مسلم نوجوان سیاست کا شکا ر نہ ہوں

6دسمبر1992کو جب بابری مسجد شہید کی گئی تھی، تب سب کو معلوم تھاکہ اس کے لیے ملک میں کن فرقہ پرست قو توں نے ماحول سازی کی تھی۔ ممبئی سےلیکر اتر پردیش اور بہار تک میں اس دور میں ہوئے فرقہ ورانہ فسادات نے ملک کے ماحول کو کس حد تک خوفناک بنا رکھا تھا۔ اور ملک بھر میں عام مسلمان کس قدر خوف ودہشت میں مبتلا تھا۔ یاد کیجئے ان نعروں کو جو فرقہ پرست طاقتوں کے ذریعہ لگائے جاتے تھے۔ ’’جو مانگے گا بابری، اس کا دن ہوگا آخری‘، جس ہندو کا خون نہ کھولے، خون نہیں وہ پانی ہے، جو بھگوان رام کے کام نہ آئے،وہ بیکار جوانی ہے‘‘بابر کی اولاد وبھارت چھوڑو‘‘۔اس خوفناک فرقہ پرستی کے دور میں اور ان اشتعال انگیز نعروں کی گونج کے دوران ملک میں جو نسل پیدا ہورہی تھی، وہ آج نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے۔تعلیم حاصل کر کے کچھ کرنے کے لیے میدان عمل میںآرہی ہے یا آنے کو تیار ہے۔تو اندازہ لگایا جانا چاہیے کہ ہماری یہ نوجوان نسل خاص کر مسلمانوں کی نوجوان نسل کے ذہنوں نے اپنے ماحول سے کیسے اثر ات قبول کیے ہیں!

ایسا بالکل نہیں ہے کہ 92-1990کا فرقہ ورانہ ماحول گزرتے وقت کے ساتھ سدھرگیا، سچ تو یہ ہے کہ 1995کے پارلیمانی انتخاب تک فرقہ پرستی دالاماحول پوری شدت سے قائم رہا۔انتخابی کا میابی کے لیے انہیں فرقہ پرست قوتوں نے ،جنہوں نے بابری مسجد شہید کرائی تھی، مسلمانوں کی برہمی اور ناراضگی کو بڑی کامیابی کے ساتھ کانگریس اور اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا رائو (آنجہانی) کے خلاف استعمال کیا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بی جے پی کیسے ملک کے آسمان سیاست پر جلوہ گر ہوئی،۔ وہ دن اور آج کا دن ،بی جے پی لگاتار مضبوط ہوتی رہی ہے۔ جب پہلی دوسری اور تیسری بار1998-1999-2000میں بھاجپا برسراقتدا ر آئی اور لال کرشن آڈوانی وزیر داخلہ بنے۔ تب ملک میں دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ جوسلوک ہوا۔ وہ ہمارے جمہوری ملک کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اس دور میں ہر داڑھی ،ٹوپی، کرتا ،پائجامہ والے کو دیکھ کرننھے،منےمعصوم غیر مسلم بچے بھی اپنی ماؤں سے پوچھتے تھے، ممی یہ آتنک وادی ہے ؟جن پابند شرع مسلمانوں نے یہ دہشت جھیلی ہے ان کی تعداد کروڑوں میں ہے، ہم ان لاکھوں مسلمانوں کی بات نہیں کررہے ہیں ،جنہیں ٹاڈا اور پوٹہ جیسے کالے قانون کا سہا را لیکر دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں برسوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑا یا گیا۔ ہم ان کروڑوں مسلمانوں کی بات کررہے ہیں جنہیں کبھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ بلکہ وہ اپنی روز مرہ ضروریات زندگی کی تکمیل کےلیے ٹرینوں،بسوں میں سفر کرتے تھے۔ اور اکثر مقامات پر اپنی مائوں کی انگلیاں تھامے چلنے والے سیدھے،سا دے ،ننھے معصوم غیر مسلم بچے ان داڑھی ٹوپی والے مسلمانوں کو دیکھ کر پوچھتے تھے،’’ ممی یہ آتنک وادی ہے‘‘

پوچھئے ان سادہ لوح مسلمانوں سے،کہ یہ جملہ سن کر ان کے دل پر کیا گرزتا تھا!سوچئے تب ان کی غیرت انہیں کیسے کچھ کےلگاتی تھی!تب ان کا عزت نفس کس بری طرح مجروح ہوتاتھا!

ایسے خطرناک ماحول میں، ایسے دہشتناک واقعات کے درمیان مسلمانوں کے گھروں میں پرورش پانے والے بچوں ،اسکول ،کالج جانے والے نو نہا لو ںکے ذہنوں پر کون سے اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔؟اس کااندازہ لگانا دشوار نہیں ہے۔ در اصل یہ سب کچھ ایک منظم، سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ رہاہے۔ مسلم نوجوانوں کو نفیساتی مریض بنانے کےلیے بے حد عیاری کےساتھ ملک کا ماحول بگاڑ اگیا اور ایسی کاروائیاں کی گئیں۔ اب پچھلے نو برسوں سے بھاجپا اقتدار سے باہر ہے۔ کانگریس کی قیادت میں یوپی اے کی حکومت چل رہی ہے۔ تب بھی آندھرا پردیش، مہاراشٹر، بہار، مدھیہ پردیش، اتر پردیش،کرناٹک، اور جھارکھنڈ جیسی ریاستوں میں دہشت گردی اور بم دھماکوں کے نام پر کسی ثبوت کے بغیر تعلیم یافتہ اورخوشحال، نوکری پیشہ وکاروبار ی مسلمانوں کی اندھا دھند گرفتاری کا سلسلہ جاری ہے۔ حالانکہ اس دور میں ملک کی عدلیہ پھر بھی انصاف کرتی رہی ہے اور سینکڑوں بے قصور مسلمانوں کو جیلوں سے رہائی نصیب ہوئی ہے۔ لیکن یہ سوال بار بار پوچھا جاتا ہے کہ جھوٹے الزام میں گرفتار مسلمانوں کو جو برسوں جیل کی صعوبتیں ناحق جھیلنی پڑیں، اور اس وجہ سے ان کی اچھی بھلی نوکریاں چلی گئیں، سماج میں انہیں اور ان کے اہل خاندان کو جو ذلت جھیلنی پڑی، ان کے بچوں کو اسکولوں سے دہشت گرد کی اولاد کہہ کر نکال دیا گیا۔اور ان وجوہات سے وہ تباہ وبرباد ہوکر رہ گئے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟اس کے ذمہ دار وں کو آخر کوئی سزا کیوں نہیں ملتی؟

ان حالات اور ان سوالات نے یقیناً ہمارے مسلم نوجوانوں کے ذہنوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف وہ خوف کی نفسیات کا شکار ہیںبلکہ وہ مسلمان ہونے کے سبب ہر جگہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے شا کی بھی ہیں۔ انہں لگتا ہے کہ پو ری محنت سے اچھی تعلیم حاصل کرنے پر بھی انہیں متعصب اور تنگ نظر حکمراں اور انتظامیہ انہیں ان کا حق دینے والی نہیں ہے۔ نو کریوں کے لیے اہل ہونے کے باوجود انہیں ٹر خا دیا جاتا ہے۔ کافی حد تک یہ سچ بھی ہے لیکن مکمل سچ نہیں ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہے کہ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے یہاں آ ئین وقانون کی حکمرانی چلتی ہے، جو تمام شہریوں کو مساوی حقوق عطا کرتا ہے۔ اس لیے مسلمان ار بارب اقتدار کی تمام تر نا انصافیوں،بے انتہا تعصب اورتنگ نظری کے باوجود اپنے آئینی اور قانونی حقوق کی لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ اور یقینا اس لڑائی میں انہیں کوئی بھی فرقہ پرست کوئی بھی متعصب، تنگ نظر شکست نہیں دے سکتا۔ ہمارا عقیدہ ہےکہ شیطان اپنی شیطانی سے کبھی باز نہیں آسکتا، لیکن پختہ ایمان مسلمان کبھی شیطانوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ہم جانتے ہیں کہ سیاست کی گلیوں کےکھیل بے حد نر الےہوتے ہیں۔ خاص طور پر جب اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے انتخاب نزدیک ہوتے ہیں توطر ح-طرح کے سیا سی گل و بو ٹے نمو دار ہو نے لگتے ہیں اور مز یدار بات یہ ہے کہ اس میں ہمارے مسلم سیاستداں بھی برابر ی کا حق ادا کرتے ہیں، ہوسکتا ہے وہ اپنی سادگی اور بھولے پن کے سبب ہی گھاگ سیاستد انوں کی ریشہ دانیوں کا شکار ہوجاتے ہوں۔ چھٹ بھئے مسلمان سیا ستداں کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی کسی کا بھی آلہ کاربن جاتے ہیں۔ اور چونکہ وہ عام مسلمانوں کے درمیان گھلے ملے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی ناسمجھی والی باتوں کو بھی مسلمان آسانی سے تسلیم کرلیتے ہیں۔ لیکن اس کا نقصان کافی دیر پاہوتا ہے۔ ہم جانے انجانے ان باتوں سے ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان بھی متاثر ہوکر اپنامستقبل تباہ کر لیتےہیں۔

یاد رکھئے! اگر آج ہم نے مسلم نوجوانوں کو مایوسی اور محرو می کے دلدل سے نکالنے کی کوشش کرنے کی بجائے انہیں مزید خوف زدہ کر دیا اور ان میں ملک و انتظامیہ کے تئیں زیادہ بد اعتمادی پیدا کردی تو ان کی پوری نسل کا مستقبل چوپٹ ہوجائےگا۔ اور ہم انہیں فرقہ پرست قوتوں کو مضبوط کر نے کا آلہ بن جائیںگے۔ جو ہمارے حقیقی دشمن ہیں۔ آج ضرورت ہے مسلم نوجوانوں میں حوصلہ پیدا کرنے کی، ان کے دلوں سے بد اعتمادی دور کرنےکی۔ان میں اپنا آئینی وقانونی حق حاصل کرنے کےلیے اُٹھ کھڑے ہونے کا ولولہ پیدا کرنے کی۔ وہ کسی سے کمتر نہیں ہیں۔ ان میں بھی وہی قابلیت اور اہلیت موجود ہے جس کی امید کسی بھی دسرے باشعور طبقے سے کی جاسکتی ہے۔ اس لیے ہم کہنا چاہتے ہیںکہ مسلم نوجوانوں کو سیاست کا شکار مت بنائیے۔ اور مسلم نوجوانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ذہنو ں کو کھلا رکھیں، اپنی سوچ ،سمجھ کا استعمال کریں، کسی کے ورغلا نے ،بہکاوے میں نہ آئیں ،کیوںکہ انہیں پرملت کے مستقبل کا دارومدار ہے۔
نہیں ہے ناامیداقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہویہ مٹی تو بڑی زر خیز ہے ساقی
Muzaffar Hasn Ranchi
About the Author: Muzaffar Hasn Ranchi Read More Articles by Muzaffar Hasn Ranchi: 2 Articles with 1159 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.