کیلئے کوششیں شروع کی اور تقریبا دو سال بعد آج
ناک کٹی عائشہ کا آپریشن ہوگیا ہے جس میں اس کی کٹی ناک کو لگایا گیا ہے
اور اب مزید تین آپریشن کرکے اسے بہتر کیا جائیگا-افغانستان میں رہائش پذیر
عائشہ محمد زئی کا قصور اتنا تھا کہ اس کے والدین نے کم عمری میں اس کی
شادی کی بقول عائشہ محمد زئی کے اس کے سسرال والے اسے روزانہ مارتے پیٹتے
تھے اس نے گھر سے بھاگنے کی کوشش کی گرفتار ہونے پر اسے پانچ ماہ کیلئے جیل
بھیج دیا گیا جہاں سے رہائی کے بعد اس کا شوہر اسے پہاڑ وں کی طرف لے گئے
ہاتھ اور پائوں سے اسے باندھ لیا اور پھر اس نے اپنی عزت کا بدلہ کچھ اس
طرح لیا کہ سترہ سالہ عائشہ محمد زئی کی ناک اور کان کاٹ دئیے اور اسے اس
کے والدین کی طرف بھیج دیا والدین اسے ہسپتال لے گئے جہاں پر امریکی
ڈاکٹروں نے اس کا ابتدائی علاج کروا دیا لیکن اس کی بہتری کیلئے اسے پھر
امریکہ منتقل کردیامیگزین میں تصویر آئی اور پھر آج عائشہ محمد زئی کے ناک
اور کان کو ٹھیک کرنے کیلئے علاج ہورہے ہیں-
عائشہ محمد زئی کی شادی کم عمری میں والد نے اپنے قرضے کو ختم کرنے کیلئے
کی تھی جس کا انجام ایسا ہوا اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان
میں90 فیصد خواتین پر گھروں میں تشدد کے اس طرح کے واقعات ہورہے ہیں جن میں
بہت کم رپورٹ ہورہے ہیں - عائشہ محمد زئی کے مطابق جب اس کے کان اور ناک کو
کاٹ دیا گیا تو درد کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور خصوصا رات کے
وقت جب میں سانس لیتی تو لگتا کہ میری ناک کسی ٹھنڈے پانی میں ڈال دی گئی
ہو اور یہ انتہائی سخت دن تھے لیکن یہ دن بھی گزر گئے- آج امریکہ میں عائشہ
محمد زئی ایک امریکی خاندان کے ہمراہ زندگی گزار رہی ہیں- اس کا ذمہ دار
کون ہے اورمرد ایسا ہی کیوں کرتے ہیں یہ ایک ایسا سوال تھا جو اس کہانی کو
پڑھنے کے بعد راقم کے ذہن میں پیدا ہوا لیکن میں نے اپنے آپ کو تسلی دینے
کیلئے کہا کہ چھوڑ دو یار یہ افغانستان کی سٹوری ہے کیوں اپنے آپ کو ذہنی
تنائو کا شکا ر کررہے ہو اور اپنے کام میں مصروف عمل ہوگیا لیکن ذہن کے کسی
کونے میں عائشہ محمد زئی کی کہانی چل رہی تھی پھر بھی میں اپنے آپ کو مطمئن
کرنے کیلئے سوچ رہا تھا کہ یار افغانستان ہم سے بہت پیچھے ہیں ٹھیک ہے وہاں
پر ڈالر ہے لیکن ہم ان کے مقابلے میں تعلیم یافتہ ہیں اور ہمارے ہاں تشدد
کے واقعات بھی نہیں ہوتے لیکن !
دھچکہ راقم کو اس وقت لگا جب ایک مقامی خیراتی ہسپتال میں اپنے ایک مسئلے
کے سلسلے میں ڈاکٹر دوست سے ملنے گیا -راقم ڈاکٹر کیساتھمحو گفتگو تھا کہ
ایک خاتون جس نے برقعہ پہنا تھا اپنے ساتھ ایک پندرہ سالہ لڑکی کو لے آئی
چونکہ میرا بھی کام اہم تھا اس لئے میں کوشش کررہا تھا کہ جلدی سے نکل جائو
لیکن اسی دوران وہ خاتون اپنے ساتھ لڑکی کو ڈاکٹر کے کمرے میں لے آئی مجھے
شرمندگی بھی ہوئی کہ میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوں اور ڈاکٹر مریض سے بات کررہا
تھا اسی دوران خاتون نے ڈاکٹر کو کہا کہ لڑکی کا ہاتھ اوپر نہیں اٹھ رہا اس
کا ایکسرے کروادیں ڈاکٹر نے وجہ پوچھی تو برقعہ پوش خاتون نے جواب دیا کہ
رات کو اس کے بھائی نے اسے مارا جس کے باعث اب اسے سینے میں بھی تکلیف ہے
اور سانس نہیں لے رہی اور وہ اپنا ہاتھ بھی نہیں اٹھا پارہی-ڈاکٹر نے اسے
ایکسرے کیلے بھیج دیا اور پھر راقم کی طرف متوجہ ہوگیا-کچھ دیر بعد ڈاکٹر
کا اسسٹنٹ اسی خاتون کی بیٹی کا ایکسرے لیکر آئے تو بتایا کہ اس معصوم لڑکی
کو سینے میں زخم آئے ہیں- جس کی ادویات لکھ کر اسے دیدی گئی اور وہ خاتون
اپنی بیٹی کو لیکر وہاں سے چلی گئیں-مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کس طرح
اپنا دکھ بیان کروں کیونکہ میں باپ بھی ہوں شوہر بھی ہوں بھائی بھی اور
بیٹا بھی ہوں اور ان چاروں رشتوں کے حوالے سے سوچ کر مجھے وہ مرد انتہائی
برا لگا جس نے اپنی بہن پر ہاتھ اٹھایا جس کے باعث وہ معصوم سی لڑکی ہسپتال
پہنچ گئی -
کیا ہم حقیقی معنوں میں مسلمان ہیں اور کیا ہم پختون بھی ہیں کہ نہیں
کیونکہ اسلام نے وہ تمام بنیادی حقوق جو کسی بھی شخص کو حاصل ہے خواتین کو
بھی دئیے ہیں بلکہ کچھ معاملات میں خواتین کو مردوں پر فوقیت بھی دی ہیں
یہی ماں ہے جس کے پائوں کے نیچے جنت ہیں یہی بیوی ہے جس کے ساتھ نکاح کے
بعد مرد کا ایمان مکمل ہوتا ہے یہی وہ بہن کا رشتہ ہے جس میں حضورصلی اللہ
علیہ والہ وسلم نے اپنی رضاعی بہن کی آمد پر اسے تعظیم دی اور یہی وہ بیٹی
کا رشتہ ہے جس کے بارے میں بتایا گیا کہ جس نے بیٹیوں کی اچھی تربیت کی تو
وہ قیامت کے دن اللہ کے محبوب کے ساتھ ہوگا-اگر کسی کو اس کے بارے میں
معلوم کرنا تو قرآن کے سورة البقرہ المائدہ النور الحزب التحریم سمیت سورة
النساء اور سورة الطلاق کو ترجمے کے ساتھ پڑھ لے انہیں اندازہ ہوگا کہ اللہ
تعالی نے کونسے حقوق انہیں دئیے ہیں رہی پختون معاشرے کی بات تو کیا ہمارے
پختون ولی میں خواتین پر ہاتھ اٹھانا ہے کوئی اگر اپنے آپ کو پختون کہتا ہے
تو کیا اس کی پختون ولی میں یہ جائز ہے کہ خاتون خواہ وہ کسی بھی رشتے میں
ہو پرہاتھ اٹھائے نہیں کوئی بھی اس کا جواب ہاں میں نہیں دے گا تو پھر اس
کا مطلب کیا ہے - یہ وہ سوال ہے جو راقم سمیت ہر ایک کو اپنے آپ سے کرنے کی
ضرورت ہے- |