قتل جنین روز بروز بڑھتا ہی جا
رہا ہے۔ ماں کی کوکھ میں بیٹیوں کو مار دیا جانا، سماج کیلئے ایک افسوسناک
بات ہے، اس تناظرمیں 25فروری کو ملک کی مشہور نیوز ایجنسی پی ٹی آئی پر ایک
خبر نظر سے گزری کہ کانپور کی ایک مقامی عدالت نے 14ایسے افراد کو عدالتی
حراست میں بھیج دیا ہے، جو قتل جنین میں ملوث تھے،کانپور پولیس نے ان دنوں
کسی این جی او کی مدد سے ا سٹیڈنگ آپریشن چھاپاماری مہم شروع کیا ہے اور
دیگر نامور پرائیویٹ اسپتالو ں کے ان ڈاکٹروں کو رنگے ہاتھوں پکڑا، جو دو
دو -تین تین ہزار رپے لے کر ماں کی کوکھ میں ننھی کلیو ں کو ما دے رہے تھے۔
قتل جنین صرف کانپور میں ہی نہیں، بلکہ ملک کیا، پوری دنیا میں ہو رہا ہے،
یہی وجہ ہے کی ہمارے ملک میں ایک ہزار لڑکوں پر صرف 933لڑکیا ں ہیں، جوکہ
انتہائی توجہ طلب موضوع ہے ۔دونوں کی تعداد برابر کرنے کے لیے مرکزی اور
ریاستی سطح پر کئی اسکیمیں چل رہی ہیں، مگر خاطر خواہ کوئی فائدہ نظر نہیں
آرہا ہے۔اگر 2001سے 2005 کے درمیان کی بات کریں تو ان پانچ برسوں کے وقفہ
میں 6,82,000 جنین قتل ہوئے ہے، اعداد و شمار پر غور کر نے سے یہ بات واضح
ہوتی ہے کہ روزرانہ کے اعتبارسے 1800سے 1900 لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پیشتر
ہی ماردیا گیا ، یہی صورتحال آج بھی ہے کہ روز پورے ملک میں کوئی
1500لڑکیوں کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی ما دیا جارہا ہے۔
تما م ریاستوں سے قطع نظر اگر صرف اتراکھنڈ کی ہی بات کریں تو بہت افسوس
ہوتا ہے، سالانہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق 2011-12میں 4ہزار 344بیٹیو ں کو
دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا، اضلاع کے اعتبار سے دہرادون 968،
ہریدوار 960، ادھم نگر 699، پتھوڑا گڑھ 368، پوڑی 242، ٹہری 225، الموڑا
211، چمولی 178، نینی تال 137، بگھیشور 137، اور اتر کاشی میں 120 قتل جنین
کے معاملات سامنے آئے ہیں۔
ان اعداد وشمار کے بعد قانون اور اسکیموں پر نظر ڈالتے ہے تو ان کی ایک
لمبی فہرست سامنے آتی ہے، گجرات میں’ ڈیکری بچاؤ ‘مہم چلائی جارہی ہے، سابق
راشٹرپتی پرتبھا دیوی سنگھ پاٹل نے گاندھی جی کے138کی یوم پیدائش پر مرکزی
صحت اور خاندانی بہبود وزارت کی طرف سے’ لڑکی بچاؤ‘ منصوبہ شروع کیا
ہے۔ہماچل پردیس میں ایک منفرد منصوبہ بندی شروع کی گئی ہے، جس کے تحت کوکھ
میں پل رہے بچوں کی جانچ کرنے والوں کی صرف معلومات دینے والوں کو نقد دس
ہزار روپے دیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے، ’اندرا گاندھی بالیکابچاو‘ اسکیم
چل رہی ہے، اترپردیش میں ’بیٹی بچاو کل بچاو‘ اسکیم ہے ، ان کے علاوہ نہ
جانے کتنی اسکیمیں ہیں، جو مرکزی اور ریاستی حکومت چلا رہی ہیں، اور تو اور
1994میں حمل کے دوران لنک کی جانچ کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ ان دنوں
تو کئی نامور ہستیاں حکومتی سطح سے ہٹ کر قتل جنین کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود آئے دن قتل جنین میں اضافہ ہو رہا ہے، سوال یہ ہوتا
ہے کہ آخر کیو نہیں رک رہا ہے ننھی کلیوں کا قتل؟ کیا یہ موضوع سماج کیلئے
باعث تشویش نہیں ہے؟ کیا ریپ سے بڑا جرم نہیں ہے ننھی بچیوں کا قتل؟ کیا
ایسی اوچھی حرکتیں کرنا تعلیم یافتہ سماج کو زیب دیتا ہے؟ آخر ریپ کے خلاف
سخت قانون بنانے کی وکالت کرنے والے اور بڑے بڑے بیا ن دینے والے اس ایشو
پر خاموش کیوں رہتے ہیں؟ آخر ان ننھی کلیو کا قصور کیا ہے کہ انہیں ماں کی
کوکھ میں ہی ختم کر دیا جاتا ہے؟
یہ اعداد و شمار تو وہ ہیں ، جو کسی نہ کسی سطح پر جمع کئے گئے ہیں ، مگر
جانے کتنے کتنی ایسی مائیں ہوں گی جو ایسے معاملات کو سامنے لانے سے شرم
محسوس کرتی ہوں گی ،لہذا اس طرح بے شمار معاملات دب کر رہ جاتے ہوں گے ،
اگر ایسے معاملات بھی یکجا کرلئے جائیں تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے ۔سماج
اپنی اوچھی حرکتو ں پر آنسوبہائے گا ۔ ایک چبھتا سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ
آخر قتل جنین کی رپورٹ کیسے تیار ہوتی ہے ؟ اگر رپورٹ تیار ہوسکتی ہے تو
ایسی حرکت کرنے والے ڈاکٹروں کی شناخت کیسے نہیں ہو سکتی ہے ؟قتل جنین کے
جو اعداد وشمار فی الوقت میڈیکل رپورٹ سے سا منے آئے ہیں ، اگر فقط انہیں
ڈاکٹروں کے خلاف سخت کارروائی ہوجائے تو آئندہ یہ امید نہیں کی جاسکتی ہے
کہ کوئی ڈاکٹر ایسی حرکت کرے ، لیکن ہمارے ملک کی بد قسمتی ہے کہ رپورٹ تو
فی الفور تیار ہوجاتی ہے ، آنافاناً میں کمیشن تشکیل دے دی جاتی ہے ، مگر
کسی مناسب رپورٹ پر کبھی بھی نیک نیتی سے کارروائی نہیں ہوتی ہے ، لبراہن
کمیشن ، سچر کمیٹی ،ر نگ ناتھ مشرا کمیشن اور گجرال کمیٹی ،نہ جانے ا ن کے
علاوہ کتنی کمیشنیں اور کمیٹیاں ، جن کی رپورٹ حکومت کے سرد بستے میں پڑی
ہیں ۔
یہ تو رہی حکومت کی بات ، مگر جب قتل جنین یا اسقاط حمل کے اسباب ومحرکات
پر جب غور کرتے ہیں تو بنیادی طور غربت اور تعیش پرستی کا ہی بول بالا نظر
آتاہے ، کیونکہ عام طور پران ہی دونوں اسباب کی بنیاد پر ایسے واقعات رونما
ہوتے ہیں ۔ سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ اچھے خاصے کھاتے پیتے بلکہ مال وزر
والوں کو فاقہ کشی کا خوف محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی قتل جنین میں پیش پیش
نظر آتے ہیں ـ؟ ایسے افرادپر تعجب ہوتا ہے کہ جو دولت کی ریل پیل کے باوجود
بھی ننھی کلیوں کی سسکیوں کی پرواہ نہیں کرتے ہیں ۔ آج کل دیکھا تو یہ
جارہا ہے کہ اپنے آپ کو مہذب اور تعلیم یافتہ تصورکرنے والے بھی ایسی اوچھی
حرکتوں کے اتکاب پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ اب رہایہ مسئلہ کہ ہم غربت کے
شکار ہیں ، چنانچہ بچوں کی پیدائش ہوگی تو ان کی صحیح دیکھ ریکھ نہیں
ہوسکتی ہے ، اس لئے اسے مار دیا جانا ہی بہترہے ، ایسے افراد کو ذرا غور
کرنا چاہئے کہ کیا جو پیدا کررہا ہے ، جو مسبب الاسبا ب ہے ، وہ اس کا
انتظا م نہیں کرسکتاہے ، وہ بچوں کی پرورش کے اسباب نہیں پیدا کرسکتاہے ۔
قتل جنین یا اسقاط حمل کے اضافہ میں جہیز کی لین دین بھی اپنا کردار ادا
کرتی ہے ، کیونکہ ہندوستانی معاشرہ میں عام خیال یہ بھی ہے کہ لڑکی کے
والدین کو شادی کے موقع پر بہت کچھ لٹاناپڑتا ہے ،ا س کے باوجود بھی دولت
کی کمی کی وجہ سے رشتہ نہیں مل پاتاہے ، لڑکیاں بن بیاہی اپنے گھروں میں
پڑی رہتی ہیں ، یہ ان باتوں کے مدنظر اسقاط حمل یا قتل جنین کی تعداد میں
رورز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔ ایسے واقعات میں معاشرہ اس طور پر قابل گرفت ہے
کہ وہ جہیز کے خاتمہ پر غوروفکر نہیں کررہا ہے ، واقعی اگر جہیز کا خاتمہ
ہوتو اسقاط حمل کے معاملات میں کمی آئے گی ۔
اب ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ سماجی خدمت میں اسے سنجیدگی سے لیا جائے، جو
قوانین بنے ہیں ان پر سختی سے عمل کیا جائے، ہر خاندان اپنے اپنے سطح پر اس
کے خلاف سچی مہم چلائی جائے اور حکومت وانتظامیہ اسی طرح بیدار ہو جائیں،
جس طرح آج کل کانپور میں پولیس بیدار ہے۔ |