کل بروز ہفتہ مورخہ ١١ اپریل
کو ٹیلی ویژن اسکرین پر صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں ایک ضمنی انتخاب
کے موقع پر دو گروہوں کے درمیان فائرنگ کا زبردست تبادلہ ہوا۔
مختلف ٹی وی چینلز بدل بدل کر دیکھے اور یہ دیکھ کر حیرت سے گم سم سا ہو
گیا کہ کس طرح سرعام لوگ جدید اسلحہ لیے سڑکوں پر دندناتے پھر رہے تھے اور
کچھ لوگوں کے سروں پر ایک مخصوص جماعت کی ٹوپیاں (واضع طور پر غیر طالبان
تھے کیونکہ ان لوگوں کے چہروں پر بظاہر شرعی علامات ناموجود تھیں ) اور کچھ
کے سینے پر مخصوص سیاسی جماعت کے انتخابی بیجز بھی لگے ہوئے تھے اور فوٹیجز
اتنی واضع اور قریب سے تھی کہ لوگ باآسانی پہچانے جارہے تھے اور جس طرح
روڈیں بھریں پڑیں تھیں اسلحہ برداروں سے تو مجھے ایک سوچ مجبور کر گئی کہ
کیا صوبہ سرحد میں اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ بردار موجود ہیں تو کیا وجہ ہے
کہ حکومت سرحد پھر بھی طالبان اور شدت پسندوں سے لڑنے سے قاصر ہے اور جھکی
اور پچھی جارہی ہے کہ کسی طرح طالبان ان کی جان چھوڑدیں اور وفاقی حکومت کو
اپنا دشمن سمجھیں۔
ایسا کوئی واقعہ کراچی کی سڑکوں پر ہوتا تو پورا مہینہ ایسے واقعات پر
باتیں ہوتیں رہتیں مگر حیرت اس امر کی تھی کہ ملک کے بڑے بڑے مفکر، تجزیہ
نگار اور دانشور اور بال کی کھال نکالنے والے صحافی حضرات جیسے کہ محترم
انصار عباسی، حامد میر اور طلعت حسین بھی ایسے واقعات کو نظر انداز کر
دیکھتے ہیں جیسے ایسے واقعات کو ایسے نظر انداز کردیتے ہیں کہ جیسے کوئی
واقعہ ہوا ہی نہیں اگر ایک ضمنی انتخاب کے موقع پر یہ حال ہوتا ہے تو بڑے
پیمانے پر انتخابات کے موقع پر کتنا اسلحہ اور ہتھیار ہوتے ہونگے اس کا زرا
تصور تو کریں۔ اور بارہ مئی قریب ہے پھر دیکھیے گا سب کے کرتب اور شعبدہ
بازیاں ۔ اور آپکو ایسا لگے گا کہ ملک میں شاید بارہ مئی کے واقعات میں ہی
پچاس کے قریب لوگ جو ہلاک ہوئے ہیں ان کے علاوہ ملک عزیز میں تو بالکل امن
و سکون اور چین ہی چین ہے اور ملک میں کوئی قتل و غارت توبہ کریں جو کہیں
ہوتی ہو۔
الہی مجھ سمیت سب کو عقل و شعور کی دولت میں سے کچھ عنایت فرما اور ہمارے
ملک کی حفاظت فرما آمین۔ |