ہاں میں چور ہوں

سرد رات اپنے جوبن پر تھی ،دور دور تک پھیلی دُھند نے لوگوں کو گھروں میں ہی محصور کر دیا تھا۔موسم سرما کی راتیں بڑی خاموش اور خوابناک ہوتی ہیں ،ایک طویل خاموشی میں اشرف کے قدموں کی چاپ نے رات کے گہرے سکوت میںخلل ڈال دیا تھا ۔اشرف اپنے پوشیدہ مقصد کی تکمیل کے لےے انتہائی محتا ط قدموں سے اپنی گمنام منزل کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،گلیوں اور سڑکوں پر تفریح کی غرض سے بھونکتے کتوں کی آوازیں آج حیرت انگیز طور پر خاموش تھیں ،آخر کا ر اشرف شہر کے ایک خوبصور ت اور مہنگے علاقے میں داخل ہوا پھر اشرف کی نظروں نے جلد ہی ایک جدید طرز کی بنی ہوئی کوٹھی کا انتخاب کر لیا ،یہ کوٹھی ہی اشرف کی منزل تھی اشرف کوٹھی سے کچھ دور رُک گیا اور کوٹھی کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینے لگا -

یہ ہدف اشرف کو نسبتا آسا ن لگ رہا تھا اشرف کو یہ سمجھنے میںبھی تاخیر نہ لگی کہ اس کوٹھی میں پہرے کی غرض سے چوکیدار بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے ۔خیر کچھ پل سوچنے کے بعد اشرف انتہائی احتیاط کے ساتھ کوٹھی کی چھوٹی سی دیوار پر بلی کی پُھرتی سے چڑھا اور بغیر آواز پیدا کیے نیچے کود گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ایک خوبصورت لان تھا چاروں طرف بنی کیاریوں میں مہکتے ہوئے پودے اپنی جوان اُمیدوں کے ساتھ اپنے وجود کے ہونے کا ایک دلکش احساس دلا رہے تھے ۔کوٹھی میں ایک گہرا سکوت تھا اشرف تیزی سے ایک کمرے کی پشت پر کھڑا ہو گیا اور اپنے کانوں کو کمرے کی دیوار سے لگایا اور اشرف کے تجربے نے بتایا کہ یہاں کوئی نہیں ہے اشرف نے آہستگی سے دراوزے کے ھینڈل کو گھمایا اور خوش قسمتی سے درازہ لاک نہ تھا اگر لاک ہوتا بھی تو اُسے کھولنا اشرف کے لیے مشکل نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔یہ شاید ڈرائینگ روم تھا اشرف نے اپنی چھوٹی سی پنسل نما ٹارچ کو آن کیا اور قیمتی فر نیچر ،دیواروں پر لگی قد آور عظیم شخصیات کی تصویریں اور خوبصورت کلچر کی ترجمانی کرتی رنگین پیٹنگ گھر کے مکین کا اپنے وطن سے محبت و اُلفت کا احساس دلا رہی تھیں --

اشرف نے بجلی کی سرعت سے ڈرائینگ روم میںسجاوٹ کی قیمتی اشیا ءکو ایک جگہ سمیٹنا شروع کر دیا ان قیمتی اشیاءاور ڈیکوریشن پیسز کو بیچنے سے اچھی خا صی معقول رقم ہاتھ لگ سکتی تھی ڈرائینگ روم سے ملحقہ روم ٹی وی لاﺅنج کا نقشہ پیش کر رہا تھا جہاں دیوار پر لگی ہوئی ایک بڑی ایل سی ڈی اٹیچ تھی قریب ہی ایک جدید قسم کا ڈی وی ڈی اور لیپ ٹاپ پڑا ہوا تھا جسے دیکھ کر اشرف کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اشرف نے انتہائی احتیاط سے ڈی وی ڈی اور لیپ ٹاپ کو اُٹھایا اور ایک طرف بنے دو بڑے کمروں کو دیکھنے لگ گیا جو کہ گھر کے مکیوں کی خواب گاہ لگ رہی تھی اشرف زیادہ لالچی نہیں تھا مگر آج اُسے لگ رہا تھا کہ آج کی رات اُسے لکھ پتی کر دے اتنی آسان اور اچھی واردات اشرف نے آج تک نہیں کی تھی ۔

ٹی وی لاﺅنج کے ساتھ ہی کچن تھا جسے دیکھ کر اشرف کے پیٹ میں کتنے ہی دن کے فاقوں کے بعد درد کے شدید گھونسے لگنے شروع ہو گئے اشرف نے تمام اشیاءکو ایک جگہ رکھا اور کچن میں داخل ہو گیا کچن میں گہرا اندھیرا تھا اشرف نے فریج کا دروازہ کھولا تو چکن اور سویٹ ڈش کی مہک نے گویا اشرف کو پاگل کر دیا اشرف نے تیزی سے بُھنا ہوا چکن نکالا اور بغیر روٹی کے اُسے بھوکوں کی طرح کھانے لگ گیا خوب سیر ہو کر کھانے کے بعد اشرف نے چکن اور سویٹ ڈش کو جلدی سے ایک پلیٹ میں ڈالا اور پلیٹوں کو ایک کپڑے میں باندھا اور فریج میں نفاست سے سجے ہوئے پھلوں کو ایک بڑے شاپر میں ڈالنا شروع کر دیا -

اچانک اشرف مڑنے لگا تو اشرف کا ہاتھ شیشے کے جگ سے جا لگا اور جگ چھناک سے نیچے گر کر ٹوٹ گیا اور اتنے گہرے سکوت میں شیشے کے جگ کے گرنے کی آواز دور دور تک پھیل گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شیشے کے جگ ٹوٹنے سے اشرف حواس باختہ ہو گیا اُس کو سمجھ نہیں ا ٓ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اچانک ڈرائنگ روم کے سامنے والے دروازے کے کھلنے کی آواز آئی اور پھر ٹی وی لاﺅنج روشنی میں نہا گیا اور اشرف کچن میں کھڑا اپنی بد قسمتی پر آنسو بہا رہا تھا پھر چند لمحوں ڈرائنگ روم کی مخدوش صورتحال دیکھ کر گھر کے مالک اڈیشنل سیشن جج آفتاب جیلانی نے اپنے چوکیدار بہادر خاں کو آوازیں دینا شروع کر دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند لمحوں بعد بہادر خان آ گیا اور پھر آفتاب جیلانی کے کہنے پر کمروں کو دیکھا اور پھر کچن میں جھانکا تو چور کو پکڑنے میں بہادر خان کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا شور اور افرا تفری کے بھونچال کو سن کر شائستہ جیلانی اور اُس کی جواں سالہ بیٹی کرن اور بیٹا زہیب بھی بیدار ہو گئے ۔۔۔۔۔بہادر خان جو کہ نام کی طرح بہادر اور دلیر تھا اُس نے چور کی خوب درگت بنائی مگر آفتاب جیلانی کے کہنے پر چور کو رسیوں سے باندھ کر ڈرائنگ روم میں بند کر دیا ۔۔۔۔۔

کمبخت چور آ گیا تھا مگر شکر ہے کہ شیشے کے جگ ٹوٹنے کی آواز سن کر میری آنکھ کھل گئی اور چور کو بہادر خان نے پکڑ کر ڈرائنگ روم میں بند کر دیا ہے آفتاب جیلانی نے اپنی گھبرائی ہوئی بیوی اور بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ۔

آپ کو پتا تھا گھر میں چور ہے توآپ باہر کیوں آئے اگر خدانخواستہ آپ کو کچھ ہو جاتا تو ،،شائستہ جیلانی نے انتہائی فکر سے کہا۔۔۔۔ارے نہیں میں جج ہوں کوئی بزدل نہیں جو یوں ڈرجاﺅں بڑے بڑے خونخوار قاتلوں کو سزا دیتے ہوئے میری آنکھوں میں کبھی خوف کی جھلک نہیں آئی یہ تو پھر بھی ایک معمولی چور تھا ۔۔۔۔۔۔۔کرن اور زوہیب کافی گھبرائے ہوئے لگ رہے تھے آفتاب جیلانی نے اپنے بچوں کو اپنے سے بغل گیر کیا اور تسلی دیے ہوئے کہا کہ بچوں مشکل حالات میں گھبرانا نہیں چاہئے پھر آفتاب جیلانی نے پولیس کو کال کر کے ساری صورتحال بتا دی آﺅ آپ سب کی چور سے ملاقات کرواتا ہوں آفتاب جیلانی نے مُسکراتے ہوئے اپنی بیوی اور بچوں سے کہا پھر بہادر خان سے کہا کہ ڈرائنگ روم کھولو اور بہادر خان نے ڈرائنگ روم کھولا اور سب لوگ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سامنے رسیوں سے بندھا ہوا چور صوفے کے پاس پڑا تھابہادر خان کے فولادی ہاتھوں نے چور کی حالت کافی خراب کر دی تھی ہونٹوں سے خون کی آتی ہوئی ایک سرخ لکیر ،ڈر خوف اور مایوسی و مجبوری کی دلدل میں دھنسی ہوئی چھوٹی چھوٹی آنکھیں ،،سانولا سا رنگ ،،رف سے کپڑے جس پرجگہ جگہ لگے پیوند ،سوکھی اور دبلی سی جان میں مشکل زندگی سے لڑتا ہوا کمزور سا جسم ۔۔۔بے رحم حالات کے لگے ہوئے تابڑ توڑ گھونسوں نے نوجوانی میں ہی چور کو مخدوش الحال بنا دیا تھا ۔شائستہ جیلانی اور اُس کے بچے قابل رحم اور افسوسناک نظروں سے چور کو دیکھ رہے تھے ۔۔

کون ہو تم اور کیوں چوری کرنا چاہتے تھے آفتاب جیلانی نے گرجدار آواز میں چور سے پوچھا ۔چور نے آفتاب جیلانی کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا -

آفتاب جیلانی نے دوبارہ پوچھا مگر چور کی جانب سے بدستور خاموشی تھی ۔ٹھیک ہے تم مت بتاﺅ ابھی پولیس آ رہی ہے وہ تم سے سب کچھ اُگلوا لے گئی اور تمہاری اطلاع کے لیے بتاتا چلوں تم نے ایک جج کے گھر چوری کرنے کی جرت کی ہے اس کا بہت برا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا اور میں تمہیں سخت سے سخت سزا دلوا کے رہوں گا ،آفتاب جیلانی نے قدرے سخت لہجے میں چور سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چور نے چونک کر آفتاب جیلانی کو دیکھا اور چور کی آنکھوں سے زار قطار آنسوﺅں کی برسات شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔یہ مگر مچھ کے آنسو مت بہاﺅاس کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہونے والا ہاں اگر تم اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہو تو کہو۔آفتاب جیلانی نے کہا۔۔

چلیں کوئی بات نہیں آپ چھوڑ دیں بیچارے کو اسے دیکھیں تو سہی لگتا ہے یہ کوئی عادی مجرم نہیں بلکہ حالات کا مارا ہوا لگتا ہے ،ابھی اس کی عمر بھی لڑکپن کی حدوں کو چھو رہی ہے ،،شائستہ جیلانی نے آہستگی سے اپنے شوہر آفتاب جیلانی کو کہا۔۔۔بیگم اگر اسے میں نے چھوڑ دیا تو پھر مجھے ان تمام مجرموں کو بھی چھوڑنا ہو گا جن کو میں سزائیں دے چکا ہوں پھر یہ تو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے اس کی جتنی سخت سزا ہو گئی اتنا ہی اس کے حق میں بہتر ہو گا دوبارہ کبھی کسی کے گھر چوری کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا ۔۔آفتاب جیلانی نے غصے سے اپنی بیگم کو کہا۔۔

تھوڑی ہی دیر میں پولیس آ گئی اور چور کو پکڑ کر لے گئی ۔۔۔۔آفتاب جیلانی اس قصے کو تقریبا بھول چکا تھا کہ ایک دن سپرٹنڈنٹ جیل نے آفتاب جیلانی ملاقات کی اجازت چاہی آفتاب جیلانی بھی تمام کیسز کو سن کر فارغ ہو چکا تھا ۔۔۔سپرٹنڈنٹ جیل کو بلایا گیا ۔۔سر کچھ عرصہ پہلے اشرف نامی ایک چور نے آپ کے گھر چوری کرنے کی کوشش کی تھی اور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا کل اُس نے جیل میں زہر کھا کر خودکشی کر لی ہے اور اُس کے ہاتھ میں ایک خظ تھا جس پر آپ کا نام لکھا ہوا تھا کہ اسے آفتاب جیلانی کو پہنچا دینا اور جیلر نے یہ کہتے ہوئے خط آفتاب جیلانی کو دے دیا ۔۔آفتاب جیلانی سناٹے میں رہ گیا اُس معصوم چور کی شکل آفتاب جیلانی کے زہن میں گھومنے لگ گئی آفتاب جیلانی نے خط کو کھولا تو لکھا ہوا تھا ۔۔

محترم جج آفتاب جیلانی صاحب۔۔

اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گئے آپ یقینا مجھے بھول چکے ہوں گئے اور ویسے بھی ہم جیسے مجرموں کو یاد کرنے والی کو خاص بات بھی نہیں ہوتی ۔ جب میں نے آپ کے گھر چوری کی کوشش کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا تو آپ نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں کون ہوں اور کیوں چوری کرنا چاہتا ہوں تو اُس وقت میں نے آپ کو کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔۔۔تو جناب میرا نام اشرف ہے اور میں ایک چور ہوں وہ چور ہوں جس کی پانچ بہنیں گھر میں بیٹھی ہیں وہ چور جس کے غریب باپ کو وقت کے قہر نے نگل لیا اور شریف ماں جو لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی اُسے اعلی گھر کے مکینوں کی سنگدل ٹھوکروں نے مار ڈالا۔۔۔۔بس پھر میں تھا پانچ بہنیں اور ایک چھت اور خدا کا آسرا۔۔ا

ایک میٹرک پاس لڑکا جب گھر سے باہر نکلا اُسے معاشرے کی بے حسی کا اندازا نہ تھا وہ سمجھتا تھا کہ جس کے دو ہاتھ سلامت ہوں تو وہ دنیا تسخیر کر سکتا ہے مگر وہ دھوکے میں تھا جب جگہ جگہ رُسوا ہوا اور زلت کے سوا کچھ نہ ملا پھر مجبور ہو کر مٹی اور گارا اُٹھاتے اُٹھاتے اُس کے ہاتھ بدترین حالات کی طرح سخت ہو گئے ۔۔مگر اتنی محنت کے باوجود وہ مزید کمزور اور مجبور ہو گیا پانچ بہنیں گھر میں پھر معاشرے اور محلے کے انسانیت اور شرافت کے نام نہاد ٹھکیداروں کی گدھ جیسی نظریں میرے گھر کا طواف کرتی تھیں ،جہاں میری بہت کمزور بہت مجبور مگر ایک باغیرت عزت تھی اور انھی عزتوں کی خاطر میں نے تھک ہار کر چوری کو اپنا پیشہ اپنا لیا مگر خدا کی قسم یہ میری ذات کے لےے ہر گز ہر گز نہ تھا اسی چور نے چوری کے پیسوں سے اپنی تین بہنوں کو عزت سے اُن کے سسرال رخصت کیا ابھی دو بہنوں کا بوجھ میرے ناتوا ں کندھوں پر تھا کہ بدقسمتی سے میں آپ کے گھر چوری کرتا پکڑا گیا جناب میں چور ہوں اور یہی سوال میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر میں چور ہوں تو پھر کون چور نہیں ہے ؟ وہ لوگ جو بڑی بڑی گاڈیوںمیں گھومنے والے شاہانہ زندگی بسر کرنے والے بناوٹی و کاغذی اور منافق لوگ جو عوام کا پیسہ چوری کر کے پھر بھی عزت اور ٹھاٹ بھاٹ سے رہتے ہیں وہ چور نہیں ؟ تجارت کی غرض سے بلیک مار کیٹنگ کرتے ناقص اشیاءبیچتے وہ چور نہیں ؟جھوٹ کا کاروبار کرتے چڑھتے سورج کی پوجا اور خوشامد کر کے اپنے مخصوص مفادات حاصل کرتے ہوئے وہ چور نہیں؟دوسروں کو سچائی کا راستہ دکھانے والے پارسا جو دوسروں کا اپنوں کا حق ہڑپ جانے والے چور نہیں ؟ایک کلرک سے لیکر ایک وزیر اعظم تک سب چور ہیں مگر وہ معاشرے کے معزر لوگ ہیں اور میں ایک معمولی چور جس کو سزا و جزا دینے میں معاشرہ اور آپ جیسے منصف زرا بھی تاخیر نہیں کرتے کیونکہ میں ایک کمزور چور ہوں شاید میرے خاتمے سے معاشرے میں پھیلی برائیوں کاصفایا ہو جائے میرا خط آپ کو تب ملے گا جب میری سانسوں کی ڈور جدا ہو جائے گئی ہاں میں مزید اس شرمناک گھُٹن میں جینا بھی نہیں چاہتامیں اطمینان سے مرنا چاہتا ہوں -

ہاں بس ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں میں ایک چور ہوں مگر وہ چور جو معاشرے میںپھیلے تمام چوروں سے بہتر ہے ۔۔۔ہاں میں ایک چور ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خظ کے آخری لفظ نے آفتاب جیلانی کی آنکھوں میں آنسوﺅں کی روانی جاری کر دی ۔۔۔آفتاب جیلانی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔اشرف تم نہیں بلکہ ہم سب چور ہیں ۔۔۔
BabarNayab
About the Author: BabarNayab Read More Articles by BabarNayab: 26 Articles with 24401 views Babar Nayab cell no +9203007584427...My aim therefore is to develop this approach to life and to share it with others through everything I do. In term.. View More