مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد
شفیع مرحوم( کچھ حذف واختصار کے ساتھ) فرماتے ہیں،ہمارے اسلاف نے جب جزیرۃ
العرب سے شمع ہدایت لے کر عجم کی طرف قدم بڑھایا تو جس طرح اسلام کی اشاعت
وتبلیغ کی کوششیں کیں اسی طرح عربی زبان اور عرب کی وضع قطع،تہذیب وتمدن
اورعادات واخلاق کو بھی عام کرنے کی سعی فرمائی ،تھوڑے ہی عرصہ میں وہ حیرت
انگیز کامیابیاں حاصل کیں کہ عالم میں اس کی نظیر نہیں ملتی، ایک طرف اگر
دنیا کا جغرافیا بدل ڈالا تو دوسری طرف طبقات وممالک کی زبانیں بدل ڈالیں ،عربی
زبان کے اس عموم وشیوع میں خود اس زبان کی شیرینی اور وسعت وسہولت کوبھی
بڑا دخل ضرور ہے لیکن ساتھ ہی اس میں بھی شبہ نہیں کہ حضرات صحابہ وتابعین
کی حکمت عملی اور اہتمام ِخاص کے بغیر کا یا پلٹ جانا ممکن نہ تھا ۔
اسی حکمت عملی کا ایک پہلویہ تھا کہ یہ اساطینِ امت جس خطہ میں اترے جب
خطبہ دیا تو عربی زبان میں دیا ، حالانکہ مخاطبین تاحال اس زبان سے بالکل
نا واقف تھے ،اور یہ حضرات اس پر قادر تھے کہ خود یا کسی ترجمان کے ذریعے
خطبہ کو علاقائی زبان میں مخاطبین تک پہنچا دیں ، لیکن انہوں نے ایسا نہ
کیا اور ضروری احکام کو مخاطبین کی ملکی زبان میں پہنچا دینے کے لیے دوسرے
انتظامات کرکے خطبوں کو صرف عربی زبان میں منحصر رکھا،تا کہ مخاطب کو خود
اس طرف رغبت ہو کہ امام وامیر کی تقریر کا مفہو م سمجھنے کے لیے عربی زبان
سے آشناہونا ضروری ہے ،چنانچہ ایساہی ہوا۔
ہاں اس حکمت عملی میں بھی مسلمانوں نے اپنے امتیازی وصف یعنی اعتدال اور
حفاظت ِحدود کا ایسا خیال رکھاکہ دوسری قوموں میں اس کی نظیر نہیں مل سکی ۔وہ
چاہتے تھے کہ جلدسے جلدعربی زبان عام ہوجائے ،لیکن اس مقصد کو ترغیب کی حد
سے بڑھنے نہیں دیا کہ جبرواکراہ کی نوبت آجائے اور اقوام عالم کی کسی ایسی
ضرورت کو عربی زبان پر موقوف نہیں رکھا جس کے بغیر گزارہ مشکل ہو،البتہ یہ
ترغیب کا ایک بہترین اور معتدل ذریعہ تھا کہ طبعی طور پر مخاطب کو رغبت
ہوتی ہے اپنے حکمراں کی تقریر سمجھنے کی ۔
بخلاف صلیبی قوتوں کے ،جب ان کو اس گْرکی خبر ہوئی اور انہوں نے اپنی زبان
کو عام کرنے کی ناکام سعی شروع کی تو اس مقصد کے لیے خلق اﷲ کی زندگی تنگ
کردی ، انہوں نے سفروحضر اور معاملات ِبیع وشراء رزق وروزی کو اپنی زبان
جاننے پر موقوف کردیا،ان کی ازلی محرومی اور زبان کی تنگی وسختی اگر درمیان
میں نہ ہوتی تو بلاشبہ آج دنیا میں انگریزی کے سوا دوسری زبانوں کا نام
ونشان نہ رہا ہوتا،اسی پر دیگر استعماری قوتوں کو قیاس کیجیے۔
لیکن یورپ کا مشہور ڈاکٹر گستادلی بان ، زبان عربی کی ہمہ گیری پر حیران ہو
کر لکھتاہے : ’’ عربی ز بان کی نسبت ہم کو وہی کہناہے جوہم نے مذہب عرب کی
نسبت کہا ہے یعنی جہاں پہلے کے فاتحین اپنی زبان کو مفتوحہ ممالک میں جاری
نہ کرسکے تھے، عربوں نے اس میں کامیابی حاصل کی اور مفتوحہ اقوام نے ان کی
زبان کو بھی اختیارکیا،یہ زبان ممالک اسلامی میں اس درجہ پھیل گئی کہ اس نے
یہاں کی قدیم زبانوں یعنی سریانی ،قبطی ،یونانی ،بَربَری وغیرہ کی جگہ لے
لی ، ایران میں بھی ایک مدت تک عربی زبان قائم رہی ،اگرچہ اس کے بعد فارسی
کی تجدید ہوئی لیکن اس وقت تک علماء کی تحریر یں اسی زبان میں ہوتی تھیں ،ایران
کے کل علوم ومذہب کی کتابیں عربی ہی میں لکھیں گئی ہیں ،ایشیا کے اس خطہ
میں زبان عربی کی وہی حالت ہے جواز منہ متوسطہ میں لاطینی کی حالت یورپ میں
تھی ، ترکوں نے بھی انہی کی طرز تحریر اختیار کرلی اور اس وقت تک ترکوں کے
ملک میں کم استعداد لوگ بھی قرآن کو بخوبی سمجھ لیتے ہیں ۔‘‘
لاطینی میں بھی عربی زبان نے اپنے تسلط کے بین آثار چھوڑے ہیں ، موسیوڈوزی
اور موسیو انگلمین نے مل کر زبان اندلس اور پر تگال کے ان الفاظ کی جو عربی
سے مشتق ہیں ایک لغت تیار کرلی ہے ،فرانس میں بھی عربی زبان نے بڑا اثر
چھوڑاہے ،موسیو سدیےو نہایت درست لکھتے ہیں کہ ادورن اور شوژمین کے بھی
زبان عربی الفاظ سے زیادہ معمور ہوگئے ہیں اور ان کے ناموں کی صورت بھی
بالکل عربی ہے ،ڈاکٹر سلمان أبو غوش کہتے ہیں کہ موجودہ انگریزی میں دس
ہزار الفاظ عربی کے ہیں ’’ عشرۃ آلاف کلمۃ انجلیزیۃ من اصل عربی‘‘ ان کی
کتاب کانام ہے ۔
تاریخ شاہد ہے کہ بلاد مغرب ویورپ میں دخول اسلام کو نصف صدی گزرنے نہ پائی
تھی کہ وہاں کے عام سکاّن وباشندگان نے بَربَری اور لاطینی زبان کو دفن
کردیا کہ ان ممالک میں نصارٰی کے پادری اس پر مجبور ہوگئے کہ اپنے مذہب کی
نمازوعبادت کا ترجمہ عربی زبان میں کرکے مسیحی قوم کے سامنے پیش کریں تاکہ
وہ اس کو سمجھ سکیں ۔
الغرض امراء اسلام نے اشاعت زبان کے اہم مقصد کے ساتھ رعایا کی سہولت
وآسانی کا بھی خاص اہتمام رکھا ہے ، اقوام یورپ کی طرح دنیا کو اس پر مجبور
نہیں کیا ،بایں ہمہ جس طرح اسلام ناسخ الادیان مسلم تھا اسی طرح لسان عرب
ناسخ َاَلسنہ ہوگئی ۔22 دسمبر1947میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ایک بھی
اس واضح دلالت کرتی ہے۔
آپ غور کیجئے کہ اسلاف نے عربی زبان کی اشاعت میں یہ کوشش کیوں کی ؟ اس کا
ایک سیاسی مقصد تو ظاہر اور عام ہے کہ حاکم ومحکوم اور سلطان اور رعیت میں
ارتباط وانبساط بڑھے ۔دوسراایک اہم مقصد بھی ان حضرات کا مطمح نظر تھا کہ
جب قرآنی زبان لوگوں میں رائج ہوگی تو قرآنی اخلاق ومعاشرت بھی ان میں با
آسانی پیدا ہوسکیں گے چنانچہ عربی زبان کے عموم کے ساتھ ہی یہ دونوں مقاصد
حاصل تھے ۔
آج کل یورپ کو اپنی ہمہ دانی پر ناز ہے وہ اپنے آپ کوتہذیب وتمدّن اور
سیاست کا مالک سمجھتاہے اسی کی ایک مثال پر نظر ڈالیے۔
شیخ محمد کردعلی جو مصر میں مجمع اللغۃ العربیۃ کے صدر تھے ، اپنے سفرنامہ
میں ، اندلس وپر تگال کے چشم دید واقعات اور اس کے ماضی وحال کا مواز نہ
بتلاتے ہوے لکھتے ہیں :
’’ نہ فقط وہ ممالک ِیورپ جواسلام کے زیرنگیں آچکے تھے ، اسلامی زبان
واسلامی معاشرت کے دلدادہ ہوگئے ،بلکہ گردوپیش کے ممالکِ یورپ بھی اس سے
متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ، جلالقہ ، لیوتیون ، نارفاریون کے تعلیمیافتہ
لوگ عربی زبان لکھتے تھے ،وہ مسلمانوں کے تمدّن ومعاشرت پر ایسے فریفتہ تھے
کہ اپنے مذہبی اصول کو چھوڑ کر مسلمانوں کی عادات وخصال مسلمانوں کی طرح
اپنی عورتوں کو پردہ میں رکھنے کے عادی ہوگئے تھے ‘‘۔
افسوس کہ ہم کیا سے کیا ہوگئے ، کہاں سے کہاں جاپہنچے ،تہذیبوں کی موجودہ
جنگ میں سلف کی اس ناخلف اولاد نے کس طرح ان کی عزت کے نشانات کو مٹایا اور
غیروں کی غلامی کا طوق اپنے ہاتھوں سے اپنی گردن میں ڈال لیا ،ان کی قائم
کی ہوئی بنیادوں کی ایک ایک اینٹ اور لگائے ہوئے چمن کا ایک ایک درخت نکال
دیا ۔صد افسوس کہ جوقومیں ہماری نقالی (بجاطور پر ) فخر سمجھتی تھی آج ہم (بے
جاطور پر ) ان کے نقّال بن گئے ، وضع قطع ان کی اختیار کرلی، زبان ان کی لے
لی ، بے ضرورت بھی انگریزی لفظ بولنے کوفخر سمجھنے لگے ،صحیح لفظ بھی نہ
آتا ہوتو غلط ہی سہی ،صاحب بہادرکی مشابہت کا تو ثواب مل ہی جاتاہے ،
عورتوں کو پردے سے نکالا اور مردوں کے دوش بدوش لاکھڑا کیا ، ہم نے اول صرف
ان کی زبان اور وضع اختیارکی اور سمجھا کہ ایمان واسلام کا تعلق قلب سے ہے
،ظاہری وضع وتراش کو اس میں کیا دخل ،لیکن تجربہ نے بتلادیا کہ یہی ایک
بجلی کی روتھی جو قلب ودماغ پر چھاگئی اور انگریز یت ونصرانیت دلوں کی تہہ
میں بیٹھ گئی ۔
ایک شخص ابتدامیں صرف انگریزی جوتااستعمال کرتاہے اور سمجھتا ہے کہ اس سے
ہم انگریز نہیں بن گئے ،لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں وہ دیکھ لے گا کہ یہ انگریز
ی جوتا اس کے بدن سے اسلامی پاجامہ اتروا کر ٹخنوں سے تلے پتلون پہننے پر
مجبور کردے گا،پھر یہ عمل اس کا اسلامی کرتا اور عبا اتروائے گا، اور جب
اعضاء وجوارح اور بدن انسانی کی پارلمینٹ کے سب ارکان مغربی رنگ کے ہوگئے
تو مجبور ہوکر ان کا تابع بننا پڑے گا ،انگریزی ٹوپی اسلامی عمامہ کی جگہ
لے لے گی اور جب خود گھڑے گھڑائے صاحب بہادر بن گئے ،تو سمجھ لیجئے کہ اب
گھر کے قدیم اصول ورواج کی خیر نہیں ، کیوں کہ یہ کسے کسائے صاحب بہادر کسی
مسند پر نہیں بیٹھ سکتے ،دسترخوان پر کھانا تناول نہیں فرماسکتے ، نماز کے
لیے بار بار وضو نہیں کر سکتے ، رکوع وسجدہ نہیں کر سکتے ،غرض گھر کا پرانا
فرنیچر رخصت، پرانی وضع قطع رخصت ،رسم ورواج رخصت ، طہارت وعبادات رخصت ۔
غور کیجیے ،ایک انگریزی جوتے کی آفت کہاں تک پہنچی اور کس طرح اس نے دین
ودنیا کو تباہ کر ڈالا۔
حقیقت میں گناہوں کا ایک سلسلہ ہے ،جب انسان ایک گناہ اختیار کرتاہے تو
دوسرا خود بخود اس کے ساتھ لگ جاتاہے ،ایک حدیث میں ہے کہ نیکی کی فوری
جزایہ ہے کہ اس کے بعد دوسری نیکی کی توفیق مل جاتی ہے اور گناہ کی فوری
سزایہ ہے کہ اس کے بعد دوسرے گناہوں میں آدمی مبتلا ہوجاتاہے ۔
آج مسلمانوں کی نظر اس قدر سطحی ہوگئی ہے کہ اپنے بزرگوں کے برتے ہوئے
مجرّب اصول اور ان کے بتلائے ہوئے گْر ان کی سمجھ میں نہیں آتے ،انہیں قرآن
وحدیث کے ارشادات سنائے جاتے ہیں تو ان کے دل اس کے قبول کے لیے نہیں کھلتے
،سلف صالح کے حکمت آموز کلمات واصول بتلائے جاتے ہیں تو وہ ان کی نظر میں
نہیں آتے ، وہ علماء کو یہ رائے دیتے ہیں کہ عربی زبان کے رہے سہے آثار بھی
مٹادیں ۔ خطبے اردوزبان میں پڑھیں ، عربی کا نام نہ آنے دیں ، اس لیے آخر
میں ہم خود اس قوم کے چند واقعات پیش کرتے ہیں جس کی کورانہ تقلید نے ہمارے
بھائیوں کو مصائب وذلت کا شکار بنارکھاہے ۔
زوال اندلس کے وقت جب یورپی علاقے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر نصارٰی کے
زیر نگیں ہوگئے ،تو نصارٰی نے ہر طرح کے جبرواکراہ سے یہ چاہا کہ رعےّت
کواپنا ہم رنگ اور ہمنوا بنالیں ،مگر صدیوں کی پیہم کوششوں کے باوجود اس
میں کامیابی نہ ہوئی تووہاں کے تجربہ کار اس تفتیش میں لگے کہ اس کا سبب
کیاہے؟ ایک کمیشن اس کے لیے بنایاگیا ،اس کمیشن کی رپورٹ یہ ہوئی کہ ہم نے
اگرچہ مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دیاہے لیکن اسلامی زبان (عربی )کے
مدارس اور اس کی تعلیم وتعلم ابھی تک ہمارے ملک میں عام ہے ،اسلامی معاشرت
وتمدّن رائج ہے ، اسی نے سب کے قلوب کو مسخر کیا ہواہے ، جب تک اسلامی زبان
،اسلامی کتب اور اسلامی معاشرت کو یہاں سے خٰتم نہ کردیا جائے گا، ہم اپنی
کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔1501ء میں یہ رپورٹ سامنے آئی ،اسی وقت سے
حکومتوں نے اپنا تمام ترزور اس پر خرچ کردیا کہ اسلامی نشانات یہاں سے
فناکر دئے جائیں ،چنانچہ اس سال قشتالہ وغرناطہ سے ایسے پکّے مسلمانوں کو
بے سر وسامان نکل جانے پر مجبور کردیاگیا جن کے متعلق حکومت کو یقین تھا کہ
یہ اپنی زبان ومعاشرت کو نہ چھوڑیں گے ۔1511ء میں انہوں نے اسلامی قلمی
کتابوں کو اطراف وجوانب سے جمع کر کے غرناطہ کے میدان میں ایک عظیم الشان
انبار لگادیا،جو عالم اسلام کے منتخب افراد کی صدیوں کی عرق ریزی ومحنت کے
نتائج اور علوم شریعت وحکمت اور فلسفہ وریاضی کے علمی خزائن تھے ، ان
ظالموں نے یہ عظیم الشان انبار نذر آتش کر دیا اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ
کسی اسلامی کتاب کا رکھنا قانونی جرم بنادیا اور جس جگہ کتاب ہاتھ آئی اس
کو ضبط کر لینے اور جلادینے کا حکم عام کردیا ، مورخین کا بیان ہے کہ پچاس
سال تک حکومت کی یہ کوشش جاری رہی جب جاکر اسلامی کتابوں کو مٹایا جاسکا ۔
آپ اس سے ایک طرف تو علوم اسلامیہ کی ہمہ گیری اور جاذبیت کا اندازہ کر
سکتے ہیں اور دوسری طرف یورپین نصارٰی کی اوندھی ذہنیت ،کینہ طبیعت اور
اسلام دشمنی کا کچھ تخمینہ کر سکتے ہیں کہ یہ علوم ومعارف کے خزائن جو ہر
قوم کے لیے کام آنے والی چیز تھی اور ہزاروں فاضل علماء کی عمر بھر کی
کمائی اور یکتا موتیوں سے زیادہ قیمتی خزائن تھے ان درندوں نے اس کے ساتھ
کیا وحشیانہ سلوک کیا ،خود یورپ کے غیر متعصب عیسائی ان کے ظلم وستم پر
ماتم کررہے ہیں اس لیے نہیں کہ وہ مسلمانوں پر رحم کھاتے ہیں ، بلکہ اس لیے
کہ وہ خود ان کتابوں اور علوم کے محتاج تھے ۔
1526ء میں فیلپ نے اپنی قلمرومیں یہ حکم جاری کردیا تھاکہ کوئی شخص کوئی
عربی جملہ نہ بول پائے ،جن لوگوں کے نام عربی ترکیب پر مشتمل ہیں ان کے نام
بدل دیئے جائیں اور جولوگ اس کو منظور نہ کریں وہ اس کی قلمروسے نکل جائیں
،چنانچہ لاکھوں مسلمانوں کو اسی قانون کے ماتحت بے سروسامان جلاوطن
کردیاگیا۔یہ ناموں کی تبدیلی والا بعد میں کئی دیگر ممالک میں بھی چلااور
اب بھی جاری وساری ہے۔
الغرض نصارٰی اور مغربی اقوام اس گْر کوسمجھتے ہیں جس کی بدولت ہمارے اسلاف
نے اسلام اور عرب کا سکّہ لوگوں کے قلوب پر بٹھایاتھا اور اپنی کامیابی کا
راز اس میں وہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی آثارو شعائر اور زبان ومعاشرت کو فنا
کردیں ۔
اسلام کا نام لینے والے اب بھی اس کو نہیں سمجھتے ، بلکہ جو کام فیلیپ نے
بزور قانون اپنی رعےّت سے کرایاتھا ہمارے سادہ لوح مسلمان وہ خود اپنے
ہاتھوں سے خوشی خوشی اس کو انجام دے رہے ہیں اور یہی نہیں کہ وہ اتفاقی اس
بلامیں لگ گئے ہوں ،بلکہ اس سم قاتل کو آب حیات اور مرض کی دوا سمجھ رہے
ہیں ۔
اﷲ تعالٰی ہم سب صحیح سمجھ نصیب فرمائے۔ |