پاکستان میں گھناﺅنا کھیل کھیلا جارہا ہے

کراچی میں اتوار کے روز ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی۔ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں ابوالحسن اصفہانی روڈ پر یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے جن میںسینتالیس افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ایک سو چالیس سے زائد زخمی ہوئے۔ دو سو رہائشی فلیٹس، دو عمارتیں اور دو بینک مکمل طور پر تباہ گئے ۔ اس سے کچھ روز قبل ہی کوئٹہ میںکرانی روڈ پر مارکیٹ کے باہر دھماکا ہوا تھا جس میں خواتین اور بچوں سمیت تراسی افراد ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سو گئے اوردو سو سے زائد زخمی بھی ہوئے۔ یہ دھماکا پانی کے ٹینکر کے ذریعے کیا گیا جس سے دو عمارتیں منہدم اور چار مارکیٹیں، پچیس گاڑیاں، موٹر سائیکلیں اور رکشے تباہ ہوگئے۔ اس واقعہ میں دھماکہ خیز مواد آٹھ سو سے ایک ہزار کلوگرام تک استعمال کیا گیا تھا۔ اس دھماکے سے چند روز قبل دس جنوری کو علمدار روڈ پر ہزارہ برادری پر کوئٹہ میںھماکا ہوا جس میںتراسی کے قریب بے گناہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ لوگ تراسی نعشیں کھلے آسمان تلے سڑک پر رکھ کر مسلسل تین روز تک دھرنا دیے بیٹھے رہے جس کے بعد ان کے مطالبہ پر بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ کردیا گیا۔دوسری جانب آئے دن کراچی ، بلوچستان اور متعدد جگہوں پر علماءکرام اور مدارس دینیہ میں علم دین حاصل کرنے والے طلباءکران کو بڑی تعداد میں قتل کیا جارہا ہے۔کراچی میں مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری کو نہایت بے دردی سے شہید کیا گیا۔ان کے بعد تقریباروزانہ کسی امام مسجد،مﺅذن اورمدرسے کے طالب علم کو شہید کیا جاتارہا ہے۔لشکر جھنگوی اور اہل سنت والجماعت کے حوالے سے ایسی فضا بنائی گئی کہ آئندہ اگر دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تواس کا ملبہ آسانی سے انہی پر ڈالا جاسکے اور اصل چہرہ چھپا ہی رہے۔

ان تمام واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ پاکستان میں ایک گھناﺅنا اور خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ایسے تمام واقعات کی کڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس قسم کی کارروائیوں کے پس پشت قوتوں کو جاننے کے لیے واقعات کے ساتھ وقت کی اہمیت کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔اور وہ امریکا کا افغانستان سے فرار ہونے کا وقت ہے۔ یہ بات تو سب پہ عیاں ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے، اور اب وہ بآسانی افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔اس کے لیے وہ چاہتا ہے کہ افغانستان سے نکلتے وقت اس کے خلاف کم سے کم مزاحمت ہو، جتنی کم مزاحمت ہوگی اتنا زیادہ اس کے مفاد میں ہے۔امریکا کی راہ میںبہت بڑی رکاوٹ پاکستان میں موجود طالبان اور امریکا مخالف مذہبی طبقہ ہے۔امریکا جاتے ہوئے مشکلات کو کم کرنے کے لیے ان دونوں قوتوں کے زور کو کم کرنا چاہتا ہے۔امریکا نے پاکستان میں موجود اپنے لوگوں کے ذریعے دونوں قسم کے لوگوں سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی تیار کرلی ہے۔ اس لیے امریکا ایک طے شدہ منصوبے کے تحت پاکستان میں شیعہ سنی کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے۔اس سے امریکا کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ امریکا کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں کمی آئے گی۔یہ بات تو واضح ہے کہ جب کسی بھی فرقے پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو اس فرقے کے لوگوں کا مشتعل ہونا ایک فطری چیز ہے۔اس فرقے کے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ کام ہمارے مخالفین نے کیا ہے۔ اسی لیے کوئٹہ دھماکوں کے بعد متاثرین نے بڑے شدومد کے ساتھ اپنی حریف جماعت لشکر جھنگوی کو مورد الزام ٹھہرایا اور اس کے بعد لشکر جھنگوی کو پورے پاکستان میں ان حملوں کا ذمہ دار سمجھا گیا ۔ انہی دھماکوں کی آڑ میں سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی سیاست خوب چمکائی، آئے روز پنجاب میں نون لیگ پر دہشت گردوں کا ساتھ دینے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ شیعہ سنی اختلافات آج سے نہیں ہیں بلکہ ایک عرصے سے چلے آرہے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک دوسرے کو یوں دھماکوں کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ اختلاف کا ہونا ایک فطری چیز ہے اور نہ اس کو ختم کیا جاسکتا ہے۔جب کسی کو طاقت کے زور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہے توکیسے ممکن ہے کہ کسی بھی فرقے کے لوگ اپنے مخالفین کو یوں دھماکوں کے ذریعے ختم کرنا چاہیں ؟لشکرجھنگوی کا وجود ایک ایسامعاملہ ہے جسے واضح طور پر نشان زد نہیں کیا جا سکتا۔اس لشکر کو بلوچستان میں کس نے چھوٹ دے رکھی ہے؟اس کی فنڈنگ کون کررہا ہے؟اور اس کو کنٹرول کیوں نہیں کیاجارہا ؟یہ سوالات اس پورے معاملے کو مشکوک بنا دیتی ہیں۔کل پیر کے روز معا صر روز نامہ جنگ میں حامد میر کا کالم”ایک دن خضدار میں“ بین السطور بہت کچھ بیان کر رہا ہے۔جب یہ ساری باتیں واضح ہوچکی ہیں تو صرف ایک بات ہی رہ جاتی ہے کہ اس سارے کھیل کے پیچھے یقینا بہت بڑی چال چلی جارہی ہے۔جس کا سہرا امریکا کے سر پر ہے۔ امریکا پاکستان میں اپنے کارندوں ، پاکستان کے خفیہ سرکاری لوگوں اور لسانی تنظیموں سے یہ کام لے رہا ہے۔ یقینا ان واقعات میں ان کے ہی تربیت یافتہ لوگ ملوث ہوتے ہیں، ورنہ یہ ممکن نہیں کہ غیر تربیت یافتہ اشخاص یہ کام کرلےں اور کوئی بھی جماعت چاہیے شیعہ ہو یا سنی ہو ان کے پاس ایسے افراد کا میسر آنا بہت مشکل ہے۔نہ کوئی ان کو پکڑ سکے اور کسی کو پتا بھی نہ چلے، اتنا بڑا دھماکا ہوتا ہے، جس میں بے شمار لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، دھماکا کرنے والے لوگ کسی گاڑی میں دھماکا خیز مواد لاتے ہیں، جو سیکورٹی کی نظروں کےسامنے سے گزر کر آتے ہیں، لیکن کوئی سیکورٹی اہلکار انہیں نہیں روکتا۔ ویسے تو ہمارے وزیر داخلہ کو ایک مہینہ پہلے ہی اس بات کی اطلاع ہوجاتی ہے کہ دہشت گرد فلاں جگہ حملہ کرنے والے ہیں اور وزیر داخلہ آج کل پنجاب حکومت کے خلاف دل کھول کر الزامات لگا رہے ہیں،28فروری کے روزنامہ جنگ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے تقریباً ڈیڑھ مہینہ پہلے ہی اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ” فروری کے پہلے ہفتے سے کراچی میں بڑی دہشت گردی ہونے کا خدشہ ہے تاہم وہاں دہشت گردی میں طالبان ملوث نہیں ہوں گے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ سندھ حکومت اور تمام انٹیلی جنس ادارے اپنی توانائیاں کراچی میں ممکنہ دہشت گردی کی بڑی کارروائیاں روکنے پر صرف کردیں۔ کراچی میں گھمسان کی دہشت گردی ہونے کا خطرہ ہے۔ کراچی میں ہونے والی دہشت گردی میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہوں گے، طالبان ملوچ نہیں ہوں گے“ جب وزیر داخلہ کو یہ سب کچھ ایک ڈیڑھ مہینہ پہلے ہی پتا چل گیا تھا تو ان دہشتگردوں کو پکڑنے میں کیوں ناکام رہے؟کیا وزیر داخلہ کی یہ ناکامی اور ان کا ڈیڑھ مہینہ پہلے ہی اطلاع دینا گھناﺅنے تعلقات کی خبر نہیں دیتا؟۔یقیناً ایسے واقعات میں امریکا کے حمایتی خفیہ لوگ ملوث ہیں۔ گزشتہ روز سینئر صحافی حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو اسلام اور پاکستان کے نام پر سازشوں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ان لوگوں کی سرپرستی خفیہ ادارے کرتے ہیں، لوگ یہ کا لعدم لسانی جماعتوں کے ہوتے ہیں، لیکن نام اسلام اور مذہب کا ستعمال کرتے ہیں۔

ان دنوں طالبان سے مذاکرات کی بھی بھرپور کوشش کی جارہی ہے،حالانکہ جمعیت علماءاسلام ، جماعت اسلامی اور دفاع پاکستان کونسل ایک عرصے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت اور کوشش کرہے ہیں لیکن کبھی حکومت اور لسانی تنظیموں نے ان سے مذاکرات کی حمایت نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ ان سے مذاکرات کی مخالفت ہی کرتے رہے، ان سے بات کرنے کواپنی بہت بڑی شکست سمجھتے رہے ہیں، لیکن اب کی بار مولانا فضل الرحمن نے جب طالبان سے مذاکرات کی بات کی تو سب ہی یک زبان ہوکر تیار ہوگئے۔ ۔اس کی دو وجوہات نظر آتی ہیں، پہلی تو یہ کہ اب انتخابات قریب آرہے ہیں سب تنظیمیں چاہتی ہیں کہ انتخابات کا وقت سکون و آرام سے گزر جائے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوںگے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اب کی بار جو مذاکرات کے مخالفین بھی مذاکرات کے لیے تیار ہوئے ہیں ، ان کے پیچھے وہی وجہ ہے کہ امریکا چونکہ افغانستان سے فرار ہونا چاہتا ہے اور طالبان نے امریکا کے ناک میں دم کیا ہوا ہے، امریکا چاہتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کر لیے جائیں ،طالبان ہتھیار رکھ دیں اور ہم آسانی سے افغانستان سے نکل جائیں طالبان ہمیں ذلیل و رسوا کرکے مار دھاڑ کر کے نہ نکالیں، اسی لیے اس بار طالبان سے مذاکرات کے مخالفین بھی طالبان سے مذاکرات کرنے پر راضی ہوئے ہیں۔اس بات کا متعدد رہنما بھی کرچکے ہیں کہ امریکا پاکستان میں دہشتگردی کروا رہا ہے،اس بات کے ثبوت بھی کئی بار منظر عام پر آچکے ہیں۔پچھلے دنوں آنے والی رپورٹ کے مطابق امریکا نے پاکستان میں اپنے کارندوں کی تعداد میں مزید اضافہ کیا ہے جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان میں امریکا کے مفاد میں کام کریں ، اور امریکا کا سب سے بڑا مفاد اس بات میں ہے کہ کسی طرح پاکستانیوں کو آپس میں لڑایا جائے تاکہ ہماری راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں اور پاکستان کمزور ہو جائے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631980 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.