اسقاطِ عمل

دُنیا اب تک ہزاروں سال پہلے کی دُنیا میں جی رہی ہے۔ ٹی وی کی اسکرین یا کمپیوٹر کے مانیٹر پر نظر ڈالیے تو ایسا لگتا ہے جیسے دُنیا کو کام کے سِوا کوئی کام ہی نہیں! بات کیڑے نکالنے کی ہو تو دُنیا ہم پاکستانیوں میں سو طرح کے کیڑے تلاش کرتی ہے مگر جب تحسین کا معاملہ آ جائے تو بُخل کی کوئی حد دِکھائی نہیں دیتی! دُنیا بھر میں طریقہ یہ ہے کہ لوگ کام کیے جاتے ہیں اور آرام کا نام نہیں لیتے۔ اور اِدھر ہم ہیں کہ کام کا بوریا بستر لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا ہے! اور کوئی دیکھے کہ کام کے بغیر بھی ہم زندہ ہیں!

آپ نے بھی سُنا ہوگا نیکی برباد، گناہ لازم۔ عملی زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جسے کوئی ہُنر آتا ہے اُس کی تو شامت ہی آجاتی ہے! یہ بھی کیجیے، وہ بھی کیجیے۔ اور بس کرتے ہی رہیے۔ جسے کام آتا ہے وہ تو سمجھ لیجیے گیا کام سے۔ ع
اُس کو چُھٹّی نہ مِلی جس نے سبق یاد کیا!

اپنے ماحول پر ایک نظر ڈالیے، اندازہ ہو جائے گا کہ جو لوگ عمل کی دُنیا کو خیرباد کہہ چکے ہیں وہ خاصے سُکون کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انفرادیت اِسی کیفیت میں تو پوشیدہ ہے۔ دُنیا بھر کے لوگ کام کر ہی تو رہے ہیں۔ اُنہوں نے کیا تیر مار لیا؟ اور اگر ہم بھی اُن کی طرح کام کرتے کرتے گِھس گِھسا جائیں تو پھر ہم میں اور اُن میں فرق کیا رہا؟ سوال جدّت اور نُدرت کا ہے۔ نُدرت کا پتہ دینے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ عمل کی دُنیا سے دُور رہا جائے۔ خواندگی کی کم شرح کے باوجود پاکستانی قوم یہ نُکتہ سمجھ گئی، دُنیا والے اب تک سمجھ نہیں پائے کہ ع
جو لوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں!

اہل جہاں کو کام کرتے دیکھ کر شرمندہ ہونے اور دِل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر دوسروں کو کام میں جُتا ہوا دیکھر کر آپ شرمندہ ہوتے رہے تو جان لیجیے کہ عمل سے دُور رہنے اور پُرسکون زندگی بسر کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا! ہم نے عمل کی دُنیا کو ترک کرکے ”عملیات“ کی دُنیا کو اپنا لیا ہے! یہ کیا کہ اِدھر سے اُدھر مارے مارے پھریے، دو وقت کی روٹی کے اہتمام میں جسم و جاں کو غارت کرتے رہیے۔ آسان سا طریقہ ہے۔ ایک کارگر قسم کا تعویذ لائیے، کپڑے کی گڑیا بناکر اُس میں چار چھ سُوئیاں چُبھوئیے۔ بس، بن گئی بات اور ہوگیا کام۔ اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عمل کو ترک کرکے ”عملیات“ کو اپنانا بھی پیش رفت ہے کیونکہ عمل واحد ہے اور عملیات جمع۔ دُنیا عمل یعنی صیغہ ¿ واحد پر اٹکی ہوئی ہے اور ہم جمع کے صیغے تک پہنچ چکے ہیں!

اگر دُنیا سے الگ دِکھائی دینا ہے تو عمل کی دُنیا سے باہر آ جائیے! اور اگر اپنے ہی معاشرے میں زبردست انفرادیت کا مظاہرہ کرنے کی خواہش ہے تو عمل کو گلے لگا لیجیے! ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے وجود کا جائزہ لیجیے اور اندازہ لگائیے کہ جس معاشرے میں سبھی کام سے بھاگ رہے ہیں وہاں آپ کام کرتے ہوئے کیسے لگیں گے!

معاشرے میں بے عملی کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال موجود ہے۔ مسابقت ایسی ہے کہ فاتح کا تعین شاید ہزار سال میں بھی ممکن نہ ہو! آپ نے کبھی کچھ ہوتے ہوئے دیکھا ہے؟ جس کے ذِمّے جو کام ہے بس وہی کام وہ نہیں کر رہا۔ ٹرینوں کا کام چلنا بلکہ چلتے رہنا ہے مگر یہ اگلے وقتوں کی بات ہے۔ اب ٹرینیں فراغت کے پلیٹ فارم پر کھڑی ہیں!

سرکاری اداروں کا بنیادی فریضہ عوام کو خدمات فراہم کرنا ہے مگر بے چارے عوام اِن اداروں کی خدمت میں جُتے ہوئے ہیں! یعنی عوام کی خون پسینے کی کمائی اِن اداروں کو چلانے میں ٹھکانے لگ رہی ہے! اور تو اور، قرضوں کی بھی خدمت یعنی debt servicing عوام کے ناتواں کاندھوں پر آن پڑی ہے!

قومی کرکٹ ٹیم کا بنیادی کام کرکٹ کھیلنا ہے مگر بے چاری اِتنے کھیلوں میں اُلجھی ہوئی ہے کہ اب کرکٹ کھیلنا ہی بُھول بیٹھی ہے! کرکٹرز اب ماڈلنگ کی پچ پر زیادہ اچھا کھیلتے ہیں!

کرکٹرز ماڈلنگ کی طرف آئے تو ماڈلز نے جوہر دِکھانے کے لیے دوسرے میدان تلاش کرلیے!

قومی ہاکی ٹیم کھیلنے سے گریز کرتے کرتے اب مکمل فُل بیک ہوچکی ہے! ہاکی میں اِتنا مال ہی نہیں کہ کوئی ایڈہاک ازم چھوڑ کر اِس کھیل کو فُل ٹائم پروفیشن کے طور پر اپنائے! ع
کھیل اچھا ہے وہی جس میں کہ مال اچھا ہے!

گلوکار گانے کو لات مار کر ٹی وی پروگراموں کی میزبانی پر تُل گئے ہیں اور ٹی وی اینکرز نے لگے ہاتھوں گلے کو کیش کرانا شروع کردیا ہے!

ٹی وی سیٹ آن کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جنہیں بولنا نہیں آتا وہ بول رہے ہیں اور جو بولنا جانتے ہیں وہ چُپ سادھے گوشہ نشینی اختیار کر بیٹھے ہیں!

تعلیمی اداروں کا کام علم کی دولت بانٹنا ہے مگر یہ عمل کب کا ترک ہوچکا۔ اب تعلیمی ادارے سیاست کی بساط کے مُہرے بن چکے ہیں!

جہاں عملی زندگی کے نام پر سبھی کچھ اُلٹ پلٹ چکا ہو، وہاں کچھ کرکے آپ کیا کرلیں گے؟ بہتر یہ ہے کہ عمل کا تصور ذہن سے نکال دیجیے۔ اور اگر آسانی سے ایسا ممکن نہ ہو تو کِسی ماہر نفسیات سے مِلیے، اپنا مسئلہ بیان کیجیے۔ اگر گھی سیدھی اُنگلی سے نہ نکلے تو اُنگلی کو تھوڑا سا ٹیڑھا کرلیجیے۔ پُرسکون زندگی بسر کرنے کے لیے ذہن سے عمل کا تصور کسی نہ کسی طور نکال پھینکیے۔ بہت سے لوگ نفسیات کے ماہرین کی مدد سے ”اسقاطِ عمل“ کی منزل سے بھی گزرتے ہیں!

ملک کی مجموعی کیفیت ایسی ہے جیسے لوگ اِس الزام سے بھی بچنا چاہتے ہیں کہ اُنہیں کوئی کام آتا ہے! کوئی بھی اپنے آپ پر کام جاننے یا کام کا عادی ہونے کی چھاپ نہیں لگوانا چاہتا! کام کرتے رہنا اور خود کو عملی ثابت کرنا کبھی کبھی نفسیاتی مرض بھی تو بن جاتا ہے۔ بہت سے لوگ باقاعدگی سے کام پر اِس لیے بھی آتے ہیں کہ کِسی کو یہ پتہ نہ چلے کہ اُن کے بغیر بھی کام چل ہی جاتا ہے! ہم نہیں چاہیں گے کہ آپ ایسے کِسی خوف میں مبتلا ہوں۔ یہ بھی کوئی زندگی ہوئی کہ صبح گھر سے کام پر نکلے اور شام کو تھکے ہارے گھر آکر سوگئے۔ اگر یہی زندگی ہے تو ذرا سوچیے کہ زندگی کے موج میلے کی بہار کا لُطف کیسے پائیں گے؟ جہاں کوئی کچھ نہ کرتا ہو یا کرتے ہوئے بھی نہ کرنے کی اداکاری کرتا ہو وہاں عمل پسند ہونا آپ کو کیا دے گا؟ اچھا ہے کہ آپ پر ایسا کوئی الزام نہ لگے۔ آپ جیتے جی عمل سے دُور بھی رہیں تو بہر حال عمل آپ کے ساتھ ہی رہے گا۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ ایک دن آپ کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ضرور دیا جائے گا! جب عمل کے بغیر بھی اعمال نامہ مِل کر ہی رہنا ہے تو پھر عمل کے چکر میں پڑ کر زندگی کو بے لُطف کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524399 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More