بارہ مئی قریب ہے-ہوشیار باش

بارہ مئی قریب ہے -ہوشیار باش - سیاسی و مفادی شعبدے بازوں سے ہوشیار

سب بھائیوں کو اسلام وعلیکم۔

بعد از سلام ملک کے ایک اہم واقعے کی طرف اپنے تمام پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتا ہوں۔

بارہ مئی کے واقعہ کو لے کر کچھ لوگ مذموم کوشش کریں گے کہ اس واقعہ کو بہانہ بنا کر کراچی کا امن و سکون غارت کیا جائے تمام بھائیوں سے التجا ہے کہ ایسے ظالموں کی ایک ایک بات اور ایک ایک حرکت پر نظر رکھیں اور ان سے ہوشیار رہیں ۔ یاد رکھیں ایسے تمام مذموم اقدامات جن سے مملکت پاکستان کا امن و سکون و سالمیت خطرے میں پڑے ان سے اپنے آپ کو آگاہ رکھیں اور خود دیکھ لیں کہ اگرچہ پاکستان کا اصل دشمن بیرونی ہے مگر جس کے ہاتھ میں اندرونی دشمنوں کی باگیں بھی ہیں۔ ہوشیار باش۔

جیسا کہ آپ تمام کے علم میں ہے کہ پاکستان میں یوں تو کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں جن میں بے شمار انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے مگر شاید بہت کم لوگوں کو ان کی تاریخیں یاد ہوں ہاں ایک واقعہ ایسا ضرور ہے کہ جس کی تاریخ (سیاسی اور) کئی وجوہات کی بنا پر بہت سے پاکستانیوں کو ناصرف یاد ہے بلکہ یاد کرائی جاتی رہتے ہے جس میں پچاس کے قریب انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ ایک جان کی قیمت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ہم تصور کریں تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجائیں یقین نہیں آتا تو ہم اگر اپنے آپ کو ان لاشوں میں سے ایک سمجھ سکیں تو شاید ہمیں اندازہ ہو کہ انسانی جان کی قیمت کیا ہوتی ہے۔ بحرکیف بارہ مئی کا واقعہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین واقعات میں سے ایک ہے اور اس کے زمہ داروں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ چاہے وہ کوئی بھی ہوں اور کتنے ہی طاقتور کیوں نا ہوں۔

میرے کچھ ناقد بھائی اس میں کسی کو بھی شامل کرسکتے ہیں ظاہر ہے ظلم جس نے بھی کیا وہ ظلم ہے اور اب چونکہ عدالتیں بھی آزاد ہیں اور ان واقعات کی فوٹجز بھی آزاد میڈیا مینز کے پاس محفوظ ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری ان واقعات کا نوٹس لیں اور فی الفور ایک بڑی بینچ بنا کر ان حالات و واقعات کی عدالتی تحقیقات کرائیں کہ جن وجوہات کی بنا پر بارہ مئی کا واقعہ پیش آیا اور چونکہ مسٹر جسٹس افتخار چوہدری صاحب بھی اس واقعہ کے پیش آنے کے کرداروں میں سے تھے جن سے حکومتی سطح پر درخواست کی گئی تھی کہ برائے مہربانی اس دن کورٹ میں ہونے والے کسی تقریب میں شرکت کے لیے براستہ سڑک ریلیوں کی صورت میں ناجائیں، اور حکومت وقت نے اس وقت مسٹر جسٹس افتخار کو یہ پیش کش بھی کی کہ اگر تقریب میں جانا اتنا ہی ضروری ہے تو ان کے لیے ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ریلی کی صورت میں اس وقت جانے سے تصادم کا احتمال ہے مگر کیا کیجیے ان سیاسی شعبدوں بازوں کا کہ جنہوں نے اس امر کی مخالفت کی اور اس بات پر مضر رہے کہ ریلی ہی کی صورت میں ہی نکلنا ہے۔

اور پھر وہی ہوا کہ چند ناعاقبت اندیشوں اور ملک دشمن عناصر جو ایسے کسی واقعہ کی تلاش میں رہتے ہیں انہوں نے نے بیچ میں پڑ کر کراچی کی سڑکوں پر ظلم و بربریت کا وہ کھیل کھیلا اور کھلوایا جسکے نتیجے میں اتنی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا کہ جن کی تلافی ممکن نہیں، مرنے والے بدنصیبوں کو کس بات کی سزا ملی یہ تو ان کو قتل کرنے والے جانیں۔ کاش ہمارے سیاسی لیڈران اس بات کو سمجھ سکیں کہ انسانی جانیں کتنی عزیز ہوتی ہیں ایسے واقعات میں کسی لیڈر کا کوئی پیارا قتل ہو تو ان کو کچھ پتہ بھی چلے۔ قتل ہونے والے تو زیادہ تر بے چارے غریب اور معصوم لوگ ہونے ہیں اور مارنے والے ظالم ہوتے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی گروہ یا جماعت سے ہو۔

بحرحال مسٹر جسٹس افتخار چوہدری صاحب اور انکے اردگرد سیاسی اور وکلا تحریک کے سرکردہ لیڈران جو اس اصولی مؤقف پر ڈٹےہوئے تھے کہ واپس نہیں جانا اور جانا ہے تو ریلی کی صورت میں ہی جانا ہے۔ بالآخر ایک خونی شام کے سائے گہرے ہونے پر اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹے اور شہر کراچی کو ایک ایسا مکروہ تحفہ دے گئے کہ جس پر اہل کراچی کا دل ہمیشہ غمگین رہے گا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ یوں تو ملک عزیز میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں اور خصوصاً صوبہ سرحد میں تو جنازوں تک پر حملے اور چالیس پچاس افراد کا قتل ہوجانا تو عام واقعہ ہوتا ہے۔ ان کی تاریخیں کسی کو یاد ہوں تو بتائیں (دیکھ کر نہیں اپنے ذہن کو ٹٹول کر دیکھیں اور تاریخیں یاد ہیں تو بتائیں ایسے واقعات کی) اور اب چونکہ بارہ مئی کے واقعات سے بہت سی جماعتوں نے بہت فائدے اٹھائیں ہیں اور ملک کے معصوم لوگوں کے دل و دماغ میں بارہ مئی کے واقعے کو چپکا کر رکھ دیا ہے۔ وہ اس بات کی کوشش میں ہیں کہ کس طرح بارہ مئی کے دن مزید اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں اور شہر کراچی پر مزید کوئی مہلک داغ لگائیں۔

کاش کراچی میں طاقت دکھانے کے لیے پرعزم لوگ و جماعتیں اپنے علاقوں میں بھی کچھ طاقت دکھائیں ان لوگوں کو کہ جن سے یکطرفہ صلح و معاہدے ہونے کے لیے مرے جا رہے ہیں اور یہ جان کر کہ مخالف اتنا طاقتور ہے کہ صوبہ سرحد کی حکومت بھی اس کے سامنے بے بس ہے صوبہ سرحد کی حکومت اس سلسلے اس قدر جھکی جارہی ہے کہ شرم بھی شرمندہ ہے کہ ظالموں کے ساتھ جو کہ اسلحہ سے لیس اور ظلم و ستم میں لاجواب ہیں ان سے طاقت ور حکومت سرحد اتنی خوفزدہ ہے کہ اس بات پر شکر گزار ہے کہ صوفی محمد یا طالبان اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں کہ صوبائی حکومت سے ہم (طالبان) مطمئن ہیں۔ ارے ظلم سے لڑو ہم نے تو سنا تھا کہ اپنے گھر میں تو کتا بھی شیر ہوتا ہے یہ کیسی حکومتیں ہیں کہ اپنے ہی گھر میں شیر نہیں بن پا رہی۔

صوفی محمد اور دوسرے صاحبان جب چاہتے ہیں یہ کہہ دیتے ہیں کہ امن کیمپ ختم اور اب جو کچھ ہوگا اس کی ذمہ دار حکومت ہو گی، مطلب یہ کہ اگر ہمارے مطالبات یکطرفہ طور پر نا مانے اور امن معاہدہ (یکطرفہ) نا ہوسکتا تو اس کے نتیجے میں قتل و غارت گری کی دھکمیاں دی جارہیں ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کی ذمہ دار حکومت (وفاقی) ہو گی۔ واہ رے واہ میرے مولا ایسے بھی ظالم لوگ ہیں جو ایسی باتیں کریں اور ہمارے طاقت کے مظاہرے کرنے کے دعوے دار اپنے صوبے میں تو بھیگی بلی بنے رہیں اور دوسرے شہروں میں طاقت دکھانے کے دعوے کریں۔ ارے جو اپنے گھر میں طاقت نہیں دکھا سکتا وہ کیا اس بات کا حق دار ہے کہ دوسرے جگہ طاقت دکھا سکے۔ یاد رکھنا یہ امر کہ جب چونٹی بھی پیر کے نیچے آتی ہے تو پلٹ کر کاٹ لیتی ہے ۔۔۔

میری تمام پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ خدارا حق کا ساتھ دیں اور ظلم و ستم کے لیے جتنی طاقت ہو (ہاتھ سے روکنے کی، زبان سے روکنے کی یا کم از کم دل سے برا جاننے کی) اتنی طاقت کا مظاہرہ کریں اور لسانی گروہ بندیوں اور اپنے زاتی و خاندانی مفادات کے چکر سے باہر نکل آئیں ملک ایک عظیم ترین دوراہے پر کھڑا ہے اور جتنا ملک پاکستان آج خطرے میں ہے اتنا میرے علم میں تو انیس سو اکہتر میں بھی نہیں ہو گا(گو میں اس پیدا بھی نہیں ہوا تھا)۔

مزید کیا کہوں کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر ۔۔۔

اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532915 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.