کسی بھی جمہوری ملک میں
آئین و قانون کی رکھوالی کرتے ہوئے اقلیتوں کو واجب حصہ داری فراہم کرانا
سب سے بڑا چیلنج ہوا کرتا ہی۔وطن عزیز کی مٹی بھی اس لحاظ سے خاصی سنگلاخ
واقع ہوتی رہی ہے کہ یہاں آئینی و قانونی تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے
اقلیتوں کی فلاح و ترقی کو کماحقہ یقینی بنانے کی غرض سے کئی اداروں کی
تشکیل تو کی گئی مگر حق تو یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ایسے کئی ذمہ
دار اور فعال اداروں کی موجودگی اور سریع الحرکتی کے باوجود سچر کمیٹی کے
لفظوں میں’’دلتوں سے بدتر‘‘زندگی گزارنے پر مجبور ہی۔ہرچند کہ ہماری حکومت
اقلیتوں کی فلاح و ترقی کیلئے پابندعہد ہے اور اس طرح کے کئی اقدامات بھی
کئے گئے ہیں جن سے نہ صرف ان کی زبان، مذہب اور ثقافت کی حفاظت ہو سکے بلکہ
ان کی ہمہ جہت ترقی اور اقتصادی اورسماجی خوشحالی بھی آسکے۔اور اس سلسلہ
میں اقلیتوں کو اصل و قومی دھارے میں لانے کیلئے خصوصی کوششیں ہوتی رہی
ہیں،یہ اور بات ہے کہ اس مقصد میں حکومت کو ہنوز واضح کامیابی نہیں مل سکی
ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن ایکٹ 1992 کے قوانین کے مطابق پانچ مذہبی فرقوں
مسلمان، عیسائی، سکھ، بودھ اور پارسی کو اقلیتی کمیونٹی کے زمرے میں رکھا
گیااور کہا گیا کہ اقلیتوں میں مسلمان اور خاص طور پر مسلم خواتین پر زیادہ
توجہ دی جائے گی کیونکہ دیگر فرقوں کے مقابلے وہ سماجی، تعلیمی اور معاشی
طور پر پسماندہ ہیں۔
اسی مقصد کی تکمیل کے لئے مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن (AEF) کا قیام
1989 میں رضا کارانہ طور پرعمل میں آیاجو درحقیقت ایک غیر سیاسی، غیر منافع
بخش سوسائٹی کی حیثیت سے اقلیتوں کے تعلیمی معیار کو فروغ دینے کی خاطر
سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت رجسٹرڈکیا گیا تھا ۔ اس ادارہ کے اہم
مقاصد میں خاص طور سے تعلیمی اعتبار سے پسماندہ، اقلیتوں اور عام طور پر
کمزور طبقوں کے فائدے کے لئے تعلیمی اسکیمیں وضع کرنا اور ان کے
نفاذکویقینی بنا نا تھا جس میں خاص طور سے طالبات کو جدید تعلیم فراہم کرنے
کے لئے رہائشی اسکول اور تعاون سے لیکر دیگر تحفظات کی بات بھی شامل تھی۔
لیکن جب اس پس منظر میں حالات کا جائزہ جائزہ لیا جاتا ہے تو مایوسی ہی
ہاتھ لگتی ہے اور اس کے ذریعہ بہت زیادہ تبدیلی واقع ہو گئی ہو ایسا کچھ
بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ہم یہاں پر یہ نہیں کہہ رہے کہ اقلیتی طبقہ کو سرے
سے اس سے کوئی فائدہ ہی نہیں پہنچا، ہو سکتا ہے کہ اس سے کچھ لوگوں کو
فائدہ پہنچتا ہو لیکن اکثریت کو اس طرح کے مراعات یا فنڈز کا پتہ نہیں چلتا۔
اس حقیقت کو سچر کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں بیان کیاہے۔ اس بابت اگر
مرکزی حکومت اقلیتوں کی ہمہ جہت ترقی اور بہبود کے تئیں واقعی سنجیدہ اور
مخلص ہوتی تو اس میں تبدیلی لائی جاتی اور اصلاحات کیلئے مزید بجٹ کا اضافہ
کرتی۔
گزشتہ دنوں مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی طرف سے ملک بھر میں اقلیتی
برادریوں کیلئے پانچ یونیورسٹی کھولے جانے اور اقلیتی غلبہ والے اضلاع میں
حکومت کی طرف سے مرکزی اسکول ماڈل ادارے بنانے کے تجویز پرمرکزی اقلیتی
امور کے وزیر کے رحمان خان نے لوک سبھا میں بتایاتھا کہ اس سلسلے میں
مقامات کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور تین یونیورسٹیوں کے بارے میں پہلے ہی
فیصلہ لیا جا چکا ہی۔ جن میں بنگلور میں ٹیپو سلطان یونیورسٹی آف سائنس
اینڈ ٹیکنالوجی، اجمیر میں خواجہ غریب نواز پروفیشنل، ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل
ایجوکیشن اور بہار کے کشن گنج میں رفیع احمدقدوائی یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ
میڈیکل سائنسز شامل ہیں۔یہ فیصلہ محض فیصلہ تک ہی محدود رہے گا یا عملی طور
پر بھی اس کیلئے کچھ اقدامات کئے جائیں گے ،اس پر تو ہم گفتگو نہیں کرنا
چاہتے لیکن اس کے علاوہ بھی فاؤنڈیشن کی دیگر سرگرمیوں کے بارے میں سن کر
کافی تکلیف ہوتی ہے ۔ طلباء کو فارم پر کئے جانے کے باوجود اسکالر شپ نہ
ملنا ،دور گائوں اور دیہات سے آنے والی درخواستوں کا غائب ہو جانا ،سالوں
گذر جانے کے باوجود بھی ریسرچ اسکالروں کو فیلو شپ نہ دیا جانا،اس قسم کی
خبریں تو مستقل سننے کو ملتی ہیں۔
یہ شاید حکومت کا پہلا ادارہ ہوگا جو کہ گزشتہ چار سالوں سے بغیر کسی مستقل
سکریٹری کے بیساکھی کے بل پر چل رہا ہے ۔ اسٹاف کی کمی کی خبریں تو آتی ہی
رہی ہیں ۔ذرائع کے مطابق اس کے پاس با قائدہ اپنا آفس بھی نہیں ہے جس میں
یہ اپنے کام کو احسن طریقہ سے نبھا سکے اور ایک انفراسٹکچر قائم کر سکے
۔حالانکہ جس وقت اس کا قیام عمل میں آیا تھا اس کے اغراض و مقاصد میں کل
چودہ نکات تھے ۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اب تک صرف دو نکات کو نافذ العمل
بنایا جا سکا ہے،وہ دو نکات ہیں گرانٹ ان ایڈ (اس میں اقلیتوں کے ذریعہ
چلائے جانے والے اسکولوں کے انفراسٹکچر کی توسیع ،ہاسٹل اور عمارات وغیرہ
کا قیام بھی شامل ہی)جبکہ دوسرا نکتہ ہے لڑکیوں کیلئے اسکالر شپ اسکیم ۔اس
میں کوئی شک نہیں کہ فاونڈیشن نے ان دونوں نکات پر عمل آوری میں ممکنہ حد
تک ایمانداری سے کام لیا ہی۔یہ الگ بات ہے کہ اس سلسلہ میں بھی شاکایات
موصول ہوتی رہی ہے ۔لیکن بقیہ 12مقاصد کی جانب کوئی پیش قدمی کیوں نہیں
ہوئی ۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے حکومت خود کو بچا نہیں سکتی ۔اس بابت
فاؤنڈیشن کے ذرائع سے بات کی جاتی ہے تو وہ مالی وسائل کی کمی کا رونا روتے
ہیں ۔اور ہمیشہ ان کا یہی ٹکا سا جواب ہوتا ہے کہ ’’ہم کیا کریں ہمارے پاس
تو بجٹ ہی کم ہے ‘‘۔
آخر اس قسم کی باتیں کیوں سننے میں آتی ہیں۔ ایک طرف تو حکومت اقلیتوں کا
معیارزندگی اونچا کرنے کی بات کرتی ہے دوسری جانب عملی طور پر جب بات کرنے
کی آتی ہے تو پیچھے ہٹ جاتی ہے یا ایسی سرد مہری کا رویہ اپناتی ہے کہ
الامان و الحفیظ ۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ 1993-94میں حکومت نے
کارپس فنڈ کی شکل میں 5کروڑ روپئے کا گرانٹ دیا تھا جو کہ 2003تک پہنچتے
پہنچتے 750کروڑ تک ہوا اس کے بعد سے اب تک اس میں کسی بھی قسم کا اضافہ
نہیں ہوا ۔جب کہ مہنگائی ڈائن اسی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ۔ لیکن اس
میں واقعی اضافہ ہوگا بھی یا نہیں کچھ کہنا مشکل ہے ۔ ذرائع نے حالانکہ
بتایا ہے کہ آنے والے بجٹ کیلئے فاونڈیشن کی جانب سے 750کروڑ کو ڈبل یعنی
1500کروڑکرنے کا پرپوزل بھیج دیا گیا ہے ۔ معلوم ہو کہ فاونڈیشن کی بابت
کہا جاتا ہے کہ یہ اپنی اسکیموں کا نفاذ اپنے کارپس فنڈ سے حاصل ہونے والے
سود سے کرتا ہے جو کہ اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔
یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ حکومت اس بامقصد ادارے کو فعال اور زیادہ اثر
دار بنانے کی کوشش کرنے کی بجائے بجٹ میں کٹوتی کرکے اس کے پر کو ہی کاٹنے
کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ گھسٹ گھسٹ کر بھی نہ چل سکے ۔ ہونا تو یہ چاہئے
تھا کہ مزید اسکے اختیارات اور اہدافات میں اضافہ کیا جاتا ،نوکرشاہی کے من
مانے رویہ جو فنڈز اوراسکیموں کے استعمال کو صحیح طریقہ نہیں ہو نے دیتے کی
سرزنش کی جاتی ،فنڈ کے حصولیابی کو ممکن اور سہل الحصول بنایا جاتا ۔ اسے
ایک نوڈل ایجنسی کے طور پر کام کرنے والا ایک خود مختار ادارہ بنایا جاتا ۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اقلیتوں کی ترقی کیلئے اسے مزید فعال اور متحرک
بنائے جانے کے اقدامات کئے جاتے ۔ اسے زیادہ سے زیادہ فنڈ دیکر اقلیتوں کے
تعلیمی اور سماجی معیار کو بلند کر نے کے بندوبست کئے جاتے ۔ اس قدر حساس
کام کرنے والے ادارے کے اندر کسی قسم کا کوئی کرپشن یا سیاسی دباو نہ ہو اس
پر دھیان دیا جاتا ۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ۔ جس کی وجہ سے بظاہر
ایک نیک اور اچھے کام کیلئے بنائے گئے ادارہ کا مقصد ہی فوت ہو کر رہ گیا ۔
اب بھی وقت رہتے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اقلیت کم از کم احساس
کمتری سے باہر نکلیں اور دیگر کمیونٹی کی طرح ان کا بھی معیار اور اسٹیٹس
بلند ہو۔ اگر حکومت نے اس جانب توجہ دی تو واقعی یہ ایک بڑا کام تو ہوگا ہی
ساتھ ہی یہ جمہوریت کے لئے بھی مفید اور کاآمد ہو گا ۔اور ہندوستان جس کا
خواب ایک مضبوط اور طاقتور ملک کے طور پر ابھرنے کا عزم ہے وہ بھی پورا
ہوگا ۔ |