جلتا سلگتا احساس محرومی شکار بلوچستان

صوبہ سرحد ، صوبہ پنجاب اور اب صوبہ بلوچستان بھی گرم ہواؤں کی لپیٹ میں آگیا ہے اور جس طرح کا امن و سکون ملک بھر میں برباد کرنے کی اندرونی اور بیرونی سازشیں ہو رہیں ہیں ان کے نتیجے میں پاکستان کا سب سے زیادہ پسماندہ، محرومیوں اور ناانصافیوں کا سب سے بڑا شکار بلوچستان بھی ایک ہولناک آگ کی لپیٹ میں آگیا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تربت میں بلوچ رہنماؤں کی ہلاکت کے بعد بلوچستان میں امن و سکون جس طرح غارت ہوا ہے گزشتہ کئی دنوں سے پرتشد مظاہروں ہورہے ہیں۔ کل ہی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ١١ افراد کو قتل کر دیا گیا کہ جن میں ٦ (چھ) افراد غریب کان کن تھے جو اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی خاطر حصول رزق جیسے عظیم فریضے کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ کون ہیں وہ ظالم جو غریبوں کو اس بری طرح مار رہے ہیں کیا وہ کان کن ذمہ دار تھے ان رہنماؤں کے قتل کے یا پھر یہ ایک اور گہری سازش ہے کہ جس کا مقصد ملک عظیم میں افراتفری اور بے چینی کو فروغ دینا ہے تاکہ حکومت پاکستان اور قوم اس بات پر مجبور ہو جائے کہ کھلے عام اور درپردہ ملک دشمنوں سے مزاکرات کرنے پر راضی ہو جائے۔

جس طرح تربت میں بنکوں کو، آفسوں کو، میوزیم کو اور مخالف پارٹیوں کے دفاتر کو آگ لگائی گئی کیا اس سے صوبے اور ملک پر اچھے اثرات مرتب ہونگے یا دشمنوں کے مقاصد یعنی صوبوں میں منافرت و غصہ بڑھے گا جس کا فائدہ کسی غریب کو نہیں بلکہ ملک دشمن عناصر کو پہنچے گا۔ کوئٹہ میں پولیس اور فرنٹیر کور کے اہلکاروں پر فائرنگ تو عام بات بن گئی ہے ان پر تشدد واقعات کے دوران۔ ریلوے ٹریک کو دھماکہ خیز مواد سے اڑادیا گیا۔ حال تو یہ ہے کہ بلوچ علاقوں میں رہائش پزیر آبادگاروں نے بھی نقل مکانی شروع کردی ہے۔

کاش کوئی کام ایسا بھی ہو کہ جس سے ملک دشمن عناصر کو تشویش اور نقصان ہو یا پھر ایسا ہی ہوتا رہے گا کہ ملک دشمن عناصر کے ایک ایک مقصد و منصوبے کی بڑے شاندار طریقے سے تکمیل ہوتی رہے گی اور ان کا کوئی ایک وار بھی خالی نہیں جائے گا اور ہم کسی وار کو روکنا تو دور کی بات اس کو سمجھ بھی نہیں پائیں گے اور ہر ہونے والے واقعات کا ذمہ دار اپنے ہی کسی مخالف (سیاسی) پر لگاتے رہیں گے۔

عدلیہ کہاں ہے کیا ملک میں پھیلی بے چینی اور دہشت ناک کاروائیاں کسی سوموٹو ایکشن کی متقاضی نہیں ہیں اور کیا سوموٹو ایکشن پتنگ بازی، ون ڈش پارٹیوں اور ایسے ہی فروعی معاملات یا پھر اپنے سیاسی پارٹنروں کے لیے ہی لیے جاتے رہیں گے رہ گئی سوات کی عورت کی سوموٹو کی کہانی تو اس پر بھی سوموٹو تو لے لیا ایکشن یا انصاف کب ملے گا اور ملے گا بھی یا نہیں۔

کچھ عرصے پہلے سے یہ بات واضع ہونی شروع ہو گئی تھی کہ صوبہ بلوچستان میں بھارت اور امریکہ سرگرم ہیں اور پھر طالبان کے متعلق بھی خدشات ظاہر کیے گئے۔ مگر صوبہ بلوچستان کی حکومت مضر تھی کہ نہیں کوئی ایسے واقعات نہیں ہیں اور صوبے پر امن و سکون ہے کاش صوبائی حکومتیں اس بات کا ادراک کر لیا کریں کہ جب کوئی خبر ہوتی ہے تو کوئی نا کوئی پس پردہ اصلیت بھی ہوتی ہے اور کاش ایسے اقدامات کرلیے جائیں کہ جن سے شاید کچھ بچاؤ ممکن ہو سکا کرے۔

جس طرح سندھ حکومت میں شریک ایم کیو ایم کب سے شور مچا رہی ہے کہ سندھ میں طالبان کا عمل دخل شروع ہونے والا ہے پہلے تو صوبائی وزیر زوالفقار مرزا اس بات کی تردید کرتے رہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور انکے ساتھ ساتھ دوسرے سیاسی لیڈران بھی چیں بچیں رہے کہ ایم کیو ایم ایک فروعی بات کر رہی ہے مگر گزشتہ دنوں آئی جی سندھ نے جس طرح خبردار کیا ہے کہ سندھ اور بالخصوص کراچی میں طالبان عناصر کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے اور اسی طرح سی سی پی او وسیم احمد نے بھی اس خطرے کو واضع طور پر نا صرف محسوس کیا بلکہ ایسے عناصر کی موجودگی سے لوگوں کو خبردار بھی کر دیا ہے۔ اور گزشتہ کئی ہفتوں سے سہراب گوٹھ اور دوسرے علاقوں سے جس طرح اسلحہ بردار جدید اسلحہ سے لیس گرفتار ہوئے ہیں اور ان کے تانے بانے ایک مشہور معروف صوبے سے ملے ہیں جہاں طالبان کی ناصرف افزائش ہوتی ہے بلکہ اسلحہ اسمگل بھی وہیں سے ہو رہا ہے۔ اور جب کوئی کنٹینر انسانی لاشیں لیے اور بغیر کسی روک ٹوک کے افغانستان سے ہوتا ہوا صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ تک بغیر روک ٹوک پہنچ سکتا ہے تو جدید اسلحہ کیوں نہیں پہنچ سکتا کراچی۔، سوچنے کی بات ہے یا نہیں اگر نہیں تو دیکھ لینا کہ ایسے واقعات ہم اور آپ کچھ بھی کرلیں ہونے کے قریب ہیں ہاں اگر کوئی انقلاب ہی ہوجائے اور ہمارے ملک کی لا انفورسمنٹ قوتیں اپنی دیانت داری پر اتر آئیں تو شاید ہمارے ملک کا چپہ چپہ ایسے واقعات سے محفوظ رہ سکے۔

میں ایک بات اور کہنا چاہوں گا کہ بلوچستان میں حالیہ تشدد کہیں اللہ کا وہ غضب و غصہ تو نہیں کہ جب لاشوں سے بھرے کنٹینر صوبہ بلوچستان کے (بے غیرت و بدکردار) حکومتی اہلکاروں کی جیبیں بھرتے ہوئے عین کوئٹہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ کاش ہمارے (ناصرف بلوچستان بلکہ ملک بھر کے) نیک و ایماندار حکومتی اہلکاروں کی تعداد بدکردار اور بےغیرت اہلکاروں سے زیادہ ہوجائے تو ہمارا ملک بھی ایک ذمہ دار ملک ہونے کا ثبوت دے سکے۔

بحرحال اب تو جمہوریت ہے میرے بھائی تو کیا وجہ ہے کہ ڈرون حملے بھی ہورہے ہیں، پورے ملک کے ہر ہر علاقوں (صوبوں) میں افراتفری بے چینی بھی ہے، مسنگ پرسنز بھی اپنی جگہ ہیں بے راہ روی اور شریعت کے نام پر قتل و غارت گری بھی جاری ہے سب کچھ تو ہو رہا ہے تو کیا کر رہے ہیں ہمارے جمہوری ادارے، ہمارے جان و عزت و مال بچانے پر مامور اہلکار اور ہماری عدالتیں۔

واہ میرے مولا تیرے کرم سے عدالتیں بھی آزاد ملک میں جمہوریت بھی قائم اور ہم اب تک ایک بدترین قوم کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔

کاش
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532851 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.