سوال : کیا جعلی ڈگری ہو لڈر آنے والے
الیکشن میں پھر چھا جائیں گے۔
(وقاص شیخ حال مقیم دوبئی، جنید الدین دستی ،حال مقیم اسلام آباد)
جواب : جہاں جرنیلی صدر مشرف نے اپنے دور میں بہت سے’’ کارنامے‘‘ سر انجام
دیئے ہیں۔وہاں گریجویٹ اسمبلی بھی ان کا ایک انوکھا کارنامہ ہے۔اسی گریجویٹ
اسمبلی کو انہوں نے بد تہذیب اور ناشائستہ قرار دیا تھا۔اور پورے پارلیمنٹ
کے دور میں صرف ایک مرتبہ خطاب کیا تھا۔الیکشن 2002ء میں بی اے کی شرط پر
پرانے پاپی سیاستدانوں کے چہروں پر خزاں کے رنگ چھا گئے۔ جس کا حل نکالنے
کے لئے ہنگامی پارٹی اور خاندانی اجلاس ہونے لگے کہ کس طرح ان حویلیوں سے
سیاست باہر نہ نکل پائے۔تعلیم کی شرط کے حل کے لئے روزانہ کی بنیاد پر پاپڑ
تلے جانے لگے۔آکر کار بابو نے اقتدار کی بادل نخواستہ نچلی سطح پر اپنے
خاندان میں منتقلی کو برداشت کر لیا۔اور یوں گریجویٹ اسمبلی میں پرانے چہرے
تو نظر نہیں آئے مگر جو چہرے نظر آئے وہ کسی پرانے سیاستدان کی بیگم، بھائی
،بیٹا، بیٹی،بہو،پوتا ،پوتی ،یا پھر جہاں تک خاندان پھیلتا چلا گیا بی اے
کی شرط کی وجہ سے سیٹ تو ادھر منتقل ہوئی مگر وفاداری کو قائم رکھنے کے لئے
درجنوں قسم کی قسمیں ،عہد نامے ،حلف نامے بھی تحریر ہوئے۔اتنی کھپ جنرل کے
ہوتے تو نہ مچ سکی ۔حالانکہ غیر جانبدرانہ تحقیق سے بہت سوں کی سیاست پر اب
بھی کاری ضرب پڑ سکتی ہے۔الیکشن 2008ء میں پچھلوں کی دیکھا دیکھی حوصلہ
کھلتا گیا اور سینکڑوں کی تعداد میں جعلی ڈگری ہولڈر پارلیمنٹ کے ماتھے کا
’’جھومر ‘‘بنے۔واضح فیصلوں کے باوجود ڈگریوں کی تصدیق کی راہ میں نہ جانے
کون سا وہ ان دیکھا ہاتھ جس نے پانچ سال چٹکی بجا کر گزار دیئے۔اور ڈگری کی
تصدیق کا شکنجہ جند ایک کو ٹکٹکی پر چڑھا کرخاموش ہو گیا۔جعلی ڈگری والے
موجودہ دور میں وزیر تعلیم بنے ہوئے ہیں ۔اس سے ذیادہ اس ملک اور شعبہ
تعلیم کے ساتھ ہم کیا کھلواڑ کھیل سکتے ہیں۔اطہر شاہ خان جیدی کے ایک ڈرامے
میں تنخواہ کی وصولی پر انگوٹھے کا نشان دیکھ کر بادشاہ نے وزیر سے پوچھا
’’یہ کس نے انگوٹھا لگا کر تنخواہ وصول کی ہے‘‘۔وزیر سر جھکا کر عرض
کی’’جناب! یہ وزیر تعلیم کے انگوٹھے کا نشان ہے‘‘۔آنے والے الیکشن میں جعلی
یا اصلی ڈگری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔کیونکہ امید ہے جعلی کیا اصلی
ڈگری سے بھی نجات مل جائے گی۔ گریجویٹ اسمبلی بی اے کی شرط کا بل پیش کرکے
اسے منظور بھی کروا چکی ہے۔ اب آنے والی اسمبلی ہرگز ہرگز گریجویٹ اسمبلی
نہیں ہو گی۔بلکہ پارلیمنٹ پرانے سیاسی بابوں کی آماجگاہ ہو گی۔جہاں وہ اپنے
’’کمیوں ‘‘ کا گالیاں نکالنے کا شوق بھی پارلیمنٹ کے سیشن کے دوران ہی فرما
سکیں گے۔
سوال :کیا جرنیلی صدر پروویز مشرف الیکشن کھیلنے کے لئے پاکستان آئیں گے؟۔
(سلیقہ اوڈو۔کراچی،دوبئی)
جواب : جرنیلی صدر کی واپسی کے لئے سب سے بے چین شائد آپ کی اپنی پارٹی
ہوگی جو قصوری صاحب سے شروع ہو کر آپ پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔رہی فیس بک پر
دس لاکھ لوگوں کے پسند کرنے کی تو فیس بک کی پسندیدگی کو کبھی اہمیت نہ دیں
کیونکہ سیاست میں تو وہ لوگ جنہوں نے ایک ہی تھالی میں کھایا ہو براوقت
پڑنے وہی ایسے آنکھیں بدل لیتے ہیں فیس بک کے فین کہاں اور کس کس کو ’’فیس
‘‘ کرتے پھریں گے۔۔یہی چوہدری برادارن جو آپ کے جرنیلی صدر کو دس بار وردی
میں منتخب کروانے کی بات کرتے تھے۔اب ان کا نام بھی لینا گوارہ نہیں کرتے ۔جرنیلی
صدر صاحب نے نگران سٹ اپ کے آتے ہی پاکستان آنے کا اعلان کیا ہے۔جس کی
تاریخ وہ ابھی مقرر کریں گے۔سابق صدر جب سے باعزت دیس پرائے سدھارے ہیں ۔تب
سے اب تک ان کی پاکستان سے محبت تو جوش مارتی ہے۔مگر نہ جانے کیوں وہ ڈ،ر
ڈر جاتے ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ وہ ایک بار پاکستان کی سیاست کام یاب ہو
جائیں پھر ستے خیراں ہیں۔کیونکہ پھر ’’استثنی‘‘ کی چھتری ان کی خود بخود
حفاظت کرئے گی۔جہاں الیکشن کمیشن نے بیروں ملک پاکستانیوں کے لئے ووٹ کاسٹ
کرنے کے لئے انتظامات کرنے ہیں،وہاں دیار غیر سے الیکشن لڑنے والوں کو شامل
کرنے کی استدعا کی جا سکتی ہے۔اس سے سابق صدر سمیت،الطاف بھائی ،مولانا
طاہر القادری،اور حسین حقانی ’’SAFE MOD’’میں اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں۔
سوال :آنے والی حکومت اکیلی عوامی مسلم لیگ بنا سکتی ہے یا ہمیں بھی’’میثاق
نواز و زرداری‘‘ یا متحدہ کولیشن پر انحصار کرنا پڑے گا۔
( عبدالرشیدشیخ،لال کھوہ،راولپنڈی)
جواب:شیخ صاحب ! جو موجیں جرنیلی صدر کے ہوتے آپ کر چکے ہیں۔اس کی دوبارہ
تمنا تو آپ کر سکتے ہیں ۔عوامی مسلم لیگ کے سر پر آپ امیر المومنین بننے کے
خواب تو نہ دیکھیں۔ وہ اب ممکنات میں سے نہیں۔نواز شریف نے دنیا جہاں کے
سیاسی پرندوں کو اپنے ’’چھجے ‘‘ پر بیٹھنے کی اجازت دی ہے۔مگر نہ جانے وہ
کونسی غلطی ہے کہ ن لیگ کی طرف اڈاری سے قبل ہی آپ کے پر کاٹ دیئے جاتے
ہیں۔قاف لیگ نے آپ کی جانب مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔حالانکہ جتنی اڈاریاں ان
کے ’’سیاسی چھجے‘‘سے سیاسی پرندے مار رہے ہیں۔ان کو آپ کی طرف دیکھنا
چاہیئے تھا۔ایک عمران خان ہیں جو آپ کے ساتھ راولپنڈی میں اپنی سونامی کو
دھچکا پہنچا بیٹھے ہیں۔آپ کا شمار پاؤ کے ساتھ چھٹانک میں تو ہو سکتا ہے
لیکن اگر آپ خود کو سیر تصور کریں تو شائد یہ سوچ درست نہ ہو۔اس میں کوئی
شک نہیں کہ آپ سیاسی ٹاک شوز کی جان ہیں۔فیس بک پر بھی آپ کی فین کی تعداد
لاکھوں میں ہو گی۔آپ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔لیکن جو آپ کی اپنی ذاتی
پارٹی کی پوزیشن ہے۔آپ اس کے بہترین کوچوان تو ہو سکتے ہیں لیکن ٹانگے کی
سواریاں بھی شائد آپ پوری نہ کر سکیں۔لیکن آپ کو سیاست میں زندہ رہنا
ہے۔لیکن موجودہ جو پارٹیاں پاکستانی سیاست میں ہیں۔ان مین سے کسی کو بھی آپ
کے ’’وژن‘‘ کی ضرورت نہیں۔آپ کی کولیشن جو نظر آ رہی ہیوہ جرنیلی صدر مشرف
کے ساتھ ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ایک مرتبہ پھر پاکستان کو بچانے کے لئے سابق
صدر کو ساتھ دیں ۔ان کے ساتھ شیر و شکر ہو جائیں۔ان کا پاکستان میں ٹرائیکا
پورا کر دیں ۔ان کو پاکستان کے وسیع تر مفاد میں آپ اور آپ جیسے رفقا کار
کی اشد ضرورت ہے۔کل آپ نے ان کا ساتھ اپنی خوشی سے دیا تھا۔آج بھی ان کا
ساتھ ان کی خوشی سے دیں۔تاریخ میں امر ہونے کے لئے اس سے بہتر وقت شائد آپ
کو دوبارہ نہ ملے۔ قدم بڑھائیے اور امر ہو جایئے۔کیونکہ سب واقفان حال یہی
کہہ رہے ہیں۔اس دفعہ ’’ٹلی ‘ کھڑک نہیں سکے گی۔ |