عصری حسیت کا ترجمان"کسک"

ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی،مالیگاوں

ایک بیدارمغز صحافی سرد و گرم چشیدہ ہوکر کندن بن جاتا ہے۔ پھر جب اس کا اشہب قلم میدانِ شاعری میں دوڑنے لگتا ہے تو اس کے حساس تفکرات آنکھوں کو شبنم اور دل کو غنچے میں بدل دیتے ہیں۔ وہ معاشرتی احوال و آثار کو جب شاعر کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس کا مشاہدہ بڑا عمیق اور متنوع ہوتا جاتا ہے۔ وہ بڑی جرات مندی اور دیانت داری سے اپنے شعر ی اظہار کی ترسیل میں بانکپن لاتے ہوئے اپنے اشعار کو عصری حسیت کا جامع آئینہ دار بنا کر زیب قرطاس کرنے میں کامیابی حاصل کرتا نظر آتا ہے۔روزمرہ کے سلگتے ہوئے مسائل کی گتھیاں ، سیاسی بازی گروں کی شعبدہ بازیاں ، تعلیمی مافیاوں کی ہٹ دھرمیاں ، گھریلو حالات کی سفا ک سچائیاں اور علمائے سو ءکی بے ہنگم لن ترانیاں جیسے حساس معاشرتی موضوعات و خیالات کو خوب صورت لفظیات ، مترنم بحروں ، اچھوتی ردیفوں اور البیلے استعارات کے جِلو میں ابھارنے کی جو کامیاب کوشش محمد یوسف راناصاحب(مالیگاؤں ناسک مہاراشٹر، انڈیا،موبائل:08149902086،Email:[email protected]) نے کی ہے وہ لائق تحسین ہے۔ پیش نظر مجموعہ"کسک" میں شامل غزلیات اس بات کی گواہی دیتی نظر آتی ہیں ۔ع
مدتوں سے مل رہا ہے زخم تازہ پھول سے
بچ نہ پائے گھر کے اندر بھائی کے ترشول سے
اے خدا کردے میسر فیس کے پیسے مجھے
آج پھر بچے کو لوٹایا گیا اسکول سے

مکاں بھی بٹ گیا بھائی الگ کمروں میں رہتے ہیں
مگر دنیا سمجھتی ہے کہ ہم اپنوں میں رہتے ہیں
انھیں مت چھیڑنا ورنہ فنا ہوجائے گی دنیا
جو اکثر رات کے پچھلے پہر سجدوں میں رہتے ہیں

نگاہیں ناز کرتی ہیں شباہت مسکراتی ہے
ترے ہونٹوں کو چھوتا ہوں تو لذت مسکراتی ہے
کسی مہمان کے آتے ہی دستر خوان پر میرے
غریبی رقص کرتی ہے تو برکت مسکراتی ہے
کبھی ساون کی بارش میں چراغ یاد جلتاہے
کبھی خوابوں کی چلمن سے قیامت مسکراتی ہے
میں جب بھی ماں کے تلووں کو لگالیتا ہوں آنکھوں سے
مرا دیدار کرتی ہے تو جنت مسکراتی ہے

محمد یوسف رانانے"ماں" کے موضوع پر بھی انھوں نے درجنوں شعر قلم بند کیے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ اس مقدس موضوع کو ادا کرنے میں انھوں نے اپنی قوت متخیلہ سے جو دل کش اظہاریہ پیش کیا ہے اس میں کہیں کہیں ایسی بَلا کی جدت و ندرت دکھائی دیتی ہے کہ بے ساختہ داددینے پر طبیعت آمادہ ہوجاتی ہے ۔ع
محبت کے دریچوں پر شکایت رقص کرتی ہے
بچھڑے والے تری ہر عنایت رقص کرتی ہے
شریف النفس عورت ہے اسے مت دیکھنا لوگو!
سر بازار رسی پر ضرورت رقص کرتی ہے
میں جب بھی ماں کی عظمت کو رقم کاغذ پہ کرتا ہوں
قلم سجدے میں گرتا ہے عقیدت رقص کرتی ہے

محمد یوسف راناچوں کہ ایک صحافی ہیں اس لیے وہ اپنی شاعری کے موضوع کو اور بھی وسیع کرسکتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ اپنے سوچ کینوس کو اور پھیلاتے ہوئے اپنے شعری اظہاریے میں مزید وسعت لائیں۔ محمد یوسف راناکا اقدار پر مرقومہ شعری اظہاریہ اگر شاعر اور قاری کی زندگی میں شامل ہوجائے تو یہ شاعر کے لیے دوہری کامیابی بن سکتا ہے ۔
Mohammed Yusuf
About the Author: Mohammed Yusuf Read More Articles by Mohammed Yusuf : 5 Articles with 5925 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.