آزاد کشمیر میں انحطاط مائل خیالات

اخبارات میں شائع خبروں کے مطابق آزاد کشمیر کے سابق ایڈووکیٹ جنرل، آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس،آزاد کشمیر پیپلز رائٹس ایسوسی ایشن کے سربراہ اور پی ایم ایل (ن) آزاد کشمیر کے نائب صدر سید منظور گیلانی نے کہا ہے کہ” کشمیری شہریت وہی ہے جو 1927ءکے قانون میں ریاستی باشندہ کی تعریف کے زمرے میں آتی ہے جسے آزاد حکومت اور پاکستان من وعن تسلیم کرتا ہے۔ریاست چھوڑ جانے والوں کی تیسری نسل اس قانون کی رو سے کشمیری شہری قرار دینے کی قطعی طور پر حقدار نہیں ہے۔جزباتی اور سیاسی آراءکے بجائے ہمیں قانون اور آئین کو بہر صورت تسلیم کرنا پڑے گا۔ شہریت کے دو اجزاءہیں ایک قانونی اور ایک جزباتی۔پانچ ہزار سال سے ریاست جموں و کشمیرایک الگ ملک ہے اور اس اعتبار سے اسکی شہریت بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد حیثیت رکھتی ہے۔کشمیری شہریت کے سلسلے میں بدقسمتی سے قانون سے کم رہنمائی لی جا رہی ہے۔مہاجرین مقیم پاکستانی نشستوں کا کشمیری شہریت کے قانون کے اعتبار سے جواز مشکوک اور نظر ثانی کا متقاضی ہے۔انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کو پاکستان میں آئینی حقوق حاصل نہیں“۔

مظفر آباد میں”آزاد کشمیر کی آئینی حیثیت “کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے اگر گیلانی صاحب آزاد کشمیر حکومت کے اعلان آزادی،آزادکشمیر حکومت کے قیام کے بنیادی مقصد،آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان تعلقات کار کے معاہدات،کشمیر کے زیر انتظام علاقوں میں عوامی نظم ونسق سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداوں کے نکات،آزاد کشمیر حکومت سے بتدریج آئینی،انتظامی اور مالیاتی اختیارارت کشمیر کونسل کو منتقل کرنے اور اسی طرح کے دیگر امور پر روشنی ڈالتے ہوئے نوجوانوں کو اس متعلق آگاہ کرتے تو مناسب اور موضوع کے مطابق ہوتا۔لیکن اس کے بجائے سید منظور گیلانی صاحب نے کشمیری مہاجرین مقیم پاکستان کی ریاستی شہریت کا سوال متنازعہ انداز میںپیدا کرنا ضروری تصور کیا۔گیلانی صاحب کی یہ بات آئینی تشریح سے زیادہ ان کی ذاتی خواہش پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔1974ءکے عبوری آئین میں کئی ترامیم کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت کے آئینی،انتظامی و مالیاتی اختیارات کشمیر کونسل کو منتقل کئے گئے ،یہ اختیارات واپس حاصل کرنے کا مطالبہ تو جائز ہو سکتا ہے لیکن قومی اسمبلی میں نمائندگی سے کیا حاصل اور اس مطالبے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟

واضح رہے کہ کشمیر کاز کی وجہ سے ہی آزاد کشمیر کے ایک پٹی کی شکل کے مختصر آبادی و رقبے والے علاقے کو ایک خود مختارریاست کی طرح کی حکومت کا ’سٹیٹس‘ دیا گیا ۔صدر،وزیر اعظم،کابینہ،قانون ساز اسمبلی،سپریم کورٹ،الگ ریاستی پرچم،الگ ترانا ،یہ سب کشمیر کاز کی برکات سے ہی ہے ورنہ آزاد کشمیر کو آبادی و رقبے کے لحاظ سے بلدیاتی سطح کا نظام ہی مل سکتا ہے۔اس طرح کی باتوں کو ہوا دینے سے ان عناصر کی کوششوں کو تقویت ملتی ہے جنہیں آزاد کشمیر میں ایک ریاستی حکومت کی طرح کا ”سیٹ اپ“ ایک آنکھ نہیں بھاتااور وہ آزاد کشمیر میں بلدیاتی حکومتی سیٹ اپ قائم کرنے کے متمنی ہیں۔اگر مظفر آباد کو ہزارہ اور میر پور کے علاقے جہلم کے ساتھ ملا کر قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملے تو وفاق میں بیٹھے افراد کے تیار کردہ کئی آپشنز میں سے اس آپشن کے بارے میں کیا خیال ہے؟اگر آزاد کشمیر قومی اسمبلی اور سینٹ میں شامل ہو جاتا ہے تو پھر آزاد کشمیر کو آبادی اور رقبے کے مطابق ہی شیئر ملے گا،کیا یہ بات بھی ان کے مطالبے کے تجزئیے میں شامل ہے؟

ایسا کہنا ان کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے جو کشمیر کاز کے لئے ہی کشمیر سے باہر رہنے پہ مجبور ہیں اور وہاں رہتے ہوئے بھی ان کی تمام تر توجہ کشمیر کاز پر ہی مرکوز ہے۔ان کشمیر یوں نے ملازمت ،کاروبار یا تعلیم کے لئے ہجرت نہیں کی ۔بلاشبہ ریاست جموں وکشمیر کے باشندہ ریاست ( ریاست کی شہریت )کے قانون کی روسے ریاست سے سکونت منتقل کرنے والوںکو دو نسلوں کے بعدباشندہ ریاست تصور نہیں کیا جائے گا۔ اپنی تشریح کی روشنی میںگیلانی صاحب نے اس حوالے سے قانون و آئین کو بہر صورت تسلیم کرنے کی بات کی ہے۔ترک سکونت کا اطلاق آزادانہ طور پر ریاست چھوڑنے سے متعلق ہے ۔یو ں قانون کی متعلقہ شق کا اطلاق ان کشمیری باشندوں پر نہیں ہوتا جنہیں زبردستی اپنا وطن کشمیر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہو۔آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں باشندہ ریاست جموں و کشمیر کی تعریف میں وہ کشمیری بھی شامل ہیں جو ریاست کے علاوہ کہیں بھی مقیم ہوں۔اسی بنیاد پر بیرون ملک مقیم ریاستی باشندوں کے لئے آزاد کشمیر اسمبلی میں ایک نشست مخصوص ہے۔

اگر اس فارمولے کو لیا جائے تو پھر آزاد کشمیر میں رہنے والے مہاجرین تو اپنے ہی وطن میں ہیں ،پھر انہیں مہاجرین کیوں سمجھا اور برتا جاتا ہے؟آزادکشمیر میں 1947-48ءسے 1990 ءتک کے کشمیری مہاجرین کی حالت زار ایک بڑا المیہ اور زیادتی ہے۔ گیلانی صاحب اس اہم بات کو نظر انداز کر گئے کہ آزاد کشمیر کے کم سے کم دس لاکھ افراد پاکستان کے مختلف علاقوں میں مقیم ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں بیرون ملک مقیم ہیں۔ اگر گیلانی صاحب کی اس تشریح پہ جائیں تو ان کی ریاست کشمیر کی شہریت پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے کہ انہوں نے از خود رضاکارانہ طور پر ریاست سے نقل مکانی کی ہے۔گیلانی صاحب کے چند ایک ہم خیال ڈوگرہ مہاراجہ کے قانون شہریت کو تو مانتے ہیں لیکن آزاد کشمیر کے عبوری ایکٹ1974ءکو نام نہاد قرار دیتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کیونکہ یہ مہاجرین مقیم پاکستان اور بیرون ملک مقیم ریاستی باشندوں کو بھی ریاستی شہری قرار دیتا ہے۔ ہمارے ہاںاس قانون کی اہمیت اسی لئے ہے کہ یہ آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں شامل ہے۔

سید منظور گیلانی صاحب اپنے اس موقف کو اپنی ذاتی رائے قرار نہیں دے سکتے کیونکہ وہ پی ایم ایل(ن)آزاد کشمیر کے نائب صدر ہیں۔ آزاد کشمیر کے ایڈووکیٹ جنرل اور آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ان کی کیا پالیسی اور موقف تھا ،اس بارے میں گیلانی صاحب ہی بہتربیان کر سکتے ہیں۔”آزاد کشمیر پیپلز رائٹس ایسوسی ایشن “کے سربراہ کے طور پر بھی گیلانی صاحب کی کوشش یہی ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دی جائے۔ ڈوگرہ کے باشندہ ریاست کے قانون کو دیکھتے ہوئے یہ اہم بات بھی پیش نظر رکھی جائے کہ ڈوگرہ مہاراجہ نے 1884-85ءسے26سال تک ہندوستان کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں راجوں،ڈوگروں کو جموں میں لا کر بسایا اور انہیں ریاست کی درجہ دوم کی شہریت دینے کے لئے شہریت کے لئے متعلقہ قانون میں مخصوص تاریخیں رکھی گئیں۔

یہ بات شاید نظروں سے اوجھل رہی کہ ریاست کشمیر کے دونوں حصوں کے کشمیریوں کو ریاستی تشخص از حد عزیز ہے اور اس ریاستی تشخص کا مطلب ہی یہی ہے کہ کشمیری اپنے تمام اندرونی امور میں مکمل آزادی کے خواہاں ہیں۔ یہ بات بھی نہایت دلچسپ ہے کہ قرار داد الحاق پاکستان میں ریاست کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی بات نہیں کی گئی بلکہ دفاع وغیرہ کے علاوہ ریاست کی اندرونی طور پر مکمل خود مختاری کی بات کی گئی ہے ۔ریاست کشمیر کے پاکستان کے ساتھ بطور ریاست خصوصی حیثیت میں الحاق کی بات کی گئی ہے۔قرار داد الحاق پاکستان میں تو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی کی بات نہیں کی گئی پھر یہ کون سے کشمیریوں کا مطالبہ ہے جو گیلانی صاحب بصد اصرار کر رہے ہیں؟اگر گیلانی صاحب واقعی ایسا سمجھتے ہیں تو عدالت سے رابطہ کرنے میں کیا دشواری درپیش ہے؟

یہ اہم بات ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی اور کونسل باشندگان ریاست جموں و کشمیرجہاں کہیں بھی سکونت پذیر ہوں،کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے۔ تاہم آزاد جموں و کشمیر کی مقننہ( اسمبلی و کونسل)حکومت پاکستان کے حوالے کئے گئے چارموضوعات (دفاع،سلامتی،کرنسی،امور خارجہ و بیرونی تجارت)کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی،آزاد کشمیرکی مقننہ کو ان چار موضوعات پر قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود کشمیر کونسل نے ڈومیسائل کے بارے میں جو قانون سازی کی ہے اس کے مطابق پاکستان کے کسی بھی علاقے کا کوئی بھی شہری پانچ سال آزاد کشمیر میں رہے تو اس کو باشندہ ریاست کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔اس بارے میں بھی صرف نظر رہا۔

بلاشبہ آزاد کشمیر میں سیاسی و اخلاقی گراوٹ،کرپشن،اقرباءپروری،قبیلائی و علاقائی ازم اور ایسی ہی دوسری خرابیوں نے آزاد کشمیر میں ریاستی تشخص کو شدید نقصان سے دوچار کیا ہے اور اس سے آزاد کشمیر حکومت کے قیام کے جواز کو ہی ختم کیا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ چودھری غلام عباس مرحوم نے آزاد کشمیر میں انتخابی سیاست کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی تھی کہ اس سے آزاد کشمیر حکومت اپنے اصل ،بنیادی مقصد سے ہٹ کر مقامی امور و مسائل میں محدود ہو جائے گی۔آج یہ تلخ حقیقت کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ آزاد کشمیر حکومت انہی خرابیوں میں مبتلا ہو کر گلگت بلتستان کا انتظام وفاقی حکومت کے حوالے کرنے اور مسئلہ کشمیر بھی وزارت خارجہ کے سپرد کرنے کے بعد انحطاط پذیری اورمقامی مفادات کی دوڑ میں محدود و مقید اور بدنام ہو کر رہ گئی ہے اور اس نے ریاستی حکومت کے قیام کے جواز کو بھی” قریب المرگ“ کر دیا ہے۔اس سے آزاد کشمیر میں عوامی انتشار اور تقسیم کو ہوا ملی اور اب یہ عالم ہے کہ ڈھائی اضلاع پر محیط آزاد کشمیر دس اضلاع میں ڈھلنے کے بعد قبیلائی اور علاقائی بنیادوں پر مخالفت و لاتعلقی کی راہ پہ چل نکلا ہے۔اسی حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اب آزاد کشمیر کے ہر ضلع کا اپنا مسئلہ کشمیر ہے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ غیر ریاستی باشندوں کو باشندہ ریاست کشمیر کے سرٹیفیکیٹ غلط طور پر بڑی تعداد میں جاری کئے گئے ہیں،آزاد کشمیر میں حکومت پاکستان کی مرضی کی حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔جموں اور کشمیر کے مہاجرین میں فرق واضح ہے اور اس کا احساس کرنا ضروری ہے۔اسی طرح کے کئی ضروری امور پر علمی انداز میں مناسب پلیٹ فارم پر بات ہو سکتی ہے لیکن عام شہریوں کو جو آزاد کشمیر حکومت کے قیام کے مقصد،اس کے طریق کار،ریاستی تشخص اور اس طرح کے دوسرے اہم امور کا ادراک نہیں رکھتے،انہیں مقامی،مہاجرکی تقسیم،عناد،نفرت اور محاذ آرائی کی جانب راغب کرنے کو کسی طور بھی عوامی ، ریاستی یا قومی مفاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 613538 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More