اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان دشمن
ملک کے وسیع علاقوں پہ قابض ہو گئے ہیں تو ایسا کہنا بے جا نہ ہو گا۔جی
نہیں،طالبان،غیر ملکی ایجنٹس یا فرقہ وارانہ گروپ پاکستان کے وسیع علاقوں
پہ قابض نہیں بلکہ یہ لینڈ مافیا ہے جو سرکاری اور نجی زمینوں پہ ناجائز
قبضے کرتے ہوئے ملک کے خاتمے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔پاکستان کی سرزمین پہ
ناجائز قبضے کی یہ کاروائیاں تیزی سے جاری ہیں۔لینڈ مافیا کا زمینوں پر یوں
قبضے کرنا اپنے دور رس نتائج کے حوالے سے بھی ملک کی سلامتی کے لئے اتنا ہی
بڑا خطرہ ہے جتنے بڑے خطرات دہشت گروی اور فرقہ واریت ہے۔لینڈ مافیا کا
سرکاری ،نجی زمینوں پہ قبضے کی کاروائیاں ایسے ہی ہیں جیسے کوئی دشمن ملک
پاکستان کی زمین پہ قابض ہو جائے۔میرے خیال میں ناجائز قبضے کی ان دونوں
قسم کی کاروائیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ملک دشمن یوں کہ یہ اپنے ہی ملک میں
سرکاری ،لوگوں کی زمینوں پر دھڑلے سے قبضے کرتے ہوئے عوام کو ملکی نظام سے
مکمل طور پر مایوس کر رہے ہیںاور اس صورتحال سے عوام اور ریاست کے درمیان
لازمی تعلق کمزور ہو رہا ہے۔سیاسی پشت پناہی کے علاوہ اکثر انتظامیہ
اورپولیس بھی اس معاملے میں لینڈ مافیا کی ’خیر خواہ‘نظر آتی ہے۔ایسے کئی
واقعات میں دیکھا گیا کہ پولیس کی غیر قانونی پشت پناہی سے لینڈ مافیا نے
سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کئے۔جب ظلم ،زیادتی،ناانصافی آپ کو اپنے گھر
کے سامنے نظر آنے لگے تو اس کا مطلب ہے کہ ظلم،زیادتی نا انصافی کی دھونس
آپ کے گھر کے دروازے پہ دستک دے رہی ہے۔
1960ءکی دہائی سے راولپنڈی میں سیٹلائٹ ٹاﺅن کے نام سے ایک شہری آبادی قائم
کی گئی۔اس میں ’اے‘ سے لیکر ’ایف ‘ تک چھ بلاک قائم کیئے گئے۔’اے ‘ بلاک
چاندنی چوک سے شروع ہوتا ہے اور آخری ’ایف ‘ بلاک پیر ودھائی روڈ(آئی جے
پرنسپل روڈ) کے ذریعے اسلام آباد کی حدود سے منسلک ہے۔کچھ عرصہ قبل چند
بااثر افراد نے ’ایف بلاک‘ میں واقع چلڈرن چنار پارک پہ قبضہ کر لیا۔
سرکاری چنار پارک پر لینڈ مافیا کاقبضہ کرانے کے لئے پولیس کی بھاری نفری
بمعہ لیڈیز پولیس موجود تھی۔اس موقع پر نیو ٹاﺅن پولیس سٹیشن کا ایس ایچ او
حقیقتا کسی پنجابی فلم کے ولن کی طرح بلند آواز میں بڑکیں مارتے ہوئے
اہلیان علاقہ کو گرفتار کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔اس موقع پر علاقے کے
ایم این اے سمیت انتظامی افسران کے ٹیلی فون بند رکھے گئے تا کہ کوئی اعلی
رابطہ پنجاب حکومت کے ملکیتی پارک پہ ناجائز قبضے کی کاروائی رکوا نہ
دے۔چنار پارک سیٹلائٹ ٹاﺅن کے ماسٹر پلان کے مطابق پارک ہے اور شروع سے
راولپنڈی میونسپل کارپوریشن کے پاس اس کا انتظام رہا۔میونسپل کارپوریشن کی
طرف سے پارک کی چار دیواری بھی قائم کی گئی تھی اور لینڈ مافیا کے قبضے تک
کارپوریشن کے مالی چنار پارک میں متعین رہے۔
چنار پارک پہ ناجائز قبضہ کرنے والے لینڈ مافیا کے پاس خسرہ نمبر468کی
ملکیت کا عدالتی فیصلہ ہے جبکہ کمشنر راولپنڈی کی تحریری رپورٹ کے مطابق
چنار پارک کا خسرہ نمبر اس سے مختلف ہے۔کمشنر راولپنڈی نے چنار پارک اور
ملحقہ زمین کی دو مرتبہ” Demarcation“ کرائی۔آراضی کی پہلی پیمائش ’ڈی ڈی
آر‘ کہوٹہ اور دوسری ’ڈی ڈی آر‘راولپنڈی نے کی اور کمشنر کو دی گئی دونوں
کی تحریری رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ چنار پارک کی زمین کا
خسرہ نمبر468نہیں ہے ۔حیرت انگیز بات ہے کہ کمشنر کی طرف سے یہ رپورٹ دی
گئی کہ سرکاری چنار پارک کی زمین کا خسرہ نمبر 468نہیں ہے لیکن پنجاب حکومت
کے ملکیتی چنار پارک کو پولیس کی ناجائز پشت پناہی سے لینڈ مافیا کے قبضے
کی غیر قانونی کاروائی پر انتظامیہ نے یوں آنکھیں بند کر لیں کہ گویا ایسا
کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔عدالت میںخسرہ نمبر468کے دعویدار نے غلط بیانی کرتے
ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ خسرہ نمبر468کی زمین اس کے ہی زیر قبضہ اور
زیر کاشت ہے۔اصل میں خسرہ نمبر468ملحقہ دیہی آبادی ’ڈنہ ہردو‘ میں واقع ہے
اور وہاں گھر بنے ہوئے ہیں۔لینڈ مافیا نے ایک عدالتی فیصلے کی آڑ میں قریب
واقع سرکاری چنار پارک کی زمین پرسیاسی پشت پناہی اور پولیس کی ناجائز مدد
سے قبضہ کر لیا۔واضح رہے کہ یہ قانون موجود ہے کہ پارک کی زمین کسی دوسرے
مقصد کے لئے استعمال نہیں ہو سکتی لیکن اس ملک کا المیہ یہی ہے کہ ہر
طاقتور قانون کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے ۔
لینڈ مافیانے پنجاب حکومت کے ملکیتی چنار پارک میں پلاٹ بندی کر کے اسے
فروخت کرنے کی کوشش شروع کر دی۔چنار پورک تو سرکاری ملکیت ہے لیکن اہلیان
علاقہ لینڈ مافیا کے ظلم و زیادتی کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے چلے آ رہے
ہیں اور اسی وجہ سے لینڈ مافیا اب تک پارک میں تعمیرات نہیں کر سکا ۔لینڈ
مافیا نے ایک لاکھ ماہوار پر ایسے مشکوک مسلح افراد کو چنار پارک میں بٹھا
رکھا ہے جو دھڑلے سے وہاں شراب فروخت کرتے اور دوسری غیر قانونی و غیر
اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔علاقے کے شہریوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے
علاقے میں جرائم کو معمول بنا دیا گیا ہے اور علاقے کے شہری اپنی عزت و جان
بچانے کی فکر میں ہیں۔تقریبا 35کروڑ روپے مالیت کا تقریبا سات کنال کا یہ
سرکاری چنار پارک لینڈ مافیا کی ہوس اور حکومت کی نااہلی سے ختم ہونے کو ہے
کیونکہ لینڈ مافیا اب تعمیرات کے لئے نقشے منظور کرانے کی کاروائی میں
مصروف ہے۔یعنی مکانات کے نقشے خسرہ نمبر468 کے منظور کرائے جائیں گے اور
تعمیرات مختلف خسرہ نمبر والی چنار پارک کی زمین پہ کی جائے گی۔واہ قربان
جائیں اس آزاد دیس کے حکمرانوں پہ کہ مختلف خسرہ نمبر کی ملکیت کا عدالتی
فیصلہ رکھنے والا اپنی مرضی کی مختلف زمین پہ قابض ہو جاتا ہے اور جس کا
کام انہیں روکنا ہے وہی اس ظلم کے پشت بان نظر آتے ہیں۔یہ مناظرپاکستان کے
کسی دور افتادہ دیہی علاقے کے نہیں بلکہ راولپنڈی کے پوش علاقے سیٹلائٹ ٹاﺅن
کے ایف بلاک کے ہیں جو دارا لحکومت اسلام آباد سے جڑا ہوا ہے۔ ذرا غور کریں
یہاں یہ صورتحال ہے تو باقی علاقوں میں عوام کس ظلم ،زیادتی اور بے بسی و
بے کسی کے شکار ہوں گے؟ کیا وہ کسی دشمن ملک کی طرح کی زیادتیوں کے شکار
نہیں بنائے جا رہے؟
ایف بلاک میں کافی تعداد میں کشمیری رہتے ہیں ۔چنار پارک پر لینڈ مافیا کے
قبضے کے بعد ایک محفل میں راولپنڈی کے متعدد سابق ناظمین و نائب ناظمین
حضرات سے ملاقات ہوئی۔مجھے دیکھتے ہیں چنار پارک کا معاملہ چھیڑ دیا گیا۔وہ
سب لینڈ مافیا کے حامی تھے ۔میں نے ان سے کہا کہ یہ لینڈ مافیا کی بدقسمتی
ہے کہ چنار پارک کے ارد گرد کے گھروں میں کشمیری رہتے ہیں۔ہمارے وطن کشمیر
پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے اور ہم ہجرت پہ مجبور ہوئے ہیں لیکن ہم نے ظلم
و جبر پر مبنی فیصلہ قبول نہیں کیا اور ہماری جدوجہد نسل در نسل جاری ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ لینڈ مافیا چاہے وہاں تعمیرات بھی کر لے لیکن ہم اس کے
خلا ف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔میں نے مزید کہا کہ اگر خسرہ نمبر 468کی
ملکیت کا عدالتی فیصلہ رکھنے والے متبادل یا قیمت کے لئے حکومت پنجاب سے
رابطہ کرتے تو بہتر تھا لیکن اس کے بجائے انہوں نے مختلف خسرہ نمبر والی
سرکاری چنار پارک کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے ۔اخلاقی طور پر وہ سب میری
گفتگو سے قائل ہوئے۔ اتنے میں انہی میں موجود ایک شخص نے کہا کہ ” وانی
صاحب آپ بڑے سادہ ہیں ،آ پ کو معلوم نہیں کہ یہ زمینیں پہلے ہماری ہی تھیں
،یہ تو گورنمنٹ نے زمینیں آگے پیچھے کر دی ہیں جس سے مسئلے پیدا ہوئے ہیں“۔
اس شخص کی بات پر مجھے دہلی کا نتھو رام یاد آ گیا۔2004ءمیں ایک وفد کے
ہمراہ دہلی جانے کا موقع ملا۔دہلی میں ہمارا قیام ایک ہاسٹل میں تھا۔ شام
کو واپس ہاسٹل پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ ایک شخص پاکستان سے آئے وفد میں
شامل راولپنڈی کے کسی شخص سے ملنا چاہتا ہے۔وفد میں راولپنڈی سے کافی افراد
شریک تھے لیکن سب تھکے ہوئے اپنے کمروں کی طرف چل دیئے ۔میں نے ویٹنگ روم
میں دیکھا تو ایک بزرگ اکیلے سر جھکائے بیٹھے تھے۔ میری رنگت اور زبان سن
کر پوٹھوار ی زبان بولنے والے اس بزرگ نے کہا کہ راولپنڈی کے کسی شخص سے
مجھے ملاﺅ۔ میں نے جواب دیا کہ جناب میں راولپنڈی میں ہی رہتا ہوں اور میری
پیدائش بھی راولپنڈی کی ہے۔وہ بزرگ شاید اپنی پرانی یادوں کے اسیر
تھے۔انہوں نے بتانا شروع کیا کہ ان کا خاندان راولپنڈی میں رہتا تھا۔نتھو
رام نامی اس بزرگ نے بڑے فخر سے مجھے بتایا کہ راولپنڈی کے تمام زمینیں اس
کے خاندان کی تھیں۔ساتھ ہی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگے کہ
راولپنڈی کی زمینیں ہی نہیں وہاں کے لوگ بھی ہمارے ملازم تھے۔میں نے دفاعی
انداز میں فورا کہا نہیں جناب میں ان میں سے نہیں ،میرے والد صاحب کشمیر سے
ہجرت کر کے راولپنڈی آئے تھے۔وہ بزرگ اور بھی بہت کچھ سناتے رہے اور میں ان
کی بزرگی کے احترام میں تابعداری سے ان کی باتیں سنتا رہا۔یہ واقعہ سنانے
کے بعد میں نے لینڈ مافیا کی حمایت کرنے والی راولپنڈی کی ان سیاسی شخصیات
سے کہا کہ اگر پیچھے جانے کی بات کی گئی تو پھر ہمارے شہر کی زمینوں کا
مالک نتھو رام کا خاندان دعویدار بن جائے گا۔ میں شاید ضرورت سے زیادہ سخت
بات کہہ گیا تھا لیکن محفل کے میزبان نے نہایت خوش اسلوبی سے کوئی بدمزگی
پیدا ہونے سے پہلے ہی اس بات کو مزاق کے طور پر لیتے ہوئے ماحول کو ٹھنڈا
کر دیا۔
میں خود ایک عشرہ سے چنار پارک کے خلاف لینڈ مافیا کی چیرہ دستیوں، سیاسی
نمائندوں کی لینڈ مافیا کو درپردہ حمایت،انتظامیہ کا سرکاری زمین پر قبضے
پر آنکھیں بند کر کے یہ بیان دے دینا کہ علاقے میں ” سب جوں کا توں “ ہے
،دیکھتا چلا آ رہا ہوں۔چنار پارک کے محلے سے کئی افراد پارک میں بیٹھے لینڈ
مافیا کے افراد کی ناجائز کاروائیوں کی وجہ سے اپنے گھر فروخت کر کے دوسرے
علاقوں میں منتقل ہو ئے ہیں۔تین افراد لینڈ مافیا کی دھمکیوں ،تشدد اور
دھونس کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے ۔چنار پارک محلے کے ایک ضعیف بزرگ
تو لینڈ مافیا کی کھلی دھونس،ظلم اور انتظامیہ،پولیس ،حکومت کی طرف سے لینڈ
مافیا کے ہی موافق” حکمت عملی“ پر مبنی صورتحال سے اتنے عاجز آ گئے ہیں کہ
آتے جاتے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہوئے اونچی آواز میںیہ دعا یا بد
دعا مانگتے ہیں کہ ” اے اللہ یہاں ایٹم بم گرا دے تا کہ نا یہ ظلم کرنے
والے باقی رہیں اور نہ سسک سسک کر جینے والے ہم لوگ“۔ |