کیا کھیل ختم ، پیسہ ہضم ہو گا ؟

اللہ مغفرت فر مائے، میرے مر حوم والد صاحب کی جو کسی بھی نا خو شگوار واقعہ کے خاتمے کے بعد عمو ماً کہا کرتے تھے کہ ” کھیل ختم پیسہ ہضم “ بچپن کی اس دور میں مجھے اس مختصر سے جملے کی سمجھ نہیں آ تی تھی۔مگر اب زند گی کی چو نسٹھ بہا ریں دیکھنے ، گذ شتہ پا نچ سالوں میں وطنِ عزیز پر قابض حکمرانوں کے کھیلے گئے کھیل کو دیکھنے اور ا ب ان کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد سمجھ آئی کہ ’کھیل ختم، پیسہ ہضم‘ کا مطلب کیا ہے ؟ کیو نکہ اب کھلی آ نکھوں سے ہم نے دیکھا اور پر کھا کہ کس طرح زرداری اور ان کے ہم پیالہ و ہم نوالوں نے گذ شتہ پانچ سالوں کے دوران ’پیسے پیسے‘ کا کھیل کھیلا۔اور اب اس کھیل کے آ خری لمحات میں بھی کیاکیا داؤ پیچ کھیلے جا رہے ہیں۔بجلی گیس کی بندش،ہو شر با مہنگائی،لا قا نو نیت، دہشت گردی ،بے روز گاری ،ملکی خزانے کی لو ٹ مار اور وڈیروں، جاگیرداروں کے ہا تھوں غریبوں کی تو ہین و تذ لیل بھگتنے والے عوام ہی جا نتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا؟۔

پانچ سال ایک طویل عرصہ ہے خصوصا جب کو ئی کسی مصیبت اور مشکل میں گر فتار ہو۔یہی وجہ ہے کہ غریب اور متو سط طبقہ پر اس پانچ سالوں کا ایک ایک دن بھا ری رہا۔ان پانچ سالوں میں ایک دن بھی کسی خو شی کی خبر نہیں سنی بلکہ آ ئے دن مہنگائی کے بم ان پر گرتے رہے۔لوگ ان سے پہلے ڈا کوﺅ ں اور چوروں کو بھول گئے کیو نکہ انہوں نے اتنے نا دیدے پن کا مظا ہرہ نہیں کیا تھا،جیسے اب کے حکمرانوں نے کیا۔یہاں تک کہ جاتے جاتے آ خری روز سرکاری تعطیل منسوخ کر کے لوٹ مار، غیر قانونی تقرر و تبادلے اور سرکاری خزانے کی بندر با ٹ جا ری رکھی۔کسی کو شرم آ ئی نہ حیا۔وضاحت کے لئے صرف ایک ہی مثال کافی ہے۔قومی اسمبلی کی اسپیکرفہمیدہ مرزا صا حبہ نے اسمبلی تحلیل ہو نے سے صرف چاردن پہلے یعنی بارہ مارچ کو قومی اسمبلی کے فنا نس کمیٹی کا اجلاس بلایا۔اجلاس میں مسلم لیگ (ن)، اے این پی اور ایم کیو ایم کے نمائندے بھی شامل تھے۔اسپیکر صا حبہ نے اپنے لئے ایک پیکیج پیش کیا،جس کی منظوری بصد ادب و احترام تمام ممبران نے دی۔اس پیکیج کے تحت اسپیکر صا حبہ کو تا حیات ایک لاکھ رو پیہ ما ہوار خرچہ سرکا ر دے گی۔ علا وہ ازیں انہیں تا زندگی سرکار کی طرف سے سولہ سو سی سی گا ڑ ی، ایک ڈ رائیور، ایک نا ئب قا صد، ایک ا پر یٹر، ایک چو کیدار اور ایک پی اے بھی دیا جا ئیگا۔گویا وہ جب تک زندہ ہے، قومی خزانے پر بو جھ بنی رہیگی۔ اب بھلا ان سے کو ئی پو چھے کہ تم نے اس ملک کے لئے یا اس قوم کے لئے کیا ہی کیا ہے ؟ پانچ سال میں تین سال تو تم بیرونِ ملک سیر سپا ٹے کرتی رہی ہو، ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرتے نظر آ ئے۔پھر ظلم کی انتہا دیکھو،اسپیکر صا حبہ نے صرف مذکورہ پیکیج ہی منظور نہیں کروایا بلکہ اس آ خری اجلاس میں اپنے بیرونی دوروں کی مد میں ڈھا ئی کروڑ روپے کے ا خراجات بھی اپنے لئے منظور کروائے۔امریکہ میں علاج کے بیس لاکھ اور عمرے کے چار لاکھ روپے الگ منظور کرائے۔حالانکہ اسپیکر صا حبہ خود کئی شوگر ملز کی مالک ہے۔اور ان کے نو کروں چا کروں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ یہ تو ایک مثال ہے ان کی جماعت کی دیگر لو گوں کے کا رنا مے اس سے بھی بڑے ہیں۔اب جاتے جاتے بھی ایسی لو ٹ مار کی۔کہ ملک کی اقتصادی، معاشی اور سیاسی شکل کو اتنا بگاڑ دیا اور مسائل و مشکلات کے اتنے بڑے بڑے انبار لگا دئیے ہیں جسے سوچ کر دل ڈوبنے لگتا ہے۔

آ خری وقت تک حکومت ایسے فیصلے کرتی رہی جس کا کو ئی بھی ملک کا خیر خواہ سوچ بھی نہیں سکتا۔اربوں روپے قومی خزانہ سے نکلنے کا حکم دیا گیا۔اپنے اہم مہروں کو جن کے بارے میں خطرہ ہے کہ کہیں وہ دھر نہ لئے جا ئیں اور سچ اگلنا نہ شروع کر دیں،ان کو سرکاری تحفظ دینے کے ا علانات کئے گئے،کسی کو صدر کا معا لج بنا کر ایوانِ صدر میں پنا ہ دی جا رہی ہے اور کسی کو ملک سے بھا گنے کا مو قعہ دیا جا رہا ہے۔

گویا آ خری وقت میں خوب دھما چو کڑی ہو رہی ہے۔حکو مت کے ادا کار اپنے اپنے حصے کا مالِ غنیمت سمیٹ کر بھاگنے کی سوچ رہے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قوم ان کے لوٹ مار کو بھلا کر آ گے سفر جاری رکھے ؟ یا ان لوٹ مار کرنے والوں کو احتساب و انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کو شش کرے ؟اگر کو ئی کہے کہ بھلا دینا ہی بہتر ہے تو پھر آنے والی حکومت کو بھی سارے راستے کھل جا ئینگے ، ان کو بھی کو ئی روک نہ سکے گا۔اور اگر اس طرح کے بے دریغ لو ٹ مار کا حساب کتاب نہ لیا گیا تو کس طرح اس ملک کی کشتی کو چلایا جا ئیگا اور کنارے لے جا یا جائیگا ؟اِس وقت سارے سیاسی مگر مچھ اس کو شش میں لگے ہو ئے ہیں کہ ایسے بے ضررلوگوں کو عبوری حکومت دی جائے جو کسی بھی قسم کا احتساب کرنے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں۔کھیل ختم ہو نے کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی ہضم کیا جائے مگر ایسا ہو نا نہیں چا ہئے بلکہ ملکی خزانے پر ڈاکہ ڈالنے ،ایوانِ صدر میں پناہ لینے ،اور راہِ فرار اختیا ر کر کے اپنے آ پ کو ملک بدر کرنے والے لٹیروں کو گھیر کر پیسہ ہضم کرنے کا مو قع ہر گز نہیں دینا چا ہئیے۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 286264 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More