گزشتہ سے پیوستہ:
چند اہم باتیں:
(۱) سبق کو بغیر سمجھے رٹنے کی کوشش نہ کریں کہ بغیر سمجھے رٹا ہوا سبق جلد
بھول جاتا ہے ۔( یاد رہے !علمِ صرف کی گردانوں کا معاملہ اس کے علاوہ ہے ۔)
(۲) پچھلے کالم میں دئیے گئے طریقے کے مطابق سکون کے ساتھ سبق یاد کریں ،جلد
بازی مت کریں کہ سوائے وقت کے ضیاع کے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔
(۳)یاد کرنے میں ترتیب یوں رکھئے کہ پہلے آسان سبق یاد کریں پھر مشکل پھر
اس سے مشکل ۔علی ھذا القیاس
(۴)اس دوران کسی سے گفتگو نہ فرمائیں ۔
(۵) نگاہ کو آزاد‘ نہ چھوڑیں کہ سبق یاد کرنے میں خلل پڑے گا ۔
(۶) اگر نفس سبق یاد کرنے میں سستی دلائے تو اسے سزا دیجئے مثلاً کھڑے ہو
کر سبق یاد کرنا شروع کردیں یا پھرجب تک سبق یاد نہ ہوجائے اس وقت تک کھانا
نہ کھائیں یا پانی نہ پئیں ۔
(۷)ذہن کو ادھر ادھر نہ بھٹکنے دیں کہ کبھی تو(اپنے یا ماموں وغیرہ کے) گھر
پہنچے ہوئے ہوں اور کبھی مطبخ (Kitchen)میں ،بلکہ انہماک کے ساتھ سبق یاد
کریں ۔اس سلسلے میں اکابرین کے چند واقعات ملاحظہ فرمائیے اور دیکھئے کہ
ہمارے بزرگان ِ دین کس قدرشوق اور انہماک سے مطالعہ فرمایا کرتے تھے ۔
ٍٍ
﴿1﴾ایک دن کسی علمی مجلس میں امام مسلم بن حجاج قشیری علیہ الرحمۃ سے کسی
حدیث کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپ نے گھر آکر وہ حدیث تلاش کرنا شروع
کر دی ۔ قریب ہی کھجوروں کا ٹوکرا بھی رکھا ہوا تھا ۔ آپ حدیث کی تلاش کے
دوران ایک ایک کھجور اٹھا کر کھاتے رہے ۔ دورانِ مطالعہ امام مسلم علیہ
الرحمۃ کے استغراق اور انہماک کا یہ عالم تھا کہ کجھوروں کی مقدار کی جانب
آپ کی توجہ نہ ہوسکی اور حدیث ملنے تک کھجوروں کا سارا ٹوکرا خالی ہوگیا ۔
غیر ارادی طور پر اتنی زیادہ کھجوریں کھا لینے کی بناء پر آپ بیمار ہوگئے
اور اسی مرض میں آپ کا انتقال ہوگیا ۔
﴿تذکرۃ المحدثین ص۲۲۶،مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور﴾
﴿2﴾ امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے ہونہار شاگرد امام محمد علیہ الرحمۃ
کومطالعے کا اتنا شوق تھا کہ رات کے تین حصے کرتے ،ایک حصہ میں عبادت ، ایک
حصہ میں مطالعہ اور بقیہ ایک حصہ میں آرام فرماتے تھے ۔(تذکرۃ المحدثین
،ص۱۴۳ مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور )
﴿3﴾حضرت سیدنا شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اپنی کتب بینی کا حال
بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ،’’ مطالعہ کرنا میرا شب وروز کا مشغلہ تھا ۔
بچپن ہی سے میرا یہ حال تھا کہ میں نہیں جانتا تھا کہ کھیل کود کیا ہے؟آرام
وآسائش کے کیا معانی ہیں ؟ سیر کیا ہوتی ہے ؟بارہا ایسا ہوا کہ مطالعہ کرتے
کرتے آدھی رات ہوگئی تو والد ِ محترم سمجھاتے ،’’بابا ! کیا کرتے ہو؟‘‘یہ
سنتے ہی میں فوراً لیٹ جاتا اور جواب دیتا ،’’سونے لگا ہوں۔‘‘ پھر جب کچھ
دیر گزر جاتی تو اٹھ بیٹھتا اور پھر سے مطالعے میں مصروف ہوجاتا۔ بسا اوقات
یوں بھی ہوا کہ دوران ِ مطالعہ سر کے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چھو کر
جھلس جاتے لیکن مطالعہ میں مگن ہونے کی وجہ سے پتہ نہ چلتا ۔‘‘
(اشعۃ اللمعات،جلد اول ،مقدمہ ، ص۷۲،مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور)
﴿5﴾امام اہل سنت مجدد ِ دین وملت الشاہ مولانا احمد رضا خان علیہ رحمۃ
الرحمن کے شوقِ مطالعہ اور ذہانت کا بچپن ہی میں یہ عالم تھا کہ استاذسے
کبھی چوتھائی کتاب سے زیادہ نہیں پڑھی بلکہ چوتھائی کتاب استاذسے پڑھنے کے
بعد بقیہ تمام کتاب کا خود مطالعہ کرتے اور یاد کر کے سنا دیا کرتے تھے
۔(حیات اعلیٰ حضرت ،ج ۱،ص۷۰،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
اسی طرح دو جلدوں پر مشتمل عقود الدریہ جیسی ضخیم کتاب فقط ایک رات میں
مطالعہ فرمالی ۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت ،ج۱،ص۲۱۳)
﴿6﴾ محدث ِ اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد علیہ الرحمۃ کو مطالعے کا
اتنا شوق تھا کہ مسجد میں نمازِ باجماعت میں کچھ تاخیر ہوتی تو کسی کتاب کا
مطالعہ کرنا شروع کر دیتے۔ جب آپ منظر الاسلام بریلی شریف میں زیر ِ تعلیم
تھے تو ساتھی طلباء کے سوجانے کے بعد بھی محلہ سوداگران میں لگی لالٹین کی
روشنی میں اپناسبق یاد کیا کرتے تھے۔ آپ کے اساتذہ کو اس بات کا علم ہوا تو
انہوں نے آپ کے کمرے میں لالٹین کا بندوبست کردیا ۔(سیرت ِ صدرالشریعہ،
ص۲۰۱،مطبوعہ مکتبۂ اعلیٰ حضرت لاہور)
﴿7﴾ بانی ٔ دعوتِ اسلامی ،شیخ طریقت امیرِ اہلِ سنت علامہ مولانا ابوبلال
محمد الیاس عطار قادری مدظلہ العالی اس قدر منہمک ہوکر مطالعہ فرماتے ہیں
کہ بارہا ایسا ہوا کہ کتاب گھر کے اسلامی بھائیوں میں سے کوئی اسلامی بھائی
کسی مسئلے کے حل کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن مطالعے میں مصروف
ہونے کی بناء پر آپ کو اس کی آمد کی خبر نہ ہوئی اور کچھ دیر بعد اتفاقاً
نگاہ اٹھائی تو اس اسلامی بھائی نے اپنا مسئلہ عرض کیا۔ آپ نہ صرف خود
مطالعے کا شوق رکھتے ہیں بلکہ اپنے مریدین ومتوسلین ومحبین کو بھی دینی کتب
بالخصوص فتاوی رضویہ ،بہار شریعت ، تمہیدالایمان ،منہاج العابدین اور نصاب
ِ شریعت کے مطالعہ کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں ۔
کتنی مرتبہ د ہرائی کریں ؟
محترم قارئین!
اس سوال کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ امتحانات میں کتنا عرصہ باقی ہے
۔ لہذا ! اگر وقت میں وسعت ہو تو امتحانات سے قبل کم ازکم دومرتبہ تمام
اسباق کی دہرائی کر لیں ۔دہرائی کر چکنے کے بعد کوشش کر کے سابقہ امتحانی
پرچہ جات کو حل کرنا بے حد مفید ہے ۔
امتحان د ینے کا طریقہ
محترم قارئین!
جب امتحانات کا آغاز ہونے والا ہوتو درجِ ذیل گزارشات پر عمل کرنے کی کوشش
کریں ،……
(1) کسی بھی مضمون کے پرچہ (Paper)سے ایک دن قبل اس کی اجمالی طور پر
دہرائی کر لیں۔
(2) جس تاریخ کو پرچہ ہو ،اس میں ساری رات جاگنے سے گریز کریں ۔ کیونکہ
ساری رات جاگنے کی صورت میں صبح پرچہ دیتے وقت تھکن کا احساس غالب رہے گا
اور ذہن پر غنودگی چھائی رہے گی جس کی وجہ سے ساری محنت پر پانی پھر سکتا
ہے ۔
(3) جب امتحان دینے کے لئے جائیں توغسل یا کم ازکم وضو کر کے جائیں ، اس کا
فائدہ یہ ہوگا کہ ذہن بھی فریش رہے گا ۔
(4) جانے سے پہلے ہلکا پھلکا ناشتہ ضرور کر لیں۔ خالی پیٹ امتحان دینے
جائیں گے تو پرچہ دیتے وقت توانائی صرف ہوگی جس کے نتیجے میں آپ کو نقاہت
(Weakness)کا احساس ہوگا اور ذہن بھی ٹھیک طرح سے کام نہ کر سکے گا ۔
(5) امتحانی مرکز(Examination Centre) کے لئے روانہ ہونے سے پہلے وہ اشیاء
ضرور لے لیں جن کی دوران ِ امتحان ضرورت پڑتی ہے مثلاًقلم ،مارکر، روشنائی
، اریزر(eraser)، اسکیل ، رولنمبر سلپ وغیرہ ۔
(6) پہلے دن امتحانی مرکز میں ذرا جلدی چلیں جائیں تاکہ کسی قسم کی پیچیدگی
سے بچا جاسکے ۔
(7) امتحانی مرکزپہنچنے کے بعد اپنے بیٹھنے کی جگہ معلوم کر لیں ۔
(8) پرچہ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے ذہن کو آرام دینے کے لئے کتاب وغیرہ کا
مطالعہ ترک کر دیں ۔
(9) غیر ضروری گفتگو میں مشغول ہونے کی بجائے ذکر ودرود پڑھتے رہیں۔
(10) ذہن پر کسی قسم کی ٹینشن (Tension)نہ لیں کہ نہ جانے کیا ہوگا؟ میں
کچھ لکھ بھی پاؤں گا یا نہیں ؟ میں تو کوئی خاص تیاری بھی نہیں کر سکا
وغیرہ ، بلکہ اﷲ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے پُرسکون رہیں۔ ہوسکے تو ساتھ میں
کوئی چبانے والی چیز مثلاً الائچی وغیرہ ضرور لے لیں۔پرچہ دینے کے دوران یا
اس سے پہلے ذہنی دباؤ (Agitation) محسوس ہو تو الائچی منہ میں ڈال لیں ، ان
شاء اﷲ ل ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہونا شروع ہوجائے گی ۔
(11) پرچہ شروع ہونے سے چند منٹ قبل استنجاء ووضوسے فراغت حاصل کر لیں
کیونکہ اگر دورانِ امتحان استنجاء خانے(washroom) جانے کی حاجت پیش آئی تو
شاید ممتحن (Examiner)کی طرف سے جانے کی اجازت نہ ملے اور اگر اجازت مل بھی
گئی تو وقت کا ضیاع ہوگا ۔
(12) اگرشدید گرمی کا موسم ہو یا آپ کو عادتاًپیاس زیادہ لگتی ہوتوامتحان
شروع ہونے سے قبل مناسب مقدارمیں پانی بھی پی لیں ،یا کسی بوتل میں ساتھ لے
لیں ۔
(13) پرچہ شروع ہونے سے پہلے بالخصوص پہلے دن ممتحن کی ہدایات کو غور سے
سنیں ۔
(14) جب جوابی کاپی اور سوالیہ پرچہ(answer sheet and question paper )
تقسیم کیا جارہا ہوتو ادب اور شائستگی کے ساتھ وصول کریں کیونکہ امتحانات
میں اکثر اساتذہ کرام کو ہی نگرانی پر معمور کیا جاتا ہے ۔
(15) عموماً امتحان میں پہلے جوابی کاپی دی جاتی ہے پھر کچھ دیر بعد سوالیہ
پرچہ دیا جاتا ہے لہذا ! جوابی کاپی ملنے پر اس پر اپنا رول نمبر (Roll
No)لکھ لیں اور سائیڈ پر حاشیے وغیرہ لگا لیں۔
(16) جب آپ کو سوالیہ پرچہ دیا جائے تو اسے کامل توجہ کے ساتھ مکمل طور
پرپڑھیں۔ اس کے آغاز میں دی گئی ہدایات کا بھی بغور مطالعہ فرمائیں۔
(17) سوالات کی درجہ بندی فرما لیں کہ کس سوال کا جواب آپ کوبہترین یاد ہے
؟ کون سے سوال کا جواب قدرِ کفایت یاد ہے ؟ اور کون سے سوال کا جواب اچھی
طرح یاد نہیں؟
(18) اب اگر سوالات میں گنجائش دی گئی ہو تو وہ سوال حل نہ فرمائیں جس کا
جواب اچھی طرح یاد نہ ہو۔
(19) سوالات کے حل کے لئے وقت تقسیم فرمالیں مثلاً پانچ سوالات کے جوابات
لکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہواور مقررہ وقت تین گھنٹے ہو تو ایک سوال کے لئے
اوسطاً۳۰ منٹ مقرر کر لیں اور بچ رہنے والا وقت اپنے جوابات پر نظر ثانی کے
لئے صرف کریں۔ اس تقسیم کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ مقرر کردہ وقت میں سوالات
کے مکمل جوابات دینے میں کامیاب ہوجائیں گے ، ان شاء اﷲ ل ۔ بصورت دیگر آپ
کو شدید دشواری کا سامنا ہوسکتا ہے ۔
(20) پرچہ آسان ہو یا مشکل یکساں توجہ سے حل کریں ۔ بعض طلباء(Students)
آسان سوالات پوچھے جانے پر جلد بازی کا شکار ہوجاتے ہیں اور غلط جوابات بھی
لکھ ڈالتے ہیں ۔
(21) سوالات کے جوابات دینے میں ترتیب یوں رکھئے کہ سب سے پہلے آسان سوال
پھر اس سے مشکل اس کے بعد جو اس سے مشکل ہو،علی ھذا القیاس ۔ کیونکہ اگر آپ
ابتداءً مشکل سوال کا جواب لکھنے میں مشغول ہوگئے تو ہوسکتا ہے کہ اس میں
زیادہ وقت صرف ہونے کی وجہ سے آسان سوالات لکھنے سے رہ جائیں۔اپنے ذہن میں
طے کی گئی جوابات دینے کی ترتیب کے مطابق سوالات پر بھی نشانات لگا
لیں۔مثلاً آپ کو چوتھے سوال کا جواب پہلے لکھنا ہے تو اس پر 1لکھ لیں ،اور
دوسرے نمبر پر پہلا سوال حل کرنا ہے تو اس پر 2لکھ لیں ،علی ھذا القیاس ۔
(22) بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھ کر اﷲ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہوئے لکھنے
کا آغاز فرمادیں۔
(23) لکھنے کے دوران اپنے ارد گرد تشریف فرماہونے والے طلباء(Students) سے
نہ توکسی قسم کی گفتگو کریں اور نہ ہی کسی شے کا لین دین کریں کہ ایسا کرنے
کی صورت میں آپ ممتحن کی نگاہ میں مشکوک قرار پائیں گے اور وقت الگ سے ضائع
ہوگا ۔
(24) جوابی کاپی میں سوالیہ عبارت لکھنے کی بجائے سوال کا نمبر دے کر جواب
لکھنے کا آغازفرما دیں۔اگر کوئی سوال ایسا ہو جسے جوابی کاپی پر نقل کرنا
ضروری ہو تو حرج نہیں۔
(25) لکھے گئے جوابات کے الفاظ نہ تو اتنے تنگ تنگ ہوں کہ مفتش (Checker)
کوپڑھنے میں دقت پیش آئے اور نہ ہی اتنے بڑے کہ نامناسب دکھائی دیں۔
(26) جتنا ممکن ہوسکے عنوانات قائم کر کے جوابات لکھیں کہ اس سے مفتش پر
اچھا اثر مترتب ہوتا ہے ۔مثلاً
1973 کا آئین: 1973 کا آئین کا خلاصہدرجِ ذیل ہے ،……الخ
1973 کے آئین پر تفصیلا کلام درج ذیل ہے۔۔۔۔ ،……الخ
(27) جو سوالات دو یا اس سے زائد اجزاء (Parts)پر مشتمل ہوں ان کے تمام
اجزاء کے جوابات یکے بعد دیگرے ایک ساتھ ہی لکھیں ، ایسا نہ ہو کہ سوال
نمبر ۲ کا پہلاجز حل کرنے کے بعد دوسرا جز چند دوسرے سوالات کے بعد لکھ دیا
جائے ۔
(28) سوال میں جوبات پوچھی گئی ہو اسی کاجواب لکھیں اور غیر ضروری تفصیل سے
پرہیز کریں کہ وقت کی تنگی کا سامنا ہوسکتا ہے ۔
(29) ہر سوال کا جواب لکھتے وقت وقفے وقفے سے گھڑی بھی دیکھتے رہیں تاکہ اس
سوال کو طے کردہ وقت ہی میں مکمل کیا جاسکے ۔ اگر کسی سوال پر زیادہ وقت
صرف ہوجائے تو بقیہ سوالات کے وقت میں مناسب ردو بدل(Adjustment) کر لیں۔
(30) اگر کوئی بات بھول جائے تو درودِ پاک پڑھ لیں جیسا کہ حدیث میں ہے
،’’جب تم کسی چیز کو بھول جاؤ تو مجھ پر درود پڑھو ان شاء اﷲ وہ چیز تمہیں
یاد آجائے گی ۔ ‘‘
(القول البدیع،ص ۲۱۷،مطبوعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اگر باوجود کوشش کے وہ بات یاد نہ آئے تو اندازے سے جگہ خالی چھوڑ کر آگے
بڑھ جائیں اور اپنا وقت بچائیں پھر اگر وہ بات یاد آجائے تو لکھ لیجئے ۔
(31) آپ کو جس قدر سوالات کے جوابات آتے ہوں ،لکھ دیجئے اور اسی پر قناعت
کریں ہر گز ہرگز نقل لگانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ علمائے کرام نے اسے
ناجائز قرار دیا ہے اور با حیثیت مسلم ہم پر اس سے بچنا لازم ہے۔
(32) جب آپ تمام سوالات کے جوابات لکھ چکیں توکم از کم ایک مرتبہ انہیں غور
سے پڑھ لیجئے اور جہاں غلطی نظر آئے درست کر لیجئے اور جہاں کہیں جواب
ادھورا ہو اسے مکمل کر لیجئے ۔
(33) پرچہ جمع کرانے میں جلد بازی مت کریں بلکہ جب آپ حقیقۃًمطمئن ہوجائیں
تو جمع کروادیجئے ۔
(34) اس کے بعد مناسب آرام لینے کے بعد اگلے پرچے کی تیاری شروع کردیں۔
نما یاں پوزیشن
محترم قارئین!
اس سلسلے میں سب سے پہلے اپنے دل پر غور کر لیا جائے کہ کہیں آپ اس لئے تو
پوزیشن(Position) نہیں لینا چاہتے کہ اپنے مد مقابل طالب علم کو نیچا دکھا
سکیں یا سب پر اپنی برتری ظاہر کر سکیں یا آپ کو شہرت حاصل ہوجائے ؟اگر
خدانخواستہ جواب ہاں میں ملے تو محنت ترک کرنے کی بجائے فوراً اپنی نیت کو
درست کر لیں مثلاًرضائے الہی لکوپیش نظر رکھتے ہوئے یوں نیت کریں کہ ’’میرے
استاذ محترم یا والدین کا دل خوش ہوجائے گااور وہ مجھے دعائیں دیں گے،
‘‘کیونکہ اُخروی فائدے کے حصول کے لئے مذکورہ ہستیوں کا دل خوش کرنے کے لئے
کوئی کام کرنا اخلاص کے منافی نہیں جیسا کہ حدیث ِمبارکہ میں ہے ، ’’جس نے
میرے بعد کسی مسلمان کا دل خوش کیا اس نے مجھے میری قبرِ انور میں خوش کیا
اور جس نے مجھے خوش کیا ،اﷲ تعالیٰ اسے قیامت کے دن خوشی عطا فرمائے گا
۔‘‘واﷲ اعلم بالصواب
(کنزالعمال ،کتاب الزکوۃ ،ج۶،ص۱۸۴،رقم الحدیث:۱۶۴۰۹ مطبوعۃ دارالکتب
العلمیۃ بیروت)
نمایاں پوزیشن لینے والے طلباء(Students) کو چاہئے تمام پرچوں پر یکساں
توجہ دیں کہ ہر مضمون میں اچھے نمبر لے کر ہی وہ اس دوڑ میں شامل ہوسکتے
ہیں ۔ اگر کوئی پرچہ کمزور رہ جائے تو ہمت نہ ہاریں کہ عین ممکن ہے کہ آپ
کے مدمقابل کا بھی کوئی پرچہ کمزور رہ گیا ہواور آپ ابھی تک اس دوڑ سے خارج
نہ ہوئے ہوں ۔ |