امریکہ شکست خوردہ اور بس بھاگنے ہی والا ہے

ہم مطمئین ہیں - امریکہ شکست خوردہ اور بس بھاگنے ہی والا ہے ۔ جاگ جاؤ خدارا

واقعی لگتا ہے کہ ہم بڑے مطمئین ہیں اور ملک میں کیونکہ جمہوری طرز حکومت ایک روشن چاند کی طرح اپنی آب و تاب سے چمک رہا ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہمارے ملک کی عدالتیں بھی پوری طرح خودمختار اور آزاد ہیں اور ہمیں یعنی عوام کو اب فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہمارا کام تو ووٹ دینا اور ریلیوں میں نکلنا تھا اور وہ ہم میں سے بہت سے یہ کر گزرے اور اب عوام فارغ ہیں اور بے فکر ہیں ہر قسم کی فکر و فاقے سے جو جمہوری حکومت ہم نے منتخب کی ہے وہ روٹی، کپڑے اور مکان کے نعرے پر آئی ہے اور ہم ان تینوں چیزوں سے فی الحال اگر فارغ ہیں تو کچھ ہی عرصے میں ہمارے پاس یہ تینوں چیزیں ہونگیں اور ہمارے وہ قومی بھائی اور بہنیں جن کے ساتھ آج تک کسی نے انصاف نہیں کیا ہے اب آزاد عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں، اور خبردار نوکری کے لیے بھی گھروں سے نا نکلیں کہ ایسا نا ہو کہ انصاف آپ کے گھر کی دہلیز پر پہنچے اور آپ گھر میں ناموجود ہوں تو انصاف آپ کو کہاں تلاش کرتا پھرے گا--- تو جناب یہ ہے ایک بالکل عام آدمی کی سوچ اس میں اگر طنزو مزاح کا کوئی پہلو آپ کو ملتا ہے تو وہ آپ کا حسن زن ہو گا وگرنہ یہ باتیں ہمارے ایک بڑے حساس دوست نے کیں تھیں سوچا آپ کے پیش نظر کردیں

گزشتہ دنوں ایک صحافی کا اداریہ پڑھ رہا تھا بڑی دلچسپ اور سبق آموز باتیں انہوں نے تحریر کیں فرماتے ہیں

بہادر شاہ ظفر آخری لمحے تک اپنی شکست سے انکار کررہے تھے۔ اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سر دیکھنے کے بعد وہ مان گئے۔ آج کا دور ہوتا تو وہ بھی نا مانتے اور اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو جعلی قرار دے کر اسلام دشمن انگریزوں کو شرمندہ کردیتے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان، آخری دنوں تک مٹھی بھر سات کروڑ بنگالیوں کا مزاج درست کردینے پر یقین رکھتے تھے۔ اگر ہم خود کش بمباروں کو مسلمان بھائی، لڑکیوں کے سکول جلانے والوں کو مجاہدین اسلام، پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر ہلاکت خیز حملے کرنے والوں کو اسلام کے محافظ اور کلمہ گو مظلوموں کے سر کاٹ کر ان کی لاشیں سڑک پر پھینک دینے والوں کو اسلامی نظام نافذ کرنے والا، نہیں سمجھتے تو یہ ناخلفی ہے۔ ۔ ۔۔ تباہی کی قوتیں رکیں نہ رکیں۔ انسان کا اپنا دل مطمئین رہتا ہے۔ طالبان افغانستان میں تھے اور ہم مطمئین تھے، وہ فاٹا میں آئے۔ ہم مطمئین ہیں، سوات میں آئے، ہم مطمئین ہیں ۔ سرحد کے تمام اضلاع میں ان کی جڑیں پھیل گئیں۔ ہم مطمئین ہیں اب اسلام آباد سے لاہور تک خودکش حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے ہم مطمئین ہیں، ہم مطمئین ہی رہیں گے اور سات ہزار میل دور بیٹھے ہوئے لوگ خوش کش بمباروں سے لڑنے کے لئے آرہے ہیں۔ یہ جنگ ان کی ہے، وہ طالبان کے ہاھتوں مارے جائیں گے۔ جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر تو انتہائی اعتماد سے خبر دے رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کو شکست ہوگئی ہے۔ امریکہ اپنی شکست کی خفت مٹانے کے لئے مزید فوج لا رہا ہے۔

امریکیوں کو بھی ہارنے کا بڑا شوق ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں ہار کے بھاگ لیتے ہیں اور جس مقبوضہ ملک کو چھوڑتے ہیں وہاں خوشحالی کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔ ان کی بمباریوں سے ہونے والی تبای جعلی ہوتی ہے۔ ویت نام ، عراق اور اب افغانستان نے کھنڈرات میں بدل کر امریکیوں کو بھگا دیا۔ یہ منور حسن کی روایت ہے۔ امریکیوں نے پاکستان کا رخ کیا تو ہم بھی انہیں ناک رگڑنے پر مجبور کردیں گے۔ منور حسن، عمران خان، بیت اللہ محسود اور ملا عمر کا یہی خیال ہے۔

مردوں کے ہجوم میں ایک عورت کو سزا دینے کا منظر ٹی وی پر دکھایا گیا، تو عجیب ردعمل دیکھنے میں آیا۔ سواتی طالبان کے ترجمان مسلم خان نے پہلے کہا کہ ہم تو عورتوں کو چار دیواری کے اندر سزا دیتے ہیں۔ پھر کہا یہ اسلامی سزا ہے۔ ہم اس پر مناظرے کے لیے تیار ہیں۔ ایک بار کہا کہ یہ معاہدہ امن سے پہلے کا واقعہ ہے اور پھر سٹوری ڈویلپ ہوتے ہوتے جعل سازی کے الزام تک آگئی اور آخر میں یہ مؤقف اختیار کر لیا گیا کہ کوڑے مارنے کی ویڈیو جعلی ہے۔ اس کے ساتھ ہی طالبان کے وکیلوں نے ماہرانہ تبصرے شروع کردیے۔ جعلسازی کا سب سے بڑا ثبوت یہ بتایا جارہا ہے کہ وہ لڑکی چونتیس ڈنڈے کھانے کے بعد کھڑی کیسے ہو گئی ؟ واہ کیا زبردست دلیل ہے؟

کہتے ہیں کہ مرد مومن - مرد حق - ضیاالحق جب صحافیوں وکیلوں، مزدور لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کو کوڑے لگوارہے تھے وہ کوڑے یا درے چمڑے سے گندھے ہوئے ہوتے تھے۔ جنہیں رات بھر تیل میں ڈبو کے رکھا جاتا اور صبح ایک ہٹا کٹا شخص، اسلامی مارشل لا کی گرفت میں آئے ہوئے مظلوم شہری کی پشت پر کوڑے برساتا۔ یہ بہت خوفناک کوڑا ہوتا تھا۔ بیشتر لوگ اسٹریچر پر جاتے مگر کئی ایسے بھی ہوتے جو یہ کوڑے کھانے کے بعد بھی اپنے پیروں پر ہسپتال کی طرف چل دیتے۔ کیونکہ کوڑے لگانے کے بعد طبی معائنہ ہوتا تھا ۔ یہ جو سوات میں کوڑے لڑکی کو مارے گئے، وہ دراصل ایک ڈنڈا نما چیز تھی جسے زور سے مارا جاتا رہا۔ اس طرح ڈنڈے کھانے کے بعد لڑکی کا کھڑے ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ اس ویڈیو کی اصل اور نقل سے قطع نظر کتنی بودی بات ہے اس قسم کے اعتراضات۔ اس جعلی ویڈیو میں دکھائے گئے منظر کے دفاع میں، طالبان کے ایک وکیل نے قرآن پاک کی آیات سنادیں اور یہاں تک کہ دیا کہہ اس اسلامی سزا پر اعتراض کرنے والے کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ گویا انہوں نے تسلیم کر لیا کہ جو سزا ویڈیو میں دکھائی گئی وہ اسلامی ہے۔ مسلم خان صاحب نے بھی اس سزا کا دفاع کیا۔ اگر فلم جعلی ہے تو اس میں دکھائی گئی سزا کو اسلامی کہہ کر اس کے دفاع میں قرآنی آیات سنانے کی ضرورت کیا تھی؟ اور اگر دکھائی گئی سزا شرعی ہے تو ویڈیو کو جعلی قرار دینے کی ضرورت کیا ہے؟

دوسرے یہ ہمارے کچھ بھائی اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے تو یہ فتوے تک دے دیے کہ اسلامی شرعی قوانین کا مذاق اڑایا گیا ہے ایسے شرعی سزاؤں کے خلاف بولنے والوں نے۔

ان بھائیوں سے دست بردار ہو کر گزارش ہے کہ بھلا کون ہے جو شرعی سزاؤں پر عمل درآمد کرانے کا ذمہ دار ہے یقیناً حکومت وقت ! تو میرے بھائی کسی کو کس طرح حق ہے اپنی طرف سے کسی کام یا سزا کو شرعی قرار دے دینا اور وہ بھی بغیر کسی قوائد و ضوابط کو نظر میں رکھے بغیر۔ اور جو غلط طریقوں سے اپنے مفاد میں کسی چیز کو شرعی قرار دے لے تو کیا ہم اس کو شرعی مان لیں گے ہم کیا شدت پسندوں کے علاقوں میں رہتے ہیں جو ان سےڈر کر بغیر سوچے سمجھے ان کے قرار دیئے ہوے کو شرعی یا غیر شرعی مان لیں گے ۔ قرآن تو کہتا ہے کہ اللہ کی باتوں پر بھی مومن غور و فکر کرے نا کے اندھے بہرے اور گونگے ہو کر گر پڑے، اب اس بات پر بھی ہمارے فتویٰ انگیز یا فتنہ انگیز مخالفین بغیر حق کو تسلیم کیے ہوئے کوئی فتویٰ مار سکتے ہیں۔ بحرحال ہمیں کوئی فکر و غم نہیں ہے دو کوڑی کے علمائے سو کا اور غیر حق کی حمایت کرنے والوں کا ہم تو عملائے حق کے متوالے ہیں اور ان کے پیروں کی خاک ہیں اور شریعت پر ہماری جان مال اور سب کچھ قربان ہے۔ شریعت وہ جو صاحب شریعت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے اور ان کی پہنچائی ہوئی شریعت پر ہم کو مکمل ایمان و یقین ہے۔

شریعت کی سزاؤں میں کتنی احتیاط و توجہ کی ضرورت ہے یہ جاہل ملا (علمائے حق ہمارے سر آنکھوں پر ) اور طالبان نما لوگ جو لوگوں کے جان مال اور عزت کو لوٹنے میں لگے رہے ہیں انکو کیا پتہ، زرا ان طالبان سے پوچھو تو کہ اللہ تو حصول رزق کے لیے جو تراغیب دیں ہیں یہ طالبان یا القائدہ کس طرح حصول رزق کے لیے سرکردہ ہیں، لوگوں اور حکومتوں کو بلیک میل کر کے اور لوگوں کی جان و مال کو لوٹ کر۔

زرا سوچو تو کہ حکومت وقت کے پاس تو بےشمار وسائل ہوتے ہیں ٹیکس وغیرہ اور دوسرے طریقوں سے (چاہے تو غیر ملکی امداد کے نام کی بھیک کے طور پر ) پیسے جمع کرنا اور اپنی سیکورٹی ایجینسیوں کی مالی ضروریات جیسے تنخواہ، اسلحہ، نقل و حرکت، اور دوسرے اخراجات تو حکومت تو کہیں نا کہیں سے پورے کر لیتی ہے۔ اب زرا یہ تو بتاؤ کہ ان شدت پسنوں نما نام نہاد خدائی فوجداروں کے پاس اتنے وسائل و روپیہ پیسہ کہاں سے آتا ہے کہ وہ ناصرف پاکستان حکومت اس کی ایجینسیوں بلکہ غیر ملکی افواج کے خلاف بھی لڑرہے ہیں کہاں سے آتے ہیں ان کے پاس وسائل (اب یہ نا کہہ دینا لاجواب ہو کر کہہ اللہ دیتا ہے، بے شک اللہ دیتا ہے مگر کوئی دنیاوی زریعہ بھی تو ہوتا یا پھر معجزے ان شدت پسندوں کے لیے ہو رہے ہیں فی الواقع دور میں)۔ تو بھائی ملک دشمن قوتیں پال رہیں ہیں ان شدت پسندوں اور ظالموں کو کاش کہ یہ بات ہمارے بھولوں کو سمجھ میں آجائے ورنہ نام بھی نا ہو گا ہمارا نام والوں میں۔

شریعت اور دین حق کھلا ہے اللہ عزوجل نے قرآن میں کہ دیا ہے جس کا مفہوم کچھ اسطرح کا ہے (اللہ کمی بیشی معاف فرمائے) “اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو تھا ہی مٹنے کے لیے اور ہم نے اتاری یہ کتاب قرآن کہ جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کا تو اس سے خسارہ اور بڑھتا ہے “ (اور مزید کسی جگہ کچھ اسطرح بھی فرمایا ہے کہ جس کا مفہوم کچھ اسطرح نکلتا ہے کہ حق بھی کھلا ہے اور باطل بھی کھلا ہے تو جو حق کا ساتھ دے گا وہ کامیاب ہو جائے گا اور جو باطل کا ساتھ دے گا تو برباد ہوجائے گا ) یہ میرا فتویٰ یا نظریہ نہیں ہے کمی بیشی کی اللہ سے معافی چاہتا ہوں۔

تو بھائی حق تو قرآن و سنت ہمارے پاس موجود ہے قرآن سے جو شرعی ثابت ہوجائے اور اس کی شرائط بھی پوری ہوجائیں تو ہمارے سر آنکھوں پر وگرنہ دنیا بھر کے علمائے سو جمع بھی ہوجائیں اور کسی بات پر اجماع بھی کرلیں تو ہم تو علمائے حق کے ساتھ ہی کھڑے رہیں گے۔ چاہے ہمارے سر بھی ہماری کندھوں سے اتار لیے جائیں۔

باقی نام رہے اللہ کا اور شریعت رہے شریعت محمدی باقی سب باطل ہے اللہ اور اس کا رسول اور ان کی شریعت حق ہے اور ہم حق کے ساتھ ہیں اور حق کے ساتھ ہی جینا و مرنا چاہتے ہیں۔

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 495335 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.