انتخابات ونتخابات کو بھول جائیے
جناب۔۔۔۔وفاقی وزیرداخلہ اور گورنر سندھ تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ” کراچی
میں ہم بہت خونریزی دیکھ رہے ہیں“۔یہ اتفاق ہے یا کچھ اور کہ3 مارچ اتوار
کوعبدا لرحمٰن ملک نے طالبان کو یاد کیا اور کہا کہ کراچی اور کوئٹہ کے
علاوہ ہر جگہ سے طالبان کو ختم کردیا گیا ۔ ان کے اس بیان کے چند گھنٹے بعد
ہی دو اور دہماکے کراچی کے عباس ٹاﺅن میںہوجاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔؟ صورتحال تو
کراچی کی رواں سال شروع ہونے کے بعد سے ہی خراب ہے۔یہ تو اچھا ہے کہ
وزیرداخلہ اور گورنر پہلے ہی لوگوں کو خبردار کردیا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔اس سے
زیادہ” وہ“ کربھی کیا سکتے ہیں؟ اچھی بری بات سے پہلے ہی آگاہ کردینا بھی
تو قوم سے محبت کا ثبوت ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ وزیرداخلہ
اے آر ملک کی ” ڈوریں“ جہاں سے ہل رہیں ہیں جن کو یہ جواب دہ ہیںانہوں نے
ان کو صرف یہ ہی مخبری کرنے کی اجازت دی ہے۔شائد یہ اجازت بھی اس لیے دی
گئی کہ لوگ انتخابات کا انتظار کرنے کے بجائے ذہنی طور پر تیار ہوجائیں کہ
انتخابات تو دور کی بات حالات ایسے پید ا کردئے جائیں گے کہ ملک کی سلامتی
کو (خدانخواستہ) خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ذہن میں رکھیں کہ اگر کراچی کو کچھ
ہوا تو پورا جسم مفلوج ہوجائےگا ۔جبکہ کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے ، ”پرسرار
لوگ“جو کچھ کررہے ہیں اس سے کراچی شدید زخمی تو ہوچکا ہے۔ اس کا لہو روزانہ
ہی رس رہا ہے۔
سوال ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ کیا اس کا مقصد الیکشن کا التوا ہے یا کچھ
اور ۔۔۔۔۔؟
جب عبدالرحمٰن ملک اور عشرت العباد بھی یہ بات کہہ رہے ہیں کہ حالات بہت
زیادہ سنگین ہونے والے ہیں، اس کا مطلب واضع ہے کہ وہ بھی انتخابات کو ہوتا
نہیں دیکھ رہے۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ پھر یہ دونوں حضرات گورنر اور وزیر
داخلہ کی سیٹوں سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں؟
ظاہر ہے یہ دونوں حضرات جو کچھ کررہے ہیں یا یعنی خوفناک حالات کی اطلاعات
دینا یہ کام کوئی دوسرا باضمیر ان اہم عہدوں پر رہ کر نہیں کرسکتا؟کوئی اور
ہوتا تو کب کا ان عہدوں سے استعفٰی دیکر عزت بچا جاتا۔
ذرا غور کیجئے کراچی کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں لیکن امریکہ
بہت اطمینان سے اپنی سرگرمیوں اور حدود کو وسعت دینے میں مصروف ہے۔بہت عرصے
سے امریکی کی شہریوں کو کراچی میں آزادانہ نقل وحرکت کرنے سے باز رہنے کی
خبر بھی نہیں آئی،شائد امریکیوں کے لیے کراچی میں کسی قسم کا ڈر نہیں
ہے۔اگر ان کو ڈر نہیں ہے تو یقینا یہ ڈرانے والوں میں شامل ہیں؟
کراچی ائیرپورٹ پر امریکی آرمی کی انجینئرنگ کور کی جانب سے ٹیکنکل کمانڈ
اینڈ آپریشن سینٹر کے قیام کے لیے کارروائی شروع کی جاچکی ہے۔کراچی کے
حالات سنگین ہورہے ہیں مگر امریکہ یہاں اپنے مراکز قائم کرنے میں مصروف
ہے۔کراچی میں امریکی قونصل خانہ کی مائی کلاچی پر بنائی جانے والی نئی
عمارت میں سفارتخانے کی ضروریات کی ساری چیزیں موجود ہے۔ کیاامریکہ یہاں
سفارتخانہ بنانے کی کوششیں کررہا ہے ؟ اگر کررہا ہے تو کیوں ؟ کیا اسلام
آبادکے سفارتخانے کو کراچی منتقل کردیا جائے گا؟ نہیں جناب یہ ممکن نہیں ہے
کہ ملک کے دارلحکومت سے کوئی ملک اپنے سفارتخانے کو کراچی جیسے شہر میں
جہاں روزانہ دس ،بارہ افراد فائرنگ کا نشانہ بن کر اپنی جانوں سے چلے جاتے
ہیں جہاں نہ قانون ہے اور نا قانون نافذ کرنے والے ادارے ، کیونکر اپنے
سفارتخانے کو منتقل کرے گا؟۔کرپٹ حکمرانوں کی مجرمانہ سرگرمیوں کے دوران
امریکہ اپنے مقاصد پر بہت اطمینان سے عمل پیر ا رہا۔قونصل خانے کی عمارت کی
سفارتخانے طور پر تعمیر کے بعد اس کے اطراف سے آئیل ٹرمینل اور دیگر
تنصیبات کی منتقلی امریکہ کے لیے ضروری تھی سو پیپلز پارٹی کے مرکزبلاول ہاﺅس
کو کراچی سے لاہور منتقل کرواکر اس کام کی بھی ابتدا کی جاچکی ہے ۔کراچی کے
ساحل کے قریب سفارتخانے کی طرز پر قونصل خانے کی عمارت اور ائیرپورٹ پر
کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سینٹر کے قیام کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور پر
مناسب بات نہیں ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ سینیٹ میں اس معاملے کو اٹھائے جانے
کے باوجود کسی بھی جانب سے کوئی خاص ردعمل نظر نہیں آیا جس کے باعث یہ کہا
جاسکتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت امریکہ کے ہاتھوں اسی طرح یرغمال
ہے جس طرح کراچی کی اکثریت متحدہ کے ہاتھوں مجبور اور بے بس ہے۔
پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت کے قیام میں امریکہ کی دلچسپی سے
یہ بات واضع ہے کہ اس حکومت کو امریکہ کی مکمل حمایت تھی۔امریکہ کی براہ
راست سپورٹ کے باعث تینوں اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف متعدد شکایتوں
کے باوجود حکومت سے علیحدہ ہونے سے گریزاں رہیں۔ متحدہ کا کرداد اس دور میں
انوکھا رہا بلکہ اب بھی ہے کہ خود وہ اپوزیشن میں ہے لیکن اس اپنا عہدیدار
گورنر بنا بیٹھا ہے۔اے این پی سندھ حکومت سے کچھ عرصہ پہلے علامتی طور پر
الگ ہوئی لیکن مرکز میں اس کا اتحاد پیپلز پارٹی سے مستقل رہا۔اس اتحاد کو
برقرار رکھنے کی ذمہ داری ” بڑی سرکار“ کی جانب سے رحمن ملک کی تھی انہوں
نے پورے دور میں صرف یہ ہی ذمہ دار احسن طریقے سے نبھائی ہے۔میری نظر میں
اے آر ملک اتحادیوں کے درمیان معاملات کو سنبھالنے کے لیے امریکہ کے سیکٹر
انچارج کا کردار ادا کررہے ہیں۔
امریکہ جن مقاصد کے تحت پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کرتا رہا
وہ مقاصدحاصل کرنے کا وقت اب آچکا ہے۔باخبر لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ کو کرپٹ
عناصر پر مبنی حکومت پاکستان میں چاہئے تھی اس وجہ سے پرویزمشرف پر دباﺅ
ڈال کر این آر او لایا گیا۔این آر او لاتے وقت امریکہ نے پرویز مشرف کو
یقین دلایا تھا کہ وہ صدر کی حیثیت سے بدستور کام کرتے رہیں گے اور امریکہ
ان کی حمایت بھی کرتا رہے گا۔جبکہ آصف زرداری بھی اس بات پر تیار ہوچکے تھے
کہ وہ مشرف کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔لیکن دوسری طرف مشرف کے سپریم
کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں امریکہ کو احساس ہوگیا تھا
کہ چیف جسٹس کی بحالی کی اس تحریک کو فوری طور پر نا روکا گیا تو پھر سارا
گیم ہی وقت سے پہلے ختم ہوجائے گا ۔اس لیے پرویز مشرف کو عین وقت پر عہدہ
چھوڑنے کا اشارہ دیا گیا تھا ، اشارہ ملتے ہی پرویز مشرف نے صدر کے عہدے سے
استعفٰی دیدیا بعدازاں انہیں ملک سے باہر جانے کا صاف راستہ بھی دیدیا گیا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے ابتدائی دنوں میںامریکہ کو اندازہ تھا کہ
اگر مسلم لیگ مرکز میں پیپلز پارٹی کے ساتھ رہی تو وہ(امریکا) اپنے مقاصد
حاصل نہیں کرسکے گا۔ اس لیے مئی 2008کے پہلے ہفتے میں واشنگٹن میں کانگریس
کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ نواز شریف کو پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت
سے دور کرنا ہے ۔ اس فیصلے پر کامیابی کے ساتھ عمل کیا گیا اور نواز شریف
کی پارٹی پورے ساڑے چار سال تک مرکزی حکومت سے دور رہی۔امریکہ کے لیے مسلم
لیگ کی پیپلز پارٹی سے دوری اس لیے بھی ناگزیر تھی کہ پرویز مشرف کو ”
پروگرام کے تحت “ ملک سے باہر جانے کاصاف راستہ مل سکے جبکہ متحدہ اور اے
این پی کو پیپلز پارٹی کے قریب آجائے ۔لہذا امریکہ نے اپنی خواہش کے مطابق
ابتائی دنوں میں ہی مسلم لیگ کا مرکزی حکومت کے لیے پیپلز پارٹی سے اتحاد
ختم کرادیا ۔جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی ، متحدہ اور اے این پی سے الائنس
کرنے پر مجبور ہوئی اور مسلم لیگ نواز اپوزیشن میں بیٹھنے پر۔میں پورے یقین
سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ آصف زرداری کسی بھی طور پر متحدہ کے ساتھ الائنس
کرنا نہیںچاہتے تھے۔لیکن مسلم لیگ کی جانب اپوزیشن میں بیٹھے کے فیصلے کے
بعد آصف زرادری اور پیپلز پارٹی کی یہ مجبوری تھی کہ حکومت قائم کرنے کے
لیے متحدہ کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔ظاہر ہے کہ اگر مسلم لیگ نواز اور پیپلز
پارٹی کی مخلوط حکومت ہوتی تو متحدہ اور اے این پی کو کسی طور وفاقی حکومت
میں جگہ نہیں ملتی ۔ایسی صورت میں کراچی ،کوئٹہ اور پشاور میں امریکہ اپنے
مذموم مقاصد باآسانی حاصل نہیں کرسکتا تھا جو خیال ہے کہ اب اس نے حاصل
کرلیے۔ملک میں ڈرون حملوں کا حکومت کے قیام کے بعد چند دنوں میں آغاز ہونا
اور تحریک طالبان پاکستان کا قیام امریکہ کے مقاصد تھے۔ریٹائرڈ جنرل شاہد
عزیز نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں واضع کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان
کا قیام افغانستان میں موجود اصل طالبان کو بدنام کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
کراچی ،پشاور اور کوئٹہ میں جو کچھ ہوتا رہا اور ہورہا ہے وہ مذکورہ
اتحادیوں کے موجودگی کے باعث آسان ہوا ۔ اگر یہاں ان اتحادیوں کی حکومت
قائم نہیں ہوتی تو ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ بلکہ وہ ہی کچھ ہوتا جو پنچاب میں
ریمنڈ ڈیویس کے ساتھ ہوا۔ممکن ہے بہت سو کے لیے ایک معمولی یااتفاقی واقعہ
ہو لیکن حقیقت میں اس واقعہ سے امریکا کا چہرہ بے نقاب ہوگیا تھا۔ پیپلز
پارٹی کی وفاقی حکومت نے ریمنڈ ڈیویس کی رہائی کے لیے جو دیت کی رقم مقتول
نوجوانوں کے لواحقین کو ادا کی تھی وہ پیپلز پارٹی کے نہیں بلکہ اس ملک کے
خزانے سے دی گئی تھی ، سب سے بڑھ کر ریمنڈ ڈیویس کون تھا ااور کیوںیہاں آیا
تھا یہ بات ہمیشہ کے لیے ہی دب کر رہ گئی۔ یہ بات پتا لگ جائے توکوئٹہ ،
کراچی اور پشاور میں ہونے والے دھماکوں اور دیگر تخریب کاری کے واقعات کے
ملزمان کا پتا بھی لگایا جاسکتا تھا۔
خیر اب کیا ہوگا کیاامریکہ کی سازشیںختم ہوگئیں؟ اور ملک میں آئندہ کیا
ہوگا؟ اس کے لیئے انتظار کرنا پڑے گا۔لیکن میں وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ
پاکستان سے دوستی یا اسٹرٹیجک پارٹنر کے نام پر سر گرم قوت فوری انتخابات
کا التواءچاہتی ہے اور کسی بھی طرح ملک کو غیر جمہوری قوت کے حوالے کردینا
چاہتی ہے تاکہ پانچ سال کے دوران جو کچھ بھی ہوا ، جو کچھ بھی کیا گیا اس
سارا الزام جمہوریت اور جمہوری اداروں پر ڈالا جاسکے ۔جبکہ اصل قوت کے چہرے
پر بدستور پردہ پڑھا رہے ۔تاکہ پھر کچھ عرصے بعد نئے چیپٹر کے تحت اپنے
ناپاک مقاصد حاصل کرنے کے لیے دوبارہ مذموم کارروائیاں شروع کی جاسکے ۔ |