سعادت حسن منٹو 1952 میں مجلس
اقبال کی دعوت پر گورنمنٹ کالج آئے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی یہ تحریر
پڑھی، طلبا اور اساتذہ سے مکالمہ کیا۔ بعد ازاں یہ تحریری پہلی بار مجلہ ’’راوی‘‘
کی زینت بنی۔ معزز خواتین و حضرات! مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں یہ بتاؤں کہ
میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں۔ یہ ’کیونکر‘ میری سمجھ میں نہیں آیا۔
’کیونکر‘ کے معانی لغت میں تو یہ ملتے ہیں۔ کیسے اور کس طرح۔ اب آپ کو کیا
بتائوں کہ میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں۔ یہ بڑی الجھن کی بات ہے۔ اگر میں
’کس طرح‘ کو پیش نظر رکھوں۔ تو یہ جواب دے سکتا ہوں کہ اپنے کمرے میں صوفے
پر بیٹھ جاتا ہوں۔ کاغذ قلم پکڑتا ہوں اور بسم اللہ کرکے افسانہ لکھنا شروع
کردیتا ہوں۔ میری تین بچیاں شور مچارہی ہوتی ہیں۔ میں ان سے باتیں بھی کرتا
ہوں، ان کی باہم لڑائیوں کا فیصلہ بھی کرتا ہوں، اپنے لیے ’سلاد‘ بھی تیار
کرتا ہوں، کوئی ملنے والا آجائے تو اس کی خاطر داری بھی کرتا ہوں۔ مگر
افسانہ لکھے جاتا ہوں۔ اب’کیسے‘ کا سوال آئے تو میں یہ کہوں گا کہ میں ویسے
ہی افسانہ لکھتا ہوں جس طرح کھانا کھاتا ہوں، غسل کرتا ہوں، سگریٹ پیتا ہوں
اور جھک مارتا ہوں۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ میں افسانہ کیوں لکھتا ہوں تو اس
کا جواب حاضر ہے… میں افسانہ اول تو اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے افسانہ نگاری
کی شراب کی طرح لت پڑ گئی ہے۔ میں افسانہ نہ لکھوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ میں نے کپڑے نہیں پہنے یا میں نے غسل نہیں کیا۔ یا میں نے شراب نہیں
پی۔ میں افسانہ نہیں لکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ افسانہ مجھے لکھتا ہے۔ میں بہت
کم پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ یوں تو میں نے بیس سے اوپر کتابیں لکھی ہیں، لیکن
مجھے بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ یہ کون ہے جس نے اس قدر اچھے افسانے لکھے
ہیں جن پر آئے دن مقدمے چلتے رہتے ہیں۔ جب قلم میرے ہاتھ میں نہ ہو تو میں
صرف سعادت حسن ہوتا ہوں۔ جسے اردو آتی ہے نہ فارسی، انگریزی نہ فرانسیسی۔
افسانہ میرے دماغ میں نہیں، جیب میں ہوتا ہے، جس کی مجھے کوئی خبر نہیں
ہوتی۔ میں اپنے دماغ پر زور دیتا ہوں کہ کوئی افسانہ نکل آئے، افسانہ نگار
بننے کی بھی بہت کوشش کرتا ہوں۔ سگریٹ پہ سگریٹ پھونکتا ہوں مگر افسانہ
دماغ سے باہر نہیں نکلتا۔ آخر تھک ہار کر بانجھ عورت کی طرح لیٹ جاتا ہوں۔
ان لکھے افسانے کے دام پیشگی وصول کر چکا ہوتا ہوں۔ اس لیے بڑی کوفت ہوتی
ہے۔ کروٹیں بدلتا ہوں۔ اٹھ کر اپنی چڑیوں کو دانے ڈالتا ہوں۔ بچیوں کو
جھولا جھلاتا ہوں۔ گھر کا کوڑاکرکٹ صاف کرتا ہوں… جوتے…ننھے منے جوتے جو
گھر میں جا بجا بکھرے ہوتے ہیں۔ اٹھاکر ایک جگہ رکھتا ہوں… مگر کم بخت
افسانہ جو میری جیب میں پڑا ہوتا ہے، میرے ذہن میں نہیں اترتا… اور میں
تلملاتا رہتا ہوں۔ جب بہت زیادہ کوفت ہوتی ہے تو باتھ روم میں چلا جاتا ہوں۔
مگر وہاں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سنا ہوا ہے کہ ہر بڑا آدمی غسل خانے
میں سوچتا ہے لیکن مجھے تجربے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ میں بڑا آدمی نہیں ہوں،
اس لیے کہ میں غسل خانے تک میں نہیں سوچ سکتا… لیکن حیرت ہے کہ پھر بھی میں
پاکستان اور ہندوستان کا بہت بڑا افسانہ نگار ہوں۔ میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ
یا تو میرے نقادوں کی خوشی فہمی ہے یا ان کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہوں۔
ان پر کوئی جادو کررہا ہوں۔ معاف کیجئے گا، میں غسل خانے میں چلا گیا… قصہ
یہ ہے کہ میں خدا کو حاضر ناظر رکھ کے کہتا ہوں کہ مجھے اس بارے میں کوئی
علم نہیں کہ میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں اور کیسے لکھتا ہوں۔ اکثر اوقات
ایسا ہوا ہے کہ جب میں زچ بچ ہوگیا ہوں۔ تو میری بیوی جو غالباً یہاں موجود
ہے آئی اور اس نے مجھ سے یہ کہا ہے ’’آپ سوچئے نہیں، قلم اٹھائیے اور لکھنا
شروع کردیجئے۔‘‘ میں اس کے کہنے پر قلم یا پنسل اٹھاتا ہوں اور لکھنا شروع
کردیتا ہوں… دماغ بالکل خالی ہوتا ہے، لیکن جیب بھری ہوتی ہے۔ خود بخود
کوئی افسانہ اچھل کے باہر آجاتا ہے۔ میں خود کو اس لحاظ سے افسانہ نگار
نہیں، جیب کترا سمجھتا ہوں جو اپنی جیب خود بھی کاٹتا ہے اور آپ کے حوالے
کردیتا ہے۔ مجھ ایسا بھی بے وقوف دنیا میں کوئی اور ہوگا۔ |