علماء حق زندہ باد ۔اہل حدیث
مردہ باد ....نعرہ بازی ہورہی تھی ،لوگوں کے ہجو م کو چیڑتاہوا ہم قریب
آگئے، پوچھا: بھائی کیاہوا؟ ایک بوڑھے میاں بولے :نماز نہیں ہوئی، ہم نے
کہا :کیوں ؟ کہنے لگے: امام صاحب نے زور سے آمین کہی اوردعا بھی نہیں کرائی
،ہم نے کہا: ایساکچھ نہیں، آپ سب آرام سے بیٹھ جائیں اورشانتی کا ماحول
بنائے رکھیں ۔ بے چاری عوام، بوڑھے بزرگوں اور نوجوانوں کو توہماری بات
سمجھ میں آگئی ؛لیکن نعرہ بازی کرنے والے دین کے ٹھیکیداروں اور اسلام کے
نام پر مرمٹنے والے جان نثار،نام نہاد مولویوں کوہماری بات بہت بری لگی،
گالیوں سے اپنی زبان خود گندی کرنے لگے ،ضمیر فروش اورنہ جانے کیاکیا الفاظ
ان کی زبان سے اداہوکر ان کے دل کی ترجمانی کرر ہے تھے، ہم نے صرف اتنا کہا
:کہ جلسے کے ماحول کو خراب نہ کریں، اتنا سننا تھا کہ غصہ سے ان سبھوں کے
چہرے لال پیلا ہوگئے ، قریب تھاکہ بھوکے شیر کی طرح ہم پر ٹوٹ پڑتے؛ مگر
جلسہ کی کمیٹی کے نوجوانوں نے جب کہا: کہ پکڑوان کو ،تونعرہ بازی کرنے والے
یہاں سے تو فرار ہوگئے؛ لیکن سب بن بلائے مہمان اسٹیج پر براجمان ہوگئے ۔
علاقہ سیماچل بالخصوص امور،بیسہ اسمبلی حلقہ میں مسلمانوں کی بہت ہی زیادہ
کثرت ہے؛ لیکن مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود مسلمانوں کی اپنی کوئی
شناخت نہیں ہے ،جہالت عام ہے، تعلیم کی شرح 28فیصد سے زیادہ نہیں ہے ،
اسکول و کالج میں پڑھنے کا رواج بہت کم ہے ،چھوٹے چھوٹے مدارس اورمکاتب ہیں،
لیکن زمانہ سے ہم آہنگ تعلیم کی کمی ہے؛ چندسال سرکار ی مدرسوں اور
مکتبوںمیں پڑھنے کے بعد ہمارے یہی بچے ممبی، مہاراشٹر ،ہریانہ، پنچاب کا رخ
کرتے ہیں، اس طرح علاقہ کے مسلمانوں کو دووقت کی روٹی تونصیب ہوجاتی ہے ؛لیکن
تعلیمی، اقتصادی، سیاسی اعتبار سے ان کی اپنی کوئی پہنچان نہیں بن پائی ہے
۔
لیکن خوشی کی بات یہ ہے :کہ یہاں کی عوام کو شروع سے ہی علماءکرام پر بہت
ہی زیادہ اعتماد رہاہے ،ان کی ایک ایک بات پریہ ہمیشہ مرمٹنے کیلئے تیاررہے
ہیں، انہوںنے جوکچھ کہا ،جب کہا، یہاں کی عوام نے لبیک کہی؛ اوربے چارے
علماءکرام نے بھی ان سے خوب خوب فائدہ حاصل کیا، ہمیشہ مسلک کی بات کی،
کبھی بھی مسلمانوں کو مسلمان بنانے کی فکر نہیں ہوئی، یہ بے چارے تبلیغی
جماعت والوں کا کرم ہے کہ جس طرح بھی ہو ان کی محنت وکوشش سے علاقہ میں کچھ
اسلام نظر آرہا ہے، اوروہ لوگ جونماز، روزہ سے کوسوں دور تھے وہ مسجد میں
بھی آنے لگے ہیں، اور رمضان المبارک کے مہینہ کا وہ سب روزہ بھی رکھ رہے
ہیں ۔
اقتصادی اعتبار سے علاقہ کے مسلمانوں کی حالت بہت ہی زیادہ خستہ ہے، اکثر
مزدور، کسان اورکھیتی باڑی کرنے والے لوگ ہیں، علاقہ سیلابی ہے ، سمند ر کی
طغیانی کا خطرہ بھی دامن گیر رہتا ہے، ندی کی زد میں آکر تنکوںکی طرح بسے
بسائے گھرمنٹوں میں بہہ جاتے ہیں اورلہلہاتے کھیتوں کا برباد ہوجانا توایک
عام سی بات ہے ؛ اسلئے بے چاری عوام کوا س وقت بڑا جھٹکہ لگتاہے: جبکہ پھل
کٹنے کا موسم ہو اوردرخت میںپھل ہی موجود نہ ہو ۔
سیاسی اعتبار سے یہاں کے مسلمان بے دست وپا ہیں: اسلئے کہ شروع سے ہی ان کا
استحصال ہوا í اور ووٹ بینک کی طرح ان کا استعمال ہوا ،بے چاری عوام کا کیا
قصور ہے ؟جن پر انہیں اعتماد تھا، انہوںنے کبھی بتایا ہی نہیں کہ ووٹ کی
کیاحیثیت ہے اورجمہوریت کا مطلب ہے ؟ایک ووٹ کے ذریعہ ہم کیا سے کیاکرسکتے
ہیں؛ اسلئے سیاسی آقاﺅں نے بھی اپنی قسمت خوب چمکائی، یہاں کے لوگوں کو
سرجاپوری برادری، بنگالی اورکھُٹّا برادری میںبانٹ کر علاقہ کے وہ ہیرو بنے
رہے ۔
ہرمذہب اور ہر دھرم میں مختلف پارٹیاں تھیں،اسلام توان تمام پارٹیوںاورگروہ
بندیوں کو ختم کرنے کیلئے آیاتھا ، اسلام نے توآج سے ساڑھے چودہ سو سال
پہلے کہاتھا:کسی عربی کوعجمی پر اورکسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو گورے
پر کوئی فوقیت نہیں،سب سے زیادہ مکرم وہ ہے جواللہ سے ڈرنے والا ہے ؛لیکن
یہ دیکھ کر سرشرم سے جھک جاتاہے کہ آج ہم دنیوی کرسی کی لالچ میں ہزاروں
پارٹیوں اور
برادریوں میںکس طرح بٹ کر رہ گئے ہیں ،یہ سر جا پوری برادری ہے، یہ بنگالی
برادری ہے، یہ کھُٹّا برادری ہے، یہ شیخ ہے اورشیخ میںپھر زبان الگ ہے،
توایک مستقل برادری ہوگئی اورہرکوئی اپنی فضیلت وبرتری ثابت کرتاہے،؛اس لئے
سرجا پوری شیخ،کھٹا برادری میںشادی کیلئے پیغام دےدے ایک جرم ہوجائے گا
اورکوئی انصاری کسی شیخ کے یہاں کسی لڑکی کیلئے نکاح کاپیغام د یدے، شیخ
برادری کے لوگ ان کا جینا دوبھر کردیںگے، یہ تشدد شادی، بیاہ تک ہی محدود
نہیں ؛بلکہ ہرہر چیز میںہے ۔
مجھے آج کہنے دیجئے! کہ ان پارٹیوں اوربرادریوں کو جنم دینے والے وہ لوگ
ہیں جنہیں اپنی کرسی عزیز تھی، انہوں نے بڑی چالاکی سے شیخ کو بنگالی
اورکھٹا برادری میں اسلئے بانٹاتھا کہ دونوں بھائیوںکو لڑاکر ایک طرفہ
بنگالی ووٹ ہماری جھولی میںچلاجائےگا اورانہیں اپنے مقصد میں کامیابی بھی
ملی، سالوںسال وہ اس علاقہ کے ایم ایل اے رہے اور اس کو فروغ دینے والے
علاقہ کے ہمارے علماءکرام ہیں۔ہمارے مسلمان بھائیوں کو یہ بات سمجھ میں
توآئی ؛لیکن بڑی دیر ہوچکی تھی ۔
قوموں کے عروج وزوال سے تعلیم کا بہت ہی گہرا رشتہ ہے :ہم اس وقت زوال پذیر
ہیں؛ اسلئے کہ ہمارے یہاں تعلیم کی بہت کمی ہے، جہالت ہی جہالت کادور دورہ
ہے، ایسالکتاہے کہ اس علاقہ میں عوام کوتعلیم سے کاٹ دیاگیا ہے اوران کے
ذہن میںیہ بات بیٹھائی گئی ہے کہ سیکھنا،لکھنا پڑھنا تمہارے لئے ہے ہی نہیں
، جوسن لیا، اسی پر عمل کرنے میںنجات ہے ،نہ اکثر مسجدوں میں جمعہ سے قبل
تقریر یںہوتی ہیں، کہ بے چاری عوام کو سیکھنے اورسننے کا موقع ملے ، درس
قرآن اوردرس حدیث کا تومسجد وں میںرواج ہی نہیں ہے، بلکہ اکثر مسجد وں میں
وقت پر اذان نہیں ہوتی ، کوئی امام نہیں، کسی مو ¿ذن کا انتظام نہیں،
جوآیا،جس وقت آیا، نماز پڑھ کرچلا گیا، بے چاری عوام کی راہ نمائی کرنے
والا کوئی نہیں، سب وہی بولتاہے جس میں اس کی چودھراہٹ برقرار رہے ۔
اس علاقے کی خوبی یہ کہ ہرسال جلسوںکاایک سیزن ہوتاہے، ایک موسم آتاہے
،ہرمدرسہ میںجلسہ، ہرادارہ میں جلسہ، ایک جلسہ کم از کم تین دن ،یاچاردن
۔اور2بجے رات تک تقریریں ہوتی رہتی ہےں، علماءدین اپنا جوہردکھاتے رہتے ہیں
،قرآن وحدیث اور اللہ ورسول کی باتیں ہوتی رہتی ہیں، کوئی فرق نہیں پڑتاہے،
کون آرہاہے ، کون جارہاہے ، کون سن رہاہے ،اورکون سورہاہے ۔ان جلسوںسے
ماشاءاللہ مدرسوں کو توفائدہ ہورہاہے کہ لوگ جوش وخروش میں کچھ پیسے دیدیتے
ہیں ؛لیکن عوام کوبہت کم ہی فائدہ ہوتاہے؛ اسلئے کہ ضرورت کے تقاضہ کے
مطابق جلسوں میں تقریر یں نہیں ہوتی ہیں ۔
جلسوں کے اس سیلاب کے باوجود لوگوں کواسلام کی بنیادی باتوں سے ناواقفیت
۔نماز ،روزہ سے دور ی عام ۔ حج و زکوٰةٰ کے مسائل معلوم نہیں ۔رشوت
اورسودخوری کا بازارگرم ہے۔ کذب بیانی اور افترا پردازی ہماری زندگی کا
حصہ۔ حسد ،کینہ ،بعض وعداوت کو گناہ ہی نہ سمجھنا ایک عام سی بات ۔
باپ بیٹے میں دشمنی۔ ماں بیٹی میں جھگڑا ۔بھائی بھائی میں قتل وغارت گری
۔مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائی کے حقوق کا غاصب۔ مریض کی کوئی عیادت نہیں ۔
پریشان حال لوگوں کی کوئی مزاج پرسی نہیں۔ ہمددر ی اورایثار وقربانی کا
کوئی جذبہ نہیں۔ اس لئے کہ جلسوں میںان موضوعات پرکبھی بات ہی نہیںہوتی ہے
اورنہ کبھی عوام کی فلاح کیلئے اس سمت کوئی کوشش ہوتی ہے ۔
ہمارے ذہن ودماغ کے اس دن دریچے کھل گئے؛ جب یہ معلوم ہواکہ اس علاقہ میں
قادیانیت کا زہر بہت تیزی سے پھیل رہاہے، اورشادی بیاہ کے نام پرایمان کی
سودے بازی ہورہی ہے ، بے چاری بھولی بھالی عوام کو بہلا پھسلاکر ان کے
ایمان کو ان سے چھیننے کی سازش ہورہی ہے، ایک ایک گاﺅں میںتقریبا سات سو سے
زائد ممبر سازی کی رپورٹ سامنے آئی، مقامی علماءکرام کو خبر ہوئی؛ لیکن اب
تک دیر ہوچکی تھی ،اورایک ہزار سے زائد گاﺅں اس لپیٹ کا شکار ہوچکے تھے ،
ہم تڑپ اٹھے اوراس کی اطلاع فوراًرابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ بہار کے صدر
حضرت مولانا محمد قاسم صاحب بانی جامعہ مدنیہ سبل پور پٹنہ کو دی، مولانا
موصوف نے کل ہند تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کے ناظم حضرت مولانا قاری
سید محمد عثمان صاحب دامت برکاتہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند ،صدر جمعیة
علماءہند سے رابطہ کیا ،مکمل تبادلہ خیالات کے بعد ہمیں بہتر اورمفید مشورہ
دیئے اورہمیں حکم دیاکہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ بہار کے زیر اہتمام
قادیانیت کے خلاف ایک بڑا جلسہ کیا جائے، ہمیں خوشی کی انتہا نہیں رہی جب
حضرت قاری صاحب دامت برکاتہم نے 5فروری کی تاریخ بھی طے کردی۔ تواپنا آبائی
گاﺅںشہر یا پورنیہ میںنے فون کیا اورمولانا تنویر ذکی مدنی کوپروگرام کی
جانکاری دی، انہوں نے جمعہ میںلوگوں کے سامنے بات رکھی، تولوگ بہت خوش ہوئے
،کئی میٹنگیں ہوئیں،استاذ محترم مولانا اسلام الدین صاحب قاسمی، مولانا
تنویر ذکی مدنی، مولاناحسن راہی ا س میں پیش پیش رہے، ان سبھوںکی محنت رنگ
لائی اورگاﺅں کا ہرہرفرد خوشی سے جھوم اٹھا ،عجیب جوش خروش دیکھے گئے
اورشدہ شدہ یہ بات قرب وجوار کے مختلف گاﺅں تک پہونچ گئی، اور جب اخبار میں
رد قادیانیت کا نفرنس کا تذکرہ آگیا ،تو یہ خبر اور زیادہ عام ہوگئی، اب
وہی مقامی علماءکرام جو قادیانیت کے خلاف جگہ جگہ اجلاس کررہے تھے ،ہماری
مخالفت کرنے لگے اورکہنے لگے: ابھی آپ پروگرام نہ کریں، ہم لو گ؛ ایک مستقل
پروگرام کریںگے، جب ہم نے کہا:تاریخ طے ہوچکی ہے تووہ خاموش ہوگئے ؛لیکن
مخالفت میں کوئی کمی نہ آئی۔
یہ توچلتی ہے تجھے اونچااڑانے کے لئے یہ جلسہ نہ کسی مدرسہ کی طرف سے تھا
اورنہ ہمیں اپنا کوئی مفاد مقصود تھا، قوم وملت کیلئے اپنی پوری زندگی وقف
کرنے والی بزرگ ہستی حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب دامت برکاتہم ،
اور حضرت مولانا محمد قاسم صاحب دامت برکاتہم کی ایماءواشارہ اورحکم کی ہم
تعمیل کررہے تھے ،مقصدیہ تھاکہ ہرگھر تک قادیانیت کے خلاف آواز پہونچ جائے
اوراسلام مخالف طاقتیں یہ سمجھ لیںکہ تحفظ ختم نبوت ہمارا دینی اور ایمانی
فریضہ ہے، اس کیلئے ہم اپنی جان ،مال عزت وآبرو ہرچیز کی قربانی دے سکتے
ہیں ۔
انہیں دونوں بزرگان دین کے ایماءواشارہ پر مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت
مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب دامت برکاتہم کے نام بھی ہم نے خط لکھا،اورایک
رپورٹ بھی پیش کی ،استاد محترم حضرت مولانا محمد سلمان صاحب دامت برکاتہم
ناظم جامعہ مظاہرعلوم سہارن پور کے نام بھی ہم نے ایک خط لکھا اورعلاقہ کی
صورت حال سے آگاہ کیا، استاذمحترم حضرت مولانا سید شاہد صاحب سکریٹری جامعہ
مظاہرعلوم سہار ن پور اورحضرت مولانا عبداللہ خالد صاحب قاسمی ایڈیٹر
ماہنامہ مظاہرعلوم سہارن پور سے تفصیلی بات چیت بھی ہوئی، کسی وجہ سے تشریف
تونہیں لاسکے؛لیکن ہمیں بہت سی دعائیں دیں ۔ امارت شرعیہ کے ناظم
استاذمحترم حضرت مولانا انیس الرحمن صاحب قاسمی چیرمین ریاستی حج کمیٹی کو
بھی بذریعہ خط قادیانیت کے پھیلتے زہر سے واقف کرایا، حضرت ناظم صاحب نے
کثیر مشغولیات کے باوجود ہمیں اپنا قیمتی وقت فراہم کیا ،ہماری خوشی اس وقت
اوربڑھ گئی جب آپ نے کہا:ہمارے استاذ محترم حضرت مولانامفتی سہراب صاحب
ندوی ناظم امارت شرعیہ بھی اس جلسے میں شرکت فرمائیں گے ۔
علماء کرام اوربزرگان دین کے مشورہ سے ہر مکتبہ فکر کے علماءکو اس میںدعوت
دی گئی، مسلک دیوبند کی طرف سے ترجمان کی حیثیت سے استاذمحترم حضرت
مولاناعبدالمتین صاحب گجراتی سابق صدر شعبہ تحفظ ختم نبوت مظاہر علوم سہارن
پور سے شرکت کی گذارش کی گئی، مسلک اہل حدیث کی طرف سے فضیلة الشیخ اصغر
سلفی مدنی ناظم جمعیة اہل حدیث اور فضیلة الشیخ مطیع الرحمن مدنی چیرمین
توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کشن گنج سے ہم نے درخواست کی ۔مسلک بریلویت کی طرف سے
ترجمان کی حیثیت سے بہت سے علماءکرام سے ہم نے را بطہ کیا؛لیکن منظوری نہیں
ملی ،اخیر میں شمیم رضاصاحب امام و خطیب مدینہ مسجد مہاراشٹر سے ملاقات
ہوئی، بڑی منت و سماجت کے بعدان کی طرف سے منظوری ملی ؛ لیکن افسوس کہ آپ
تشریف نہیںلائے اوراس اجلاس میںمسلک بریلویت کی طرف سے قادیانیت کے سلسلہ
میںکوئی نمائندگی نہیں ہوسکی۔
تمام علماءکرام اوربزرگان دین سے مشورہ اورمنظوری ملنے کے بعد اشتہار چسپاں
کیاگیا، ہمارے علماءکرام کی طرف سے اس وقت مخالفت میں تیزی آگئی، جب
انہوںنے ایک اشتہار میںتینوں مکتبہ فکر کے علماءکانام دیکھ لیا، ہم نے
انہیںسمجھا نے کی بہت کوشش کی، کہ یہ جلسہ قادیانیت کے خلاف ہورہاہے اوراس
میں مضبوطی اسی وقت آسکتی ہے جبکہ ہر مکتبہ فکر کی طرف سے نمائندگی ہو
اورسبھوں کی طرف سے یہ اعلان کیاجائے کہ: قادیانیت کااسلام سے کوئی تعلق
نہیں ؛ لیکن انہوںنے صحیح بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں ۔
سرپرست جلسہ حضرت مولانااسرارالحق صاحب قاسمی ایم پی کوبھی ہم نے اس کی
اطلاع دی ،تو آپ نے مجھے تسلی دی اور فرمایا:مخالفت کرنے والے علماءکرام
تنگ ذہن اور تنگ نظر ہیں،چونکہ قادیانیت کے مسئلہ میں سب لوگ متحد ہیں؛لیکن
ہمیں اس وقت دکھ ہواجب آپ اس جلسہ میں تشریف نہیں لائے،اس موقع پر جناب
اخترالایمان صاحب ایم ایل نے بڑی اچھی بات کہی:علماءکرام کے درمیان اختلاف
رائے ہوسکتے ہیں،اور یہ شروع سے رہے ہیں ؛ لیکن اس مسئلہ میں سب کو مل کر
کام کرناچاہئے،انہوں نے ہر طرح سے مشورے دئےے،اور اجلاس میں تشریف لاکر
اپنے بہترین خطاب سے عوام کو مستفیض فرمایا۔ڈاکٹر قمرالاحسن صاحب نے بھی
بہتر مشورے دیئے،اور آپ ہی کی ایماءپر حضرت مولاناحبیب الرحمن صاحب
لدھیانوی سے ہم نے تفصیلی بات چیت کی،ردقادیانیت کانفرنس میں شرکت کی آپ کی
بڑی خواہش تھی ؛لیکن علالت،نقاہت وکمزوری مانع بن گئی ۔
الحمدللہ گنے چنے نام نہادعلماءکرام کی مخالفت کا کوئی اثر جلسہ پرنہیںپڑا
،ہاں اتناضرور ہواکہ 5فروری کو ظہر تا عصر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی
ایک اہم میٹنگ مدرسہ سراج العلوم شہریا میںرکھی گئی تھی ،وہ میٹنگ ضرور
متاثر ہوئی ، چونکہ رابطہ مدراس سے جڑے ہوئے ایک سو سے زائد علماءکرام نے
اس مٹینگ میں شرکت نہیں کی ،جبکہ انہوں نے دعوت قبول بھی کرلی تھی۔ مغرب کے
بعد جلسہ شروع ہوا، دس بجے رات تک تقریبا ایک لاکھ کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا
سمند ر ہماری کامیابی کی گواہی دے رہاتھا ، مختلف گاڑیوں کی آمد سے
شہریاجگمگ،جگمگ کررہاتھا،آنے والے مہمان کہ رہے تھے کہ یہ جلسہ دیہات میں
نہیں کسی شہر میں ہورہاہے اور اللہ کی خاص مدد شامل حال ہے ،سبھوں کی زبان
پر یہ شعر جاری تھا۔
فضائے بدر پیداکرفرشے تیری نصرت کواتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب
بھی وقت مقررہ پر عشاءکی اذان ہوئی، امامت کے لئے استاذ محترم حضرت مولانا
انیس الرحمن قاسمی کے نام کا اعلان ہوا؛لیکن آپ نے یہ کہہ کرٹال دیا کہ میں
مسافر ہوں اورآپ نے فضیلة الشیخ مطیع الرحمن مدنی حفظہ اللہ کو نماز کیلئے
آگے بڑھادیا، امام صاحب نے زور سے آمین کہہ دی اوریہی سبب بن گیا نعرہ بازی
کا۔
ہمارے علماءکرام !ہم اپنی تحریر کے ذریعہ آپ کی دل آزاری نہیں کررہے ہیں
اورنہ ہی شکوہ وشکایات ہمارا مقصد ہے، ہاں یہ ضروربتادیناچاہتے ہیں:کہ
علماءکرام کے درمیاں اختلاف رائے شروع سے ہی رہے ہیں، اگریہ اختلافات صرف
اورصرف قرآن وحدیث کی بنیاد پرہیں توپھر یہ تشدد کیوں ؟ایک دوسرے سے اتنی
نفرت و عداوت کیوں؟ کیوں نہیں ہم ہمدردی اورخیر خواہی کاجذبہ ؟کیوں نہیں ہم
ایک دوسرے کے قریب ہوناچاہتے؟
ایک طرف ہمارے ایمان کی سودے بازی ہورہی ہے اورہم مسلکی اختلافات میںجھگڑتے
ہوئے نظرآتے ہیں، ہماراایمان ہم سے چھیناجارہاہے اورہم دیوبندی ،بریلوی،
اہل حدیث کے نعرہ لگارہے ہیں ۔ اگر ہمارا ایمان ہی باقی نہ رہے، توپھر ہم
مسلک کولے کر کیاکریں گے، نبی کی عزت وناموس خطرے میں ہے،نبی کے ختم نبوت
کو نشانہ بنایاجارہاہے ؛ لیکن تمہیں اس سے کوئی مطلب نہیں۔ تمہیں دیوبندیت،
بریلویت اورسلفیت زیادہ عزیز ہے۔ کیا اسلام یہی کہتاہے ، سوچئے ٹھنڈے دل سے
اورغور کیجئے رات کی تنہائیوں میں کہ آج ہمارے ان ہی اختلافات کو فروغ دینے
کی وجہ سے عوام کا اعتماد علماءکرام سے اٹھتا جارہاہے ۔
اسٹیج میں ہمارے علماءکرام زور بیانی صرف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معیار حق اورمینارہ رشد وہدایت ہیں؛ لیکن
عملی زندگی صحابہ کرام کی زندگی سے بالکل مختلف ہے ،صحابہ کرام تو وہ ہیں
کہ قرآن کہتاہے :وہ اپنے آپس میںرحم دل ہیں اورکفار پرسخت ہیں ،اور عملی
میدان میں ہمارے معزز علماءکرام مسلکی اختلاف میںاپنے ہی آپس میں بہت سخت
ہیں، دیوبندی اہل حدیث کے یہاں کھانا نہیں کھاسکتاہے اورملک کے نیتا اور
سیاسی غیر مسلم آقاﺅں کے گود میں بیٹھ کر خوب کھیلیں، کوئی جرم نہیں ۔
ایک طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور ایک طرف حضرت معاویہ ،ؓجنگ کا بازار
گرم ہے ،رومیوںنے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت معاویہ ؓسے ہاتھ ملانے کی
کوشش کی اورخط لکھا :اے معاویہ ہم نے سناہے کہ تم حق پر ہو، اس کے باوجود
حضرت علیؓتمہیں پریشان کررہاہے اورتمہارے ساتھ زیادتی کررہاہے ہم علی ؓ کے
مقابلے میں تمہاری مدد کیلئے تیار ہیں، تمہارے پیغام ملنے کی دیر ہے ،حضرت
معاویہ ؓنے ایسے وقت میں بھی خلوص للہیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور
انتہائی غیض وغضب اورجنگ کی حالت میں بھی اس پیش کش کوٹھکرادیا اور لکھا
او،رومی کتے! ہمارے اختلاف سے دھوکہ نہ کھاﺅ، اگرتم نے مسلمانوں کی طرف رخ
کیا توعلی کے لشکر کاپہلا سپاہی جوتمہارے مقابلے کے لئے نکلے گا وہ معاویہ
ہوگا ۔
حضرات صحابہ کرام کے بعد تابعین ،ائمہ مجتہدین میں بہت سے مسائل میںاختلاف
رہا؛لیکن کسی نے بھی کسی کی ہجونہ کی۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی
تھانوی کا حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب سے بہت سے مسائل میں اختلاف کے
باوجود کبھی بھی حضرت حکیم الامت نے احمد رضا خان کالفظ استعمال نہیں کیا؛
بلکہ مجلس میں ایک صاحب نے صرف احمد رضا خان کہدیا توآپ سخت غصہ ہوئے
اورفرمایا: یہ منصب کی بے احترامی ہے ۔اسلئے کہ وہاں پرہرہر چیز میں خلوص
تھا، اپنے نفس کا کوئی دخل نہ تھا اورآج ہرہر چیزمیںہمارے نفس کا دخل ہوگیا
ہے، علاقے کے ہیرو بننے کے لئے ہم اسٹیج میںاختلافی مسائل کوچھیڑتے ہیں
،ہرہرجلسہ کے اشتہار میں اپنا نام دینے کے لئے ساراکھیل اور سارا ڈرامہ
ہورہاہے۔ اسی لئے رفتہ رفتہ ہماری عزت خاک میں مل رہی ہے، ہمارے علماءکرام
اورمدارس ومکاتب کی کثرت کے باوجود بڑی آسانی سے اسلام مخالفت طاقتیں ہمارے
علاقہ میںگھس رہی ہیں، اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ۔
آج جس وقت ہمارے علماءکرام دیوبندیت ،بریلویت اوراہل حدیث کے اختلافی فروعی
اورجزوی مسائل کو لوگوں میںبیان کرنے کےلئے سیمانچل کے مختلف علاقے میں
مختلف کانفرنسیں کررہے ہیں، ٹھیک اسی وقت تمام سرکاری اسکولوں میں سوریہ
نمسکار کو لازمی قرار دینے کی کوشش ہورہی ہے، ہم اپنے اختلاف میں پڑے ہوئے
ہیں اورادھر ثانوی تعلیم کے ڈائریکٹر مسٹر کمل کمار سنہا 5فروری کو اپنے
نوٹیفیکس نمبر 33/05-02-2013کے ذریعہ سورج پوجاکا فرمان جاری کرتا ہے ۔
اس ملک کے سیکولر ہونے کے باوجود آج بھی بہت سے اسکولوں میں مسلم بچوں
اوربچیوں کو وندے ماترم گانے پر مجبور کیاجاتاہے ،عیسائیت مشنری کی نہ صرف
تبلیغ ہورہی ہے ؛بلکہ بتایاجاتاہے کہ عیسی مسوح ہی تمہارے خدا ہیں اور اب
18فروری کو سوامی ودیکانند کے 150ویںیوم پیدائش کے موقع پر تمام اسکولوں
اورکالجوں میں سوریہ نمسکار کولازمی قرار دینے کی پوری کوشش ہورہی ہے، جب
کہ مسلمانوں کا عقیدہ صرف ایک خدا کی عبادت پرقائم ہے، ایک خدا کے علاوہ
کسی کی بھی چوکھٹ میںسرجھکے وہ سر مسلمان کا سرنہیں ہوسکتا ہے ۔
ہم تو اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اورادھرہمارے بچوں کے ذہن ودماغ کو
عیسائی بنانے کی کوشش ہورہی ہے، ہم لڑ رہے ہیں،کہ آمین زور سے کہیں،یاآہستہ
،اورادھر ہمارے بچوں کے دلوں سے ایمان کو نکالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ہم اس
مسئلہ میں الجھے ہوئے ہیں،کہ نماز کے بعد دعاءکریں یانہیںاور ادھر ہمارے
مستقبل کے معمار بچوں کی ذہن سازی ہورہی ہے کہ سورج کی بھی پوجاکرو، وندے
ماترم بھی گاﺅ،عیسی مسیح کو بھی خدامانو ،تمہارے اسلام اورایمان میں کوئی
فرق نہیںپڑتاہے۔ یہ تو اچھاہواکہ مسلمانوںنے احتجاج کیا اوربالآخر ثانوی
تعلیم کے ڈ ائریکٹر مسٹر کمل کمار سنہا نے ایک نوٹیفیکش نمبر
405/16-02-2013جاری کرکے کہا:کہ اجتماعی سوریہ نمسکار اب تمام طلبہ وطالبات
پر لازم نہیں ہے ؛بلکہ خواہشمند طلبہ وطالبات ہی حصہ لے سکتے ہیں؛ لیکن
سوال یہ ہوتاہے کہ اس ملک کے سیکولرہونے کے باوجود وقفہ وقفہ سے مسلمانوں
کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کیوں ہورہی ہے؟ کون سی ذہنیت اورکون سی
طاقت اس کے پیچھے کام کررہی ہے؟ قابل مبارکباد ہیںجواں،مرد مجاہد،بے باک
مسلم لیڈر جناب اختر الایمان صاحب کہ انہوںنے 18فروری کے بہار قانون ساز
اسمبلی میںگورنر کے خطبہ کے دوران اپنی آواز بلند کی اورحکومت سے اس حکم
نامہ کوفوراًواپس لینے کاپرزور مطالبہ کیا؛ لیکن افسوس کہ جب انہوں نے حق
کی آواز بلند کی ۔تو ہمارے دوسرے برادران وطن آپے سے باہر ہوگئے ۔لیکن ملک
میں ایک پیغام ضرور گیاکہ اب بہار میں بھی مسلمانوں کے لئے کوئی بَہار نہیں
ہے۔
ہمارے سیاسی آقاﺅں کو شاید یہ پتہ نہیں کہ:یہ ملک ہماراہے ،برسوں ہم نے اس
ملک میں حکومت کی ہے، اسے سینچااور پروان چڑھایاہے، جس طرح اس ملک میں
دوسروں کے حقوق ہیں،ہمارے بھی حقوق ہیں،یہ ملک سیکولر ہے ، کسی کے جذبات کو
مجروح کرنے کی کسی کو بھی گنجائش نہیں ہے،یہی اس دیش کا آئین ہے۔
مسلمانو!یاد کرونبی کے فرمان کو ،حضرت ثوبان ؓ راوی ہیں فرماتے ہیں:ایک
مرتبہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:ایک زمانہ آئےگا کہ تمہیں ختم کرنے کے لئے
کفارومشرکین آپس میں ایک دوسرے کو اس طرح بلاکر جمع کرلیںگی ،جیسے
کھاناکھانے کے لئے بلایاجاتا ہے،یہ سن کر ایک صاحب نے سوال کیا،یارسول اللہ
کیا ہم اتنے تھوڑے ہوجائیںگے،فرمایا:نہیں تم تعداد میں بہت ہوگے،لیکن گھاس
کے تنکوں کی طرح ہوگے،جنہیں پانی کا سیلاب بہالے جاتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ پوری دنیامیں آج مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے ،لیکن
آج ہماری کوئی عزت ووقعت نہیں ، اس لئے کہ بٹتے،بٹتے ہم اتنے بٹ گئے کہ
دنیاکی نظروں میں ہمارا کوئی وجود نہیں رہا۔ دینی
وایمانی بھائیو یاد رکھو متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن منتشر ہو تو مرو
شور مچاتے کیوں ہو۔ |