ترقی یافتہ پاکستان کی صبحِ درخشاں کب؟

سیاسی مدبروں، رہنماﺅں اور سیاسی اکھاڑے سے تعلق رکھنے والے افراد، ماہرینِ تعلیم اور سماجی مصلحوں کی حیات و خدمات کی موضوعات تو بہت ہیں۔ افرا تفری، دہشت گردی، اغواءبرائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور اسی طرح کے نہ جانے کتنے موضوعات ہیں جن پر مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ لیکن تمام موضوعات کے محرکات کو سمجھنے اور اس پر سخت ترین کاروائی کرنے پر ہی ہمارا جنت نشان پاکستان ترقی کے منازل طے کر سکے گا۔ کیا اس معاملے پر کوئی سوچ رہا ہے، اگر جواب ہاں میں ہے تو بہت اچھا اور اگر جواب نفی میں ہے تواس معاملے پر ہمارے سیاست کے مکین کب سوچیں گے ، اس سے پہلے کے ڈور آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے ، اس سے پہلے کے گھپ اندھیرا چھا جائے، اس سے پہلے کہ لوگ سڑکوں پر آجائیں، اس سے پہلے کہ ووٹ دینے والے عوام ووٹوں کی ہڑتال پر چلے جائیں، اس سے پہلے کہ تاریخ آپ سب کا احتسابی عمل شروع کر دے ۔ خدارا!حالات و واقعات ، گرد و پیش کی کارستانیاں، ملکی شیشوں پر دڑاریں پڑنے سے پہلے ایکشن میں آیئے اور ان تمام قوت کا خاتمہ کرکے پاکستان کو صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر ڈالیئے۔
بھیجا تھا کہنے حالِ دل اپنا بچشمِ ترا نہیں
قاصد سے ان کے رُو برو بات بدل گئی

زیرِ تبصرہ موضوع کو معاشرتی اصلاح کی ایک اہم کڑی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ بلکہ ہم تو اس کو اپنا فرائضِ منصبی سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دینی، مذہبی، سماجی اور کبھی کبھی سیاست کے موضوع پر بھی مضامین لکھ ہی دیتے ہیں اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ شاید صاحبِ اقتدار اور صاحبِ سیاست کے مکین کے سروں میں جوں رینگنے لگ جائیں اور وہ سب مل کر ملکی حالات کے دگر گوں صورتحال کو سمجھتے اور بھانپتے ہوئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل بنائیں اور ہمارا پاکستان بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان کے ہر شہروں سے قربت کی خوشبو آیا کرتی تھی مگر آج افرا تفری ہے۔ ملک میں ہر کوئی اپنی اپنی زبان سے پہچانا جانے لگا ہے۔ ہر کسی کا علاقہ بٹا ہوا ہے۔ اور اب تو عوام الناس کو سفری مشکلات میں بھی حد درجہ پریشانی رہتی ہے ، سیر و تفریح کے لئے ملکی شہروں میں جانے والے بھی اب سوچا کرتے ہیں کہ کیا وہاں جانا چاہیئے؟ آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔یہ سلسلہ کب تک دراز کیا جاتا رہے گا۔ اس پر سوچنے اور کھلے دل کے ساتھ عمل در آمد کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ عوام الناس کو باطنی آسودگی کا سہارا تو مل جائے یوں امن و امان ہوگا تو ہمارا معیشت بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا۔

پورے ملک میں امن و امان اور قانون کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے، دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر دندناتے پھر رہے ہیں اور عوام کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ ہر طرف خوف و دہشت اور عدم تحفظ کا دور دورہ ہے۔ بااثر شخصیات اور حکومتی افسران میٹروپولیٹن شہروں میں رہتے ہیں اور انہوں نے اپنی رہائش گاہوں کے اطراف قلعے تعمیر کر رکھے ہیں۔ تو پھر عوام کا کیا ہوگا۔ وہ تو اپنے گھر میں دال روٹی پورا کرنے کے چکر میں ہی لگے رہتے ہیں بھلا گلیوں کے اطراف میں سیکوریٹی بیریئر کہاں سے لگوائیں گے۔

بجلی کی قلت، گیس کی لوڈ شیڈنگ، قیمتوں میں اضافہ، بے روزگاری اور عوامی احتجاج و مظاہرے روز مرہ کا معمول ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب ان تمام مشکلات سے عوام دو چار نہ ہوتے ہوں۔حکومت منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور غیر قانونی طور پر قیمتیں بڑھانے والوں کے خلاف کوئی کاروائی کرتی نظر نہیں آتی اور نہ ان کا اس پر کوئی کنٹرول نظر آتا ہے۔

(پی آئی پی ایس)پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق حالات روزانہ کی سطح پر خراب ہو رہے ہیں اور خراب تر ہوتے رہیں گے۔ راقم تو صرف دعا ہی کر سکتا ہے اور تمام متعلقہ لوگوں سے ان حالات و واقعات پر ملک کو بچانے اور امن و یکجہتی قائم کرنے کے لئے مناسب پالیسیاں بناکر اس پر نیک نیتی سے عمل در آمد کرانے کی استدعا ہی کر سکتا ہے۔

اے کاش کہ پاکستان (ہمارا پیارا وطن) اب بھی اپنے پیروں پر اگر کھڑا ہو جائے تو ہماری عوام جو اس کے چپے چپے کی حفاظت کے گُن گاتی ہے اور بڑھ چڑھ کر اپنے ملک کو مضبوط بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی۔ اور اپنے ملک کو جنت نشان بننے پر خوشی کے شادیانے بھی بجائے گی۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ ایسا کب ہوگا؟ ایسا پاکستان ہمیں اور ہماری عوام کو کب میسر ہو سکے گا؟ اور کب ہم مل جل کر اکھٹے ہوکر باہم سیر و شکر کے ساتھ رہ سکیں گے اور جب ایسا ہوگا تب ہی یہ قائد اعظم کا پاکستان کہلائے گا بصورتِ دیگر ........یہ حالات اور پچیدگیوں کی طرف ہی گامزن ہوتا دکھائی دیتا ہے۔قوموں کی زندگی میں ویسے بھی حب الوطنی کا باب کلیدی اور روشن ہے، وطن اور وطنیت پر آج تک جتنے بھی کالمز لکھے گئے ہیں اگر اسے سمیٹنے اور ورک ورک جوڑنے کی ٹھان لی جائے تو کئی کئی جلدیں مرتب کی جا سکتی ہیں۔لہٰذا اس معاملے پر تو کوئی شک و شبہات ہو ہی نہیں سکتا کہ پاکستانی قوم حب الوطنی کے جذبے سے نہ صرف سرشار تھی بلکہ آج بھی ہے اور قیامت تک رہے گی۔یہی تو ہم وطن پرستوں کا خاصا رہا ہے کہ وطن اور وطنیت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ پھر آج ملک بھر اور خاص کر شہرِ قائد میں یہ افرا تفری کیوں ہے، یہ ہنگامے کیوں ہیں، یہ ماردھاڑ، قتل و غارت گری کیوں ہے، کیا یہ سب ہمارے اعمالوں کی سزا ہے یا پھر یہ سزائیں نااہل حکمرانوں کی وجہ سے ہے جو اللہ کا عذاب بن کر عوام پر ٹوٹ رہا ہے، خدا اس تانے بانے کو سلجھایئے کہیں بہت دیر نہ ہوجائے۔ کہیں تیر کمان سے نکل نہ جائے کہ پھر حالات آپ کے قابو سے باہر ہو جائے۔ خدارا اس عرضِ وطن پر اور یہاں بسنے والے عوام کی خاطر ملک کو خوشیوں کا گہوارا بنانے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملایئے اور نفرتوں کو اپنے اندر سے نکالیئے۔

بات دراصل یہ ہے کہ جب تک جذبے کی مقدار زندہ ہے زندگی میں کوئی اہم کام یا کوئی بڑی قومی خدمت سر انجام دیا جا سکتا ہے کیونکہ جذبہ ہی ایسا کلیدی کردار ہے اور اسی میں وہ قوت پوشیدہ ہے جو انسانی تخیلات میں مشکلات، مخالفتوں، رکاوٹوں کو روند کر گزر جانے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ دُھن، لگن، ایثار، عزم کے بغیر نہ منزل مل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی عظیم خدمت انجام دیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے تومختلف النوع افراد عصرِ حاضر کے رہنماﺅں اور قومی شخصیات سے ملتمس ہیں کہ اپنے اندر اب بُردباری، بیداری، عزتِ نفس کا شعور آنے دیجئے تاکہ پاکستان پروان چڑھ سکے ۔
پاکستان ، پاکستان، پاکستان، پاکستان
ہے عزمتوں محبتوں کا نشان
روحِ قید کی عزمتوں کہ سلام ہو
جو، نابناتے وطن ہم رہ جاتے بے نشان
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368132 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.