مانجھی کی پتوار

صاحب کتاب نے کوزہ میں سمندر نہیں ____”سنگم“___میں دنیا کو سمو دیا ہے ۔
”مانجھی “ایک ایسا ناول ہے ، جو معاشرہ کا بھر پور عکاس ہے ۔ اس میں درد ہے ، حقیقت ہے ، کسک ہے ، احساس ہے ، عورتوں کی آہ ہے اور ان کی بے راہ روی ، مردوں کی بدچلنی ہے تو میڈیا کی بے سمتی بھی ، جذبات ہے تو توہم پرستی بھی ۔زبان بھی صاف ،شستہ، شگفتہ اورمکالمہ چست درست ہے ،ا سی طرح منظر نگاری بھی دلآویز۔

مکالمہ اور منظر نگاری کی ایک جھلک :
”وی ان رائے نے ملاح کے ہاتھ سے پیکٹ لے کر ان میں سے ایک مٹھی دانہ پانی میں دور تک بکھیر دیا ۔
پرندوں کا غول ترقی یافتہ ملکوں کے جنگجو طیاروں کی مانند دانوں پر جھپٹ پڑا ، کچھ پرندے پانی کے اندر بھی دانوں کو اپنی چونچ میں پکڑ لائے ، جیسے وہ پرندے نہیں ، جدید طرز کی بنی پنڈوبیاں ہو ں ۔
صاحب ! اس بار دانوں کو ہوا میں اچھالئے ۔
’ایسا کیوں؟‘
’اچھالئے تو سہی ‘
’اچھا‘وی این رائے نے اس بار دانے خلا میں اچھال دئے ۔
پرندوں نے ان دانوں کو ہوا میں ہی روک لیا ، ایک دانے کو بھی نیچے نہیں گرنے دیا، ایسا لگ رہا تھا ، جیسے وہ پرندے کسی ذو یا سرکس سے آئے ہوں جہاں اس فن میں انہین برسوں تربیت دی گئی
’دانوں پر جھپٹتے ہوئے انہیں دیکھ کر بڑا اطمینا ن ملتا ہے صاحب ‘
’اطمینا ن کیوں نہیں ؟‘وی ان رائے نے ملاح کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا:
’اس لئے کہ اس دھرتی پر کچھ ایسے بھی دیس ہیں جن کے بھوکے پنچھی اپنا پیٹ بھر نے ہمار ے یہاں آتے ہیں ‘ “

اس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ وی ان رائے نے الہ آباد آنے کے بعد اپنے بھائی دھرم ناتھ سے سنگم گھوم آنے کی خواہش ظاہر کی ہے ، بھائی نے اجازت دی ، بھابھی نے کچھ توشہ راہ دیا، وی ان رائے سنگم دیکھنے گئے اور ملاحو ں میں سے سب سے مہنگے ملاح کی کشتی کو پسند کیا ، ملاح سے اس بیچ یوں تو بے شمار باتیں ہوئیں ، جو سبق آموز تھےںہی، مگر تین کہانیاںجو اس نے سنائی ہےں ، ا ن میں بہت درد ہے ، دو میں تو عورتوں کی مظلومیت کے ساتھ ساتھ اس کی بہادری اور نفسیات ہے ، اور تیسری کہانی، جسے کہانی نہ کہنا ہی بہتر ہے ، بڑھتی آبادی کا المیہ ہے ۔ یہ ملاح ہی دراصل ’ویاس مانجھی‘ہے ، جس کے نام سے یہ ناول موسوم ہے ۔

’ویاس مانجھی‘بلاشبہ ایک ایسا کردار ہے ، جس پر بہت لکھاجاسکتا ہے ، مانجھی ایک بلیغ ذہن اور بیدار مغز ملاح ہے ، شاید وہ ملاحی نہ کرتا تو نہ جانے کتنے بے راہ رو نوجوانوں کو سفینہ ¿ حیات کی ناخدائی کا حوصلہ دیتا ، بالفرض وہ کھاتے پیتے گھرانے سے نہ سہی،متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تو اسے علم کی پیاس بجھانے کا مزید موقع ملتا ، پھر کچھ لکھ پڑھ لینے کے بعد علم دوستی کے فروغ کے لئے کچھ ضرور کرتا ، آج معاشرہ میں نہ جانے کتنے بچے مانجھی کی طرح ہی غربت کی وجہ سے حصولِ علم سے محروم ہیں ۔ غربت کی بھٹیوں میں نہ جانے کتنی امیدیں جل رہی ہیں ، علم کی تشنگی کی تسکین کی نہ جانے کتنی تمنائیں مچل رہی ہیں ،مگر سرمایہ کی قلت کی بنا پر اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا بے شمار و الدین کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہورہا ہے ۔

تاہم مانجھی کے کردار نے یہ بھی سبق دیا ہے کہ غربت حائل ہوتو تعلیم سے سرمو انحراف ہی نہ کرلیا جائے ، جیساکہ آج ہورہا ہے ، بلکہ جہانتک ہوسکے علم کی پیا س بجھانے کے لئے کچھ نہ کچھ پڑھتے/کرتے رہنا چاہئے ، جیساکہ ما نجھی نے مہابھارت کامطالعہ کیا تھا اورمتعدد وجوہات کی بنیاد پر کہانی پڑھنے کاشوق ملاحی کے زمانہ میں بھی زندہ تھا ، یہی وجہ تھی ایک غیر معمولی آدمی کے ساتھ پورے سفر میں تبادلہ خیال کرتا ہے ، وہ بھی ایک مفکر کی طرح ۔

پھر یہ بھی دلچسپ پہلو ہے کہ تمام ملاحو ں سے زیادہ مانجھی کی کشتی کی قیمت ہزار روپیہ کیوں تھی ؟ مبہم انداز میں اس کی وضاحت کے لئے یہی کافی ہے ”سستا بار بار ، مہنگا ایک بار “۔

ناول ”مانجھی “میں اعتدال پسندی ہر جگہ نمایا ں ہے ، جو کہ اس کی مقبولیت کی خاص ضامن ہے ۔ اگر اس میں عورت مظلوم و مقہور نظر آتی ہے تو اس کی بہادری وچالاکی بھی اپنے جلوے بکھیرتی ہے ، اگر اس میں عورتوں کے جسم کی نمائش کے تعلق سے مردوں کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہے تو عورتوں کی بے راہ روی بلکہ ہر کام کے لئے اس کی ___رضامندی ___کو نشانہ ¿ تنقید بنایا گیا ہے ۔ مثلاً ویاس مانجھی کی زبانی جو پہلی کہانی بیان کی گئی ہے ، اس میں جہاں گھسیارے گھسیٹے رام کی بیٹی راج کماری بنتے ہی تین بڑے کام کے لئے یک دم مامور کردی جاتی ہے ، وہاں ایک اعتبار سے مظلوم لگتی ہے ، مگر تینوں کام کے لئے ’ہامی‘بھر نا اور انہیں عملی جامہ پہنا نااس کی چالاکی او ربلند حوصلگی کی دلیل ہے اور شوہر کی اطاعت شعاری کا جذبہ بھی ۔ اسی طرح اشتہارات میں جہاں عورتوں کے جسم کی نمائش کے لئے مرد ذمہ دار نظر آتے ہیں اور یہ شکوہ ہوتا ہے ”اشتہاروں میں عورتوں کے جسم کو ہی کیوں دکھایا جاتا ہے ؟ کہیں کسی اشتہار میں عورت کا دماغ کیوں نہیں آتا ہے “وہیں یہ بھی ہوتا ہے”مگر سچ تو یہ ہے کہ اسے سونپے گئے کاموں میں یہ اس قدر منہمک دکھائی دیتی ہے کہ جیسے ان کاموں میں اس کی مرضی شامل ہو ، بلکہ اس کی پسند اور خواہش کا دخل ہو، کہیں یہ بات تو نہیں کہ عورت کی سرشت میں یہ بات بٹھادی گئی ہے کہ اسے ویسا ہی کرنا ہے جیسا کہ مرد کا عندیہ چاہتا ہے “۔(مانجھی : ص 47,48,50)

مانجھی کی دوسری کہانی کے تناظر میں مانجھی اور وی ان رائے کا مکالمہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ، جو مردو عورت کی ذہنیت کو اجاگر کرتاہے :
وی ان رائے :
”دلچسپ بات اس کہانی میں یہ ہے کہ یہ بھوک صرف راجا کو ہی پریشان نہیں کرتی تھی بلکہ اس بھوک سے بہو بھی بے چین تھی “۔
”بہو کس طرح بھلا“وی ان رائے کے اس تبصرے میں دلچسپی لیتے ہوئے ملاح نے پوچھا:
”وہ اس طرح کہ اسے بھی یہ گوارا نہیں تھا کہ اس کے اوپر کوئی اورآجائے ، اس کے ختیارات یعنی پاور اس کے ہاتھ سے نکل جائےں ، اسے سوتا پا کی اتنی فکر نہیں تھی جتنی کہ اپنے ہاتھ سے راج محل کی چا بیاں چھن جانے کی چنتا تھی ۔ اس کا اصل دکھ اپنی حیثیت ، طاقت اور ستّا کے مٹ جانے کا تھا ،راج محل میںر ہتے ہوئے بھی راج پاٹ سے بے دخل اور بے وقعت ہوجانے کا تھا ، یہ دکھ یہ چنتا ، ستّا اورشکتی کی بھوک ہی تو ہے“۔(مانجھی :ص72)

اسی کے ساتھ ذیل کی عبارتوں میں اعتدال پسندی کے تناظر میں اہم حقائق سامنے آئے ہیں ۔
”جسم کی بھوک کے سلسلے میں ایک حیران کردینے والا بِندو یہ بھی ہے کہ یہ بھوک طرح طرح کا بھوجن چاہتی ہے ، الگ الگ سواد والے بھوجن کی اِچھّا رکھتی ہے ،یہ اور بات ہے یہ اِچھّاآسانی سے پوری نہیں ہوتی اور بعض بندھنوں اور کچھ دباؤ کے کارن اسے صرف ایک ہی طرح کے کھانے پر قناعت کرنی پڑتی ہے “۔

اس نکتہ پر آتے ہی وی ان رائے کے ذہن میں کچھ عورتیں ابھر آئیں جن کی شادیاں ہوچکی تھیں ، جن کے شوہر بھی اچھے اور صحت مند تھے ، جن کے گھر وں کے سنسکار بھی کافی مضبوط تھے ، وہ سنسکاری بھی تھیں اور جن میں سے زیادہ تر مذہنی تھیں اور اپنے دھرم اور مذہب کے مطابق پوچا پاٹھ بھی خوب کیا کرتی تھیں ، مگر یہ ساری عورتیں اپنا سواد بدلنا چاہتی تھی اور بدلتی رہتی تھیں ، ایسی کوئی عورتوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی تھی ۔ (صفحہ : 78,79)

”مگر حیرانی اس وقت دور بھی ہوجاتی ، جب کچھ ایسے واقعات ان کے سامنے آن کھڑے ہوتے جن میں غیر مرد کے تصور سے بھی عورتیں کانپ اٹھی تھیں ،عورتوں نے اپنی جان دے دی تھیں ، مگر کسی پرائے مرد کوہاتھ نہیں لگانے دیا تھا ، غریب ، نادار ، لاچار ، محتاج عورتوں نے بھی اپنی آبرو بچانے کے لئے بڑے بڑے تحفے تحائف اور مال وزر پر لات ماردی ، کمزور اور ناتواں عورتیں بھی اپنی عزت کے تحفظ کے لئے بڑے بڑے جابروں سے جاٹکرائی تھیں ۔ “

مذکورہ دونوں پیراگراف میں جہاں بدچلن عورتوں کا خیال آیا ہے وہیں پاکباز عورتوں نے اپنی موجود گی درج کرانے کی کوشش کی ہے ، گویا یہ بھی ایک اعتدال ہے ۔

عورتوں کی خامیوں کو اجاگر کرنے کے بعد یہ بھی دکھانے کی کوشش کی گئی کہ مرد کس طرح بے راہ رو ہوتے ہیں ، یہاںتک کہ اپنی بیش قیمت جوانی شادی سے قبل ہی برباد کردیتے ہیں ، جس کا خمیازہ عورتوں کو بھگتنا پڑتا ہے ، جیساکہ راج کمارکی بیوی کو نہ چاہ کر بھی سسر کے مقد رشتہ کو داغدا کرنا پڑا ۔

اسی طرح پہلی کہانی میں مرد کا یہ کردار بھی کس قدر افسوناک ہے کہ چند لمحوں میں مرد غیر عورتوں کی طرف مائل ہوجاتے ہیں ، گھسیارے کی بیٹی نے جس طرح اپنے شوہر کو ہی ’شوہر کی شرط‘پوری کرنے کے لئے ایک کھیل کھیلا کہ فورا وہ اس کی طرف مائل ہوگیا ، اس وقت اس کو اپنی بیو ی کے حق کا کوئی خیال نہیں آیا ، مزید اس میں مردوں کی بے راہ روی اس وقت اجا گر ہوتی ہے،جب بیوی ’گھسیارے‘کی بیٹی تینوں کاکام مکمل کرنے کے بعد اپنے شوہر راج کمار کو اطلاع دیتی کہ تینوں شرط پوری ہوگئی ہے ،یہ سن کر راج کمار آتا ہے ، بیوی سے ملتا ہے ، مگر پھر بھی اسے تشفی نہیں ہوتی اور بیوی کے ذریعہ تلاش کی گئی راج کماری کے پاس جانے کو بیقرار ہوجاتاہے ۔

مردوں کے بعد پھر عورتوں کی کمیاں اس طرح اجاگر کی جاتی ہیں :
”یہ تصویر ایک بدیسی گوری جوان چھریرے بدن اور تیکھے ناک نقش والی خوبصورت لڑکی کی تصویر تھی ، لڑکی سرسے پاتک مادر زاد ننگی تھی ، لباس کی جگہ اس نے اپنے پورے جسم پر مٹی کا لیپ چڑھا رکھا تھا، بظاہر اس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ ننگی نہیں ہے ، بلکہ اس نے ایک نئے انداز کا لباس پہن رکھا ہے اوراس کے ایک ایک انگ پرمٹی کا بستر چڑھا ہوا ہے اور وہ کہیں سے بھی ننگی نہیں ہے ،لیکن مٹی کے لیپ نے خشک ہوکر اس کے جسم کو اتنا کس دیا تھا کہ ایک ایک انگ کمان کی طرح تن گیا تھا اورہر ایک کمان سے تیر چھوٹ رہا تھا ۔

تصویر کو دیکھنے کے لئے اس کی جانب لوگوں کو ہجوم امنڈ پڑا تھا ، سادھو سنتوں کی نگاہیں بھی اسے تاک رہی تھی ِ گنگا کی طرف جاتے ہوئے لوگ بھی اسے مڑمڑ کر دیکھ رہے تھے ۔

تصویر کے ساتھ ساتھ یہ سب مناظر بھی کیمرے کے فوکس میں آگئے تھے ، تصویر کے ساتھ اس میگزین میں اڈیٹر کا ایک نوٹ بھی چھپا تھا -

ایڈیٹر کے اس نوٹ میں اوربھی بہت کچھ تھا مگر وی ان رائے کی نگاہیں یہ ڈھونڈنے میں لگی ہوئی تھیں کہ اس لڑکی کے ننگے پن کے خلاف سنگھ نے احتجاج کیا ؟ کس منڈلی نے اپنا ورودھ پرکٹ کیا ؟ کس کس نے برامانا ؟کس کس نے برابھلا کہا ................“

کیا وہ لڑکی یہ دکھانا چاہتی تھی کہ وہ آزاد خیال ہے ؟ وہ ایک ایسی تہذیب کی پروردہ ہے جہاں فرد پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے ، کوئی بندھن نہیں ہے ، اسے ہر طرح کی آزادی حاصل ہے ، وہ اپنے اوپر شرم وحیا کی چادر پسند نہیں کرتی ؟ اسے مردوںسے ڈر نہیں لگتاہے ۔ (مانجھی :107,109)

ان تمام باتوں کے ساتھ اس کا اعتراف بھی ہے کہ عورتوں کے پاس دماغ بھی ہے ، سوچ بھی ہے ، لیاقت وصلاحیت بھی ہے ، مگر وہ دماغ سے زیادہ جسم کی نمائش میں یقین رکھتی ہے ۔

بدیسی لڑلی کے کردا ر میں جہاں سادھوں سنتوں کی حقیقت سامنے آگئی ہے ، وہیں میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی کھل کر سامنے آیا ہے کہ اس نے سب کچھ لکھا ، مگر ننگے پن کے خلاف کچھ نہیں ، اس نے ساری باتیں تو کہہ دیں مگر کسی رپورٹر میں اتنی جرات نہیں کہ کسی سے برہنگی کی وجہ دریافت کرے ۔
ضمناً اس ناول میں ایسی ایسی چھوٹی باتوں کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہیں ، جن کی طرف بالعموم نگاہ نہیں جاتی ہے ۔ مثلا ، بیرون ممالک میں ہندوستانیوں کے تئیں کیا معاملات کئے جاتے ہیں ، ہندوستانیوں کے اوپر کیسی ترچھی نگاہیں ہوتیں ، مانو وہ مجرم ہیں یادہشت گرد ۔ توقیر علی سے وی ان رائے کا دلچسپ مکالمہ اس تناظر میں بہت خوب ہے ۔

اسی طرح اس میں ائمہ اور متولیان مساجد کی صورتحال پر بہت خوب روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح متولی حضرات اماموں پرحکمرانی کرتے ہیں اوربیچارے امام کس طرح گھٹ گھٹ کر زندگی تمام کرتے ہیں ، مگر یہی امام مساجد کو خیر باد کہہ کر سائڈ سے کچھ ڈگریاں حاصل کرلیتے ہیں تو روزی روزگار کے سنہری مواقع دستیاب ہوتے ہیں ، مگر دین سے دوری ہونے لگتی ہے ، واقعی سچ، یہ بھی مسلم معاشرہ ایک بڑا المیہ ہے ۔

اس میں یہ بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جہاں کبھی لوگ مذہبی رسومات کی ادائے گی کے لئے جایا کرتے تھے ، وہی جگہ آج عریانیت وفحاشی کا اڈہ بنتا جارہا ہے اور ایسے بے شمار کام ،جس میں اگر خلوص نیت ہو تو ثواب بھی ملے گا ، محض تفریح طبع کے لئے کئے جانے لگے ہیں ، مثلاً ، پرندے کو پونیہہ کی نیت سے دانے دینا بہتر ہے ، مگر لوگ صرف تفریح کی غرض سے اسے دانے دیتے ہیں ، کیونکہ اس کی چھین جھپٹ دیکھنے والوں کو اچھی لگتی ہے ۔ ان تما م باتوں کے ساتھ یہ بھی واضح ہوتا ہے سنگم کے سیر کے دوران سیاح پرندوں کو جودانے دیتے ہیں، وہ دانے صرف پرندوں کے پیٹ کی آگ ہی نہیں بچھاتے ہیں ، بلکہ اسی بہانے بے شمار لوگ روزی روزگار سے جڑگئے ہیں اور کمپنی مالکان دانے کے نام پرحکومت سے مراعات بھی کس طرح حاصل کرتے ہیں ۔

اس ناول میں جہاں راج گھرانہ کے رسم ورواج بلکہ اندھے قانون پر ضرب لگائی گئی ہے ، وہیں جمہوریت کی حدسے زیادہ آزادی کو بھی نشانہ تنقید بنایا گیا ہے ۔ راج گھرانے میں کیسے بڑے بیٹوں کی اولا د کو اہمیت دی جاتی ہے اور اس کے لئے ہر قیمت چکانے کے لئے پورا گھرانہ تیار رہتا ہے ۔ لکھنو کی ایک جھلک دکھاکر بہت عمدگی سے اس پہلو کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

بڑھتی آبادی کے مسئلہ کو زیر بحث لایا گیا کہ ایک چھوٹے کمرہ میں پوری فیملی رہنے کی وجہ سے جائز طریقہ سے بھی جنسی تسکین ممکن نہیں ہوپارہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ نوجوان جوڑے سیر سپاٹے کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کی تسکین کے لئے تاریخی مقامات کا ا نتخاب کرنے لگے ہیں ۔ جہاں بڑھتی آبادی کا مسئلہ زیر بحث ہے وہیں یہ بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آج لوگوں کی جان کتنی سستی ہوگئی ہے کہ بات بات پر آدمی آدمی کو موت کے گھاٹ اتاردیتا ہے اور پیٹ کی آگ کتنی شدید ہوتی ہے کہ پاکیزہ رشتہ کو کھاجاتی ہے ، نیکی کو خاکستر کردیتی ہے ۔

گنگا -جمنا کے سنگم کو سامنے رکھ کر اتحاد کا پیغام دینے کی بھی کوشش کی گئی ہے ، جو کہ ممالک کے ساتھ ساتھ افراد کے لئے انتہائی اہم ہے کہ جب گنگا -جمنا سنگم میں ملتے ضرورہیں ، مگر دونوں کی راہ الگ ہے ، دونوں کو اپنے ہی کام سے سروکارہے ۔

الغرض ملاح ہونے کے باوجود بھی مانجھی کے بلیغ ذہن نے گنگا -جمنا اور سرسوتی کے سیر کے دوران ان چھوٹی موٹی باتوں کی طرف توجہ دلائی ۔ اس ناول کی زبان بھی صاف ہے ، سشتہ اورشگفتہ ہے اور مکالمے بھی چست درست ۔

ناول کی مختصر خصوصیات سلسلہ وار:
ناول کی پہلی خصوصیت: زبان و زبان: اردو ہندی کا آپس میں شیر و شکر ہوجانا۔
ناول کا موضوع: بہت ہی وسیع کینوس پر پھیلا ہوا ہے ۔آپسی اتحاد و اتفاق کی دعوت، مردوزن کا سماجی تعلق اس کا بنیادی موضوع ہے

ناول کی دوسری خصوصیت: آپسی اتحاد: جس طرح گنگا جمنا ایک ساتھ بہتی ہے، باوجود اس کے دونوں کی ظاہری خصوصیت پانی کے اعتبار سے الگ الگ ہے مگر اپنی خصوصیات کو بچاتے ہوئے وہ کس طرح ایک ساتھ چلتی ہے، یہ اس ناول کا بہت ہی باریک نکتہ ہے کہ ہم ہندوستانی بھی چاہیں تو گنگا و جمنا کی طرح اپنی الگ الگ خصوصیت کے باوجود بھی ایک ساتھ گنگا جمنا کی طرح بہہ سکتے ہیں۔

ناول کی تیسری خصوصیت: چھوٹی چھوٹی کہانیوں سے ایک بڑی کہانی کا پلاٹ/خاکہ تیار کرنا کوئی معمولی بات نہیں، غضنفر نے جس طرح سے چھوٹی چھوٹی کہانی کو اپنے ناول کا حصہ بنایا ہے یہ انہیں کا حصہ ہے۔

ناول کی چوتھی خصوصیت: غضنفر صاحب نے اپنے دوسرے ہم عصر ناول نگاروں کے برعکس لفاظی اور غیر ضروری چیزوں سے اپنا دامن بچایا ہے، جبکہ اس ناول کا پلاٹ ایسا ہے کہ وہ چاہتے تو غیر ضروری قصوں میں الجھ سکتے تھے اور ناول کے صفحات میں اضافہ کر سکتے تھے، مگر انہوں نے کمال ہوشیاری سے ایک ماہر فنکار کی طرح صرف انہیں چیزوں کو اس ناول کا حصہ بنایا ہے جو اشد ضروری تھا۔

ناول کی پانچویں خصوصیت: غضنفر صاحب نے ولاس مانجھی کی زبانی اپنے دل کی بات لوگوں کے سامنے رکھی ہے، یہ ولاس مانجھی کوئی اور نہیں خود غضنفر صاحب ہیں۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92514 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More