سانحہ میں غیروں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں
کی بیواؤں کو اپنوں کے ہاتھوں” قتل “ سے بچانے میںحکومت کامیاب ہوگی یا اس
میں بھی ناکام ہی رہے گی!
دہشت گردی کا واقعہ لاہور میں ہو یا کوئٹہ میں ہزاری برادری کے افراد نشانہ
بنائے جائیں ‘ کراچی میں ٹارگیٹ کلنگ ہو یا سانحہ عباس ٹاؤن میں شہید ہونے
والے افراد ہوں‘ ایک سروے کے مطابق ان واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد
عموماً 25سے 40سال کی عمر سفیدپوش لوگ ہوتے ہیں جن کے بچوں کی عمر 2 سے
15سال کے درمیان ہوتی ہے اور وہ اپنی بیوی و بچوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے بہن
بھائیوں اور والدین کے بھی کفیل ہوتے ہیں اسلئے دہشت گردی کے واقعہ میں کسی
فرد کی ہلاکت محض ایک انسان کی ہلاکت نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک خاندان کا قتل
ہوتا ہے ۔ سانحہ یا حادثے میں ہلاک ہونے والے فرد کی بیوی جو بناءکسی جرم و
خطا سہاگن سے لمحہ بھر میں بیوہ ہوجاتی ہے شوہر کی شہادت و انتقال کے باعث
سسرال میں منحوس وسبز قدم قرار دے دی جاتی ہے اور پھر اس پر زندگی کس طرح
تنگ ہوجاتی ہے اس کا احساس و ادراک نہ تو ہمارے میڈیا نمائندگان کو ہے اور
نہ ہی حکمران اس سے واقف ہیں ۔
جہالت و استحصال کے اس معاشرے میں کسی بھی سانحہ میں ہلاک ہونے والے فرد کی
بیوہ اپنے ہی گھر میں لمحہ بھر میں اجنبی ہوجاتی ہے اور کفیل کی موت کی
صورت مفلوک الحالی کا شکار ہوجانے والے اس خاندان کے تمام افراد ان مسائل و
مصائب کا ذمہ دار مرحوم کی بیوہ کو قرار دیکر اس کی زندگی اجیرن بنادیتے
ہیں ‘ لمحہ لمحہ طعنہ و تشنہ ‘ مارپیٹ و تشد د ‘ بلا معاوضہ ملازم کی سی
مشقت کے ساتھ ساتھ ساس ‘ نندیں ‘ دیور اور جیٹھ اس مظلوم عورت کوہی مرنے
والے کا نعم البدل قراردیکر اُس طاقتور مرد کی تمام ذمہ داریاں اِس کمزور
عورت پر ڈال کر اس عورت کو زبردستی ان کی تکمیل پر مجبور کرتے ہیں مگراسے
مرنے والے کو ملنے والے حقوق میں سے کوئی بھی حق دینے کو تیار نہیں ہوتے !
مظلوم عورت مرحوم شوہر کی رفاقت کی یادوں اور بچوں کی شکل میں اس کی دی
ہوئی نشانیوں کی محبت میں ان تمام مظالم کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتی
رہتی ہے مگر کیا مظلوم عورت کا یہ کردار قانون سے متصادم تو نہیں ہے اس
جانب کوئی بھی فرد کوئی توجہ نہیں دیتا اور نہ ہی حکومت و ادارے معاشرے میں
جاری اس جبر کے سدِ باب کیلئے کوئی اقدامات کرتے دکھائی دیتے ہیں !
سانحہ عباس ٹاؤن ہو یا دہشت گردی کا کوئی اور واقعہ حکومت ہلاک شدگان کے
متاثرین کیلئے جس امدادی رقم کا اعلان کرتی ہے اگر وہ کسی کو مل جاتی ہو تو
اسے بد قسمت ملک کا خوش قسمت شہری قرار دیا جاسکتا ہے وگرنہ یہاں چوری ‘
لوٹ مار اور کرپشن جس قدر عام ہے اس میں لوگ کفن تک چراکر بیچ دینے کے عادی
ہیں تو کسی کو حق یا اعلان کردہ امدادی رقم کس طرح دیں گے جس کا نتیجہ یہ
ہوتا ہے کہ اگر کسی سانحہ میں کوئی فرد ہلاک ہوجاتا ہے تو اس کی ماں اور
بیوی کے علاوہ اس کے گھر کے دیگر تمام افراد امدادی رقم ملنے کے منتظر اور
لینے کے امیدوار بن جاتے ہیں اور اگر یہ رقم مل جائے تو چھینا جھپٹی اور
خرد برد کیلئے رشتوں کی کس طرح تذلیل کی جاتی ہے اسے دیکھ کر بسااوقات
شیطان بھی اپنے انسان نہ ہونے پر شکر ادا کرتا ہے اور اگر یہ رقم نہ ملے تو
اس کا ذمہ دار بھی مرحوم کی بیوہ کو ٹہراکر اس پر ڈھائے جانے والے مظالم
میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
٭ قیام امن اور تحفظ کی فراہمی میں ناکام حکومت کو چاہئے کہ بڑھتی ہوئی
دہشت گردی ‘ قتل و غارت ‘ تشدد ‘ بد امنی اور ہلاکتوں کے پیش نظر ایک ایسا
فورم تشکیل دے جہاں سانحات میں ہلاک ہونے والے افراد کی بیوائیں اپنے ساتھ
ظلم و زیادتی کی صورت رجوع کریں اور یہ فورم انہیں تحفظ کی فراہمی کے ساتھ
انصاف ‘ امداد اور وراثتی حقوق دلانے میں معاون و مددگار ثابت ہو ۔
٭ دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کیلئے جس
امدادی رقم یا معاوضے کا اعلان کیا جائے وہ غیر شادی شدہ مرد کی ماں یا پھر
شادی شدہ مرد کی بیوی کے نام پر جاری کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا
جائے کہ یہ رقم براہ راست مرحوم کی بیوہ کیلئے ایک علیحدہ اکاؤنٹ کھول کر
اس میں منتقل کی جائے جسے وہ خود ہی کیش کراسکے اور اس کے علاوہ دیگر کوئی
اور فرد یا مرحوم کا عزیز اس رقم کو استعمال نہ کرسکے ۔
٭ سانحہ میں ہلاک ہونے والے افراد کی بیواؤں سے خواتین سرکاری نمائندگان پر
مشتمل وفد مستقل و مسلسل رابطے میں رہے اور نگرانی کرے کہ اس کے ساتھ سسرال
میں کس قسم کے معاملات ہیں اور اگر وہ سسرال میں خود کو غیر محفوظ تصور
کررہی ہے تو اسے میکے میں سیٹل کرایا جائے یا پھر اسے کرائے کے کسی مکا ن
میں منتقل کرانے کے بعد بیوہ کو اس کا وراثتی حق دلایا جائے تاکہ وہ اپنے
بچوں کی پرورش و کفالت کرتے ہوئے اپنی مرضی کی آزادانہ زندگی گزارسکے
کیونکہ ہمارے معاشرے میں بیوہ خواتین کی حق تلفی ‘ ان پر ظلم و جبر ‘
وراثتی حق سے محرومی اور شوہر کے مرنے کے کچھ عرصہ بعد روپے پیسے اور زمین
و جائیداد کے لالچ میں اپنے ہی مرحوم بیٹے اور بھائی کی بیوہ کو قتل کرکے
اسے خود کشی قرار دینے کی روایت عام ہے مگر اب میڈیا ‘ سماجی تنظیموں ‘
حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ساتھ عوام کو بھی اس ظلم کے خلاف اپنا کردار
ادا کرنا ہوگا اور اپنے ارد گرد نظر رکھنی ہوگی کہ کہیں ہمارے پڑوس میں کسی
بیوہ کی حق تلفی ‘ اس پر ظلم و جبر یا اس کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہورہی ہے
۔
سانحہ عباس ٹاؤں کے بعدحکومت نے جلد بازی میں معاوضے و امدادکے طور پر جتنی
بڑی رقم کا اعلان کیا ہے وہ کسی انسانی زندگی کا نعم البدل ثابت ہوسکتی ہے
اور نہ ہی کسی کفیل کا متبادل بن سکتی ہے مگر پھر بھی اس رقم کے اعلان نے
معاشی ناآسودگی کا شکار معاشرے میں پہلے سے موجود حرص و ہوس کے جذبات کو
مزید دوبالا کیا ہے جس کی وجہ سے سانحہ عباس ٹاؤن کے شہداءکی بیواؤں کی
زندگیاں اور مستقبل دونوں خطرات کی زد میں ہیں جنہیں جاننے کیلئے حکمران
اگر پولیس ‘ میڈیا و این جی اوز کی خواتین پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دیکر سروے
کرائیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ سانحہ عباس ٹاؤن کے شہداﺀ کی بیواؤں کی
اکثریت سسرالیوں کے حبس بیجا میں ہے اور ”عدت “ کے نام پر ان خواتین
کوگھروں میں مقید کرکے نہ صرف انہیں ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا
جارہا ہے بلکہ ناکافی خوراک کی فراہمی کے ذریعے انہیں ذہنی و جسمانی طور پر
لاغر کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے اور اس عمل کے ذمہ دار مرنے والے کے
بھائی ‘ بہنوئی ‘ بہنیں اور بھابھیاں ہیں جو چاہتے ہیں کہ نہ صرف مرنے والے
کی وراثت پر قبضہ کرلیا جائے بلکہ حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد و
معاوضہ بھی ہڑپ لیا جائے اور ”عدت “ کی تکمیل تک اس بیوہ عورت کوپاگل پن کے
نزدیک پہنچادیا جائے تاکہ جب چاہیں اسے مارکر اس کی موت کو خودکشی قرار دے
دیں‘ اسے پاگل قرار دے کر پاگل خانے پہنچادیا جائے یا اسے اس قدر کمزور اور
خوفزدہ کردیا جائے کہ جب اسے تمام حقوق سے محروم کرکے بچوں سمیت گھر سے
باہر نکالا جائے تو قانونی جنگ لڑنے کا حوصلہ و ہمت جٹانے کی بجائے اپنے
بچوں کی زندگیاں بچانے کی تگ و دو میں ہی مصروف رہے ۔
اس لئے اگر سانحہ عباس ٹاؤن سمیت دہشت گردی اور ٹارگیٹ کلنگ میں ہلاک ہونے
والے افراد کی بیواؤں سے استفسار کیا جائے تو تقریباً سب ہی اس خواہش کا
اظہار کریں گی کہ وہ اپنے سسرالیوں کے ساتھ تذلیل بھری زندگی سے بہتر اپنے
بچوں کے ساتھ علیحدہ رہنا اور محنت و مشقت کے ذریعے اپنے بچوں کو پالنا
پسند کریں گی اور ان بیوہ خواتین کی اس خواہش کو تکمیل پذیر بنانا حکومت کا
فریضہ ہونا چاہئے ۔ اسلئے سانحہ عباس ٹاؤن سمیت دہشتگردی کے دیگر واقعات
میں ہلاک ہونے والے افراد کی بیواؤں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے ‘ انہیں
سسرال کی قید سے نجات دلائی جائے ‘ آزاد زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا
جائے ‘شوہر کے انتقال کے بعد قانونی طور پر اس کے جتنے بھی وراثتی حقوق ہیں
وہ فوراً اسے اور اس کے بچوں کو دلائے جائیں اور بالخصوص امداد و معاوضے کی
رقم مرحوم کی بیوہ کے علاوہ کسی اور کو نہ دی جائے اور رقم دیتے وقت سینئر
خواتین ججز کی موجودگی میں ان سے یہ ضرور دریافت کیا جائے کہ وہ کیا چاہتی
ہیں انہیں سسرال میں رہنا پسند ہے یا وہ اپنے بچوں کے ساتھ آزاد زندگی
گزارنا چاہتی ہیں اور پھر ان کے جواب و فیصلے کے مطابق ان سے بھرپور تعاون
کیا جائے بصورت دیگر اگر ہم چھ ماہ کے بعد سروے کریں گے تو یہ بات عیاں
ہوجائے گی کہ دہشت گردی میں ہلاک شدگان کی بیواؤں کی اکثریت سسرالیوں کے
ہاتھوں ہلاک ہوچکی ہے اور پولیس اپنے ”حصے “کی وصولی کے بعدان ہلاکتوں کو
خود کشی قرار دے کر ان فائلیں بند کرچکی ہے ۔ |