جمہوریت کے تحفظ کیلئے وطن کی
سلامتی اور عوام کی جانیں داؤ پر نہ لگایا ئی جائیں!
گوشت کے جلنے اور انسانی لہو کی بو کے ساتھ تکلیف سے کراہتے ہوئے زخمیوں کی
سسکیوں ‘ بیوہ خواتین کے بین کے ساتھ یتیم ہوجانے والے معصوم بچوں کی
دردناک چیخوں ‘ ساکت چہروں کے ساتھ اپنے جوان بچوں کے لاشوں کو کاندھا دیتے
بزرگوں اور اپنے اولاد کے کٹے پھٹے اور گوشت کے لوتھڑے بنے ہوئے زخم زخم
لاشے پر سینہ پیٹتی ماؤں کی دل دہلادینے والی آہ و بکا سے شاید عرش بھی
تھرتھرا رہا ہوگا اور ملائکہ بھی اس ظلم پر آنسو بہارہے ہوں گے مگر وہ تمام
لوگ جن کے دلوں پر اللہ ”مہر “ لگا چکا ہے نہ تو ایسا ظلم کرنے سے باز آرہے
ہیں‘نہ ہی مفاد پرست سیاستدان اس موقع کو سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرنے سے
چوک رہے ہیں ‘ نہ تحفظ کے ضامن ادارے تحفظ کی ذمہ داری نبھارہے ہیں ‘ یہی
وجہ ہے کہ دہشت گردی کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے اور خود کش حملوں ‘
ٹارگیٹ کلنگ ‘ گاڑیوں میں بم نصب کرکے قتل و غارت گری کا سلسلہ اجتماعی قتل
و غارت تک جا پہنچاہے ۔
کوئٹہ میں جس منظم انداز میں ہزارہ برادی کو نشانہ بناکر ہلاکتوں کی تعداد
کو درجنوں سے بڑھاکر سینکڑوں تک پہنچانے کی کوشش کی گئی وہ اس بات کا ثبوت
ہے کہ تحفظ کے ضامن اداروں کی کارکردگی جس تیزی سے تنزلی کا شکار ہے امن
برباد کرنے والوں کی کارکردگی ‘ صلاحیتوں اور کاروائیوں میں اتنی ہی ترقی
اور جدت آتی جارہی ہے اور اب عباس ٹاؤن کراچی میں جس منظم منصوبہ بندی اور
آزادی کے ساتھ پی ایم ٹی کے نیچے بارود سے بھری گاڑی کھڑی کرکے رہائشی
علاقے اور فلیٹ سائٹ کو تباہ کرکے خواتین و معصوم بچوں سمیت زیادہ سے زیادہ
ہلاکتوں کو یقینی بنانے کی منصوبہ بندی جس آزادی و اطمینان کے ذریعے پایہ
تکمیل تک پہنچائی گئی‘ اس نے نہ صرف دنیا کی تاریخ میں دہشت گردی کی نئی
جہت متعارف کرائی ہے بلکہ اس بات کو بھی ثابت کردیا ہے کہ پاکستان وہ ملک
بن چکا ہے جہاں عوام گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں اور دہشت گرد جب چاہیں
جہاں چاہیں عوام کا قتل عام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جبکہ تحفظ پر مامور
ادارے سیکورٹی کی اہلیت سے محروم ہوچکے ہیں اور سیاستدان و حکمران ملک و
عوام سے زیادہ اختیار و اقتدار سے محبت کرتے ہیں ۔
پاکستان اپنی تاریخ کے بد ترین دور میں داخل ہوچکا ہے نہ کسی کی جان محفوظ
ہے ‘ نہ کاروبار ‘ نہ عزت ‘ نہ آبرو اور اب تو عوام اپنے گھروں میں بھی غیر
محفوظ ہوچکے ہیں اور سیاست کے صحرا میں عوام کو نخلستان کا سراب دکھانے
والے سیاستدان قومی سلامتی اور تحفظ عوام کی خاطر یکجا و متحد ہونے کی
بجائے اقتدار و اختیار کی بندر بانٹ کیلئے جمہوریت کا راگ الاپ کر انتخابات
کے ذریعے باری کی تبدیلی کا ڈرامہ رچانا چاہتے ہیںاور آئین کا نام لیکر
قومی ادارے ان کے ممدو معاون کا کردار ادا کررہے ہیں جبکہ یہ بات ثابت
ہوچکی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی صلاحیت کے حصو ل کیلئے پیش قدمی
کرنے ‘ مسلم اُمہ کو یکجا کرنے کی کوشش اور گوادر میں گہری بندرگاہ تعمیر
کرکے پاکستان کی معیشت و تحفظ کو مستحکم بنانے کی جانب قدم بڑھانے کے جرم
کی پاداش میں عدالتی قتل کا شکار ہونا پڑا ‘ مشرف کو گوادر کو ترقی دینے کے
جرم میں پاکستان چھوڑنا پڑااور اب آصف علی زرداری کی جانب سے گوادر کو
چائنا کے حوالے کرنے کے اقدام کے بعد سیاست نے جو کروٹ لی اور دہشت گردی کی
وارداتوں میں جس قسم کی وسعت اور جدت آئی وہ اس بات کا پیغام تھا کہ
پاکستان ذوالفقار علی بھٹو جیسی غلطیاں نہ دہرائے مگر صدر زرداری کی جانب
سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر ایران گیس پائپ لائن سمجھوتے کو بھی پایہ تکمیل
تک پہنچانے کے عزم کے بعد عباس ٹاؤن کراچی میں دہشت گردی کے ذریعے ایک اور
پیغام دیا گیا ہے جسے سمجھنے والوں نے سمجھ لیا ہے۔ مفاد پرست قوتوں کو
اپنی چھتری تلے جمع کرنے والوں نے پیغام بروں کو اپنی وفاداری کا یقین
دلانے کیلئے گوادر کو چین کے حوالے کرنے پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے
حالانکہ حالات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ پاکستان میں لسانی ‘ سیاسی یا
فرقہ وارانہ بنیاد وں پردہشت گردی نہیں ہورہی بلکہ دہشت گردی کے پیچھے ان
بیرونی قوتوں کا ہاتھ ہے جو پاک ایران تعلقات کی مخالف اور گوادر بندرگاہ
سے خوفزدہ ہیںچونکہ یہ قوتیں تنہا نہیں بلکہ انہیں سامراج کا مکمل تعاون و
اعتماد حاصل ہے اسلئے کویت کو باجگزاربنانے ‘ عراق کو برباد کردینے اور
افغانستان میں تباہی پھیلانے والی یہ قوتیں پاکستان کو بھی بربا دکرنے کا
تہیہ کرچکی ہیںاسلئے اب وقت آن پہنچا ہے کہ تحفظ پر مامور ادارے اپنا حقیقی
فریضہ ادا کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی اور عوام کے تحفظ کو ترجیح بناکر
سخت فیصلے کریں اور دیگر ادارے جمہوریت کی بجائے ملک و قوم کے تحفظ پر توجہ
دیں اور چند خاندانوں میں اختیار و اقتدار کی باریاں تقسیم کرنے کیلئے کثیر
قومی سرمائے کے ضیاع سے رچایا جانا والا انتخابی ڈرامہ ایک بار پھر رچانے
کی بجائے عوام کو بچانے پر توجہ دی جائے کیونکہ عوام ہیں تو جمہوریت ہے اور
پاکستان ہے تو اقتدار.... عوام اور پاکستان کی قیمت پر جمہوریت اور
انتخابات کو فوقیت و اہمیت دینے کی روایت آج ہمیں اس مقام تک لے آئی جہاں
کوئی فرد اپنے گھر میں محفوظ نہیں ہے اگر اس روایت کو مزید برقرار رکھنے
کیلئے پاکستان کی سلامتی اور عوام کے تحفظ کو مزید داؤ پر لگایا گیا تو
شاید پھر ہمارا حال وہ ہوجائے کہ ہم ”قبر“ میں بھی محفوظ نہ رہیں اور دنیا
چھوڑنے کے بعد بھی نجات نہ ملے ۔ |