شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ان دنوں
بنگلہ دیش سے اسلام کو نکالنے کے لیے ظلم وجبر کی آخری حدوں کو چھورہی ہیں،
لگتا ہے شیخ حسینہ واجد کو بھارت نوازی اور پاکستان دشمنی اپنے باپ سے
وراثت میں ملی ہے۔ نام تو ان کا حسینہ ہے مگر ان کی حکومت بنگالی عوام اور
اسلام پسندوں کے لیے ’’ چڑیل ‘‘ حکومت بن چکی ہے۔ بنگلہ دیش کے لوگ جو
اسلام سے گہری وابستگی رکھتے ہیں، ان دنوں حکومت کے اسلام دشمن اقدامات کی
وجہ سے شدید کرب میں مبتلا ہیں۔
حسینہ حکومت نے پہلے مرحلے میں بنگلہ دیش کو اسلامی شناخت سے محروم کرنے کے
لیے آئین کی اسلامی دفعات پر حملہ کیا، چوں کہ ان کی جماعت کو پارلیمنٹ میں
عددی برتری حاصل ہے، اس لیے وہ آئین میں ایسی ترمیم کرانے میں کامیاب
ہوگئیں، جس سے اسلامی جمہوریہ بنگلہ دیش کے نام سے اسلامی کا لفظ نکال دیا
گیا۔ حکومت کے اس اقدام کے خلاف بنگلہ دیش کے گلی کوچوں میں احتجاج کیا گیا
لیکن ’’جمہوری‘‘ حکومت نے عوام کی آواز سننے کی بجائے فوج اور پولیس کی مدد
سے احتجاجیوں کا گلا گھونٹ دیا ۔
شیخ مجیب الرحمن نے وفاق پاکستان سے علیحدگی کی تحریک بنگلہ قوم پرستی کی
بنیاد پر چلائی تھی مگر انہوں نے اسلام سے براہِ راست کوئی چھیڑ خانی نہیں
کی، شاید وہ کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھے، جو انہیں نہیں ملا، کیوں کہ
اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ کے اندر وہ اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔
سنجیدہ حلقوں نے1970ء میں ان خدشات کا اظہار کردیا تھا کہ قومیت اور لسانیت
کے بدبودار نعرے کی بنیاد پر چلنے والی یہ تحریک بالآخر بنگالی قوم کا
اسلام سے رشتہ کاٹنے کی ضرور کوشش کرے گی، آج ان لوگوں کی یہ سیاسی پیش
گوئی صد فی صد پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔ بھارت کے روحانی فرزند ایک عرصہ سے
پاکستان کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر آویزاں کلمہ طیبہ کو بھی کھرچنے کے درپے
ہیں۔ ان لوگوں کا یہاں تو وارنہیں چلا، البتہ بنگلہ دیش میں انہیں کسی حد
تک اپنے مذموم مقاصد میں ضرور کامیابی حاصل ہوگئی ہے۔
حسینہ حکومت آئینی معرکہ سر کرنے کے بعد اب پاکستان سے انتقام لینے پر اُتر
آئی ہے۔ یہ انتقام ان لوگوں سے لیا جارہا ہے جو کسی جرم میں شریک ہی نہیں
تھے۔ حکومت نے پہلے 1971ء کے فسادات کے دوران پاکستان سے تعاون کرنے والوں
کو پارلیمنٹ کے ذریعے غدار قراردلوایا، اس کے بعد ایک نام نہاد عدالتی
ٹریبونل قائم کرکے مخالفین خاص طور پر اسلام پسندوں کو پھانسی کے پھندے پر
لٹکانا شروع کردیا ہے۔ جماعت اسلامی اس ریاستی جبر کا خاص طور پر ہدف بنی
ہوئی ہے۔ اس جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کو محض پاکستان زندہ باد کے نعرے
لگانے (جو 1971ء کے فساد کے دوران لگائے گئے تھے) کے جرم میں کال کوٹھڑیوں
میں دھکیلا جارہا ہے۔ کئی ایک کو پھانسی اور عمر قید کی سزائیں سنائی جاچکی
ہیں، سینکڑوں افراد کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ٹریبونل جسے عدالتی کہنا
انصاف کے منہ پر تھپڑ لگانے کے مترادف ہے، جس ’’ تیزی ‘‘ سے مقدمات کو
نمٹارہا ہے، اس سے لگتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں ہزارو ں اسلام پسندوں کو
سخت سزائیں دے دی جائیں گی۔ بنگلہ دیش کے عوام میں حب الوطنی کے نام پر کی
جانے والی اس انتقامی کارروائی کے خلاف شدید اشتعال پایا جاتا ہے، لوگ اپنا
آئینی اور قانونی حق استعمال کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلے تو اِن کا گولیوں سے
استقبال کیا گیا، چند روز کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 80 کے قریب
ہوچکی ہے ، سینکڑوں بری طرح زخمی ہوچکے ہیں اور ہزاروں مظاہرین کوجیلوں میں
ٹھونس دیا گیا ہے۔
1971ء سے پہلے بنگلہ دیش بھی پاکستان کا حصہ تھا، اس علاقے میں مقیم کسی
بھی شخص نے اگر 1947ء سے 1971ء کے درمیان پاکستان کے حق میں کوئی بات کی ہے
تویہ جرم نہیں، بلکہ اس کی حب الوطنی کا ثبوت ہے۔ جماعت اسلامی دیانت داری
کے ساتھ یہ سمجھتی تھی کہ شیخ مجیب الرحمن کی تحریک اسلام، خطے اور خود
بنگالی قوم کے مفاد میں نہیں ہے، اسی لیے مشرقی پاکستان میں مقیم جماعت
اسلامی کے وابستگان نے اس تحریک کی دلائل کی بنیاد پر مخالفت کی۔ 1971ء کی
پاک بھارت جنگ کے دوران جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت
طلبہ) کے نوجوانوں نے حب الوطنی کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستان کا ساتھ دیا۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے آج کوئی بلوچستان میں چلنے والی علیحدگی کی تحریک کو
غلط سمجھتا ہو تواسے کل کلاں غدار قرار دے دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا
جاسکتا ہے کہ آزادی کی تحریک کی مخالفت کرنے والوں کی رائے درست نہیں تھی۔
یہی معاملہ بنگلہ دیش کا تھا ، جماعت اسلامی نے بنگالی قوم نہیں بلکہ
پاکستان سے علیحدگی کی مخالفت کی تھی۔ بلوچستان کی مثال صرف اپنی بات واضح
کرنے کے لیے دی ہے، ورنہ ہماری دعا اور خواہش تو یہی ہے کہ اﷲ پاکستان کو
کسی دوسرے سانحہ مشرقی پاکستان سے بچائے۔
بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنان نے ’’آزادی‘‘
کی تحریک کے دوران بنگالیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے تھے، آج ان کا حساب
لیا جارہا ہے۔ یہ بات بھی سراسر غلط ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جماعت
اسلامی کے وابستگان تو خود بنگالی قوم کا حصہ تھے ،وہ صدیوں سے اسی خطے پر
آباد چلے آرہے تھے ، بھلا وہ کیسے اپنی ہی قوم اور ہم زبانوں پر ظلم
ڈھاسکتے ہیں۔ ہاں ! جماعت اسلامی کے کارکنان نے بھارت کے تربیت یافتہ چھاپہ
ماروں جو مکتی باہنی کے نام سے کارروائیاں کرتے تھے،ان کا ضرور مقابلہ کیا
تھا۔ بلاشبہ بہت سے عام بنگالیوں پرظلم ہوا ہے لیکن اس میں اسلام پسند نہیں
کوئی اور ملوث ہے۔ یہ ’’اور ‘‘ وہ ہیں جن سے کبھی کسی نے جواب مانگنے کی
کوشش نہیں کی۔
آئین سے اسلامی دفعات کو حذف کرنا تو بنگلہ دیش کا ’’اندرونی ‘‘ معاملہ
ہے،اس پر توہمیں منہ بند ہی رکھنے چاہئیں مگر وہاں جس طرح پاکستان کا نام
لے لے کر لوگوں کو پھندوں پرلٹکایا جارہا ہے، کیا اس پر بھی منہ نہیں
کھولنا چاہیے؟ اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات کے ساتھ ساتھ عالمی قانون بھی
پاکستان کو بنگلہ دیش میں اس ریاستی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے کا حق
دیتا ہے۔ وزارت خارجہ کو اس پر نہ صرف سخت بیان جاری کرنا چاہیے بلکہ
سفارتی ذرائع سے بنگلہ حکومت کو اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرانا ضروری ہے ۔
پاکستان کو اس معاملے کو کسی مذہبی تنظیم کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے اس
کے اصل پس منظر پر توجہ دینی چاہیے۔
اس سارے معاملے کا ایک افسوس ناک پہلو اور بھی ہے، پاکستان کی مذہبی اور
سیاسی جماعتوں نے نامعلوم وجوہ کی بناء پر بنگلہ دیش میں ہونے والے ظلم
وجبر پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہمیں اپنے بھائیوں کو لاوارث نہیں چھوڑنا
چاہیے، اگر بنگلہ دیش سے اسلام اور اسلامی قوتوں کو نکال دیا گیا تو یہ
مطالبات پاکستان میں بھی زیادہ طاقت سے سراُٹھا سکتے ہیں۔ |