انسان کی پانچ قسم کی بھوکیں

یہ حکمت ملکوتی یہ علم لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں!

کہتے ہیں کہ کسی نے ایک بھوکے سے پوچھا کہ 2 اور 2 کتنے ہوتے ہیں تو اس نے کہا تھا 4 روٹیاں! سو ہمارا بھی یہی حال ہے۔صوفی لوگ خدا کو تلاش کرتے کرتے مر گئے لیکن خدا نہ ملا۔ عابد لوگ عبادت کرتے کرتے مر گئے لیکن نفس نہ مرا۔ زاہد لوگ زہد کرتے کرتے مر گئے لیکن جنت اور حوروں کی خواہش نہ گئی۔ دولت کے حریص کماتے کماتے مر گئے لیکن ان کی حرص نہ گئی۔ اسی طرح دھوکہ بازلوگ فراڈ کرتے کرتے مر گئے لیکن ان کا پیٹ نہ بھرا۔ یہ ان کی فطرت کی بات ہے۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ جتنے مرضی قانون بنا لو ان میں لوگ چور راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔ اور ان قوانین پر سو فیصد عمل نہیں ہوتا۔ اور اگر کچھ عمل درآمدہو بھی جائے تو جرائم نہیں گھٹتے۔ اسی طرح جتنی بھی اچھی شریعت ہو لیکن فرقے بن جاتے ہیں۔ جتنی بھی وعظ نصیحت کر لی جائے، اصلاح نہیں ہوتی۔اقوامِ متحدہ کا ادارہ سینکڑوں قسم کے دن مناتا ہے مثلاَ یومِ والدہ یعنی ماں کی عظمت کے بارے میں، کبھی یومِ بچگان، کبھی یومِ اساتذہ، کبھی یومِ مزدوراں، کبھی یومِ صحت، کبھی یومِ تعلیم، کبھی یومِ بزرگاں، کبھی یومِ ہمسائیگاں، کبھی یو مِ نسواں اور کبھی یومِ ماحولیات، کبھی یومِ جنگلات، اور کبھی یومِ جنگلی حیات وغیرہ۔۔۔ لیکن حالات جوں کے توں رہتے ہیں اور ذرا بھی سدھار نہیں آتی۔ دراَصل جب تک قانون بہتر نہیں بنائے جائیں گے، وسائل منصفانہ طور پر تقسیم نہیں ہوں گے اور انسانی بھوک اور ضروریات پوری نہیں ہوں گی، یوں ہی ہوتا رہے گا۔ اور کوئی اصلاح نہیں ہوگی۔

دیکھو ، قدرت نے ہر انسان کی فطرت الگ الگ بنائی ہے اور کوئی مانے یا نہ مانے، حقیقت اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے اور اپنا آپ خود منوا لیتی ہے۔ وہ یہ کہ فطرت جیسی ہو تی ہے، ویسی ہی رہتی ہے اور بالکل بھی نہیں بدلتی۔خالق نے کسی کو شریف بنایا ہے اور کسی کو بد معاش۔ کسی کو رحمدل بنایا ہے اور کسی کو سنگدل۔ کسی کو ظالم بنایا ہے تو کسی کو مظلوم۔ کسی کو امیر بنایا ہے تو کسی کو غریب۔ کسی کو صحت مند، طاقتور بنایا ہے تو کسی کو کمزور،معذور ،اپاہج اور بیمار۔ کسی کو عقلمند، چالاک،عیار اور کسی کو سیدھا سادھا، بے وقوف اور بھولا بھالا۔ کسی کو مذہب پسند اور کسی کو آزادخیال۔ چنانچہ کسی کو جتنی بھی اچھی تعلیم و تربیت دے لو ، اور جتنی بھی اچھی صحبت دے لو، تو جب بھی وہ انسان اس صحبت سے نکلے گا اور آزاد ہو گا تو وہ اپنی اصلی فطرت پر لوٹ آئے گا۔ اور اپنی مرضی کے کام کرے گا اور نیکی بدی یا حلال حرام نہیں دیکھے گا۔سو اچھا انسان برائی نہیں کرے گا اور برا انسان اچھائی یا بھلائی نہیں کرے گا۔ اسی لیے جمعہ، جماعت عیدین اور حج وغیرہ تو ہیں لیکن اصلاح اور اتفاق و اتحاد نہیں۔

دیکھو ، انسان بھی ایک طرفہ تماشا ہے۔ یہ اکیلا بھی ہے اور بکثرت بھی۔ اس کے جی میں ہزاروں خواہشات اور آرزوئیں پیدا ہو تی ہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر اور اچھی۔ ایک پوری کرو تو فوراَ دوسری آ کھڑی ہوتی ہے۔ دوسری پوری کرو تو تیسری آ جاتی ہے۔ تیسری پوری کرو تو چوتھی۔۔۔ غرض خواہشات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جو کہ انسان کبھی پورا کر ہی نہیں سکتا اور اس کے دل میں حسرت رہ جاتی ہے۔ بقول غالب:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے

دیکھو ، لڑائیاں حقوق اور ضرورتوں کیلئے ہوتی ہیں کیونکہ انسان کی فطرت مختلف پہلو رکھتی ہے۔ اس کی فطرت کے تاریک پہلو میں منفی سوچ، حرص، حسد، لالچ، خود غرضی، خود نمائی، خود پسندی، فخر، غرور، تکبر، ہٹ دھرمی،گلہ،خوشامد،غیبت اور اناپرستی وغیرہ ہیں۔اور پھر انسان کی پانچ قسم کی بھوکیں ہیں جو اس نے ہر صورت میں مٹانی ہیں۔ جب تک اس کی یہ پانچ قسم کی بھوکیں پوری نہیں ہوں گی، اسے چین نہیں آئے گا۔

• روح کی بھوک: کی غذا ہے اللہ تعالٰی کی پہچان، اس کی محبت،اس کی تعریف، اسکی عبادت اور اس کے دیدار کی خواہش۔
• جسم کی بھوک: کی غذا ہے روٹی، پانی،ورزش اور آرام،نیند وغیرہ۔
• ذہن کی بھوک: کی غذاہے علم اور معلومات۔
• قلب کی بھوک: کی غذا ہے پیار،دلی محبت، اور اچھا اخلاق۔
• نفس کی بھوک کی غذا ہے آزادی، طرح طرح کی مرغوبات اور شہوات۔ یعنی اگر مرد ہے تو اس کے نفس کی غذا عورت ہے اور اگر عورت ہے تو اس کےنفس کی غذامرد ہے۔ اس لیے شریعت نے شادی کو جائز کہاہے بلکہ ضروری قرار دیا ہے۔

چنانچہ جب تک انسان کو یہ ساری غذائیں نہیں ملیں گی اور اس کی ہر قسم کی بھوک دور نہیں ہو گی اسے آرام نہیں آئے گا۔ اس لیے یہ تمام چیز یں حاصل کرنا اس کا حق ہے کیونکہ یہ بھوکیں اس کی فطرت میں رکھی گئی ہیں اور حقوق النفس کا یہی مطلب ہے۔ اگر یہ چیز یں اسے نہیں ملیں گی تو وہ مطمئن اور سیر نہیں ہوگا۔ اور جب تک وہ مطمئن اور سیر نہیں ہوگا اس وقت تک اسی طرح ہوتا رہے گا، چاہے جتنے بھی سخت قانون بنا لو اور چاہے جتنی بھی سخت سزائیں دے لو۔ جرائم، غلطیاں اور گناہ انسانوں سے ہوتے رہیں گے۔ میں تمام مذہبی راہنماوں سے، علماء کرام اور مشائخِ عظام سے، والدین سے، اساتذہ کرام سے،سیاسی لیڈروں سے، اربابِ اختیار سےسے، حکومتِ وقت سے، اور اقوامِ متحدہ سے دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ وہ انسانوں کی ہر قسم کی بھوک اور ضروریات کا پورا کرنے کا بندوبست کرے، ورنہ یوں ہی ہوتا رہے گا۔ اور جنگل کا قانون اور ظلم و ستم چلتا رہے گا۔ چوریاں، ڈاکے، قتل، زنا ہوتے رہیں گے، خواہ آپ لوگوں کونمازیں پڑھواتے، روزے رکھواتے، حج کرواتے ، خطبے دیتے اور وعظ نصیحت کرتے رہو۔ چاہے جتنے سخت قانون بنا لو، لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دو، لوگ فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ سب کرتے رہیں گے جو کسی طرح بھی معاشرے کیلئے اچھا نہ ہو۔ چاہے انہیں قبر میں عذاب کا ڈر سناوَ ، یا دوزخ کی آگ دکھاوَ، وہ باز نہیں آئیں گے۔ علامہ اقبال نے فرمایا ہے:
کہتا ہوں وہی بات جسے سمجھتا ہوں حق
نے ابلہ ءِ مسجد ہو ں نہ تہذیب کا فرزند
اور مرزا غالب نے کیا خوب فرمایا ہے:
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
Talib Hussain Bhatti
About the Author: Talib Hussain Bhatti Read More Articles by Talib Hussain Bhatti: 33 Articles with 51998 views Talib Hussain Bhatti is a muslim scholar and writer based at Mailsi (Vehari), Punjab, Pakistan. For more details, please visit the facebook page:
htt
.. View More