(ایک ہزار پانچ سو سال قبل
دریافت ہونے والایہ موذی مرض ۔ جدیدسائنسی ترقی و تحقیق کے باوجود آج بھی
بنی نوع انسان کو اس بیماری کا شکار ہیں)
تپ دق جسے دنیا ٹی بی (Tuberculosis)کے نام سے جانتی ہے یہ ایک قدیم مرض ہے
جو صدیوں تک بنی نوع انسان کے لئے ایک مسئلہ بنا رہااور صدیوں ٹی بی کی وجہ
سے اَن گنت لوگ موت سے ہمکنار ہوئے ۔آج بھی اس موذی بیماری چھٹکارہ حاصل
نہیں ہوسکا ہے ۔ یونانی فلاسفر و طبیب ، بابائے طب بقراط نے 460اور 370قبل
مسیح کے آس پاس اس بیماری کو تشخیص کیا تھا۔ طب کی کتابوں میں ایک ہزار
پانچ سو سال قبل اس بیماری کی شہادت ملتی ہے۔ اس دور میں اس بیماری کو بہت
زیادہ تھکاوٹ، بھوک ، اور سینے کے زخموں سے منسوب کیا جاتا تھا ۔اٹھارویں
صدی میںدنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس بیماری کی نذر ہوا اور اسے ’موت کا
سردار‘ اور ’سفید طاعون‘ جیسے ناموں سے نوازا گیا۔
ٹی بی ایک مہلک بیماری ہے جو ایک خاص قسم کے جراثیم مائکو بیکٹیریم
ٹیوبرکلوسس(Mycobacterium Tuberculosis) سے پیدا ہوتی ہے ۔ یہ مرض چھوت کی
بیماریوں میں سے ایک ہے اور ایک انسان سے دوسرے انسان کو لگ جاتا ہے اس کا
پہلا حملہ انسان کے پھیپھڑوں پر ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ جسم
کے کسی بھی عضو کو متاثر کرسکتی ہے۔ عموماََاس بیماری کے جراثیم سانس کے
ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور مریض کے خون ، پیشاب اور تھوک سے بھی کسی
دوسرے شخص میں داخل ہوسکتے ہیں۔ چند ہی دنوں میں ان کی تعداد ،دُوگنی چوگنی
ہوجاتی ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سامنے مریض کا دفاعی نظام شکست تسلیم
کرلیتا ہے۔ پھیپھڑوں کے علاوہ یہ بیماری غدودوں ، انتڑیوں ، دماغ، اعضائے
تولید، ہڈیوں ، آنکھوں اور گردوں کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔
اس مرض میں احتیاط بہت ضروری ہے کیوں کہ اس مرض کے شکار فرد کے کھانسنے ،
چھینکنے یابند کمرے میں مریض کے قریب بیٹھ کر سانس لینے سے یہ مرض تندرست
انسان میں منتقل ہوسکتا ہے۔ ٹی بی کے جراثیم اکثر لوگوں کے جسم میں داخل
ہوجاتے ہیں لیکن جسم کا دفاعی نظام ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے اور انسان
ٹی بی میں مبتلا نہیں ہوتا ہے ، یہ جراثیم غیر فعال(Non-Reactive) مگر زندہ
رہتے ہیں اور زندگی کے کسی موڑ پر انسان کے دفاعی نظام کی کمزوری کا فائدہ
اٹھا کر اس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے بیمار کردیتے ہیں۔ پہلے یہ مرض
ناقابل علاج تھا لیکن طبی ماہرین کی انتھک محنت اور تحقیق کے بعد اب اس
بیماری کا علاج باآسانی ممکن ہے۔
عام طور پر غربت کی وجہ سے لوگ اس مرض کی لپیٹ میں آتے ہیں کیونکہ انھیں
اچھی رہائش اورمناسب خوراک حسب ضرورت مہیا نہیں ہوتی۔ اگر کوئی وبائی مرض
لگ جائے تو غربت کی وجہ سے اس کا صحیح علاج بھی نہیں ہوپاتا ۔ تنگ و تاریک
اور زیادہ گنجان آباد علاقے بھی اس مرض کے فروغ کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے
گھروں میں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے اور تنگی و تاریکی کی وجہ اس مرض کے پیدا
ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ ٹی بی کا جراثیم سورج کی روشنی اور حرارت
سے مرتا ہے اور تاریک جگہ پر پرورش پاتا ہے۔ پرانااور گندا انداز ِرہائش ،
حفظانِ صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی اور غیر معیاری اشیاءکھانے سے صحت کا
معیار گر جاتا ہے اوریوں انسان اس موذی مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ایسے
حالات جہاں پر گرد وغبار اور دیگر مختلف قسم کی آلودگی کثرت ہو تو ایسے
حالات میں بھی یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ یہ مرض خصوصاََ غریبوں میں ان کی غیر
معیاری صحت ، کثرت اولاد ، تنگ گھر اور مشقت کی زیادتی سے بھی یہ پیدا
ہوجاتا ہے جبکہ امیر طبقے کے بہت کم لوگوں میں یہ مرض ہوتا ہے۔
اس مرض کی علامتیں یہ ہیں کہ کھانسی ہوجاتی ہے ، اورکبھی کبھی بلغم کے ساتھ
خون بھی آتا ہے۔ سینے میں تکلیف ، وزن اور بھوک میں کمی اور خصوصاََ رات
میں پسینے کے ساتھ بخار کی شکایتیں بھی پیش آسکتی ہیں۔قبض اور پیچش کی
شکایت بھی ہوجاتی ہے۔ ٹی بی کی تشخیص عموما سینے کے ایکسرے اور بلغم کے
نمونے کی جانچ (Laboratory Test)کرنے کے بعد ہوتی ہے۔اگراس مرض میںمبتلا
مریض کی گردن کے کسی حصے میں یا بغل میں گلٹیاں نمودار ہوئی ہوں تو پی سی
آر(PCR)، سٹی اسکین (CT-Scan)اور ایم آر آئی(MRI)کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔
تشخیص ہونے کے بعد ٹی بی کے مرض کو ابتدائی مرحلہ میں آسانی سے کنٹرول کیا
جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ بروقت اس کی تشخیص ہوجائے ورنہ پھر اس کے علاج میں ایک
لمبا عرصہ لگتا ہے۔ اور اس مرض پر کنٹرول مشکل ہوجاتا ہے۔
اس بیماری سے بچنے اور قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ اس مرض میں مبتلا
مریضوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ کھانستے اور چھینکتے وقت اپنے منہ کو ڈھانپ
کر رکھیں۔ ان کے لئے صاف ستھرے گھروں میں رہائش کا بندوبست کیا جائے معیاری
خوراک کھلائی جائے ۔ مریض کو آرام دہ پر فضا ماحول میں رکھا جائے۔ مریض کے
کھانے پینے اور سونے کا سامان گھر کے دیگر افراد سے الگ رکھا جائے تاکہ
دوسرے تندرست افراد اس جان لیوا مرض سے بچ سکیں۔ اس کے علاوہ مریض کا
ادویات کھانے اور علاج کروانے میں حوصلہ بندھانا چاہیئے اور مریض کو یہ
یقین دلایا جائے کہ یہ بیماری قابل علاج ہے ، مریض کو مرض سے متعلق ادویات
مسلسل اور بر وقت استعمال کروائی جائیں۔ٹی بی میں مبتلا افراد اگر اپنی دوا
پابندی سے نہیں کھائیں گے تو وہ شدید بیمار ہوسکتے ہیں اور مر بھی سکتے
ہیں۔
پاکستان میں ٹی بی ڈاٹ (T.B. Dot)پروگرام کے تحت ٹی بی کا علاج صرف نو ماہ
میں مکمل کروادیا جاتا ہے۔ٹی بی کے علاج میں عموماََ ایک سے زیادہ ادویات
بیک وقت صبح وشام استعمال کروائی جاتی ہیں۔ دورانِ علاج اور بعد میں مریض
کو اچھی خوراک مثلاََ مچھلی ، دودھ، انڈے گوشت اور پھل وغیرہ دیں ، اچھی
رہائش اور پرسکون ماحول فراہم کیا جائے۔ تاکہ مریض جلد از جلد اس مرض سے
چھٹکارا حاصل کرسکے۔
اگر آپ دویا تین ہفتوں سے کھانس رہے ہیں تو کسی نزدیکی ہیلتھ سینٹر یا
ہسپتال میںمعالج سے مشورہ کریں اور ٹیسٹ کروائیں اگر ٹی بی کا مرض تشخیص ہو
تو اس کا مکمل علاج کروائیں۔ |