پورے ملک میں فرقہ واریت کو جس
انداز میں ہوا دی جا رہی ہے اور اسکے ذریعے جو انسانی خون کا ضیاع ہوتا جا
رہا ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے ۔سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ آگ ملک کے
مختلف شہروں میں پھیلائی جا رہی ہے۔آئے دن کوئی اندوہناک واقعہ رونما ہو
جاتا ہے۔ کئی سہاگ اجڑ جاتے ہیں ،کتنے بچوں کے ساتھ یتیمی کا لاحقہ لگ جاتا
ہے ،پورے کا پورا خاندان متا ثر ہوجا تا ہے مگر یہ مسئلہ جوں کا توں باقی
ہے بلکہ آگے بڑھتا جا رہا ہے،کوئی حل نہیں نکل رہا ،سانحہ ہوتا ہے دو چار
روایتی بیان بازی ہوتی ہے اور پھر معاملہ ٹھپ ہو جاتا ہے، سانحات سیاسی
بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، انسانی زندگی کی کوئی قدروقیمت باقی نہیں رہی ، دن
دھاڑے خون بہایا جا رہا ہے ،احساس دور دور تک نظر نہیں آتا ۔وہ انسان جس کو
خلیفۃاﷲ کے لقب سے نوازا گیا تھا آج وہ اپنے جیسے دوسرے انسان کو زمین پر
زندہ دیکھنا گوارہ نہیں کر سکتا۔ اب تو ہر انسان یہ سوچتے ہوئے باہر نکلتا
ہے کہ پتہ نہیں واپسی ہو گی بھی یا نہیں؟ ہر کوئی اپنی ساکھ بچانے کی کوشش
میں ہے۔
حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اب ہم میں بھی اتنی بے حسی آتی جا رہی ہے کہ کراچی
میں روزانہ دس ،پندرہ انسانی لاشوں کا سن کر کانوں میں جوں تک نہیں
رینگتی۔بس دکھ تکلیف وہ محسوس کرتا ہے جو متاثر ہوتا ہے ، باقی کسی کو کوئی
لینا دینا نہیں ، دشمن آہستہ آہستہ سب کی باریاں لگا رہا ہے، اسلام اور
مسلمانوں کے خلاف بین الاقوامی سازشیں تیزی سے اپنے ہدف کی طرف گامزن ہے،
نا پختہ ذہنوں کو آلہ کار بنا کر ہمیں اپنے ہی ہاتھوں سے مروایا جا رہا ہے،
تعصب ،فرقہ واریت ، لسانیت ،قوم پرستی ،اوراشتعال انگیز مواد جیسے مہلک
تھرما میٹر سے دن بدن ہماری نبضوں کو ٹٹولا جا رہا ہے ،کہ کہیں ذرہ ایمان
کی رمق تو موجود نہیں ،بہت سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمیں اس جنگ کے اندر
دھونکا جا رہا جس میں دشمن خود ہمیں مارنے کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا،ہم
یہ فریضہ خود ہی انجام دینے کو تیار رہیں گے،اور دنیا کی چمک نے اپنے
روایتی دام میں پھنسا کر ہمیں دشمن کا آلہ کار بننے پر مجبور کر دیا ، اور
اس چمک دمک سے ہم اپنی تاریخ بھی بھول بیٹھے ۔ دشمن پھر وہی پرانی چال چل
رہا ہے،بے ضمیر لوگوں کی کمی بھی نہیں ہے،درد دل رکھنے والے حضرات کو غیر
محسوس طریقے سے پیچھے کیا جا رہا ہے ،ہم جو اسلام کی خاطر اقدام کیاکرتے
تھے آج ہم سے دفاع بھی نہیں ہو رہا،دشمن ہماری کمزوریوں سے واقف ہے،اور بھر
پور فائدہ اٹھا رہا ہے۔
آپ عراق،فلسطین، بوسنیا ،سوریا،چیچنیا ،افغانستان،کے حالات پر نظر ڈالتے
جائیں پوری کہانی سمجھ آتی جائے گی اور اب پاکستان میں بھی وہی کہانی
دہرائی جا رہی ہے،کراچی جیسے شہر میں روزانہ دس پندرہ زندہ انسانوں کو
لاشوں میں بد ل دیا جاتا ہے، کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا،کوئی ادارہ حرکت میں
نہیں آتا،کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی،کوئی ذمہ دارہ قبول کرنے کو تیار
نہیں،یہ وہ انسان ہے جسکے بارے میں کہا گیا ہے کہ ایک انسان کا ناحق قتل
پوری انسانیت کا قتل ہے،آج اس انسان کے خون کی قیمت نہیں۔
ان سنگین حالات میں جہاں ہماری حکومتیں،سیاسی قائدین اور سماجی رہنماؤں
،میڈیا،اور ہر مسلمان کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے وہاں پر ایک بڑی
ذمہ دار ی مکاتبِ فکر کے علماء کی ہے ان حضرات کو اپنا کردار ادا کرنا
چاہیے یہ مؤثر آواز کے مالک ہیں ،عوام ان کے قریب ہیں۔ہماری ہدایت کا سر
چشمہ قرآن کریم جیسی کتاب موجود ہے، احادیثِ مبارکہ جامع مانع موجود ہیں جس
میں ترغیب وترہیب کے مضامین ہیں ان سے عوام کو روشناس کرایا جائے۔قرآن کریم
نے جو انسانی جان کی قدروقیمت بتائی ہے اسے تفصیلاــ ذکر کرنا چاہیے، جمعہ
کے خطبات اور عوامی اجتماعات میں عوام کی رہنمائی کی جائے۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : ’’ہم نے کتاب سمجھنے والوں سے عہد لیاہے ، کہ
وہ اسے بیان کرتے رہیں ،اور چھپائیں نہیں ،لیکن ان لوگوں قرآن کو پیٹھ
پیچھے ڈال دیاہے ، اور اس کے بدلے دنیاکی طلب کے پیچھے پڑگئے ہیں ، ان کا
یہ سودا نہایت ہی برا سوداہے ، ‘‘
قرآن کریم میں انسانی جان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اﷲ تعالیٰ
فرماتے ہیں کہ’ جوکسی مومن کو قصداً قتل کرے گا ،تو اسکی سزا جہنم ہے ،اس
میں ہمیشہ کے لئے رہے گا ،اس پر اﷲ تعالٰی کا غضب ہے ،اور اﷲ تعالٰی نے اس
کے لئے عذاب ِعظیم تیارکررکھاہے ‘‘،’’اور مؤمن کو کسی مؤمن کا قتل زیب نہیں
دیتا‘‘
ان آیتوں کے ذیل میں مفسرین نے مختلف احادیث ذکر کی ہیں ، حضرت عبداﷲ بن
عباس کہتے ہیں ،میں نے تمھارے نبیﷺ سے فرماتے ہوئے سناہے ’’ قیامت کے دن
مقتول ایک ہاتھ میں اپنا سر اور دوسرے ہاتھ میں قاتل کی گریبان پکڑے اس
کیفیت میں عرش الہی کے سامنے آجائے گا کہ اس کی رگوں سے تازہ خون بہہ
رہاہوگا ، اﷲ تعالٰی کی دربار میں استغاثہ کرے گا کہ اے میرے رب اس قاتل نے
مجھے قتل کیا تھا ،تواﷲ تعالٰی اس قاتل سے کہیں گے ،تیری ناس ہو ․․․،پھر
اسے جہنم میں لے جایاجائے گا‘‘۔ حضرت ابوھریرہؓ نے آپ ﷺ کا ارشاد نقل کیاہے
: کہ آسمان وزمین والے سارے اگر کسی ایک بھی مؤمن کے خون کرنے میں شریک
ہوگئے (اشار ۃً،کنایۃً ، حکماًیا عملًا) تواﷲ تعالی اس ایک مسلمان کے خون
کے احترام کی پا مالی کی پا داش میں ان سب کو جہنم رسید کر دینگے ‘‘ ۔
قرآنِ کریم میں تمام امراض کا علاج موجود ہے، کیا کوئی ہے جوبیماردلوں
اورذہنوں کا اس دواسے کامیاب علاج کرے؟اﷲ تبارک وتعالیٰ باربار اپنے کلام
میں غوروفکر کرنے کی دعوت دے رہے ہیں ’’کہ تم قرآن میں غوروفکر کیوں نہیں
کرتے ؟؟‘‘
’’ یہ لوگ قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ، کیا ان کے دلوں پر
تالے لگ گئے ہیں ‘‘
یہ بھی فرمایا : ’’ کیااب تک وہ وقت نہیں آیا ، کہ مسلمانوں کے دل اﷲ کے
ذکر اور ان کی طرف سے آئے ہوئے اس حق کلام سے کانپ اٹھیں ، اور ان کی طرح
نہ ہو جائیں ، جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی ، لیکن کچھ زمانہ گزرتے ہی
ان کے دل سخت ہوگئے ، اور ان میں سے اکثریت نافرمان ہوگئی ، جان لو مردہ
زمین کو نئی زندگی دینا اﷲ ہی کا کام ہے ، اور ہم نے تمہیں سمجھانے کے لئے
اپنی آیات نازل کردی ہیں‘‘۔
ان آیات اور احادیث کے پیش نظر اب ہمیں غوروفکر کرنا ہوگی،ہمیں آگے آنا ہو
گا ،سازشوں کو سمجھنا ہو گاایسا نہ ہو کہ پھر دیر ہوجائے۔۔۔۔۔
زبیر المرتضیٰ |