شبنم شکیل:خدا حافظ مرے اے ہم نشینو

 فضہ پروین

دو مارچ 2013ءکی شام اردو دان طبقے کے لیے شام الم ثابت ہوئی ۔اس شام کراچی میں عالمی شہرت کی حامل نامور پاکستانی ادیبہ ،ماہر تعلیم اور شاعرہ شبنم شکیل نے داعیءاجل کو لبیک کہا ۔علم وادب کا وہ تابندہ ماہ منیر جو لاہور میں سید عابد علی عابد کے گھر میں بارہ مارچ 1942کو طلوع ہواپوری دنیا میں اپنی چاندنی بکھیرنے کے بعد عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا ۔اسلام آباد میں واقع F-11کے شہر خموشاں کی زمین نے اردو ادب کے اس آسمان کو اپنے دامن میں ہمیشہ کے لیے چھپا لیا۔شبنم شکیل کی وفات سے اردو شاعری تانیثیت کے ایک دبنگ لہجے کی حامل شاعرہ سے محروم ہو گئی ۔شعبہ تعلیم و تدریس سے ایک عظیم ماہر تعلیم و ماہر نصاب رخصت ہو گئی۔دنیا بھر کی خواتین کے حقوق کے لیے جد و جہد کرنے والی ایک فعال اور مستعد خاتون سماجی کارکن نے داغ مفارقت دیا۔سلطانی ءجمہور کے لیے کام کرنے والی حریت فکر کی ایک توانا آواز ہمیشہ کے لیے خا موش ہو گئی۔زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس رکھنے والی روشن دماغ اور بلند خیال ادیبہ سے فرشتہ ءاجل نے قلم چھین لیا۔اردو شاعری کو زبان و بیان کی ندرت اور پاکیزگی سے ثروت مند بنانے والی زیرک ،فعال ،فطین اور مستعد تخلیق کار دیکھتے ہی دیکھتے ہماری محفل سے رخت سفر باندھ کر جادہ ءراہ فنا پر گامزن ہو گئیں۔زندگی کی درخشاں روایات اور اقدار عالیہ کی باوقار اور بلند حوصلہ محافظ آج ہمارے درمیان موجود نہیں ۔ارد وادب میںصداقت نگاری ،حقیقت نگاری ،حق گوئی و بے باکی کو زندگی بھر اپنا مطمح نظر بنانے والی ادیبہ جس کی گل افشانی ء گفتار پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو ا لیتی تھی چپکے سے راہ جہاں سے گزر گئی ۔اردو زبان و ادب کا ہنستا بولتا اور مسکراتا ہو ا چمن تقدیر کے ہاتھوں جان لیوا صدموں سے نڈھال ،مہیب سناٹوں کی زد میں آ گیا ہے ۔ان کی شاعری اندھیروں کی دسترس سے دور خورشید جہاں تاب کی شعاعوں کی طرح تا ابد روشنی کا سفر جاری رکھے گی ۔ دنیا بھر میں ان کی شاعری اور اسلوب کے سیکڑوں مداح اس وقت سکتے کے عالم میںہیں ۔اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے شبنم شکیل نے ایک غزل میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
تم سے رخصت طلب ہے مل جاﺅ
کوئی اب جاں بہ لب ہے مل جاﺅ
لوٹ کر اب نہ آ سکیں شاید
یہ مسافت عجب ہے مل جاﺅ
دل دھڑکتے ہوئے بھی ڈرتا ہے
کتنی سنسان شب ہے مل جاﺅ
کون اب اور انتظار کرے
ا تنی مہلت ہی کب ہے مل جاﺅ
اس سے پہلے نہیں ہوا تھا کبھی
دل کا جو حال اب ہے مل جاﺅ

فرشتہ ءاجل نے زمیں کو اہل کمال سے خالی کر دیا ہے ،یہ رنگ آسماں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔تقدیر کی پہچان ہی یہ ہے کہ اس کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا ۔شبنم شکیل کی زندگی شمع کے مانند گزری ۔انھوں نے جا نگسل تنہائیوں میں علم و ادب کی محفل سجائے رکھی ،مہیب سناٹوں میں ان کا دبنگ لہجہ حوصلے اور امید کا نقیب ثابت ہوا ،ہولناک تاریکیوں میں ان کی شاعری ستارہ ءسحر بن کر اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کرتی رہی ۔ان کی وفات کی خبر سن کر ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے ۔وہ کشف ذات کے مر حلے سے گزر رہی تھیں،انھوں نے اپنے نہ ہونے کی ہونی کے بارے میں کہا تھا :
میں پڑھ سکتی ہوں ان لکھے کواب بھی
یہ کشف ذات ہے یا اک سزا ہے
کوئی روکے روانی آنسوﺅں کی
یہ دریا بہتے بہتے تھک گیا ہے
خدا حافظ مرے اے ہم نشینو
کہ مجھ کو تو بلاوا آ گیا ہے

شبنم شکیل کا تو بلاوا آ گیا اور وہ اس بلاوے پر لبیک کہتے ہوئے راہ رفتگاں پر خاموشی سے چل پڑیں ۔ دنیا بھر میں ان کی شاعری کے لاکھوں مداح ان کو یاد کر کے اپنے دلوں کو ان کی دائمی جدائی کے درد سے سنبھالنے کی سعی کر رہے ہیں۔خدا جانے اردوادب کے چمن کو کس کی نظر کھا گئی کہ ہمارے گھر کی دیواروں پر حسرت ہو یاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور صحن میں خوف کے سائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔زندگی کی اداس راہوں پر چلتے چلتے جب کوئی ایسی شخصیت داغ مفارقت دے جاتی ہے جس کی مثال اس شجر سایہ دار کی ہوتی ہے جو ہمیں آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمارے سر پر سایہ فگن ہوتا ہے تو آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتی ہیں ۔ہم الم نصیب یہ سوچتے ہیں کہ کیا کریں کس طرف جائیں ہر رہ گزر پر تو دائمی مفارقت دینے والوں کے حسن اخلاق پر مبنی یادوں کے سائے موجود ہیں ۔اس جہاں سے گزر جانے والوں کے نقش قدم دیکھ کر ہماری روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو جاتا ہے ۔شبنم شکیل کی شاعری قاری پر گہر ا تاثر چھوڑتی ہے ۔اس کے اعجاز سے ذہنی بالیدگی اور تربیت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں ۔یہ شاعری حرکت و عمل کی نقیب ہے ۔اپنے اسلوب شعر میں انھوں نے موضوعات کی ندرت اور طرز اد کی جدت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔وہ چاہتی تھیں کہ قارئین ادب کے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیا جائے کہ وہ اخلاقیات کی تربیت کے مواقع سے فیض یاب ہو سکیں ۔ان کے افکار میں حسن اور لطافت کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے ۔اپنی تخلیقی فعالیت کے ذریعے انھوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ان کی بات جو دل سے نکلتی ہے وہ قاری کے دل میں اترنے کی صلاحیت سے متمتع ہو ۔وہ تصنع اور ریاکاری سے سخت نفرت کرتی تھیں ۔ان کی شاعری میں فکر و خیال کی جو ارفع سطح دکھائی دیتی ہے وہ ان کے کمال فن کی دلیل ہے ۔انھوںنے اپنے عہد کے زندہ ،جاوداں اور اعلیٰ ترین خیالات کو اپنے فکر و فن کی اساس بنایا:
منظر سے کبھی دل کے وہ ہٹتا ہی نہیں ہے
اک شہر جو بستے ہوئے دیکھا ہی نہیں ہے
کچھ منزلیں اب اپناپتا بھی نہیں دیتیں
اورراستہ ایسا ہے کہ کٹتا ہی نہیں ہے
یہ عشق کی وادی ہے ذرا سوچ سمجھ لو
اس راہ پہ پاﺅں کوئی دھرتا ہی نہیں ہے

اپنی شاعری میں زندہ اور جاوداں خیالات کو پیش کر کے شبنم شکیل نے اردو شاعری کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے بھر دیا۔وہ شعر وادب میں اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لا کر ذہنی سکون اور مسرت کے احساس سے سر شار ہوتی تھیں۔وہ خوب جانچ پرکھ کر اپنی شاعری کے موضوعات کا انتخاب کرتی تھیں۔جہد للبقا کے موجودہ زمانے میں ان کی شاعری میں ایک واضح پیغام ہے کہ ہجوم غم میں بھی دل کو سنبھال کر منزل کی جانب سفر جاری رکھاجائے :
قفس کو لے کے اڑنا پڑ رہا ہے
یہ سودا مجھ کو مہنگا پڑ رہا ہے
ہوئی جاتی ہے پھر کیوں دور منزل
مرا پاﺅں تو سیدھا پڑ رہاہے
میں کن لوگوں سے ملنا چاہتی تھی
یہ کن لوگوں سے ملنا پڑ رہا ہے

شبنم شکیل نے قارئین ادب پر یہ واضح کر دیا کہ حوصلے ،امید ،استقامت اور صبر وتحمل کی مشعل تھا کر زندگی کے کٹھن مراحل کی جانگسل تنہائیوں اور ہولناک تاریکیوں کے مسموم اثرات سے بچ کر منزل تک رسائی ممکن ہے ۔کامیابی اور روشن مستقبل کی امید ہی زندگی کی تمام تر حرکت و حرارت کی نقیب ثابت ہوتی ہے ۔وہ تخلیق ادب کو معاشرتی زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کی نمو اور استحکام کے لیے نا گزیر سمجھتی تھیں ۔ان کا خیال تھا کہ ادب کے وسیلے سے معاشرتی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے ۔ہمارے معاشرے اورسماج میں اس وقت زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو شدید خطرات کا سامنا ہے ۔اس وقت معاشرہ جس انتشار اور ابتری کی زد میں آ چکا ہے اس کی اصلاح کے لیے ادب کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے ۔مادی دور کی لعنتوں کے باعث معاشرتی زندگی ہوس کے مسموم اثرات کے باعث جان کنی کے عالم میں ہے ۔شبنم شکیل کی شاعری میں سمے کے سم کے ثمر سے نڈھال انسانیت کوسکون قلب فراہم کرنے کا مصمم ارادہ ملتا ہے :
آخری حربہ ہمیں اب آزمانہ چاہیے
جو بچا ہے داﺅ پر وہ بھی لگانا چاہیے
کھل کے اس کا ذکر کرناچاہیے احباب میں
رفتہ فتہ یوں اسے پھر بھول جانا چاہیے
آخری دم تک نبھانا چاہیئیں آداب عشق
آخری شمعوں کی صورت ٹمٹمانا چاہیے
تو اڑا دے خاک میری جنگلوں صحراﺅں میں
اے ہوائے مضطرب مجھ کو ٹھکانہ چاہیے

شبنم شکیل کے والد سید عابد علی عابد عالمی شہرت کے حامل ادیب اور نقاد تھے ۔ان کی وقیع تصنیف ”اصول انتقاد ادبیات “کواردو تنقید کی اہم کتاب سمجھا جاتا ہے ۔انھوں نے اپنی عزیز بیٹی شبنم شکیل کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی ۔شبن شکیل کو کینئیر ڈ کالج برائے خواتین ،لاہور (Kinaird College,for women ,Lahore )میں داخل کرایا گیا۔یہاں انھوں نے اپنی قابلیت کی وجہ سے اپنی ہم جماعت طالبات اور اپنی اساتذہ کو بہت متاثر کیا۔ اس عظیم مادر علمی سے انھوں نے تمام امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے ۔اس کے بعد وہ اسلامیہ کالج ،لاہور میں داخل ہوئیں اور یہاں سے شاندار نمبر حاصل کرکے گریجویشن مکمل کی ۔گریجویشن کے بعد انھوں نے پنجاب یو نیورسٹی ، اورئینٹل کالج ،لاہور میں ایم ۔اے اردو میں داخلہ لیا ۔ایم ۔اے اردو کرنے کے بعد ان کا تقرر بہ حیثیت لیکچر اردو کوئین میری کالج ،لاہور میں ہوا ۔1967 میں ان کی شادی شکیل احمد سے ہوئی جو پاکستان کی سول سروس میں اہم عہدے پر فائز تھے ۔شبنم شکیل کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔شبنم شکیل نے تیس برس تک تدریسی خدمات انجام دیں ۔انھوں نے لاہور کالج برائے خواتین ،گورنمنٹ کالج برائے خواتین کوئٹہ اور فیڈرل گورنمنٹ کالج برائے خواتین F-7/2اسلام آباد میں اردو زبان و ادب کی تدریس کے فرائض انجام دئیے ۔وہ اصول تعلیم ،تعلیمی نفسیات ،تعلیم انصرام اور نصاب سازی کی ما ہر تھیں ۔تخلیق ادب کا ذوق انھیں ورثے میں ملا تھا ۔ان کی شائع ہونے والی کتب درج ذیل ہیں :
تنقیدی مضامین(1965)،شب زاد :شعری مجموعہ (1987)،اضطراب (1994)،تقریب کچھ تو (2003)،مسافت رائیگاں تھی :شاعری (2008)

شبنم شکیل کی علمی ،ادبی ،تدریسی اور قومی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں 2004میں تمغہءحسن کارکردگی سے نوازا ۔ان کی وفات ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس سے اردو زبان و ادب کے فروغ کی مساعی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔اردو ادب میںوہ تانیثت کی اسی کہکشاں کا ایک تابندہ ستارہ تھیں جس میں خدیجہ مستور ،ہاجرہ مسرور ،پروین شاکر ،رضیہ بٹ ،قرة العین حیدر ،ممتاز شیریں ،عصمت چغتائی اور ثمینہ راجا ضو فشاں رہیں ۔اس ادبی کہکشاں کی چکاچوند اب ماضی کاحصہ بن چکی ہے ۔
شبنم شکیل کی شاعری میں معاشرتی زندگی کے تمام موضوعات کو سمو دیا گیاہے۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہمارا معاشرہ جس بے حسی کا شکار ہے اس پر ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے اپنی تشویش کااظہار کیاہے ۔ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ بے لوث محبت اور بے باک صداقت عنقا ہو چکی ہے ۔ابن الوقت عناصر نے اپنے مفادات کے لیے مصلحت کوشی کو شعار بنا رکھاہے ۔ہوس زر نے یہ گل کھلایا ہے کہ ہر شخص نو دولتیا بننے کے چکر میں ہے ۔ہماری معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی متعدد قباحتوں کے پس پردہ ہوس زر کی مذموم عادت ہی کارفرماہے ۔منشیات ،چور بازاری ،دہشت گردی ،لوٹ مار ،آبرو ریزی اور دیگر جرائم نے یہاں رتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں ۔ تحمل اور برداشت نا پید ہے اس کے نتیجے میںتشدد اور ہلاکت خیزیوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس نے پورے معاشرتی نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔شبنم شکیل کی شاعری میں اس دہرے عذاب کے متعلق نہایت رنج اور کرب سے حقائق بیان کیے گئے ہیں ۔ان کی شاعری میں خلوص اور دردمندی نمایاں ہے:
بسے ہوئے تو ہیں لیکن دلیل کوئی نہیں
کچھ ایسے شہر ہیں جن کی فصیل کوئی نہیں
کسی سے کس طر ح انصاف مانگنے جاﺅں
عدالتیں تو بہت ہیں عدیل کوئی نہیں
سبھی کے ہاتھوں پہ لکھا ہے ان کانام و نسب
قبیل دار ہیں سب بے قبیل کوئی نہیں
مری شناخت الگ ہے تری شناخت الگ
یہ زعم دونوں کو ،میرا مثیل کوئی نہیں

شبنم شکیل کی شاعری قاری کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی ہے ۔وہ تقدیرکی شاکی نہیں بل کہ وہ اس امرپر اصرار کرتی ہیں کہ ہر انسان کو اپنا مقدر خود سنوارنے کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے ۔جس طرح فطرت لالے کی حنا بندی کے عمل میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہے اسی طرح ایک زیرک تخلیق کار بھی اپنے اسلوب کو عصری آگہی کا آئینہ دار بنانے کی مقدور بھر سعی کرتا ہے ۔ان کا اصرار ہے کہ فرد کو ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کا راکب بن کر اپنے وجو د کا اثبات کرنا چاہیے ۔انسان کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونا چاہیے ۔فکر انسانی کو یہ صلاحیت ودیعت کی گئی ہے کہ وہ اس کائنات کے جملہ مظاہر اور اسرار و رموز کی گرہ کشائی کر سکے ۔شبنم شکیل کی شاعری زندگی کی تمام رعنائیوں کا حقیقی مرقع پیش کرتی ہے ۔وہ زندگی کی حرکت و حرارت اور تاب و تواں کو ہمہ وقت دیکھنے کی متمنی ہیں۔وہ جبر کا ہر اندازمسترد کر کے حریت فکر کا علم بلند رکھنے کو اپنا نصب العین بناتی ہیں۔جبر کے ماحول میں تو طائران خوش نوا بھی بلند پروازی ترک کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اپنے آشیانوں میں دم توڑ دیتے ہیں۔شبنم شکیل کی شاعری میں حریت ضمیر سے جینے کی تمنا قاری کو جرا ت اظہار عطا کرتی ہے :
سب وا ہیں دریچے تو ہوا کیوں نہیں آتی
چپ کیوں ہے پرندوں کی صدا کیوں نہیں آتی
گل کھلنے کا موسم ہے تو پھر کیوں نہیں کھلتے
خاموش ہیں کیوں پیڑ ،صبا کیوں نہیں آتی
بے خواب کواڑوں پہ ہوا دیتی ہے دستک
سوئے ہوئے لوگوں کو جگا کیوں نہیں آتی
کیوں ایک سے لگتے ہیں یہاں اب سبھی موسم
خوشبوکسی موسم سے جدا کیوں نہیں آتی

زندگی کو زندہ دلی کی ایک قابل فہم صور ت میں دیکھناایک جری تخلیق کار کا اہم ترین وصف ہے ۔شبنم شکیل نے زندگی کو اس کے تمام مسائل کے ساتھ پیش نظر رکھا۔وہ سمجھتی تھیں کہ شگفتہ مزاجی اور زندہ دلی ہی وہ صفات ہیںجو زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ان کا خیا ل تھا کہ ادب کے وسیلے سے دلوں کو مرکز مہر و وفا کیا جا سکتا ہے ۔تخلیق ادب کے اعجاز سے جمو د کا خاتمہ ممکن ہے ۔آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی تخریب میں مصروف ہیں ۔اس سے بڑھ کر بے بصری کیا ہو گی کہ ہمارے کچھ نادان دوست اسی نخل تناور کی جڑیں کھو کھلی کر رہے ہیں جو ان پر سایہ فگن ہے ۔کچھ کو ر مغز لوگ اسی شاخ کو کاٹنے کی مجنونانہ حرکت کر رہے ہیں جس پر وہ خود براجمان ہیں ۔نمود و نمائش کی تمنا میںلوگ حد سے گزر جاتے ہیں ۔شبنم شکیل کی شاعری میں ایسی سوچ پر گرفت کی گئی ہے :
خود ہی اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
سوچتے ہیں اس قدر بیمار ہو جاتے ہیں ہم
بھول کر وہ بخش دے گر روشنی کی اک کرن
دائمی شہرت کے دعوے دارہو جاتے ہیں ہم
زندگی سے دور کر دیتاہے اتنا خوف مرگ
آپ اپنی زندگی پر بار ہو جاتے ہیں ہم

شبنم شکیل زندگی بھر قارئین ادب میں خوشیاں تقسیم کرتی رہیں ۔ان کی تخلیقی فعالیت زندگی کو اس کے حقیقی تنا ظر میں پیش کرتی ہے ۔جہد للبقا کے موجودہ زمانے میں وہ افراد کوپر عزم رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔وہ یہ بات واضح کر دیتی ہیں کہ افراد ہی اقوام کی تقدیر بدلنے پر قادر ہیں ۔انھوں نے جو بھی خواب دیکھے وہ فردا کے حوالے ہی سے تھے ۔وہ چاہتی تھیں کہ بنی نوع انسان کو اپنے آج کی اصلاح پر اپنی توجہ مرکوز کر دینی چاہیے تاکہ آنے والے کل کو بہتر بنایا جا سکے ۔انھیں اس بات پر تشویش تھی کہ کہیں ہماری بے بصری ہمیں آنے والے کل سے محروم نہ کردے ۔ان کے اسلوب میں جذبہ ءانسانیت نوازی قابل رشک انداز میں جلوہ گر ہے ۔انھوں نے جمالیاتی سوز و سرور کے معجز نما اثر سے اپنی شاعری کو حسن و خوبی کا گنجینہ بنا دیا ہے ۔وہ تہذیبی بقا کو ہمیشہ اہم قرار دیتی تھیں ،اسی لیے انھوں اسلامی تہذیب و تمدن پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔شبنم شکیل کی وفات کی خبر سن کر دل تڑپ اٹھا۔ان کی یاد دل میں ہمیشہ زندہ رہے گی ۔چاند چہرے اب تو شب فرقت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ فرشتہ ءاجل نے ایک ایسی ادیبہ سے قلم چھین لیا جس نے زندگی بھر قلم کی حرمت کو مقدم سمجھا اور اپنے قلم سے دردمندوں ،مظلوموں اور ضعیفوں کی مسیحائی کی ۔جب بھی کوئی قابل صد احترام اور عزیزہستی داغ مفارقت دے جاتی ہے تو دل میںاک ہوک سی اٹھتی ہے اور یہ خیال پختہ تر ہو جاتا ہے کہ یہ دنیا حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں،رفتگاں کی یادوں کے جان لیوا صدموں سے نڈھال ان کے مداح ان کی یادو ں کے سہارے زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔اس عالم آب و گل میں زندگی کی اداس راہوں پر چلتے ہوئے ہم شبنم شکیل کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔بہ قول فراق گورکھ پوری :
بھولیں اگر تمھیں تو کدھر جائیں کیا کریں
ہر رہ گزرپہ تیرے گزرنے کا حسن ہے
Kausar Perveen
About the Author: Kausar Perveen Read More Articles by Kausar Perveen: 3 Articles with 3933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.