راستوں کی اہمیت میری زندگی میں
سوائے اس کے کچھ نہیں تھی کہ اُن پر چلا جاتا ہے، پر اب وہی راستے اک
انتظار مسلسل میں تبدیل ہو گئے ہیں، یوں لگتا ہے کہ ان راہوں پر اب میرے
سوا کوئی راہی کبھی نہیں آئے گا۔ راستے کے اُس موڑ پر جو صرف میرے گھر جاتا
ہے آج برگد کے اس بوڑھے پیڑ کے نیچے ماضی میری نظروں کے سامنے اپنے اچھے ،
بُرے سبھی پنے کھول کر کھڑا ہو گیا ہے، اور مجھ سے کہ رہا ہے دیکھو سارہ
کیا کھویا تُم نے اور کیا پایا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اُن پنوں کو اُلٹنے
لگی۔
وہ دسمبر کی ایک سرد رات تھی، کچھ انوکھا نہیں تھا اُس میں اور ایسی کئی
دسمبر کی سرد راتیں ہماری زندگی میں آئی تھیں، میں حسب معمول دبیز کمبل میں
تُمہارے بازووں میں دبکی ہوئی بستر پر لیٹی تھی، اور تُم نے کہا کہ چلو
دریچے کے پاس جا کر بادلوں کی اوٹ سے جھانکتے ٹھٹھرتے ہوئے چاند کو دیکھتے
ہیں۔ اُف؛ میں نے کہا تھا اور تمہارا ہاتھ تقریبا جھٹک ہی دیا تھا۔ نہیں
تُم اچھی طرح جانتے ہو کہ سردی سے مجھے شدید نفرت ہے، مجھے لگتا ہے کہ
زندگی منجمد ہو گئی ہے، زندگی کی حرارت جیسے رخصت سی ہو جاتی ہے اس دسمبر
میں۔ تُم نے کہا بھی کہ تُم مجھے اپنی بانہوں میں لیے ہی چاند دکھا لاو گے
اور کمبل بھی اوڑھے رکھنا، پر میں نہیں مانی۔
ارے کچھ آہٹ ہوئی تو ہے، کسی انجانی طاقت نے جیسے مجھے جھنجھوڑ کر اُٹھا
دیا تھا۔ میں وہیں بوڑھے برگد کے نیچے بیٹھی تھی اور شام کے دھندلکے دن کی
روشنی کو تاریکی کی چادر اوڑھا رہے تھے، میں نے حد نگاہ تک دیکھ لیا مگر
کسی متحرک چیز کا احاطہ میری نگہ نہ کر سکی۔ میں اُٹھی اور کافی دور تک
چلتی گئی، اسی امید پر کہ شائد تُم واپس آ گئے ہو۔ پر کہاں؟۔
سردی شدید ہوتی جا رہی تھی اور رات جواں، پر میں پھر واپس اُسی بوڑھے برگد
کے نیچے آ بیٹھی، شال میرے سر سے کب شانوں پر آئی اور کب ڈھلک کر نیچے جا
پڑی مجھے کچھ پتا نہیں اور کب غنودگی کی آغوش وا ہوئی کچھ نہیں پتا۔
پھر تُم نے کہا جان یہ سرد دسمبر کی راتیں کس قدر رومانوی ہوتی ہے نا؟ ارے
بھاڑ میں جائے ایسا رومان، مجھے اس ٹھٹھرتے ہوئے رومان سے کچھ لینا دینا
نہیں ہے۔ بس گرمی کتنی بھی شدید ہو اس سے لاکھ درجہ بہتر ہوتی ہے۔ بات بڑھ
گئی تھی اور اتنا بڑھی کہ میں تُم سے الگ ہو کے دو کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی
تھی اور ہلکی سی اوٹ سے میں نے تمہیں کیا کچھ کہا اور کیا کچھ سُنا یاد
نہیں۔
دوسرے دن تُم ناشتہ کیے بغیر دفتر چلے گئے، مجھے بہت دکھ ہوا اور برا بھی
لگا، میں نے سوچا کہ واپس آؤ گے تو تمہیں منا لوں گی، پرشام واپسی پر تُم
ہوٹل سے کھانا لے آئے تھے۔ مجھے تو جیسے تن بدن میں آگ لگ گئی، پھر یاد
نہیں کہ میں نے تمہیں کیا کچھ کہا الگ جا کے تمہارے لیے پکایا ہوا تھوڑا
کھانا زہرمار کیا اور لیٹنے چلی گئی۔
غنودگی کے عالم میں میں نے اپنے عارض پر تمہاری گرم سانسیں محسوس کیں، شائد
تُم مجھے منانے آئے تھے، پر میں تمہاری سانسوں کی گرمی سے راحت محسوس کر کے
گہری نیند سو گئی۔ صبح تُم پھر دفتر جا چکے تھے، میں نے مصمم ارادہ کیا کہ
تمہیں شام کو منا لوں گی، شام کو تُم جیسے ہی گھر آئے تو میں انتظار میں
تھی، میں نے دروازہ کھولا تو تم سیدھا سلام دعا کیے بغیر کمرے میں جا کر
لیٹ گئے۔ میں سوچتی ہی رہ گئی۔ میں نے کھانا لا کے رکھا پر تُم باتھ روم
میں جا کر دانت صاف کر کے سونے لیٹ گئے۔ میں بھی پلنگ کے کنارے پر لیٹ گئی۔
پھر کچھ دیر بعد جی کڑا کر کے میں نے تمہارے بازو پر ہاتھ رکھا اور ہلایا،
پر تُم سو چکے تھے۔ میں نے سوچا کہ صبح چھٹی ہے تمہیں ہر حال منا لوں گی۔
علی صبح بس اتنا یاد ہے کہ گاڑی سٹارٹ ہوئی تھی اور میں پھر آنکھیں موند کر
سو گئی تھی۔ صبح دھوپ کی کھڑکی سے چھن کے آتی ہوئی کرنوں کی حدت سے میری
آنکھ کھلی میں نے تمہاری طرف دیکھا پر تُم وہاں نہیں تھے۔ سارا گھر چھان
مارا تُم نہیں ملے ، گیراج میں گاڑی نہیں تھی۔
سردی کے شدید تھپیڑے نے مجھے جیسے جھنجھوڑ کے رکھ دیا، میں جاگ اُٹھی تو
میری شال الجھی سی میرے ہاتھوں میں ہاتھوں میں لپٹی ہوئی تھی اور اُس کے
لٹکتے دھاگے ایک دوسرے میں بری طرح الجھ گئے تھے۔ مین اُٹھ کر جلدی سے گھر
میں داخل ہوئی اور فورا ہی شال کے الجھے دھاگوں کو سلجھانا شروع کر دیا،
ساتھ ساتھ میں سوچ رہی تھی کہ اگر میں اپنی انا کے دھاگے بھی فورا سلجھا
لیتی تو شائد تُم اب بھی میرے پاس ہوتے۔ ابھی ایک منٹ بھی نہ ہوا تھا کہ
باہر گاری رکنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی ارشد صاحب کی گرجدار آواز، مسز علی
باہر آئیے۔ میں باہر نکلی تو وہ گاڑی میں ہی بیٹھے تھے، ارے جلدی سے بیٹھیے
علی ہاسپٹل میں ہے، اُس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا، دو دن سے وہیں ہے، آج ہوش آیا
تو مجھے فون کروا کے آپ کو لینے بھیجا ہےمجھے لگا کہ دسمبر کی سرد راتیں
واقعی بہت رومانوی ہوتی ہیں- |