جواں فکر شاعری

ڈاکٹر تابش مہدی

ہندستان کی ریاست مہاراشٹر کے خطّہ خاندیش کا شہرمالیگاوں کئی اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے۔ علمی و ادبی مراکز سے دور ہونے کے باوجود اِس شہر نے علم وادب کے حوالے سے بڑے اہم کارنامے انجام دیے ہیں اور بے شمار ایسی شخصیتیں پیدا کی ہیں ،جنھوں نے شعرو ادب اور تنقید وتحقیق کی دنیا میں اپنی ایک پہچان بنائی ہے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور روز افزوں ہے۔ جناب محمدیوسف رانابھی مالیگاوں کی مٹّی سے تعلق رکھتے ہیں اور اِس جواں عمری میں شعرو ادب کی بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیں۔

جناب محمدیوسف رانا پیشے کے طورپر ایک صحافی ہیں۔ مختلف اخبارات سے نامہ نگار، خبر رساں اور کالم نویس کے طورپر ان کی وابستگی ہے۔ چوں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں موزونیِ طبع کی دولت سے بھی سرفراز کیاہے، اس لیے اپنی تمام معاشی و فاخانگی ذّمے داریوں کے باوجود نہ صرف یہ کہ مشقِ سخن کی طرف سے غفلت نہیں برتتے، بل کہ مسلسل غزلوں اور نظموں کے ذریعے اپنی قدرتِ کلام کے جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔ اپنی غزلوں اور نظموں سے وہاں کی شعری وادبی محفلوں اور پبلک مشاعروں کو بھی زینت بخشتے رہتے ہیں، جن کی رپورٹیں اخبارات ورسائل کے ذریعے سامنے آتی رہتی ہیں اور باقاعدہ طورپر مختلف رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔

جناب محمدیوسف راناجواں عمربھی ہیں اور جواں فکر بھی اور ان سب کے ساتھ ساتھ جواں عزم و حوصلہ بھی۔ جب ہم ان کی شعری کاوشوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ چیزیں بہت واضح طورپر ان کے ہاں نظر آتی ہیں۔ ان کا ہر شعر ان کی جواں سالی، جواں فکری، جواں عزمی اور جواں حوصلگی کامظہرہے۔ لیکن خواہ وہ جواں عمری و جواں سالی کے تقاضے ہوں، خواہ جواں فکری یا جواں عزمی و جواں حوصلگی کے ان میں صالحیت اور صلاحیت دونوں چیزیں ملتی بہ درجہ اتم ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جو تخلیق کار کو کمالِ عروج و بلند سے بھی سرفراز کرتے ہیں اور اُسے پستی و رسوائی سے بھی دوچار کرتے ہیں۔
آگ کا دریا بن جاتاہے پھولوں کا اک گل دستہ
حرص کا جذبہ بڑھ جاتاہے، جب قلبِ انسانی میں

چاند اُگا تو ہم سوئے تھے، خواب کے اندر ہم کھوئے تھے
غور کرو کیا ہم نے گنوایا، پل بھر کی نادانی میں

یاد رکھے گا کیسے زمانہ تم کو کیسے ڈھونڈے گا
نقش نمایاں چھوڑدو اپنا کچھ تو سراے فانی میں

آج پانی پانی ہے، عشق فرطِ غیرت سے
حُسن دیکھ سڑکوں پر بے نقاب آیا ہے

وہ کوئی اور ہوں گے جن کی قیمت کچھ نہیں لیکن
جو یوسف ہیں ہمیشہ اونچے ہی داموں میں رہتے ہیں

لاغر پیڑ سے اکثر پتّے رشتہ توڑ کے جھڑتے ہیں
جو بھی کرنا ہے کرگزرو، یارو دورِ جوانی میں

سوزش غم کا ہر انگارا میرا ہے
مہکا مہکا پھول سا لہجہ تیرے نام

اختصار کالحاظ رکھتے ہوے صرف سات اشعار نقل کیے گئے ہیں۔ آپ یہ محسوس کےے بغیر نہیں رہیں گے کہ ان میں صالحیت اور صلاحیت دونوں فنّی عناصر کارفرما ہیں۔ چوں کہ جناب محمدیوسف راناپیشہ ور صحافی بھی ہیں، ہر وقت مختلف النوع خبروں سے اُنھیں سابقہ آتا رہتا ہے اور نئے نئے حالات ان کے سامنے آتے رہتے ہیں اور ان کے سلسلے میں وہ سوچتے اور غورو فکر کرتے رہتے ہیں، اس لیے اِس قسم کے اشعاربھی ان کے ہاں اچھی تعداد میں ملتے ہیں:
دھوپ کی حکومت ہے، دور تک جزیرے پر
تشنگی کو بھڑکانے اک سراب آیا ہے

یہ بھولی بھالی جنتا اس کو بھی اِحساں سمجھتی ہے
کئی وعدے ہیں جو سرکار کی باتوں میں رہتے ہیں

اگر ہم متحد ہوجائیں گے اپنے مسائل پر
یہ دعویٰ ہے ہمارا، راج دھانی بول سکتی ہے

مسجدوں ہی تہذیب مرا ناموس مگر
مسجد، گرجا، اور شوالا تیرے نام

قارئین کا یہ رائے قائم کرنا مناسب نہیں ہوگاکہ جناب محمدیوسف رانا جواں سال و جواں فکر ہونے کے باوجود صرف سیاسی، صحافتی اور اصلاحی و تعمیری موضوعات کو ہی شعرو غزل کے پیراے میں پیش کرنے کے قائل ہیں اور تغزل کی روایت سے ان کی شاعری یکسر محروم ہے۔ ان کے ہاں اس قسم کے اشعار بھی بہ کثرت ملتے ہیں، جن سے ان کی شاعری میں حقیقی تغزل کی نشاں دہی ہوتی ہے:
چاندنی کے پہلو میں ماہ تاب آیا ہے
راہ کے درختوں پر پھر شباب آیا ہے
کتنا مضمحل سا ہے آج یوسف نالاں
آج بزمِ خوباں سے لاجواب آیا ہے

چین کا سایہ ڈھونڈنے والو ان کی زلفیں کھلنے دو
پھر تم کہنا اس سایے سے بہتر کوئی سایہ ہے

چاند، ستارے، سورج، جگنو، ڈوبے ہیں حیرانی میں
دیکھ کے تیرے روے حسیں کو آگ لگی ہے پانی میں

خوش بو، تتلی، پھول، شفق، مہتاب، غزل
موسم کا ہر رنگ سنہرا تیرے نام

لفظوں کی اک دنیا میرے نام مگر
بحرِ غزل کا قطرہ قطرہ تیرے نام

بلاشبہ جناب محمدیوسف راناکی شاعری میں فکر کی جوانی بھی ہے اور عزائم کی بلندی بھی اور تغزل کی روایت کی پاس داری بھی۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو کسی ایک شاعر کے ہاں کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ امید ہے کہ جناب محمدیوسفرانا اِسی طرح مشق و مزاولت کرکے اپنی شاعری کو فکر وفن کی بلندی سے ہم کنار کرتے رہیں گے۔

میں جناب محمدیوسف راناکے مجموعہ سخن کی اشاعت پر تہ دل سے ہدیہ تبریک پیش کرتاہوں اور ان کے بہترین شعری و ادبی مستقبل کے لیے دعا گو ہوں۔
Mohammed Yusuf
About the Author: Mohammed Yusuf Read More Articles by Mohammed Yusuf : 5 Articles with 5924 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.