کراچی کے بارے میں اب تک لاکھوں نہیں توبلا
مبالغہ ہزاروں کالم اور اداریے ضرور لکھے جاچکے ہیں،جن میں ہر زاویے سے شہر
بے اماں کے مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نومبر1994ءمیں لندن سے
شائع ہونے والے”ٹائمز“ کے ایک مضمون میں کراچی کو ” بکھرے خوابوں کا شہر“
قرار دیاگیاتھا۔ حقیقت بھی کچھ اسی طرح ہے کہ کراچی بکھرے خوابوں کا شہر بن
چکا ہے جس کے روز نجانے کتنے خواب بکھرتے ہیں۔کسی دور میں یہ شہر امن کا
گہوارہ ہوا کرتا تھا لیکن آج بدامنی کااستعارہ بن کر رہ گیا ہے۔
سمندر کے کنارے آباد ”کولاچی جو گوٹھ “ گاوں میں کولاچی نامی قبیلہ آباد
تھا۔ جس کے مکینوں کا گزربسر ماہی گیری پر تھا۔مشہور ہے کہ” مائی کولاچی“
نامی ایک خاتون نے اپنی جان پر کھیل کر سمندر میں پھنس جانے والے اپنے شوہر
اور اس کے ساتھیوں کی جان بچائی تھی جس کے باعث اس گاوں کو” مائی کولاچی جو
گوٹھ“ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا ، وقت کے ساتھ ساتھ اس نام میں تبدیلی
آتی گئی ۔ مائی کولاچی سے مائی کلاچی اور پھر کراچی ہوگیا۔ ماضی میں جب بھی
کراچی کا ذکر آتا تھا تو اس کی محبت، اخوت، وسعت دامانی اور بھائی چارے کا
تصور ذہن میں ابھرتا تھا۔ اس شہر کے دن اور رات یکساں جاگتے تھے۔ یہاں کے
فٹ پاتھ اور پارک دن میں لوگوں کے لیے آمد ورفت اور تفریح کے مواقع فراہم
کرتے اور رات کو غریب اور مزدوروں کا آشیانہ بن جاتے تھے۔ چونکہ کراچی ملک
کی70فیصد صنعت اور60فیصد تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہے، اس لیے پورے ملک سے
آبادی کا بہاﺅ اس جانب ہونا فطری امر ہے۔اس شہر نے ہمیشہ ایثار ومحبت کو
فروغ دیا اور ہر آنے والے کو اپنے دامن میں پناہ دی۔ ملک بھر سے رزق کے
متلاشی کراچی کا رخ کرتے تھے، اس شہر نے کبھی کسی کو مایوس واپس نہیں کیا،
ہمیشہ خوش آمدید کہا اور ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں پناہ دی۔ یہی وجہ ہے
کہ بیشتر لوگ تلاش معاش کے لیے یہاں آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ دیکھتے
ہی دیکھتے ایک بڑا ویران حصہ گنجان آباد علاقے میں تبدیل ہو گیا۔ سستی اور
وافر افرادی قوت کے باعث ملک بھر سے سرمایہ کاروں نے کراچی کا رخ کیا اور
بے شمار کارخانے کراچی کی رونق اور کشش میں روز افزوں اضافہ کرنے لگے۔
قیام پاکستان کے وقت کراچی چار لاکھ آبادی کا ایک انتہائی پرسکون تجارتی
مرکز تھا۔ قیام پاکستان کے بعدہندوستان اور ملک کے مختلف حصوں سے تقریباً
13لاکھ افراد نے کراچی میں پڑاﺅ ڈالا۔کراچی میں پاکستان کی تقریباً ہر نسل
اور ہر قوم کے لوگ آباد ہیں۔ اس شہر نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے
لوگوں کے لیے اپنے دامن کو وسیع کیا۔ قیام پاکستان کے وقت اس شہر نے اپنے
دامن میں بے شمار مہاجرین کو پناہ دی۔ انصار اور مہاجر ایک دوسرے کے دست
وبازو بن گئے جس سے شہر کی رونقیں دو چند ہوئیں اور پھر شہر نے ترقی کی اور
دنیا کے نصف درجن کے قریب عظیم شہروں میں اس کاشمار ہونے لگا۔ اس کی دامن
وسعت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے کونے کونے سے لوگ یہاں آئے۔ دیکھتے ہی
دیکھتے اس شہر کی آبادی دو کروڑ کو چھونے لگی۔
پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا، معلوم نہیں کس کی نظر بد لگ گئی ، محبتوں کے
شہر میں نفرتیںجنم لینے لگیں۔روشنیوں کا شہر تاریکیوں میں ڈوب گیا۔جو شہر
کبھی عروس البلاد کے نام سے مشہور تھا، آج ”شہروں کی دلہن“ زخموں سے چوراور
لہولہان ہے، ہر آنے والا دن ان زخموں میں اضافہ اور آتش فشاں بننے کی نوید
سناتا ہے۔ اس کی سوگوار فضائیںآہ و بکا اور سسکیوں سے گونج رہی ہیں، آشیانے
ویران ہورہے ہیں، بچے یتیم، بیویاں بیوہ اور ماﺅں کی آنکھیں خیرہ ہورہی ہیں،
گلیاں سنسان، سڑکیں خون سے رنگین اور ہواﺅں میں تخریب کی ایک ب ±و سی رچی
بسی ہے، سرِراہ موت ننگا ناچ ناچ رہی ہے، پورے شہر میں خوف و ہراس کا سماں
اور ہو کا عالم ہے، دن میں تیرگی چھائی رہتی ہے اور سر شام ہی خوف کی
حکمرانی قائم ہوجاتی ہے، دن بہ دن حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، بھتہ
مافیا اور لینڈ مافیا کا راج ہے، ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں بے شمار گھروں کے
چراغ گل ہوچکے ہیں۔ کراچی میں انسانی جان سمندر کے ساحل پہ بکھری ریت کے
ذروں سے بھی ارزاں ہو گئی ہے۔ لاشیں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گر رہی ہیں۔
کبھی کراچی کے نام سے روشنیوں، رونقوں اور رعنائیوں کا تصور انگڑائی لیتا
تھا، آج کراچی کا نام سنتے ہی سفید چادروں میں لپٹی لاشوں، بین کرتی ماؤں،
بہنوں، شعلوں میں لپٹی گاڑیوں، بے ہنگم برستی گولیوں، سائرن بجاتی
ایمبولینسوں کا منظر نگاہوں میں ابھرتا ہے۔
اس وقت صورتحال اس قدر ابتر اور ناگفتہ بہ ہوچکی ہے کہ مختلف بستیاں صرف
لسانی بنیادوں پر قائم ہیں۔ مختلف فرقوں کے لوگ مخصوص بستیوں میں منتقل ہو
رہے ہیں۔کراچی میں اس وقت مختلف مافیاﺅں کی غیر قانونی سرگرمیوں کے علاوہ
سیاسی جماعتوں کی طرف سے شہر پر قبضے کے رجحان نے بھی اس شہر کو بے اماں
کیاہے۔ پھرمافیاﺅں کے کارندے سیاسی جماعتوں کی صفوں میں گھس کرشہر میں
مسائل کو دوچند کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔کہاجا تا ہے کہ اس شہر کی محبتوں
کو نفرتوں میں بدلنے میں جہاں اور بہت سے کردار ہیں، وہیں تین آمروں نے
ہراول دستے کا کام کیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس شہر میں نفرت کے بیج تو
آمروں نے بوئے بعد میں ان بیجوں کو پانی دے کر تناور درخت سیاسی جماعتوں نے
کیا ہے۔ حکام مفادات کے مورچوں میں بیٹھے چین کی بانسری بجانے میں مصروف
ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہیں۔ حالانکہ پوری دنیا کا
یہ اصول ہے کہ جب ملک وقوم پر مشکل اور کڑا وقت آ جائے، اندرونی اور بیرونی
سازشیں ہونے لگیں، قومی سلامتی خطرے میں پڑجائے تو ان گمبھیر حالات میں
تمام افراد، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر، کسی بھی سیاسی جماعت، کسی
بھی حلقے سے ہو متحد ہوجاتے ہیں۔ اپنے ذاتی مفادات اور لڑائی جھگڑوں کو روک
لیتے ہیں، باہم مل بیٹھ کر غوروفکر کرتے ہیں، سوچتے ہیں اور پھر دشمن کے
سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں۔ ان حالات میں ملک کی مذہبی و سیاسی
قیادت کو ملک وقوم کی رہنمائی کرنی چاہیے کہ ملکی سلامتی کیسے ممکن ہے؟
لیکن افسوس! اس وقت تمام قیادتیں اپنے مفادات کی تلاش میں ہی سرگرداں ہیں۔
دراصل 1959ءمیں دارالحکومت مرگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں منتقل ہونے کے بعد
اس شہر سے حکمرانوں کی توجہ بھی ہٹ گئی۔ اس شہر کے لیے وسیع البنیاد ماسٹر
پلان تیار نہیںکیاگیا، جوماسٹر پلان بنا اس پر عمل نہیں ہوا۔کراچی میں
حکومتی پالیسیوں، امن وامان کی مخدوش صورتحال کے باعث روزگار کے ذرایع سکڑ
رہے ہیں، جب کہ شہر پر آبادی کا دباﺅمسلسل بڑھ رہا ہے اور شہر کا رقبہ بہت
بڑا ہے جس کا کنٹرول سنبھالنا بھی مشکل کام ہے۔جبکہ جرائم پیشہ عناصر کی
سرپرستی سیاسی بنیادوں پہ ہورہی ہو تو ایسے میں نتائج کا خوف پولیس افسران
کو بھی آگے بڑھ کر سیاسی رابطے رکھنے والے جرائم پیشہ گروہوں پر ہاتھ ڈالنے
سے روکتا ہے۔اس طرح نئے تنازعات کا جنم لینا فطری عمل ہے۔اگر ہم سب فرقہ
واریت اور گروہ بندی کو نظر انداز کر کے ملکی مفاد کے لیے سوچنا شروع کر
دیں تو نہ صرف کراچی بلکہ وطن عزیز پاکستان تمام خطرات سے نکل سکتا ہے۔ اگر
وطن عزیز کو امن و آشتی کا گہوارا بنانا ہے، کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں
کا شہر اور شہروں کی دلہن بنانا ہے، تو ہم سب کو کراچی کی حفاظت کرنی ہو
گی۔ |