آج پھر دل کے اضطراب اوراشتیاق
نے مجھے گاڑی کارخ شفیق ومہرباں پروفیسر محمدعبداللہ بھٹی کے آفس کی طرف
موڑنے پرمجبورکردیا،میں نے روانہ ہونے سے قبل ایس ایم ایس کی صورت میں
درخواست کرتے ہوئے ان سے ملنے کاوقت طے کر لیا تھا،تاہم اس باران سے ملے
کافی دن ہوگئے تھے اوراس دوران میری زندگی میں کچھ عجیب واقعات پیش آئے
لہٰذاءان سے مشاورت کے ساتھ ساتھ مجھے ا ن کی رہنمائی اوردعا مقصود تھی ۔گاڑی
ڈرائیو کرتے ہوئے راقم نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور ڈویژن کے سابقہ
صدراوراپنے عزیز ساتھی برادرم راناضیاءاللہ کوفون کیا اورانہیں تاکید کرتے
ہوئے فوراً ٹیوٹاآفس آنے کیلئے کہا ،میرے فون کے بعدوہ بھی ٹیوٹاآفس کیلئے
روانہ ہوگئے ۔جوں جوں ٹیوٹا آفس نزدیک آرہاتھاتوں توں میرے مضطرب دل کی
بیقراری اوربیتابی بڑھتی جارہی تھی ۔مجھے آج ٹیوٹاآفس میں ممکنہ ہجوم کابھی
اندازہ تھا ،دنیا بھر سے اورملک کے طول وارض سے عقیدتمنداوردعاﺅں کے
ضرورتمند پروفیسرمحمد عبداللہ بھٹی سے شرف باریابی کیلئے آتے ہیں اورجولوگ
ان کی دعا سے فیض پاتے ہیں وہ اپنے حلقہ احباب میں پروفیسرمحمد عبداللہ
بھٹی کے اوصاف حمیدہ کی خوشبوتقسیم کرتے چلے جاتے ہیں اورنتیجتاً دعا اوردم
کرانے کی نیت سے آنیوالے خواتین وحضرات کی تعدادروزبروزبڑھتی چلی جارہی
ہے۔میںشیرپاﺅاوورہیڈ برج کے بائیں طرف ٹیوٹا آفس میں پہنچا تووہاں بااخلاق
،باوقار،باوفااورباصفا پروفیسرمحمد عبداللہ بھٹی اپنے چہرے پرمسکان سجائے
کسی شمع کی طرح اپنے پروانوں میں گھرے ہوئے تھے۔پروفیسرمحمد عبداللہ بھٹی
سے ملنے کیلئے آنیوالے افرادکاتعلق معاشرے کے مختلف طبقات سے ہوتا ہے،وہ
خلوص سے دعاکرتے ہیں توکسی بیمار اورغمزدہ کودوا کی ضرورت نہیں پڑتی۔اللہ
پاک نے اپنے ذکر کی برکت سے پروفیسر محمدعبداللہ بھٹی کو کئی ایک صلاحیتوں
سے نوازاہے ۔اس بار وہاں لندن سے آئے ہوئے برطانیہ کے شہری مرزاعرفان بیگ
اوران کی اہلیہ سونیا عرفان جو ان دنوں پاکستان میں اپنے حق کی بازیابی
کیلئے پنجاب پولیس ،ایف آئی اے اورمختلف اخبارات کے دفاتر کاطواف کررہے ہیں
،سے ملاقات ہوئی ،انہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے اوورسیز
پاکستانیوں کی جائیدادپرناجائزقبضہ ختم کرانے کیلئے بنایا گیاادارہ ہمارے
ساتھ تعاون کرنے سے قاصر ہے ۔ جاپان سے آئے کاروباری اورسیاسی شخصیت چودھری
ظفر اقبال گوندل جومنڈی بہاﺅلدین کے صوبائی حلقہ پی پی 119سے مسلم لیگ (ن)
کے ممکنہ امیدوار ہیںاورمنڈی بہاﺅالدین سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت اورخوش
اخلاق نوجوان سماجی شخصیت نوراحمدرانجھا سے ملنے کااتفاق ہوا ،میں سمجھتا
ہوں پرانے سیاستدان بابوں کے مقابلے میں نوجوان سیاسی اورسماجی شخصیات میں
واقعی ملک وقوم کیلئے کچھ کرگزرنے کاجوش وجذبہ ہے۔نوراحمدرانجھاکو دوسروں
کواپنا گرویدہ بنانے کاہنرخوب آتا ہے مگروہ خود پروفیسر محمدعبداللہ بھٹی
کے سچے معتقد اورپیروکار ہیں۔نوراحمدرانجھا کی اہلیہ سیاست میں اورپنجاب
اسمبلی کی ممبر ہیں جبکہ وہ خودسماجی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے
ہیں،انہیں دوسروں کے دل میں اترجانے کا راستہ بناناآتا ہے لہٰذا ءمیں
نوراحمدرانجھاکو ان کے روشن مستقبل کی نویددیتاہوں ۔اگرآنیوالے انتخابات
میں عوام نے نوجوان سیاستدانوں کومنتخب کیا تووہ اس ملک کی کایاپلٹ دیں
گے۔اگرپرانے بابوں اورآج کی نوجوان سیاسی وسماجی شخصیات کاآپس میں موازنہ
کیا جائے تومعلوم ہوگاہمارے نوجوانوں کودولت ،طاقت ،شہرت اورحکومت کی ہوس
نہیں ہے ،وہ پاکستان کے ریاستی نظام سے بیزاراورمتنفر ہیں اگران کے بس میں
ہواتووہ اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ سیاسی نظام کوبدل دیں گے کیونکہ اس نظام
کوبدلے بغیر ملک وقوم کی تقدیرنہیں بدلی جاسکتی ۔
اب کالم کے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں ۔جس طرح دھوپ چھاﺅں اوراندھیراروشنی
کاتعاقب کرتا ہے ،اس طرح انسانی معاشرے میں ہمارا موت وحیات اورصحت وبیماری
سے واسطہ ضرورپڑتا ہے ۔ بیماری اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے جبکہ وہم
اوروسوسہ ہم انسانوں کی ایجاد ہے،دیکھا جائے توبیماری مصیبت نہیں بلکہ ایک
نعمت اورمشقت ہے کیونکہ اس کے آنے سے ہم روحانی طورپر اللہ تعالیٰ کے نزدیک
اوراس امتحان میں صبروتحمل کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے پرہمارے کئی گناہ معاف
ہوجاتے ہیں۔اگرایک کانٹابھی چبھ جائے تواللہ پاک ہماری اس معمولی تکلیف کے
بدلے ہمارے کئی گناہ بخش دیتا ہے اوربیماری کی حالت میں ہماری زیادہ دعائیں
مستجاب ہوتی ہیں ۔بیماری کاآنااورصحت وشفا ءکاملنا صرف اورصرف قدرت کے
دائرہ اختیار میں ہے لہٰذا ءانسان کو ربّ کعبہ رحمن کی رحمت اورشفقت سے کسی
صورت ناامید اورمایوس نہیں ہوناچاہئے ۔جہاں ایک بیمارانسان کی صحت وتندرستی
کیلئے دواکی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے وہاں کسی روحانی شخصیت
یاہمارے عزیزواقارب کی دعااورکسی زاہدوعابد شخصیت کے دم درود کرنے اورمخصوص
وظائف پڑھنے سے کسی بھی بیمار انسان کواس مشقت سے نجات مل جاتی ہے اورمیں
نے اس طرح کئی بیمار افراد جام صحت نوش کرتے دیکھے ہیں۔انسانی کی بنائی
دوامیں ملاوٹ ہوسکتی ہے جس طرح کئی واقعات میں ہمارے ہاں لوگ جعلی سیرپ
استعمال کرنے سے انتقال کرگئے۔ مگر ہمارے کسی بھی مخلص اورہمدرد رشتہ
داریادوست کی دعا میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتااوروہ ہرگز رائیگاں نہیں جاتی
تاہم ہمارے معاملے میں اللہ پاک کی اپنی حکمت اورمصلحت کارفرماہوتی ہے۔اللہ
پاک کاہر صفاتی نام دوسرے نام سے مختلف تاثیررکھتا ہے ۔قرآن مجید فرقان
حمید کی آیات اوراس کے کلمات کے روحانی اورطبی اثرات سے کون انکار کرسکتا
ہے لیکن یہ علم ہرکوئی نہیں جانتا اورنہ ہرکوئی ان کادرست اعدادوشمار کے
ساتھ پڑھنا بتاسکتا ہے۔پروفیسر محمدعبداللہ بھٹی نے ریاضت اورمحنت سے یہ
مقام پایا ہے ،شایدحضرت اقبال نے پروفیسر محمدعبداللہ بھٹی کیلئے یہ شعر
کہا تھا؛
خودی کو کربلنداتنا کہ ہرتقدیر سے پہلے
خدابندے سے خودپوچھے بتاتیری رضاکیا ہے
بخاری شریف میںسیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ راوی ہیں کہ سرورکونین حضرت محمد اپنے
بعض اہل خانہ کیلئے اس طرح دم کرتے تھے ،آپ اپنادایاں دست مبارک درد کی جگہ
رکھ کریہ دعا پڑھتے ©"ترجمہ:اے اللہ ! لوگوں کے پروردگاربیماری ختم
فرمااورتوہی شفاءبخشنے پرقادرہے ،شفا ءتوبس تیری شفاءہے جوبیماری کانام
ونشان نہ چھوڑے"۔سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓایک اورروایت بیان فرماتی ہیں کہ
تاجدارانبیا حضرت محمد اس طرح دم فرماتے ،''ترجمہ :تکلیف دورفرما پروردگار
عالم ! تیرے ہی ہاتھ شفاءہے ،اس تکلیف کوتیرے سواکوئی دورکرنیوالا نہیں ''۔امام
حاکم نے دم درود کے بارے جواحادیث مبارک صحیح نقل کی ہیںان کی رو سے حضرت
ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں میں سیّدنا حضرت محمد کے دربار میں موجودتھا ،ایک
اعرابی نے حاضر خدمت ہوکرعرض کی یارسول ! میرے بھائی کودرد ہے ،آپ نے
فرمایا کیا درد ہے ؟ عرض کی یارسول اللہ کچھ ہے ،آپ نے فرمایا اپنے بھائی
کومیرے پاس لے آﺅ وہ لے آئے اورسرکار ِدوجہاں کے روبروبٹھادیا ،سرورکائنات
نے سورة فاتحہ اورسورة بقرة کی آخری چارآیات تلاوت فرمائیں ۔حضرت سہل بن
حنیف فرماتے ہیں کہ ہم سیلاب سے گزرے ،میں نے سیلابی پانی سے غسل کرلیا ،باہرآیاتوبخار
ہوگیا یہ بات رسول اللہ کی خدمت میں عرض کی گئی ،آپ نے فرمایا ''ترجمہ :
جھاڑ توخون ،نکسیر ،بخارمیں مبتلا پرہی ہوتی ہے ''۔سرورکونین حضرت محمد
مدینہ منورہ تشریف لائے تولوگ جھاڑپھونک کرتے تھے جس میں شرک کی آمیزش تھی
تورحمت دوعالم نے منع فرمایا ۔ایک بار کسی صحابی کوسانپ نے ڈس لیا حضور
اکرم نے فرمایاکوئی دم کرنیوالا ہے جواس شخص کوجھاڑے ؟ ایک شخص نے عرض کی ،سرکار
میں دم جھاڑ کرتاتھا پھر اسے آپ نے منع فرمایا تومیں اسے ترک کردیا ،آپ نے
فرمایا ! لاﺅ میرے سامنے ،میں نے سرکار کی خدمت اقدس میں پیش کردیا ،اس میں
کوئی غلط بات نہ پاکر فرمایا ! اسے جھاڑو،پس میں نے سانپ ڈسے کوجھاڑا ۔فقہائے
اسلام کے نزدیک ، قرآن مجیدفرقان حمیدسے دم (جھاڑ پھونک)کرنایوں کہ مریض
اورسانپ ،بچھووغیرہ سے ڈسے پرقرآن پڑھے یاکاغذ پرلکھ کرگلے وغیرہ میں
لٹکائے یاپلیٹ پرلکھ کراس تحریر کودھوکربیمار کوپلائے ،اسے
عطاء،مجاہداورابوقلابہ نے جائزقراردیا ہے ۔مشہورآئمہ میں یہ عمل بغیر
انکارثابت ہے اورجس کی نکسیر نہ رکتی ہواوروہ اپنے اس خون سے اپنی پیشانی
پرقرآن مجید کی کوئی آیت لکھناچاہے توجائز ہے۔اس طرح مردارکے رنگے ہوئے
چمڑہ پرلکھنا جب اس میں شفاءکی امید ہو،جائزہے اورگلے میں تعویز لٹکانے میں
کوئی حرج نہیں ،ہاں بیت الخلاءیااہلیہ کی قربت میں جاتے وقت اتاردے ۔
میرا یہ کہنا درست ہوگا کہ شفاءکی نیت سے دم درود کرناسنت رسول اللہ ہے
اورپروفیسر محمدعبداللہ بھٹی سنت رسول اللہ اداکررہے ہیں۔روحانیت میں
ہروردیاوظیفہ پڑھنے کے مخصوص ا وقات ہوتے ہیں ۔قدرت نے ہماری روحانی تعلیم
وتربیت اورروح کی راحت اورطہارت کیلئے پروفیسرمحمدعبداللہ بھٹی کورضاکارانہ
ڈیوٹی پرمامورکیا ہے اوروہ پچھلے کئی برسوں سے انتہائی خندہ پیشانی سے
اپنافرض منصبی انجام دیتے آرہے ہیں اوروہ کسی مستفیدہونیوالے انسان سے اپنی
خدمات کی کوئی قیمت وصول نہیں کرتے لہٰذاءعہدحاضر میں ان کادم غنیمت ہے ۔جہاں
پروفیسر محمدعبداللہ بھٹی کی دعاﺅں کی ڈھال ہووہاں بلاﺅں کی ایک نہیں
چلتی۔پروفیسرمحمد عبداللہ بھٹی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''اِسرارِروحانیت''میں
روحانیت ،دعاﺅں،ورد اوروظائف پرسیرحاصل روشنی ڈالی ہے ۔اب تک ''اِسرارروحانیت''
کے دس گیارہ ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوچکے ہیں اوراس وقت نیا ایڈیشن چھپ
رہا ہے ۔''اِسرارروحانیت'' کے بارے میں درویش صفت انسان اوردبنگ کالم
نگارڈاکٹراجمل نیازی ،منفرداسلوب کے کالم نگار عطاءالحق قاسمی ،قلم قبیلے
کے سرخیل مجیب الرحمن شامی اورحامد میر نے بہت کچھ لکھا ہے لہٰذا ءان کے
بعد میں کتاب بارے کچھ لکھنے کی جسارت نہیں کرسکتا تاہم یہ ضرورکہوں گاکہ
''اِسرارروحانیت'' پڑھنے اورسمجھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
ہمارے ہاں ایک طبقہ بہت سے اسلامی امورکو''شرک''اوربدعت کہہ کرلوگوں کے
قلوب میں نفرت ونفاق کابیج بوتا ہے ،ان میں ایک گنڈا ،تعویزاوردم درود بھی
ہے ۔تعویزاوردم پراعتراض کرنیوالے حضرات ڈاکٹر،حکیم اورنیم حکیم کے پاس
جانے سے تونہیں روکتے مگرجوبندہ اللہ تعالیٰ کے پاک کلام سے دم کرے اورمریض
شفاءیاب بھی ہوجائے ،اس پرتنقید کرتے ہیں۔ہمیں خودکواوراپنے عزیزواقارب
کوشیطانی وسوسوں اورباطل خیالات سے بچاناہوگا۔پروفیسر محمدعبداللہ بھٹی
دنیا بھرسے اپنے پاس آنیوالے پریشان حال انسانوں کو دم کرتے اوران کیلئے
تعویز بھی لکھتے ہیں اوروہ اس کے عوض کوئی ہدیہ یامعاوضہ وصول نہیں کرتے
اوران کے خلوص کے سبب ان کی دعامستجاب ہوتی ہے ۔ |