الیکشن کمیشن کا گھیراﺅ

عدالت عظمیٰ کے سابق جج 86 سالہ فخر الدین جی ابراہیم کی حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے تقرری کا ہرطرف سے خیر مقدم کیا گیا تھا، چونکہ ان سے جوانوں کے کام کی توقع ہے، اس لیے بعض حلقوں نے عمر کے حوالے سے کچھ سوالات اٹھائے تھے مگر فخرو بھائی کی امانت و دیانت کے پیش نظر ان اعتراضات کو کوئی زیادہ وزن نہیں دیا گیا۔

صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد قوم کا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے مگر سیاستدان پورا انتخابی عمل مک مکا کے فارمولے کے تحت چلاتے رہے ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام بالادست قوتیں غیر جانبدار الیکشن کمشنر کے تقرر کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو کچھ آزادی دینے پر بھی آمادہ ہوئی ہیں، اس کا کریڈٹ بہرحال عمران خان کو جاتا ہے۔ دوسری طرف ہمیں لاکھ اختلافات کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی مہم جوئی نے بھی الیکشن کمیشن کو مزید فعال اور محتاط کردیا ہے۔ کمیشن کو ایسے اقدامات کرنا پڑ رہے ہیں جس سے اس کی غیر جانبداری اور فعالیت کا تاثر پختہ ہو۔

اس وقت الیکشن کمیشن کے سامنے دو بڑے اہداف ہیں۔ پہلا ہدف کرپٹ، قرضہ مافیا، ٹیکس خوروں اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کو انتخابی عمل سے دور رکھنا ہے جبکہ دوسرا ہدف ووٹنگ کے عمل کو ہر طرح کی دھاندلی سے بچانا ہے۔ امیدواروں کی چھان بین سیاست دانوں کی دکھتی رگ ہے، اس پر وہ کسی کو بھی ہاتھ رکھنے نہیں دیتے۔ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کی جانچ پڑتال کے لیے اقدامات کرنا شروع کیے ہیں، پہلے پہل تو سیاستدان سمجھے یہ بھی ماضی کی طرح کے محض چند نمائشی اقدامات ہیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ کمیشن تو اس بار خاصا سنجیدہ ہے تو سیاستدانوں نے اپنا اصل روپ دکھانا شروع کردیا۔ چند روز قبل قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار اور وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے جس طرح مل کر الیکشن کمیشن کو کوسنے دیے، اس پر پوری قوم حیران ہے۔ کل تک تو یہ لوگ الیکشن کمشنر کے گن گاتے تھے لیکن جوں ہی ان لوگوں نے اپنے گرد گھیرا تنگ ہوتے دیکھا تو آپے سے باہر ہوگئے۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر لیگل نے ارکان پارلیمان کو خط لکھ کر ان سے 15 روز میں تعلیمی اسناد جمع کرانے کے لیے کہا تھا۔ ارکان پارلیمان اس پر اتنے ناراض ہوئے کہ بے چارے فخرو بھائی کو قائد حزب اختلاف کو فون کرکے وضاحتیں پیش کرنا پڑ گئیں۔

قارئین کو یاد ہوگا تعلیمی اسناد کا معاملہ کئی برسوں سے لٹکا ہوا ہے، عدالتی حکم کے باوجود صرف چند درجن ارکان نے اپنی تعلیمی اسناد کمیشن میں جمع کرائی ہیں۔ عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ارکان پارلیمان کی ایک بڑی تعداد جعلی اسناد کی حامل ہے۔ اسی وجہ سے قوم کے یہ نمایندے اسناد جمع کرانے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں، انہیں علم ہے کہ اگر تعلیمی اسناد جمع کرائیں تو وہ جانچ پڑتال کے دوران جعلی ثابت ہوں گی، جس پر انہیں ناصرف مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ انتخابی عمل سے بھی باہر کردیا جائے گا۔ پارلیمنٹ کی آزادی اور وقار کے نام پر ان جعلسازوں کو محفوظ راستہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن ارکان پارلیمان کے پہلے ہی حملے میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا ہے، اگر وہ اسناد کے معاملے پر مزید پیچھے ہٹا تو اس سے اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی۔

کراچی میں ووٹر فہرستوں کی تصدیق کے عمل میں بھی الیکشن کمیشن کے ناقابل فہم رویے نے اس کی ساکھ پر سوالات اٹھائے ہیں۔ سپریم کورٹ نے شہر قائد میں فوج کی مدد سے وٹروں کی تصدیق کی ہدایت کی تھی مگر شہریوں کو اس عمل میں فوج اس طرح سے نظر نہیں آئی جیسی توقع کی جا رہی تھی۔ پوری مہم ایسے مشکوک رضا کاروں کے ذریعے چلائی گئی جنہیں بعض اخبارات نے ایک سیاسی جماعت کے کارکن قرار دیا تھا۔ دوسری طرف سیکرٹری الیکشن کمیشن نے 28 نومبر 2012ءکو عدالت میں بیان دیا تھا کہ وہ کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کرانے کے لیے تیار ہیں، اس کے کچھ روز بعد فخرو بھائی کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ نئی حلقہ بندیاں کرانے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ پرسوں کمیشن نے باقاعدہ عدالت میں تحریری طور پر یہ موقف دیا ہے کہ مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندی نہیں ہوسکتی۔

الیکشن کمیشن کی یہ قلابازیاں حیران کن ہی نہیں پریشان کن بھی ہیں۔ کراچی کی سیاسی جماعتوں نے اس رویے کے خلاف الیکشن کمیشن کے صوبائی دفتر کے باہر تین روز تک علامتی دھرنا بھی دیا، مگر اس کے باوجود کمیشن نے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بعض سیاسی حلقوں نے الیکشن کمیشن کے اس رویے کو اس کی مجبوری قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں کمیشن کسی سیاسی قوت کے دباﺅ کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے۔

بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں سے لاکھوں، کروڑوں روپے قرض لے کر ہڑپ کر جانا سیاستدانوں کی روایت رہی ہے جبکہ ٹیکس چوری بھی ان کے ہاں معمول کی بات ہے۔ مختلف جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کی جانب سے اس بار بڑی شدومد سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ قرضہ مافیا اور ٹیکس چوروں کو کسی صورت انتخابی دوڑ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس مطالبے کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے ساتھ مل کر حکمت عملی طے کرنا شروع کی ہے۔ اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں، دوسری طرف اقتدار کے ایوانوں میں بھی گھنٹی بج گئی ہے، وہاں بھی لوگ سر جوڑ کر بیٹھے ہیں تاکہ الیکشن کمیشن کو اس محاذ پر بھی ناکام بنایا جاسکے۔ ان جغادریوں نے پہلے مرحلے میں میڈیا پر چند مخصوص لوگوں کے ذریعے ایسی مہم شروع کردی ہے، جس میں عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ بینک ڈیفالٹروں کا معاملہ بڑا پیچیدہ ہے، اگر اس معاملے کو چھیڑا گیا تو نئی قانونی جنگ چھڑ جائے گی، بہتر یہی ہے کہ الیکشن کمیشن اس میں ٹانگ نہ اڑائے۔ اگر اس لابی کا یہ پروپیگنڈا کامیاب ہوگیا تو ٹھیک، ورنہ دوسرے مرحلے میں اقتدار کے پجاری اس معاملے کو بھی پارلیمنٹ میں کھینچ لائیں گے۔ الیکشن کمیشن کو تعلیمی اسناد کی طرح قرضوں کے معاملے پر بھی پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ چونکہ اس معاملے پر بیشتر سیاسی جماعتیں متحد ہیں، اس لیے خدشہ یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کو پیچھے ہٹنا پڑے گا۔

آپ کو یاد ہوگا چند ہفتے قبل حکومت الیکشن کمیشن کو امیدواروں کی اسکروٹنی کے لیے ایک ماہ دینے کی بات کر رہی تھی، اب معاملہ 15 دن پر آکر ٹھہر گیا ہے۔ اس ہیرا پھیری سے بھی حکومت کا ”خلوص“ واضح ہوجاتا ہے۔ ہمیں تو امید واروں کی جانچ پڑتال کے لیے 30 روز بھی کم لگ رہے تھے۔ 15 روز میں تو اسی صورت ہزاروں کی اسکروٹنی ہوسکتی ہے جب کمیشن میں جنات کا ڈیسک بھی قائم کردیا جائے۔

ایک طرف ہر صورت شفاف انتخابات کرانے کے حکومتی دعوے ہیں اور دوسری طرف الیکشن کمیشن کے دھونس، دھمکی اور ٹیکنیکل انداز میں ہاتھ پاﺅں مروڑے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں انتخابات کتنے شفاف، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ ہوں گے اور ان انتخابات کے نتیجے میں کیسے ”انقلابی“ ایوان میں پہنچیں گے، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 111313 views i am a working journalist ,.. View More