سیاسی یا مذہبی جنگ۔۔۔؟

ترجمہ : سورة الدھر (76)
آیت ۔۱ : ”بیشک انسان پر زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے، کہ وہ کو ئی قابلِ ذِکر چیز ہی نہ تھا۔ “
آیت۔۳: ”بیشک ہم نے اسے (حق و باطل میں تمیز کرنے کیلئے شعوروبصیرت کی) راہ بھی دکھا دی، (اب) خواہ وہ شکرگزار ہو جائے یا ناشکرگزار رہے۔“

کیا یہ لوگ بھول گئے؟ کہ عنقریب وہ دن آنے والا ہے جب روزِ محشر برپا ہوگا، وہاں تو نہ جھوٹ چلے گا، اور نہ تمہاری یہ سیاست،

ہماری عوام کا حال اُس رعایا کی طرح ہے ، جو آج کے مختلف بادشاہوں کے یا تو غلام بن چُکے یا اُن کے تابع، بادشاہت کا دور تو کب کا ختم ہو چکا، لیکن سیاستدانوں کی شکل میں آج بھی دُنیا میں وہ بادشاہی دُور چل رہا ہے۔

یہاں ہر سیاستدان اپنی باری پر عوام کو وہ سُہانے خواب دیکھاتے ہیں ، جو نہ تو اُنہوں نے پورا کرنا ہوتے ہیں ، اور نا اُن خوابوں کو وہ پورا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اور ہماری عوام ہر بار ناجانے کِس اُمید سے دوبارہ اُنہیں لوگوں کا ساتھ دیتی ہے، جنہوں نے مُلک چلانے کی باریاں رکھی ہوئی ہے، لیکن دراصل یہ اُمید نہیں بلکہ عوام کا ڈر ہے۔ ہاں ڈر ۔۔۔ کیونکہ اس مُلک میں ستر فیصد دیواروں پر ہر پارٹی عوام کو دھمکی آمیز پیغامات دیتی رہتی ہے۔ مثلاً :یہ تو ”مرتا کیا نہ کرتا“ والی بات ہے۔

ذرا سوچئے! کیا ہم ترقی کی راہ پر چل رہے ہیں؟؟ کون مار رہاہے؟؟ کون مر رہا ہے؟؟ ہر روز کسی نہ کسی گھر میں ماتم برپاہوتاہے،،،

اتنی دیدہ دلیری سے کون اس ملک کا امن و امان تباہ کرنا چاہتا ہے؟ وہ کون سی طاقت ہے جو اس مُلک کے قانون کو سرِعام پیروں تلے روندرہا ہے؟ کیا اس مُلک کا قانون اتنا کمزور ہو گیا ، کیا ہماری ایجنسیاں اتنی کمزور ہو گئی؟ نہیں ہر گز نہیں، نہ تو قانون کمزور ہے نہ ہی ہماری ایجنسیاں۔ بلکہ اس مُلک کی سیاست کے ٹھیکدار وں کو لالچ اور کُرسی کی بھوک نے کمزور بنا دیا۔

یہ بات یہ سب جانتے ہیں، کہ اسلام کے نام پر فسادات، قتل وغارت، اغواگری ان سب میں کس کا ہاتھ ہے، پر۔۔۔لالچ،بھوک۔۔۔

میں ایک آرٹیکل پڑھ رہا تھا جس میں محمد عمران شریف صاحب نے بلکل صحیح لکھا ہے” کہ اب تو وہ وقت آگیا ہے کہ ایک فرقے کے لوگ مخالف فرقے کے لوگوں کو قتل کرنا سب سے عظیم کام سمجھتے ہیں۔“ کوئٹہ کی خون سے رنگین گلیاں ہو یا کراچی کی لہولہان سڑکیں ، فرقہ ورانہ فسادات،ٹارگٹ کلنگ، خودکش دھماکے یا مُلک کے دوسرے شہروں میں ہونے والا قتلِ عام۔۔۔

نام نہاد کالعدم تنظیمیں بڑی بہادری کے ساتھ کہیں بھی کسی بھی وقت اپنی کاروائیاں کر لیتی ہے اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کر لیتی ہے۔ اور ہمارے منتخب نمائندے بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں، ہم نے دہشتگردی کے خدشات سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا، اس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم ان بیرونی ہاتھوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ ہم ان کو اسلام کے سپاہی کہتے ہیں۔ اور سارا ملبہ طالبان پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ کون سے طالبان ہیں،جنہیں ڈانس کلب، فحاشی کے اڈے، جواخانے اور ظالم لوگ نظر نہیں آتے۔ انکے بنائے ہوئے طالبان کو مسجد، امام بارگاہ، عبادت گاہ، مارکیٹیں اور معصوم لوگ ہی کیوں نظر آتے ہیں؟؟

ہم نے پاکستانیت کو چھوڑ کر اپنی برادری، اپنے فرقے اور اپنی پارٹیوں کو زیادہ اہمیت دے دی ہیں۔ ان تمام تر حالات کا ذمہ دار کسی ایک شخص کو ٹہرانا مقصد نہیں۔

بلکہ ہر وہ شخص اس کا ذمہ دار ہے۔ جو دوسرے فرقے، قومیت اور مذہب کے فرد کے لیے دل میں نفرت اور بُرا خیال رکھتا ہے۔ وہ لوگ بھی ان میں شامل ہیں۔

جو اپنے موجودہ صرف نام کے بادشاہوں کی خوشنودی کے لیے یہ تمام کام کرتی ہیں۔

جس بندے کو کلمہ طیبہّ کا صحیح مفہوم بھی نہیں آتا، وہ بھی دوسرے فرقے کے خلاف ایسا فتوا دیگا، کہ جیسے اسلام کا سب سے بڑا ٹھیکیدار یہی ہے۔ اصل میں ہمارا ضمیر مر گیا ہے، ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارا دوست کون ہے اور ہمارا دشمن کون ہے۔
پاکستان زندہ باد۔۔۔
Muhammad Naeem Khan
About the Author: Muhammad Naeem Khan Read More Articles by Muhammad Naeem Khan: 2 Articles with 836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.