لہو لہو کراچی اور پاکستان

کراچی کا شہر پاکستان کی شہ رگ کہلاتا ہے، پاکستان کی بندرگاہ ،یہاں کا سب سے بڑا سب سے زیادہ آبادی والا شہر - اسکا نام منی پاکستان ہے یہاں پاکستان کے ہر خطے کے ہر بولی کے لوگ اپنے اپنے تہذیب و ثقافت کے ساتھ بستے ہیں اور پھر ہندوستان کے قریے قریے سے آنیوالے مہاجرین اور اسکے بعد مشرقی پاکستان سے انیوالے بہاری ، بنگالی ، افریقی خد وخال والے شیدی ، شیعہ ، سنی ، آغا خانی ، بوہری ، قادیانی ، ہندو ، ہارسی ، عیسائی سب آباد ہیں - بلکہ ایک مرتبہ چند یہودیوں کے متعلق بھی معلوم ہوا تھا اور یہ کوئی حیران کن بات ہر گز نہیں ہے - دنیا کے تمام بڑے بڑے شہروں میں اسی طرح کا تنوع پایا جاتا ہے- بلکہ اگر کہا جائے کہ ان سب تہذیبوں اور ثقافتوں کو ملا کر کراچی والوں کی ایک اپنی تہذیب و ثقافت اور پہچان بن گئی ہے تو بیجا نہیں ہوگا - تمام پاکستان میں کراچی والوں کی ایک مخصوص شناخت ہے- کراچی کی رونقیں اور رنگینیاں اپنی جگہ ِ لیکن یہ رونقیں ، رنگینیاں اور روشنیاں گہنا گئی ہیں، داغ دار ہو چکی ہیں - آئے دن کی خونریزی اور قتل و غارتگری نے اس غریب پرور کشادہ دامن شہر کا چہرہ مسخ کر دیا ہے - ہم جیسے تو سب کچھ ملیا میٹ کرکے چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گئے لیکن بیشتراوراکثریت ایسی ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں ؟

پاکستان میں اندھا دھند اس بہتے ہوئے خون کو کون روکے گا کون روک سکتا ہے ، کیسے رکے گا؟ تباہی ، بربادی اور ہلاکتیں ہیں کہ اسکی کوئی انتہا نہیں ہے ایک نہ ختم ہونیوالی داستان ہے - آج کا تازہ واقعہ عباس ٹاؤن کی شیعہ آبادی میں بم دھماکہ اور تباہی بربادی ہے - یہ پاکستان ، اسلام، انسانیت دشمن کون ہیں انکو کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچا دیا جاتا - جبکہ وزیر داخلہ اور اینٹیلجنس ایجنسیاں دعوے کرتے ہیں کہ وہ ان امن دشمن کارروائیاں کرنیوالوں کو بخوبی پہچانتے ہیں اور انکے تمام کچے چٹھے سے واقف ہیں- کراچی کے عباس ٹاون کے فلیٹؤں کی بلڈنگ کے نیچے ایک مارکیٹ ہے جہاں یہ دھماکے ہوئے ہیں فلیٹ کی پوری بلڈنگ زمین بوس ہو گئی ہیں اس بلڈنگ کے اند ر چار سو ساڑھے چار سو فلیٹ ہیں اور یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ یہ پوری شیعہ آبادی ہے یہاں شیعہ اکثریت ضرور ہے لیکن یہ مکس آبادی ہے - ہلاک ہونیوالوں میں شیعہ سنی سب شامل ہیں-

اسوقت شہر کے ایک حصے میں شرمیلا فاروقی کی سیاسی منگنی کی تقریب جاری تھی جس میں ملک کے وزیراعظم اور دیگر معززین موجود تھے اسلئے کہا جارہا ہے کہ پولیس اور حفاظتی ادارے سب وہاں مصروف تھے - اس دھماکے کو روکنے کا تو اس نااہلی میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے البتہ ان افراد کی غیر موجودگی سے اور تاخیر سے امدادی کارروائیاں بیحد متاثر ہوئیں - پاکستان اور کراچی میں جس تواتر سے خون ریزی جاری ہے لوگ اسے اپنا مقدر جانکر خاموش رہتے ہیںٓ لمحہ لمحہ جیئے جانے کی تمنا اور جان ہتھیلی پر لیکر پھرنا یہاں کے باشندون کی زندگی ہے - زندگی کی ضمانت تو کہیں بھی نہیں ہے لیکن جہاں موت اسقدر سستی اور بیحد آسان ہو وہان زندگی سسکیاں لیتی رہتی ہے- لاشوں کے چیتھڑے اڑ چکے ہیں ورنہ شاید وہ بھی سانحہ کوئٹہ کے متاثرین کی طرح اپنے لاشوں کو دفنانے سے انکار کر دیتے اور حکومت سے داد رسی طلب کرتے- ایک روز ذراسکون سے گزرتا ہے اگلے دن ایک بڑے عظیم سانحے کی اطلاع اتی ہے - کبھی کوئٹہ کبھی پشاور ، پنڈی، لاہور ، کوہاٹ ، بنوں ، اور قبائیلی علاقے قریہ قریہ زخمی بہتا ہوا خون میرے ہم وطنوں کا ، میرے ہم نفسوں کا اس خون ریزی کو کون روکے گا یہ خونریزی کب رکے گی-

-- شھرِ قا تل میں لرز ا ں شر یف آ د می
دشتِ وحشت میں گرداں شریف آدمی
دردِ و حیر ت سے آ نكھوں كو ملتا رھا
ز یرِ تیغ ہا ئے یاراں شر یف آ د می
اپنے ہی خوں كے دھبو ں كو دھوتا رہا
بر سرِ قتل حیر ا ں شر یف آ د می
نقشِ قا تل كو رنگِ لھو رنگ كر
اپنے لا شے پہ رقصا ں شر یف آ د می
جسم گو ہیں رواں چھا ر سو شھر میں
آ د میت كو تر سا ں شر یف آ د می
ہر د ھن خونِ آ د م سے رنگین ہے
كس پہ كھولے زبا ں یا ں شریف آدمی
لا شہُ فكر و فن دوشِ جانِ مسعو داپنے
گھر سے گر یز اں شریف آدمی ْْْ ْ
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 254666 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More